Islam Times:
2025-12-13@15:11:42 GMT

جرمنی میں عدم تحفظ کا شکار خواتین

اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT

جرمنی میں عدم تحفظ کا شکار خواتین

اسلام ٹائمز: فن، سائنس، سیاست اور سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والی تقریباً 50 خواتین نے جرمن چانسلر فریڈرِش مَرٹس کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے، جس میں خواتین کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ خصوصی رپورٹ:

یورپی ملک جرمنی کی نصف سے زیادہ خواتین عوامی مقامات پر خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ تازہ ترین سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرمنی کی نصف سے زیادہ خواتین عوامی مقامات، خاص طور پر کلبوں اور ریلوے اسٹیشنوں میں خود کو محفوظ نہیں سمجھتیں۔ جرمن روزنامہ پاسایر نوئے پرسے نے رپورٹ کیا ہے کہ "سیوی" نامی ادارے کے سروے کے مطابق 55 فیصد خواتین نے کہا کہ وہ عوامی جگہوں جیسے سڑکوں، پارکوں اور عوامی ٹرانسپورٹ میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ کلبوں اور ریلوے اسٹیشنوں کے بارے میں سیکیورٹی کے احساس میں سب سے زیادہ کمی پائی گئی، جہاں صرف 14 فیصد خواتین نے کہا کہ وہ خود کو وہاں محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ سروے کے تمام شرکاء (جن میں مرد بھی شامل تھے) میں سے تقریباً نصف یعنی 49 فیصد نے کہا کہ وہ مذکورہ عوامی مقامات پر محفوظ نہیں ہیں۔ یہ آن لائن سروے 23 سے 27 اکتوبر کے دوران 18 سال سے زائد عمر کے 5000 افراد سے کیا گیا، جسے ادارے نے جرمنی کی مجموعی آبادی کا نمائندہ نمونہ قرار دیا ہے۔ 

جرمن خواتین ماہرین کا چانسلر کے نام کھلا خط
اس دوران فن، سائنس، سیاست اور سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والی تقریباً 50 خواتین نے جرمن چانسلر فریڈرِش مَرٹس کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے، جس میں خواتین کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ خط میں چانسلر کے حالیہ مہاجر مخالف بیانات پر تنقید کی گئی ہے، جن میں انہوں نے کہا تھا کہ مہاجرین نے شہروں کی ظاہری صورت کو بگاڑ دیا ہے اور اس پر رائے کے لیے لڑکیوں سے پوچھنا چاہیے۔ خواتین نے جواب میں لکھا کہ ہم لڑکیوں یعنی خواتین کی سیکیورٹی پر بات کرنا چاہتے ہیں، مگر سنجیدگی سے، نہ کہ اسے نسل پرستانہ بیانیوں کے جواز کے طور پر استعمال کیا جائے۔

دستخط کنندگان میں شامل نمایاں شخصیات
اس کھلے خط پر دستخط کرنے والوں میں سبز جماعت کی سیاستدان ریکارڈا لانگ، ماحولیاتی کارکن لوئیزا نوئبائر، گلوکارہ جوی دنالین، مصنفہ آلیس ہسٹرز، ماہرِ معاشیات ایزابیلّا ویبر، اداکارہ ملیکا فروتن، سماجیات دان یوتا آلمندینگر، اور مصنفات لینا گورلیک و میتو سانیال شامل ہیں۔

خط میں پیش کردہ 10 مطالبات
خط میں چانسلر سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایک ایسا عوامی ماحول پیدا کیا جائے جہاں سب خصوصاً خواتین، خود کو محفوظ اور بااعتماد محسوس کریں۔ دس بنیادی مطالبات میں شامل ہیں:
۔ جنسی اور گھریلو تشدد کے خلاف مؤثر قانونی کارروائی
۔ عوامی مقامات پر بہتر روشنی اور نگرانی
۔ خواتین کے قتل (Femicide) کو جرمنی کے قانون میں باقاعدہ جرم کے طور پر شامل کرنا
۔ خواتین پر تشدد کے درست اعداد و شمار جمع کرنا
۔ محفوظ پناہ گاہوں اور امدادی مراکز کے لیے خاطر خواہ فنڈز
۔ اسقاطِ حمل کے قانون میں اصلاحات
۔ ڈیجیٹل تشدد اور آن لائن نسل پرستی کے خلاف تحفظ
۔ خواتین کی مالی خود مختاری کو مضبوط کرنا
۔ بڑھتی عمر کی خواتین میں غربت کے خاتمے کے لیے پالیسی اقدامات
۔ عوامی آگاہی اور سماجی انصاف کے فروغ کے لیے ریاستی مہمات

شخصیات نے اعلان کیا ہے کہ ان کی یہ درخواست (petition) آن لائن شائع کی جائے گی تاکہ دیگر شہری بھی اس پر دستخط کر سکیں۔  

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: عوامی مقامات خواتین نے کیا گیا خود کو کے لیے نے کہا

پڑھیں:

دہائیوں پرانے کیسز میں تازہ گرفتاریوں سے عوامی بے چینی میں اضافہ ہوا ہے، میرواعظ عمر فاروق

میرواعظ کشمیر کا کہنا ہے کہ ہزاروں کشمیری نوجوان جیلوں میں دہائیوں سے قید ہیں، جس سے ان کے خاندانوں کو بے پناہ تکلیف اور مشکلات کا سامنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق نے دہائیوں پرانے کیسز کے سلسلے میں کشمیر بھر میں تازہ گرفتاریاں انجام دینے پر تشویش کا اظہار کیا۔ میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ ان گرفتاریوں نے ان خاندانوں میں گہری بے چینی اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا کر دی ہے جو سمجھتے تھے کہ ان کا ماضی اب پیچھے رہ چکا ہے اور وہ ایک نئی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے میرواعظ کشمیر نے کہا کہ لوگ 1990ء کی دہائی کے کیسز میں اچانک کارروائیوں سے پریشان ہیں۔ عوام میں ان گرفتاریوں پر گہری تشویش پائی جا رہی ہے، ایسے کیسز جو دہائیوں پرانے واقعات سے متعلق ہیں۔ میرواعظ عمر فاروق نے گرفتاریوں کی وجہ سے گرفتار شدہ افراد کے اہل خانہ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورتحال خاص طور پر ان افراد اور ان کے خاندانوں کے لئے شدید تشویش کا باعث بن گئی ہے جنہوں نے طویل عرصے پہلے اپنے ماضی سے خود کو دور کر لیا تھا۔

میرواعظ عمر فاروق کا یہ بیان دو سینیئر علیحدگی پسند رہنماؤں کی 29 سالہ قدیم کیس میں گرفتاری کے پیس منظر میں سامنے آیا ہے۔ دو دن قبل سیکورٹی ایجنسیز نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF) رہنما اور سابق عسکریت پسند جاوید احمد میر اور سینیئر علیحدگی پسند کارکن شکیل احمد بخشی کو 1996ء کے تشدد کے ایک کیس کے سلسلے مہیں گرفتار کر لیا۔ یہ کیس جولائی 1996ء کا ہے جب دونوں ملزمان سمیت سات دیگر افراد پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ سرینگر میں فوت ہوئے ایک دہشتگرد کمانڈر ہلال بیگ کے جنازے کو ایک بڑے جلوس کی صورت میں برآمد کر رہے تھے، جس دوران احتجاج، فساد اور پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئی تھیں۔ ان سات افراد پر عوام کو تشدد بڑھکانے اور انہیں پولیس پر پتھر پھیکنے کے لئے مائل کرنے کی پاداش میں رنبیر پنل کوڈ، غیر قانونی سرگرمیوں (روک تھام) ایکٹ اور آرمز ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے گئے تھے۔

پولیس کی جانب سے درج کیس میں کے مطابق، ان (سات افراد) نے ایک ہجوم کو اکسایا، اشتعال دلایا، جس کے نتیجے میں ناز کراسنگ پر سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، جس میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور عوامی املاک کو نقصان پہنچا۔ اس کیس میں درج بعض ملزمان اب فوت ہوچکے ہیں، جن میں حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین سید علی گیلانی، عبدالغنی لون اور محمد یعقوب وکیل شامل ہیں۔ دو دیگر ملزمان، شبیر احمد شاہ اور نعیم احمد خان اس وقت تہاڑ جیل میں دہشت گردی کی مالی معاونت کے کیسز میں بند ہیں۔

جاوید میر 1980ء کی دہائی کے اواخر میں محمد یاسین ملک (جو اس تہاڑ جیل عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے) کے ساتھ جے کے ایل ایف کے اولین کارکنان میں شامل تھے اور سینیئر عسکری کمانڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔ جاوید میر کو 1994ء میں بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس (BSF) نے گرفتار کیا تھا اور جیل سے چھوٹنے کے بعد انہوں نے بھی یاسین ملک کی طرح تشدد کا راستہ ترک کرکے آزادی پسند سیاست میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ایک اہلکار نے کہا کہ 1996ء کے کیس کو "مفرور ملزمان کو الزامات کا سامنا اور انصاف فراہم کرنے" کے لئے دوبارہ کھولا گیا۔

میرواعظ عمر فاروق کا کہنا ہے کہ نئی گرفتاریوں سے کشمیری عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے، جو پہلے ہی طویل قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ ہزاروں کشمیری قیدی جیلوں میں برسوں، کچھ تو دہائیوں سے قید ہیں، جس سے ان کے خاندانوں کو بے پناہ تکلیف اور مشکلات کا سامنا ہے۔ میرواعظ عمر فاروق کے مطابق گرفتاریوں کا یہ نیا سلسلہ لوگوں کے دکھ اور غم میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کشمیر سے باہر کشمیری شہریوں کو جیلوں میں بند رکھنے سے پیدا ہونے والی انسانی اور قانونی پیچیدگیوں پر پھر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسی تدابیر اکثر عدالت کی کارروائیوں میں تاخیر کا سبب بنتی ہیں اور خاندانوں کے لیے ملاقاتوں کا عمل انتہائی محدود ہو جاتا ہے۔ میراعظ عمر فاروق نے کہا کہ یہ انسانیت کے بنیادی اصولوں اور قدرتی انصاف کے خلاف ہے۔

متعلقہ مضامین

  • دہائیوں پرانے کیسز میں تازہ گرفتاریوں سے عوامی بے چینی میں اضافہ ہوا ہے، میرواعظ عمر فاروق
  • خواتین کے لیے محفوظ پنجاب ہماری اولین ترجیح ہے، حنا پرویز بٹ
  • این اے 251، نون لیگ اور پشتونخوا میپ ایک صف پر، جے یو آئی کے امیدوار کی حمایت
  • کپل شرما کی نئی فلم تنازع کا شکار ہوگئی، وجہ کیا ہے؟
  • سندھ میں ایک بار پھر ایم ڈی کیٹ کا امتحان تنازع کا شکار
  • جب خاموشی محفوظ لگنے لگے!
  • موٹروے ایم 5 بند
  • جرمنی نے پاکستانیوں کیلئے نیا آن لائن ویزہ سسٹم شروع کر دیا
  • حملہ آور کو روکنے پر پاکستانی ڈرائیور جرمنی کا ہیرو قرار، اعلیٰ اعزاز سے نوازا گیا
  • پابندی کا شکار حیدر علی کو پی سی بی کی طرف سے بڑا ریلیف مل گیا