میرواعظ کشمیر کا کہنا ہے کہ ہزاروں کشمیری نوجوان جیلوں میں دہائیوں سے قید ہیں، جس سے ان کے خاندانوں کو بے پناہ تکلیف اور مشکلات کا سامنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق نے دہائیوں پرانے کیسز کے سلسلے میں کشمیر بھر میں تازہ گرفتاریاں انجام دینے پر تشویش کا اظہار کیا۔ میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ ان گرفتاریوں نے ان خاندانوں میں گہری بے چینی اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا کر دی ہے جو سمجھتے تھے کہ ان کا ماضی اب پیچھے رہ چکا ہے اور وہ ایک نئی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے میرواعظ کشمیر نے کہا کہ لوگ 1990ء کی دہائی کے کیسز میں اچانک کارروائیوں سے پریشان ہیں۔ عوام میں ان گرفتاریوں پر گہری تشویش پائی جا رہی ہے، ایسے کیسز جو دہائیوں پرانے واقعات سے متعلق ہیں۔ میرواعظ عمر فاروق نے گرفتاریوں کی وجہ سے گرفتار شدہ افراد کے اہل خانہ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورتحال خاص طور پر ان افراد اور ان کے خاندانوں کے لئے شدید تشویش کا باعث بن گئی ہے جنہوں نے طویل عرصے پہلے اپنے ماضی سے خود کو دور کر لیا تھا۔

میرواعظ عمر فاروق کا یہ بیان دو سینیئر علیحدگی پسند رہنماؤں کی 29 سالہ قدیم کیس میں گرفتاری کے پیس منظر میں سامنے آیا ہے۔ دو دن قبل سیکورٹی ایجنسیز نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF) رہنما اور سابق عسکریت پسند جاوید احمد میر اور سینیئر علیحدگی پسند کارکن شکیل احمد بخشی کو 1996ء کے تشدد کے ایک کیس کے سلسلے مہیں گرفتار کر لیا۔ یہ کیس جولائی 1996ء کا ہے جب دونوں ملزمان سمیت سات دیگر افراد پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ سرینگر میں فوت ہوئے ایک دہشتگرد کمانڈر ہلال بیگ کے جنازے کو ایک بڑے جلوس کی صورت میں برآمد کر رہے تھے، جس دوران احتجاج، فساد اور پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئی تھیں۔ ان سات افراد پر عوام کو تشدد بڑھکانے اور انہیں پولیس پر پتھر پھیکنے کے لئے مائل کرنے کی پاداش میں رنبیر پنل کوڈ، غیر قانونی سرگرمیوں (روک تھام) ایکٹ اور آرمز ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے گئے تھے۔

پولیس کی جانب سے درج کیس میں کے مطابق، ان (سات افراد) نے ایک ہجوم کو اکسایا، اشتعال دلایا، جس کے نتیجے میں ناز کراسنگ پر سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، جس میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور عوامی املاک کو نقصان پہنچا۔ اس کیس میں درج بعض ملزمان اب فوت ہوچکے ہیں، جن میں حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین سید علی گیلانی، عبدالغنی لون اور محمد یعقوب وکیل شامل ہیں۔ دو دیگر ملزمان، شبیر احمد شاہ اور نعیم احمد خان اس وقت تہاڑ جیل میں دہشت گردی کی مالی معاونت کے کیسز میں بند ہیں۔

جاوید میر 1980ء کی دہائی کے اواخر میں محمد یاسین ملک (جو اس تہاڑ جیل عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے) کے ساتھ جے کے ایل ایف کے اولین کارکنان میں شامل تھے اور سینیئر عسکری کمانڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔ جاوید میر کو 1994ء میں بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس (BSF) نے گرفتار کیا تھا اور جیل سے چھوٹنے کے بعد انہوں نے بھی یاسین ملک کی طرح تشدد کا راستہ ترک کرکے آزادی پسند سیاست میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ایک اہلکار نے کہا کہ 1996ء کے کیس کو "مفرور ملزمان کو الزامات کا سامنا اور انصاف فراہم کرنے" کے لئے دوبارہ کھولا گیا۔

میرواعظ عمر فاروق کا کہنا ہے کہ نئی گرفتاریوں سے کشمیری عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے، جو پہلے ہی طویل قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ ہزاروں کشمیری قیدی جیلوں میں برسوں، کچھ تو دہائیوں سے قید ہیں، جس سے ان کے خاندانوں کو بے پناہ تکلیف اور مشکلات کا سامنا ہے۔ میرواعظ عمر فاروق کے مطابق گرفتاریوں کا یہ نیا سلسلہ لوگوں کے دکھ اور غم میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کشمیر سے باہر کشمیری شہریوں کو جیلوں میں بند رکھنے سے پیدا ہونے والی انسانی اور قانونی پیچیدگیوں پر پھر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسی تدابیر اکثر عدالت کی کارروائیوں میں تاخیر کا سبب بنتی ہیں اور خاندانوں کے لیے ملاقاتوں کا عمل انتہائی محدود ہو جاتا ہے۔ میراعظ عمر فاروق نے کہا کہ یہ انسانیت کے بنیادی اصولوں اور قدرتی انصاف کے خلاف ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: میرواعظ عمر فاروق عمر فاروق نے نے کہا کہ

پڑھیں:

افغان علما اور طالبان حکومت کا بیرون ملک کارروائی کرنے والوں کو سخت پیغام، مضمحل فضا میں تازہ ہوا کا جھونکا

پاکستان طویل عرصے سے دنیا کے سامنے یہ مقدمہ رکھ رہا تھا کہ افغانستان سے مسلسل دہشتگردی کے واقعات ہورہے اور وہاں موجود طالبان حکومت ان دہشتگردوں کی پشت پناہی کررہی ہے، تاہم جب تمام تر کوششوں کے باوجود حالات قابو میں نہ آئے تو پاکستان نے اپنے دفاع میں کارروائی شروع کی جس کے بعد افغانستان مذاکرات کرنے پر مجبور ہوا اور اب اس صورتحال میں گزشتہ روز ایک مثبت پیشرفت یہ ہوئی ایک ہزار علما پر مشتمل جرگے نے اعلان کیا کہ افغانستان سے کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے والے باغی تصور ہوں گے اور چند ہی گھنٹوں بعد طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے واضح کیا ہے کہ افغان شہریوں کو افغانستان سے باہر کسی بھی قسم کی عسکری سرگرمی میں حصہ لینے کی اجازت نہیں، اور اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے والے باغی تصور ہوں گے، افغان علما کا اعلان

گزشتہ روز کابل یونیورسٹی میں ہونے والے اجلاس میں افغانستان کے ایک ہزار سے زائد علما اور مذہبی عمائدین کا جرگہ منعقد ہوا جس میں خوش آئند طور پر واضح مؤقف اختیار کیا گیا کہ افغانستان سے کسی بھی دوسرے ملک پر حملہ کرنے والے باغی تصور ہوں گے اور ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔

علما کا یہ مؤقف بلاشبہ پاکستان میں امن کے حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور نتیجے کے طور پر دونوں برادر ممالک کے درمیان محبت و تعاون میں اضافے کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔

علما اور مذہبی کے اہم اجتماع میں اسلامی امارت کو تنبیہ کی گئی کہ کوئی بھی شخص عسکری سرگرمیوں کے لیے ملک سے باہر نہ جانے پائے اور افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے۔

Sources confirmed to TOLOnews that a gathering of the country’s ulema and religious elders, in response to what they described as a violation of Afghanistan’s sovereignty, decided that defending their rights, values, and the Sharia system is an individual obligation (fard ayn),… pic.twitter.com/gU5VX0psHN

— TOLOnews English (@TOLONewsEnglish) December 10, 2025

قابل توثیق طور پر ان باتوں کو عملی جامہ پہنایا گیا تو افغانستان میں داخلی استحکام، پاکستان کی سیکیورٹی اور علاقے میں وسیع تر امن ممکن ہوسکے گا۔ افغان علما کے تازہ بیان سے پاکستان کا دیرینہ مطالبہ بھی ایک بار پھر درست ثابت ہوگیا۔

مزید پڑھیے: چین کی پاکستان اور افغانستان سے کشیدگی کم کرنے کی اپیل

ایکس پر جاری ’ٹولو نیوز‘ کی خبر کے مطابق کابل میں منعقدہ اس اجلاس میں ملک کے مختلف حصوں سے شرکت کرنے والے تقریباً ایک ہزار علما اور مذہبی بزرگوں نے افغانستان کی خودمختاری کو لاحق مبینہ خدشات پر تفصیلی غور کیا۔

علما نے قرار دیا کہ افغانستان کے حقوق، قومی اقدار اور شرعی نظام کے تحفظ کو ہر شہری پر فرض عین کی حیثیت حاصل ہے اور کسی بھی بیرونی جارحیت کے خلاف کھڑا ہونا ’مقدس  جہاد‘ شمار ہوگا۔ اجتماع نے اسلامی امارت سے مطالبہ کیا کہ امارت کے رہبر کے حکم کے بغیر کسی شخص کو ملک سے باہر کسی قسم کی عسکری کارروائیوں میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔

علما نے زور دیا کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور جو کوئی اس فیصلے کی خلاف ورزی کرے گا اسلامی امارت کو اس کے خلاف اقدام کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ خبر کے مطابق اجلاس کے اختتام پر مذکورہ نکات پر مبنی ایک قرارداد بھی پیش کی گئی جس میں امن، خودمختاری کے احترام اور افغانستان کے اندرونی نظم سے متعلق اصولوں کا اعادہ کیا گیا۔

دوسری طرف کابل میں علما کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے طالبان وزیر خارجہ نے کہا کہ علما کی قرارداد کے مطابق موجودہ نظام کا دفاع صرف سیکیورٹی فورسز یا سرکاری اہلکاروں کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر مسلمان شہری پر لازم ہے کہ وہ امارتِ اسلامی کے نظام کو داخلی اختلافات سے بچائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی فرد یا گروہ افغانستان کی خودمختاری یا طالبان حکومت پر حملہ کرتا ہے تو اس کے خلاف جہاد عوام پر فرض ہو جاتا ہے۔

افغان طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے علما کے اس فتوے کی توثیق کر دی ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتی۔ یہ فیصلہ موجودہ صورتحال کے عین مطابق ہے اور اب یہ طالبان حکومت کی سرکاری پالیسی کا حصہ بن چکا ہے۔ pic.twitter.com/a2bAZeP3u7

— The Khyber Chronicles (@TKCkhyber) December 11, 2025

 

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان طاہر اندرا بی کا اس پوری صورتحال پر کہنا ہے کہ اگرچہ یہ پیشرفت مثبت ہوسکتی ہے لیکن پاکستان طالبان حکومت اور ملا ہیبت اللہ دونوں سے تحریری ضمانت چاہتا ہے کہ افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی کی کارروائیاں نہیں ہوں گی۔

افغانستان میں علما اجلاس، طالبان کا پاکستان کے لیے ممکنہ پیغام  ہے،جنرل (ر) غلام مصطفیٰ

دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ نے وی نیوز سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان میں ہزار سے زائد علما کا اجتماع محض اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے مقصد کے تحت بلایا گیا ہے۔

ان کے مطابق اس اجتماع کے ذریعے طالبان نے پاکستان کو ایک پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ طالبان اس وقت معاشی دباؤ میں ہیں اور پاکستان کے ساتھ تجارت کی بحالی چاہتے ہیں ممکن ہے کہ اس اجلاس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان براہ راست رابطے کا کوئی راستہ نکالنا ہو۔

انہوں نے کہا کہ یہ سوال بھی اہم ہے کہ ان علما کی اصل حیثیت کیا ہے اور ان میں سے کن افراد کا طالبان کے فیصلوں پر حقیقتاً اثرانداز ہونے کا اختیار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ علما ازخود جمع نہیں ہوتے تاہم اب یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ طالبان کی مرکزی قیادت کے کس قدر قریب ہیں۔

جنرل (ر) غلام مصطفیٰ کے مطابق صرف علما کے بیانات کی بنیاد پر کسی بڑی پالیسی تبدیلی کی توقع رکھنا درست نہیں۔ طالبان خطے کی صورت حال اور بین الاقوامی دباؤ کو دیکھتے ہوئے وقتی طور پر کچھ اقدامات روک سکتے ہیں لیکن یہ مستقل پالیسی تبدیلی نہیں ہوگی۔

کابل یونیورسٹی میں بڑا اجتماع
ملک بھر کے 34 صوبوں سے 1000 علما و مشائخ کی شرکت
افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی
خلاف ورزی کرنے والے افراد کو باغی اور مخالف تصور کیا جائے گا
پانچ نکاتی قرارداد منظور pic.twitter.com/gpsoVjdqgQ

— افغان اردو (@AfghanUrdu) December 10, 2025

انہوں نے مزید کہا کہ چین بھی پاکستان اور افغانستان کو مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کا مشورہ دے رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیجنگ طالبان پر کشیدگی کم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان شاید کچھ عرصے کے لیے اپنی سرزمین سے پاکستان مخالف سرگرمیاں رکوا دیں لیکن یہ واضح نہیں کہ یہ صورتحال طویل مدت تک برقرار رہ سکے گی۔ جب طالبان اندرونی طور پر زیادہ مستحکم ہوں گے تو حالات دوبارہ تبدیل بھی ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: افغانستان اور تاجکستان بارڈر پر چینی شہریوں کے خلاف سنگین دہشتگرد منصوبہ بے نقاب

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ علما کا یہ مؤقف دونوں ممالک کے بیچ موجودہ فضا میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہوسکتا ہے اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر افغان طالبان رجیم اپنی سرزمین سے پاکستان میں حملہ کرونے والے عناصر کو روک لے تو پاکستان کو برادر پڑوسی ملک سے جو گلے شکوے ہیں وہ دور ہوجائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغان طالبان رجیم افغان علما کی قرارداد پاک افغان تعلقات پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف قرارداد

متعلقہ مضامین

  • پنجاب میں انفلوئنزا کے کیسز میں خطرناک اضافہ، اسپتالوں میں رش بڑھ گیا
  • نیشنل جوڈیشل پالیسی اجلاس: 2019 تک کے تمام پرانے وراثتی کیسز 30 دن میں نمٹانے کی ہدایت
  • میر واعظ عمر فاروق کا دہائیوں پرانے جھوٹے مقدمات میں کشمیریوں کی گرفتاریوں پر اظہار تشویش
  • انڈے کھانے کیلئے محفوظ ہیں یا نہیں، ابالنے سے قبل کیسے معلوم کیا جائے؟
  • بادشاہ بھی چور ہو سکتا ہے!
  • اگر حکومت پر تنقید کرتے ہیں تو بی جے پی پرانے کیس کھول کر گرفتار کرتی ہے، اکھلیش یادو
  • افغان علما اور طالبان حکومت کا بیرون ملک کارروائی کرنے والوں کو سخت پیغام، مضمحل فضا میں تازہ ہوا کا جھونکا
  • بھارت ریاستی پشت پناہی میں پاکستان کے خلاف دہشتگردی کر رہا ہے، ترجمان دفتر خارجہ
  • عوامی شکایات میں اضافہ حکومتی نااہلی کا ثبوت ہے،جاوید قصوری