Express News:
2025-12-12@23:13:57 GMT

بادشاہ بھی چور ہو سکتا ہے!

اشاعت کی تاریخ: 13th, December 2025 GMT

مصر 1922 میں برطانوی تسلط سے آزاد ہوا تھا۔بادشاہت بدستور قائم تھی۔ شہنشاہ فہد اول حکمران تھا۔شاہی خاندان میں فاروق نام کا شہزادہ پیدا ہوا۔ جو صرف سولہ سال کی عمر میں شہنشاہ بن گیا۔ اس کی تعلیم و تربیت برطانیہ کے اول درجے کی تعلیمی درس گاہوں میں مکمل ہوئی تھی ۔ رکھ رکھاؤ اور ادب آداب میں شہنشاہ فاروق بالکل مستند تھا۔عرض کرنے کی ضرورت نہیں کہ وہ دنیا کے دولت مند ترین لوگوں میں شامل تھا۔ خزانہ ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا تھا ۔ بیش قیمت بلکہ خیرہ کن محلات میں قیام کرتا تھا ۔

دنیا کی کوئی نعمت ایسی نہیں تھی جوفاروق کے پاس نہ ہو ۔ مگر قدرت کا ستم دیکھیے کہ بادشاہ چھوٹی چھوٹی چیزیں چوری کرنے کی علت میں مبتلا تھا۔ اس عادت کو ایک بیماری کا نام دیا گیا ہے ۔ جسے kleptomania  کہا جاتا ہے ۔ شاہی دعوتوں میں سونے کے چمچ اور کانٹے اپنی جیب میں ڈال لیتا تھا۔ پھر اس سامان کو ایک خفیہ کمرے میں چھپا کر رکھ دیتا تھا ۔ جس کی چابی صرف اور صرف اس کے پاس تھی۔ شروع شروع میں لوگوں کو بالکل معلوم نہ ہو پایا کہ ان کا بادشاہ کس منفی رجحان کا مالک ہے۔ اندازہ کیجیے کہ قیمتی ترین گاڑیوں پر سوار ہونے والا انسان ‘ بیش قیمت ترین بحری جہازوں کا مالک چھوٹی چھوٹی اشیاء چوری کرتا تھا۔ اس کو اپنا کارنامہ گردانتا تھا۔

ایک دن اٹلی کا سفیر دربار میں ملاقات کے لیے آیا ۔ انتہائی پروٹوکول کے اندر کھانے کی ٹیبل سجائی گئی۔ بادشاہ اور سفیر کی نشستیں ساتھ ساتھ تھیں ۔ موقع پا کر فاروق نے سفیر کی جیب سے بٹوا چوری کر لیا۔ قیامت یہ ہوئی کہ سفیر نے یہ چوری اپنی آنکھوں سے دیکھ لی ۔ مگر وہ خاموش رہا۔واپسی پر سفیر نے یہ تمام واقعہ ایک خط کی صورت میں اپنی حکومت کو لکھا ۔ سرکاری سطح پر یہ بات پہلی بار عیاں ہوئی کہ مصر کا شہنشاہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہتھیا لیتا ہے ۔

دیکھنے میں ہر درجہ وجیہہ انسان اندر سے اتنا کھوکھلا ہو گا ۔ اس بات کا آہستہ آہستہ لوگوں کو پتہ چلنا شروع ہو گیا۔ فاروق نے پورے ملک میں کسی ایسے شخص کو تلاش کرنے کا حکم دیا جو فن ِجیب تراشی میں یکتا ہو۔ معلوم ہوا ‘ کہ مصر کی تاریخ کا سب سے بڑا چور زندہ ہے مگر جیل میں سزا کاٹ رہا ہے۔ بادشاہ کے حکم پر اسے پیش کیا گیا۔ مکالمہ کچھ یوں ہوا کہ بادشاہ نے اس جیب تراش سے اس فن کو سیکھنے کی خواہش کی جس سے وہ اپنے کام میں مزید بہتر ہو جائے۔

یعنی ایک پختہ ترین چور یا جیب کترا بن جائے۔ اس کے عوض شہنشاہ نے چور کی سزا معاف کرنے کا وعدہ کیا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بادشاہ کے چیزیں چوری کرنے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے متعدد تربیتی سیشن ہوئے ۔ اور وہ ایک کائیاں ترین چور بن گیا۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا ۔ بادشاہ مختلف چوروں اور جیب کتروں کو محل میں طلب کر کے ان سے لیکچر لیتا رہتا تھا تاکہ غلطی کا کوئی امکان نہ رہے ۔ یہ ذہنی بیماری تمام اخلاقی اور قانونی حدود توڑ گئی۔ ایک رات فاروق نے خواب دیکھا کہ ایک شیر نے اس پر حملہ کیا ہے اور زخمی کرنے کی کوشش کی ہے۔ صبح شاہی فرمان جاری کیا کہ قاہرہ کے چڑیا گھر میں موجود تمام شیروں کو گولی مار دی جائے۔

مصر کے دارالخلافے یعنی قاہرہ کے چڑیا گھر میں دنیا کے نایاب ترین شیر موجود تھے۔ جن کو دیکھنے کے لیے ہر طرف سے لوگ آتے تھے۔ شیروں کو بڑی محنت اور احتیاط سے رکھا گیا تھا ۔ ان کی خوبصورتی کی دھاک پوری دنیا پر تھی۔ مگر بادشاہ کے احمقانہ حکم کو کوئی بھی رد نہیں کر سکتا تھا۔ تعمیل میں چند فوجی چڑیا گھر بھجوائے گئے۔ انھوںنے وہاں موجود تمام شیر گولیوں سے بھون دیے۔ ظلم ‘ جبر اور وہم کا اندازہ لگایئے کہ کوئی بھی درباری ‘ فاروق کو یہ مشورہ نہیں دے سکتا تھا کہ خواب میں شیر کو دیکھنا اور اس کے جواب میں تمام شیروں کو مار دینا مکمل طور پر نامناسب ہے۔ لوگوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی تھی مگر فاروق کو اس کی کوئی فکر نہیں تھی۔ 

ایک سرکاری دورے پر شہنشاہ فاروق کو برطانیہ جانا پڑا ۔ سیکڑوں خادم اور قیمتی ترین گاڑیاں قافلے کی ہم رکاب تھیں۔ لندن کے ایک شاہی محل میں ٹھہرایا گیا ۔ سرکاری نہیں بلکہ شاہی مہمان کا درجہ دیا گیا۔ اس دورے میں برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل سے بھی ملاقات طے تھی۔ مہمان کو لاؤ لشکر کے ساتھ برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ پر بڑے اہتمام سے لایا گیا۔ ونسٹن چرچل نے باہر آ کر اسے خوش آمدید کہا اور دونوں کی ملاقات شروع ہو گئی۔

اس اہم ترین ملاقات کے دوران چرچل نے محسوس کیا کہ بادشاہ کی انگلیاں اس کے کوٹ کی جیب میں کچھ تلاش کر رہی ہیں۔ دراصل چرچل کوٹ کی جیب میں گھڑی رکھتا تھا۔ مہمان بادشاہ نے چرچل کی جیب سے گھڑی چوری کر لی۔ اپنی پتلون میں چھپا لی۔ چرچل کو فوری طور پر پتہ چل گیا کہ بادشاہ نے اس کی گھڑی چوری کر لی ہے۔ مگر وہ خاموش رہا ۔ میٹنگ ختم ہونے کے بعد چرچل نے ایک ملازم کو بلایا اور اسے کہا کہ جب شہنشاہ جائے تو اسے بتا دیں کہ چوری کی ہوئی گھڑی واپس کر دے۔

میٹنگ کے بعد جب بادشاہ روانہ ہوا تو ملازم نے وہی کیا جو وزیراعظم نے اسے حکم دیا تھا۔فاروق نے مکمل لا علمی کا اظہار کیا اور واپس چلا گیا ۔ چند دنوں کے بعد چرچل کو یہ گھڑی ایک پارسل کی صورت میں نامعلوم شخص نے واپس بھجوا دی ۔ پارسل پر بھیجنے والے کا نام اور پتہ بالکل غلط لکھا ہوا تھا۔ سفارتی سطح پر جب چرچل نے اپنی کابینہ کو یہ سارا واقعہ سنایا تو اس کے وزیر ششدر رہ گئے۔ کہا ں ایک شہنشاہ اور کہا ایک اہم سرکاری میٹنگ میں چوری کی واردات ۔ بہرحال یہ واقعہ اخبارات کی زینت بنا ۔ مگر فاروق نے کسی قسم کا اقرار یا انکار نہیں کیا۔ 

 حیران نہ ہوں۔ اس سے اگلا واقعہ اور بھی ادنیٰ ہے ۔ 1944میں ایران کے بادشاہ رضا شاہ فوت ہوا۔ اس کے جنازے پر پوری دنیا سے وزراء اعظم ‘ صدور اور بادشاہ افسوس کے لیے آئے۔ ان میں شہنشاہ فاروق بھی شامل تھا۔رضا شاہ کے تابوت پر سونے کے تمغے اور بیش قیمت تلواریں پڑی ہوئی تھیں۔ حکمران بڑے احترام سے رضا شاہ کی آخری رسومات پوری کر رہے تھے۔ فاروق نے تابوت پر پڑی ہوئی ایک بیش قیمت تلوار کامیابی سے چوری کر لی۔ اسے اپنے ساتھ مصر لے گیا۔ یہ واقعہ بھی ایرانی حکومت کو پتا چل گیا۔

تلوار فاروق کے خفیہ کمرے سے اس کی جلا وطنی کے بعد برآمد ہوئی۔ شاہ فاروق فرانس یا کسی بھی ملک میں شاپنگ کرنے جاتا تو مارکیٹ سے چیزیں خریدتے خریدتے کچھ نہ کچھ چوری کر لیتا تھا۔اس کی سرشت میں شامل ہو چکا تھا۔ کہ وہ لوگوں کو اپنے چوری کے جوہر دکھائے ۔ بعد میں فاروق قہقہے لگاتا تھا کہ کتنی کامیابی سے اپنے اردگرد کے لوگوں اور ملنے والوں کو بیوقوف بنایا ہے۔ 

ذرا اندازہ فرمائیں کہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل انسان اپنی چوری کی عادت پر قابو نہ پا سکا ۔ اور مرتے دم تک وہ یہی کام کرتا رہا۔ مجھے یہ عادت پاکستان کے ہر مقتدر طبقے کے اندر بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مصر کا بادشاہ تو چھوٹی چھوٹی چیزیں ہتھیا کر ذہنی تسکین حاصل کرتا تھا۔ مگر ہماری سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دور میں مقتدر طبقہ نے ڈھٹائی ‘ عیاری اور مکاری سے ملک کو پاؤں تلے روندا۔ ہمارا مقتدر طبقہ کرپشن کے کھیل میں مصر کے بادشاہ کا بھی استاد ہے۔

عجیب بات ہے کہ حکومتی خزانہ تو ہمیشہ خالی رہتا ہے ۔ مگر چند خاندانوں کے خزانے اتنے بھر جاتے ہیں کہ انھیں اپنے گھروں کے اندر تہہ خانے بنانے پڑتے ہیں تاکہ ناجائز دولت چھپائی جا سکے۔ گزشتہ سیاسی تاریخ میں اگر مقتدر طبقے کے مالیاتی رویے کو سمجھنے کی کوشش کریں تو معلوم پڑتا ہے کہ یہ شدید ذہنی بیماری کا شکار رہی۔ اپنی دولت کا بذات خود انھیں اندازہ نہیں رہا۔ مگر ان کے بعد ان کی اولادیں بھی اسی ہوس زر میں مبتلا نظر آئیں ۔ دراصل دولت کمانے کی اور ناجائز دولت جمع کرنے کی کوئی حد نہیں۔ بلکہ مقتدر طبقے میںتو یہ بیماری اپنے عروج پر ہے ۔

گمان تھا کہ پہلی نسل بے پناہ کرپشن کر لے تو اس سے اگلی نسل کی طمع بھر جاتی ہے اور وہ مالیاتی لوٹ مار کو کبھی اپناتے نہیں ہیں۔ پاکستان کا قیامت خیز سچ یہ ہے کہ یہ کلیہ بھی فیل ہو چکا ہے۔ کسی بھی فرد یا خاندان کا نام نہیں لینا چاہتا ۔ مگر ہر باشعور پاکستانی کو علم ہے کہ ان کی نظروں کی سامنے ‘ گزشتہ کئی دہائیوں سے لوٹ مار کر کے چند لوگ قارون کے خزانے تک پہنچنے کی تگ و دو کرتے رہے ہیں۔

حالت اتنی دگر گوں ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے ہماری ہر حکومت سے کہتے رہے ہیں کہ خدارا کرپشن کو کم کیجیے۔ مگر بالائی طبقہ مکمل طور پر لالچ کی دلیل میں ڈوبا رہا۔ ضمیر نام کی کوئی چیز معلوم نہیں پڑتی۔ مجھے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ ہمارا ملک کبھی خوشحال اور مستحکم ہو سکتا ہے ۔ اس کی واحد واجہ وہ مقتدر طبقہ ہے جس کے سامنے مصر کا سابقہ بادشاہ فاروق ‘ طفل مکتب ہے!
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: چھوٹی چھوٹی چوری کر لی کہ بادشاہ شاہ فاروق فاروق نے کرنے کی کی کوئی چرچل نے کے لیے شاہ کے کے بعد کی جیب

پڑھیں:

جہاں اتفاق نئے صوبے بنائیں، ایک پارلیمنٹ سے 2 ترامیم کافی، موجودہ حالات میں وزیراعظم نہیں بن سکتا: بلاول

لاہور، اسلام آباد (کامرس رپورٹر + نامہ نگار + نمائندہ خصوصی) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گورنر ہاؤس لاہور میں مختلف ٹی وی نیوز چینلز کے بیورو چیفس اور سینئر اینکرز سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک پارلیمنٹ سے دو آئینی ترامیم کافی ہیں، مزید کی گنجائش نہیں۔آئین ایسی دستاویز نہیں کہ بار بار تبدیل کیا جائے۔ اگر عوام ووٹ دیں گے تو وزیراعظم بنوں گا۔ صحافی کے سوال کہ موجودہ حالات میں وزیراعظم بنیں گے، پر بلاول نے کانوں کو ہاتھ لگا لئے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پنجاب میں اتحادیوں کو بھی سپیس لینی پڑتی ہے۔ پنجاب میں وزارتیں نہیں لیں گے۔ پیپلز پارٹی کی خوبی جمہوری بھی رہے اور گورنر راج بھی بہت لگائے۔ جہاں تک نئے صوبے بنانے کہ بات ہے، صوبہ بنانے کے لئے پہلے پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ قرارداد پر عمل کریں۔ سینٹ کے کمشن نے قرار دیا تھا کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنایا جائے۔ پہلے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے لئے اتفاق رائے پر عمل کریں، پھر آگے چلیں۔ زیادہ صوبے بنانے کی بات کر کے پہلے کی اتفاق رائے کو خراب کرنا ہے۔ پنجاب اسمبلی کی قرارداد کی بات کی ہے، پنجاب کی تقسیم کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ پنجاب میں ابھی بلدیاتی نظام پر قانون بنایا گیا۔ سندھ میں ایسا کرتا تو بہت ردعمل آتا، لوگوں نے الٹا ٹانگ دینا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پہلے ہی میرا پنجاب میں آباد ہضم نہیں ہوتا، میں تو کہتا ہوں یہ سندھ آیا کریں۔ میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ سندھ میں اپنا گورنر لگائیں، جو ابھی تک نہیں لگایا۔ بیس صوبے بنانے سے پہلے جہاں نئے صوبے بنانے سے متعلق جہاں اتفاق رائے موجود ہے پہلے وہاں بنائیں۔ سیاست میں آگے بڑھنے کا مفاہمت ہی بہترین طریقہ ہے۔ جھگڑے والے ماحول میں رہے تو معاملہ خراب رہے گا۔ بہتر حالات پیدا ہونے چاہئیں۔ عمران خان سے ذاتی اختلاف نہیں ہے۔ ان کا طریقہ غلط ہے۔ مفاہمت ہوگا، سب کو ایک ہونا پڑے گا تاکہ سیاسی استحکام کی طرف بڑھیں، اگر ایسے ماحول میں رہیں گے کہ ایک دوسرے سے بات نہ کر سکیں اور پھر ایک صوبے کے حالات خراب ہوں تو مسائل ہوں گے۔ جس صوبہ کی پی ٹی آئی کی ذمہ داری ہے وہاں ان کی حکومت ناکام ہو چکی۔ پیپلز پارٹی جب قدم بڑھانے کیلئے تیار ہوتی ہے تو پھر دوسری طرف حالات خراب ہو جاتے۔ ایک صحافی نے سوال کیا کہ نوازشریف سے کوٹ لکھپت ملنے گئے کیا اڈیالہ بھی جائیں گے، جس پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جی نواز شریف سے ملنے گیا تھا لیکن انہوں نے باہر نکلتے ہی ایک جلسے میں ہمارے پر حملہ کر دیا۔ پنجاب میں گورنر کے اختیارات اور وسائل نہیں رہے لیکن گورنر سردار سلیم حیدر محنت سے بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ اچھا کام کر رہی ہیں۔ علاوہ ازیں بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ رات مختلف ٹی وی نیوز چینلز کے مالکان کے اعزاز میں گورنر ہاؤس میں عشائیہ دیا۔ علاوہ ازیں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے  لاہور میں پنجاب کے صنعت کاروں اور تاجر برادری کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ تاجر برادری کے مستقبل اور اس بات پر بات کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کس طرح مدد کر سکتی ہے۔ انہوں نے پاکستان کے 165 اضلاع میں برآمدات کے مواقع بڑھانے کے لیے تاجر برادری کی کاوشوں اور تحقیق کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھی آپ کو اپنا ان پٹ دینا چاہتے ہیں اور آپ کی کوششوں کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی بنیاد رکھی کیونکہ اس کا مقصد پاکستان اور اس کے عوام کو فائدہ پہنچانا تھا۔ میرے لیے یہ اعزاز کی بات تھی کہ بحیثیت وزیرِ خارجہ مجھے معلوم ہوا کہ چین خصوصی طور پر پاکستان کو سہولت دیتا ہے اور پاکستانی مصنوعات کو ترجیح دینا چاہتا ہے، لیکن ہم اس چینی ترجیح سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ ہمیں اس خصوصی حیثیت سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے اور پھر ہم ان سے مزید آسانیوں کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں۔ چین نے ہر شعبے میں یہ مواقع فراہم کیے ہیں لیکن ہم ان سے پورا فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ ہمیں اس نئے ٹیرف ماحول میں مواقع تلاش کرنا ہوں گے۔ امید ہے کہ وفاقی حکومت بھی انہی خطوط پر کام کر رہی ہوگی۔ یورپ کے ساتھ ہمارا جی ایس پی پلس ہے اور اس کے ذریعے ہم نے 80 فیصد برآمدات میں اضافہ کیا ہے، جبکہ یورپ نے بھی پاکستان کو برآمدات میں 60 فیصد فائدہ حاصل کیا ہے۔ ہم اضلاع کی سطح پر، خاص طور پر ویلیو ایڈڈ مصنوعات میں معاشی امکانات تلاش کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم بیرونی منڈیوں میں برآمدات بڑھانے کے مواقع تلاش کر سکتے ہیں۔ ہم اضلاع کی سطح پر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ بھی قائم کر سکتے ہیں۔ صدرِ مملکت، گورنر پنجاب، گورنر خیبرپختونخوا، سندھ حکومت، بلوچستان حکومت اور وزیرِ اعظم سب آپ کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وزیرِ اعظم اور ان کی ٹیم مرکزیت پر یقین رکھتی ہے جبکہ ہم غیر مرکزیت پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ کی ضلعی منصوبہ بندی ہمارے مؤقف کو مزید تقویت دے گی۔ میں آپ کی ضلع وار تحقیق کی بھرپور تعریف کرنا چاہتا ہوں۔ تاجر برادری کی معاشی سفارشات پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تاجر برادری کا نقط نظر بالکل درست ہے۔ ہم سب پاکستان کی آمدنی، ٹیکس وصولی اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ چاہتے ہیں۔ ہمارا مشترکہ مقصد معاشی ترقی اور انسانی ترقی ہے، لیکن اس تک پہنچنے کے طریقہ کار پر ہمارا نقط نظر مختلف ہے۔ موجودہ اور پچھلی حکومتیں معیشت کو زبردستی چلانا چاہتی تھیں، لیکن میرا نہیں خیال کہ ملک کی معیشت زبردستی چلائی جا سکتی ہے۔ ہمیں معیشت کو سمجھ بوجھ سے چلانا چاہیے۔ اگر ہم ٹیکس دینے والے شہریوں کی عزت کریں بجائے اس کے کہ انہیں دھونس سے ٹیکس دینے پر مجبور کریں، تو ہمیں کہیں بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ18ویں ترمیم سے پہلے خدمات پر سیلز ٹیکس کی وصولی ایف بی آر کرتی تھی اور اس کے ریکارڈ سب کے سامنے ہیں کہ ایف بی آر کتنا ٹیکس وصول کرتا تھا۔ 18ویں ترمیم کے بعد سندھ اور دیگر صوبوں نے خدمات پر سیلز ٹیکس کی وصولی شروع کی اور ہم نے ریکارڈ توڑ دئیے۔ ہر صوبے نے اس سے کہیں زیادہ اکٹھا کیا جتنا پہلے وفاق کرتا تھا۔ یہ غیر مرکزیت کے فائدے کا ثبوت ہے۔ سندھ نے ان ٹیکسوں کی وصولی میں دیگر صوبوں سے بہتر کارکردگی دکھائی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ میں خدمات پر سیلز ٹیکس دیگر صوبوں سے کم ہے، جس کی وجہ سے تاجر برادری ہمارے صوبے میں کاروبار کرنا پسند کرتی ہے۔ ہمیں ایف بی آر کو ایسا ادارہ بنانا چاہیے جس میں ہر صوبے کی نمائندگی ہو۔ عوام اور تاجر برادری کو ایف بی آر پر اعتماد ہونا چاہیے تاکہ ہم ٹیکس وصولی کے اہداف حاصل کر سکیں۔ ٹیکس ایک ذمہ داری ہونا چاہیے، بوجھ نہیں۔ ہم وفاقی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ اگر اسے معاشی مشکلات پر قابو پانا ہے تو اس کا حل موجود ہے۔ اس وقت ایف بی آر وفاق کے لیے اشیاء پر سیلز ٹیکس بھی جمع کرتا ہے۔ یہ ذمہ داری صوبوں کو بھی دی جا سکتی ہے۔ اگر صوبے آپ کا ہدف پورا کریں تو ہم یہ تمام وصولیاں وفاق کو دینے کے لیے تیار ہیں۔ اگر صوبے ہدف پورا نہ کر سکیں تو وفاق ہمارے حصے سے وہ رقم منہا کر سکتا ہے، آج بھی ہم200 یونٹ سے کم استعمال کرنے والے صارفین کو سبسڈی دے سکتے ہیں۔ ہمیں ریلیف کے تصور کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ باقی آبادی کو کراس سبسڈی دینے کے بجائے، قلیل مدت میں ہم گرین انرجی کے ذریعے 200 یونٹ سے کم استعمال کرنے والوں کو ریلیف دینے کی کوشش کریں گے۔ ہم نے بھرپور کوشش کی اور سندھ حکومت کے تحت تھر کول منصوبے کے ذریعے توانائی فراہم کی، جو سب سے سستا توانائی پیدا کرنے والا منصوبہ ہے۔ صوبائی حکومتیں 50 میگاواٹ تک کے بجلی گھر قائم کر سکتی ہیں۔ ہمارے پاس 50 میگاواٹ کے دو پلانٹس تھے جو اپنی تعمیر کردہ ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے کے-الیکٹرک کو سب سے سستی بجلی فراہم کر رہے ہیں۔ چیئرمین بلاول نے پنجاب کی بزنس کمیونٹی کو سندھ سے کوئلہ حاصل کرنے کی پیشکش کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انسانی حقوق کو جمہوریت کی روح قرار دیتے ہوئے ہر پاکستانی کے وقار، آزادی اور مساوی حقوق کے لیے اپنی جماعت کے غیرمتزلزل عزم کی تجدید کی ہے۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری گزشتہ روز میاں منظور احمد مانیکا (مرحوم) کے گھر گئے۔انہوں نے میاں منظور احمد مانیکا کی دختر بشریٰ منظور مانیکا اور صاحبزادے میاں واصل منظور مانیکا سے والد کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا۔گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر، سابق وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف، نیئر حسین بخاری، ندیم افضل چن، شہزاد سعید چیمہ، علی قاسم گیلانی و دیگر چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ تھے۔ دریں اثناء صدر مملکت آصف علی زرداری آج لاہور پہنچیں گے۔ وہ لاہور میں 2 روز قیام کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • آئین کو بار بار سیاسی مفادکےلیے تبدیل نہیں کیا جا سکتا،شازیہ مری
  • پارلیمنٹ میں "ووٹ چوری" پر وزیر داخلہ امت شاہ کا جواب انکی گھبراہٹ ظاہر کررہا ہے، راہل گاندھی
  • بھارت ظلم و تشدد سے کشمیریوں کی حق پر مبنی جدوجہد آزادی کو دبا نہیں سکتا، امیر مقام
  • پی ٹی آئی پرپابندی کا فیصلہ سیاسی نہیں ہو سکتا، عطا اللہ تارڑ
  • سندھی کلچر ڈے، ریاست کے اندر ریاست قائم کی گئی، فاروق ستار
  • ریاست کے علاوہ کوئی جہاد کا حکم نہیں دے سکتا، فیلڈ مارشل عاصم منیر کا علما کنونشن سے خطاب
  • سندھی کلچر ڈے کے نام پر ریاست کے اندر ایک ریاست قائم کی گئی، فاروق ستار
  • سندھی کلچر ڈے کے نام پر ریاست کے اندر ایک ریاست قائم کی گئی: فاروق ستار
  • جہاں اتفاق نئے صوبے بنائیں، ایک پارلیمنٹ سے 2 ترامیم کافی، موجودہ حالات میں وزیراعظم نہیں بن سکتا: بلاول