پنجاب میں انفلوئنزا کے کیسز میں خطرناک اضافہ، اسپتالوں میں رش بڑھ گیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, December 2025 GMT
پاکستان کے مختلف حصوں کی طرح پنجاب میں بھی انفلوئنزا کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر لاہور میں وائرل انفیکشن نے تشویشناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ شہری بڑے پیمانے پر انفلوئنزا اور دیگر وائرل بیماریوں میں مبتلا ہو کر سرکاری و نجی اسپتالوں اور کلینکس کا رخ کر رہے ہیں۔
محکمہ صحت کے مطابق گزشتہ 12 دنوں کے دوران پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں 50 ہزار سے زائد مریض رپورٹ ہو چکے ہیں، جبکہ نجی کلینکس میں بھی مریضوں کا رش معمول سے کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ متاثرہ افراد میں خشک کھانسی، شدید نزلہ، سردرد اور جسم درد جیسی علامات عام ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں آنے والے زیادہ تر مریض انفلوئنزا اے (H3N2) کی علامات کے ساتھ رپورٹ ہو رہے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ دسمبر سے فروری کے دوران انفلوئنزا کے کیسز میں مزید اضافہ متوقع ہے، اور موسم سرما کی اسموگ کی وجہ سے علامات طویل عرصے تک برقرار رہنے کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔
محکمہ صحت پنجاب نے بتایا کہ اس وقت انفلوئنزا کے باقاعدہ لیبارٹری ٹیسٹ نہیں کیے جا رہے، تاہم کلینکل تشخیص کی بنیاد پر کیسز کی تعداد زیادہ ظاہر کی جا رہی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انفلوئنزا کے
پڑھیں:
سپر فلو کی شدت، دنیا بھر میں اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھنے لگی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا کے مختلف ممالک میں سپر فلو کی نئی لہر نے اسپتالوں پر شدید دباؤ ڈال دیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق انفلوئنزا کی نئی قسم A(H3N2) کے ذیلی گروپ ’سب کلاڈ K‘ کی وجہ سے برطانیہ سمیت یورپی ممالک میں کیسز میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
برطانوی محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اسپتالوں میں روزانہ اوسطاً 2600 سے زائد مریض داخل ہو رہے ہیں، جو پچھلے ہفتے کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ ہیں۔ وزیر صحت نے اس صورتحال کو کووڈ وبا کے بعد اسپتالوں پر سب سے بڑا دباؤ قرار دیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ نئی قسم خطرناک تو نہیں لیکن اس کا پھیلاؤ معمول سے پہلے شروع ہو گیا ہے، جس کے باعث بچوں اور بزرگوں میں متاثرین کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ متاثرہ علاقوں میں کچھ اسکول عارضی طور پر بند کیے گئے ہیں جبکہ کچھ میں اوقات کار کم کر دیے گئے ہیں تاکہ انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔