Juraat:
2025-12-12@03:07:50 GMT

جب خاموشی محفوظ لگنے لگے!

اشاعت کی تاریخ: 12th, December 2025 GMT

جب خاموشی محفوظ لگنے لگے!

محمد آصف

انسانی تاریخ کے ہر دور میں آزادیِ اظہار کی جدوجہد دراصل وقار، شناخت اور طاقت کی جدوجہد رہی ہے ، مگر شاید کسی دور میں یہ جدوجہد اتنی پیچیدہ، خاموش اور خطرناک نہیں رہی جتنی آج ہے ۔ جدید دنیا، جو بظاہر حقوق، جمہوریت اور ڈیجیٹل آزادی کے نعروں سے سجی ہوئی ہے ، درحقیقت آزادیِ اظہار کے خلاف ایک غیر اعلانیہ جنگ کی گواہ بن چکی ہے ۔ایسی جنگ جو بظاہر عوامی تحفظ، ملکی مفاد، سماجی ہم آہنگی یا اخلاقی تحفظ کے نام پر لڑی جاتی ہے ، مگر اس کا اصل نتیجہ انسانی زبان، ذہن اور سوچ کو محدود کرنا ہے ۔ اس جنگ میں نہ جیلیں ہمیشہ نظر آتی ہیں نہ بندوقیں؛ بلکہ یہ جنگ کینسل کلچر، ڈیجیٹل پروپیگنڈا، منتخب غصے ، سوشل میڈیا ہجوم، جدید نگرانی، اور ایسے قوانین کے ذریعے لڑی جا رہی ہے جو اختلاف کو بدعنوانی اور سوال کو غداری بنا دیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں بولنے کے بجائے خاموش رہنا زیادہ محفوظ لگتا ہے ، سچ کہنے کے بجائے چلن کا ساتھ دینا آسان لگتا ہے ، اور زندہ رہنے کی خواہش سچائی پر غالب آ جاتی ہے ۔ اس بدلتے ہوئے عالمی ماحول میں انسان ایک تلخ حقیقت کو محسوس کرتا ہے : بہت سی جگہوں پر لوگ قوت کے زور سے نہیں، بلکہ خوف کے باعث خاموش ہیں۔ ملازمت کھونے کا خوف، غلط سمجھے جانے کا خوف، کردار کشی کا خوف، قانونی کارروائی کا خوف، یا سماجی بائیکاٹ کا خوف ، یہ سب انسانی زبان کو قید میں رکھنے کے نئے ہتھیار ہیں۔ پہلے ظالم حکومتوں کو لوگوں کو خاموش کرانے کے لیے طاقت استعمال کرنا پڑتی تھی، مگر آج معاشرہ خود اپنے اندر ایسے خوف پیدا کر چکا ہے جو انسان کو اپنی زبان پر خود ہی تالے لگا دینے پر مجبور کرتا ہے ۔
ٹیکنالوجی، جسے کبھی آزادیِ اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا گیا تھا، آج ستم ظریفی سے سب سے مضبوط ہتھیار بن چکی ہے ۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، جو ایک وقت میں ہر آواز کو جگہ دینے کا وعدہ کرتے تھے ، اب نفرت، پروپیگنڈا، الگورتھم کنٹرول، حکومتی نگرانی اور ڈیجیٹل ہجوم کے میدانِ جنگ بن گئے ہیں۔ یہاں ایک پوسٹ، ایک غلط فہم جملہ، یا ایک اختلافی رائے انسان کی نوکری، شہرت یا سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے ۔ جب رائے عامہ غصے کے جذبات سے بھری ہو، تو آزادیِ اظہار بہادر افراد کا حق بن جاتا ہے اور عام لوگوں کے لیے ایک خطرہ۔یہ مسئلہ صرف آمرانہ ریاستوں تک محدود نہیں؛ جمہوریتیں بھی اس بیماری سے متاثر ہو چکی ہیں۔”نفرت انگیز تقریر”، ”غلط معلومات” اور ”قومی سلامتی” جیسے عنوانات کے تحت ایسے قوانین نافذ کیے جا رہے ہیں جو اصل میں ناقدین، صحافیوں اور مخالفین کو خاموش کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ریاستیں شہریوں کو نقصان دہ مواد سے بچانے کے نام پر وہ مواد بھی فلٹر کر دیتی ہیں جو حکومتی بدانتظامی، کرپشن یا ناانصافی کو بے نقاب کرتا ہو۔ ڈیجیٹل دنیا کا عوامی میدان اب عملی طور پر جسمانی میدان سے زیادہ پابند ہو گیا ہے ، اور آزادانہ بولنا حساب کتاب کا محتاج ہو چکا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ معاشرے نے بھی خاموشی تھوپنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ سیاسی اور سماجی تقسیم نے لوگوں کو ایسے گروہوں میں بانٹ دیا ہے جہاں اختلافِ رائے دشمنی بن جاتا ہے ۔ ہر شخص اپنے جیسے سوچنے والوں میں گھرا ہوا ہے ، اور معمولی اختلاف بھی شدید ردعمل کا باعث بنتا ہے ۔
غلط سمجھ لیے جانے کا خوف، حملہ کیے جانے کا خوف، یا مذاق بن جانے کا خوف لوگوں کو سوچنے سے نہیں بلکہ بولنے سے ڈراتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہزاروں اہلِ فکر لوگ اس لیے خاموش ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ ان کی بات کو سنے بغیر مسترد کر دیا جائے گا۔ جب ہر اختلاف ذاتی حملہ سمجھا جائے اور ہر سوال نظریاتی دشمنی قرار دیا جائے ، تو مکالمہ مر جاتا ہے ۔ خاموشی کے اس بڑھتے ہوئے رجحان میں سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ جب لوگ بولنا چھوڑ دیتے ہیں تو معاشرے سوچنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ترقی، انصاف اور اصلاح ہمیشہ سوال اٹھانے اور سچ
بولنے سے جنم لیتے ہیں۔ جب معاشرے میں خاموشی چھا جاتی ہے تو جھوٹ پھلتا پھولتا ہے ، کرپشن بڑھتی ہے اور ظلم معمول بن جاتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرتا جہاں زبانیں خوف سے بند ہوں۔ آزادیِ اظہار کا خاتمہ فکری موت کا آغاز ہوتا ہے ۔ پھر بھی امید مکمل ختم نہیں ہوئی۔ دنیا بھر میں ایسے صحافی، لکھاری اور کارکن موجود ہیں جو خطرات کے باوجود سچ لکھتے ہیں، حکمرانوں کو چیلنج کرتے ہیں، اور عوام کی آنکھیں کھولتے ہیں۔ لیکن صرف بہادری کافی نہیں؛ معاشروں کو برداشت، مکالمے ، اختلاف کی عزت، اور سننے کی
تہذیب دوبارہ سیکھنا ہوگی۔ حکومتوں کو سمجھنا ہوگا کہ زبانیں باندھنے سے ملک مضبوط نہیں ہوتے بلکہ کمزور ہوتے ہیں۔ اداروں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ آزادیِ اظہار صرف بولنے کا حق نہیں، بلکہ دوسروں کی آواز کو برداشت کرنے کی ذمہ داری بھی ہے ۔
آزادیِ اظہار پر یہ جنگ کسی ایک قانون، تحریک یا انقلاب سے ختم نہیں ہوگی۔ یہ تب ختم ہوگی جب معاشرے یہ سمجھ لیں گے کہ خاموشی حفاظت نہیں بلکہ شکست ہے ۔ جب لوگ سمجھ جائیں گے کہ سچ بولنا خطرناک ہو سکتا ہے ، مگر سچ چھوڑ دینا جان لیوا ہے ۔ اصل نقصان آواز اٹھانے میں نہیں، بلکہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جانے میں ہے ۔ کیونکہ جس دن انسان خوف کے باعث چپ ہو جائے ، اُس دن صرف اس کی آواز نہیں مرتی اس کی انسانیت بھی مر جاتی ہے ۔
٭٭٭

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: جانے کا خوف جاتی ہے جاتا ہے کے لیے

پڑھیں:

کوٹلی، حریت کانفرنس کے زیر اہتمام عظیم الشان ریلی

غلام محمد صفی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو زور زبردستی اور فوجی طاقت کے ذریعے ہرگز محکوم نہیں رکھا جا سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کے زیر اہتمام کوٹلی آزاد کشمیر میں عظیم الشان ریلی نکالی گئی۔ ذرائع کے مطابق ریلی میں کوٹلی کے عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کر کے اقوامِ عالم کو واضح پیغام دیا کہ بھارت فوجی طاقت کے بل پر کشمیری قوم کو زیادہ عرصے تک محکوم نہیں رکھ سکتا۔ ریلی کی قیادت کل جماعتی حریت کانفرنس کے کنوینئر غلام محمد صفی نے کی جبکہ کشمیری حریت رہنما پرویز احمد شاہ، شیخ عبدالماجد، راجہ خادم حسین شاہین، سید اعجاز رحمانی، محمد اشرف ڈار، زاہد صفی اور زائد اشرف بھی ان کے ہمراہ تھے۔ مقررین نے مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی قابض افواج کے ظلم و تشدد، انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، دوران حراست تشدد، گھروں کی مسماری، حریت رہنمائوں اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کی مذمت کی۔

غلام محمد صفی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو زور زبردستی اور فوجی طاقت کے ذریعے ہرگز محکوم نہیں رکھا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اسے بار بار ناکام فوجی کارروائیوں، عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے باعث رسوائی کا سامنا ہے۔ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ کشمیری قوم کی قربانیاں اور مزاحمت اس بات کا ثبوت ہیں کہ آزادی کی منزل قریب ہے اور بھارت ظلم و جبر سے تحریک آزادی کشمیر کو دبا نہیں سکتا۔ دیگر مقررین نے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر عالمی برادری کو یاد دلایا کہ مقبوضہ کشمیر میں زندہ رہنے، اظہارِ رائے کی آزادی اور منصفانہ ٹرائل جیسے بنیادی حقوق مسلسل پامال کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے عالمی برادری، اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیری عوام کو ان کا پیدائشی حق، حقِ خودارادیت دلوانے کے لئے عملی اقدامات کریں۔

مقررین نے واضح کیا کہ کشمیر ایک سلگتا ہوا عالمی تنازعہ ہے جسے مزید زیادہ عرصے تک نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بھارتی مظالم کا نوٹس لے اور کشمیری عوام کے ساتھ استصوابِ رائے سے متعلق کئے گئے وعدے کو پورا کیا جائے۔ ریلی میں شریک لوگوں کی بڑی تعداد نے بھارت مخالف نعرے لگائے اور مظلوم کشمیری عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو طاقت کے بل پر دبایا نہیں جا سکتا اور انہوں نے بھارتی تسلط سے مکمل آزادی تک تحریک آزادی کو ہر قیمت پر جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ ریلی میں کوٹلی کی سیاسی، سماجی اور مذہبی قیادت کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ ریلی سے صدر بار ایسوسی ایشن سردار آفتاب انجم، یونیورسٹی آف کوٹلی کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر غلام نبی، پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری عامر یاسین، خالصہ تحریک کے رہنما پورن سنگھ اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

متعلقہ مضامین

  • میرٹ کی جنگ میں کراچی کے طلبہ تنہا؛ کیا کوئی سنے گا؟
  • شوہر کے میرا کے ساتھ تعلقات پر جویریہ سعود نے خاموشی توڑ دی
  • کوٹلی، حریت کانفرنس کے زیر اہتمام عظیم الشان ریلی
  • جرائم کی گلیوں میں سیف سٹی کی خاموشی: ایک تحقیقی جائزہ
  • پی پی کسی سیاسی جماعت پر پابندی کی حامی نہیں نہ کسی کو غدار سمجھتی ہے، شرجیل میمن
  • سیاسی جماعت پر پابندی کے حامی نہ کسی کو غدار سمجھتے ہیں، شرجیل میمن
  • دنیا امن و استحکام کیلئے انسانی حقوق کا احترام کرے، ڈاکٹر طاہر القادری
  • شہریوں کو زبردستی وندے ماترم گانے پر مجبور کرنا مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے، آغا روح اللہ
  • نیب کو مکمل ادارہ جاتی آزادی حاصل ہے، سیاسی انتقام پر یقین نہیں رکھتے، وزیراعظم