Jasarat News:
2025-12-11@03:51:09 GMT

جرائم کی گلیوں میں سیف سٹی کی خاموشی: ایک تحقیقی جائزہ

اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251211-03-5
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
کراچی میں ای چالان سسٹم کے نفاذ نے بلاشبہ ٹریفک نظم و ضبط کے شعبے میں ایک نئی پیش رفت کو جنم دیا ہے۔ شہر کے مختلف مقامات پر نصب جدید کیمروں نے لاکھوں شہریوں کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر چالان بھیجے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نظام تکنیکی اعتبار سے بھرپور فعالیت رکھتا ہے۔ تاہم صورتِ حال کا ایک پہلو ایسا ہے جو نہ صرف تشویش ناک ہے بلکہ اس پورے منصوبے کی افادیت پر ایک بڑا سوال بھی اٹھاتا ہے وہ یہ کہ اسٹریٹ کرائم میں ملوث عناصر، ٹارگٹ کلرز اور گٹر کے ڈھکن چوری کرنے والے گروہ اس پورے نظام کی آنکھوں سے اوجھل دکھائی دیتے ہیں، گویا اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی بھی ان مجرموں کے آگے بے بس ہو چکی ہو۔

سیف سٹی منصوبہ بنیادی طور پر ایک مربوط نگرانی اور کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام ہے، جس میں چہرہ شناخت (Facial Recognition) اور نمبر پلیٹ شناخت (ANPR) ٹیکنالوجی مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ شہر کے مختلف مقامات پر نصب کیمروں کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ ٹریفک خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ عناصر کی حرکات پر بھی مسلسل نظر رکھی جائے۔ ٹریفک چالان کے لیے نصب کیمروں کا کام نسبتاً سیدھا ہے۔ جب کوئی گاڑی خلاف ورزی کرتی ہے تو کیمرے اس کی تصویر یا ویڈیو بناتے ہیں، اور نظام خودکار طریقے سے گاڑی کے مالک کا ڈیٹا نکال کر اس کے خلاف چالان جاری کر دیتا ہے۔ یہ تمام عمل مکمل شفافیت کے ساتھ ہوتا ہے اور شہریوں کو ویڈیو یا تصویری ثبوت بھی فراہم کیا جاتا ہے، تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔

لیکن جب بات آتی ہے جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاری کی، تو یہی ٹیکنالوجی کہیں پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ Facial Recognition کیمروں کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ مطلوب اور اشتہاری ملزمان کو شناخت کرکے فوری الرٹ جاری کریں، مگر اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائم کا عفریت بدستور بے قابو ہے۔ رواں برس شہر میں تقریباً 59 ہزار اسٹریٹ کرائم کے واقعات رپورٹ ہوئے یوں کہا جائے کہ یہ صرف رپورٹ شدہ واقعات ہیں، تو حقیقت شاید اس سے کہیں زیادہ ہولناک ہو۔ شہریوں سے 15 ہزار سے زائد موبائل فون چھینے گئے، 6 ہزار سے زائد گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چھینی گئیں، جبکہ تقریباً 37 ہزار کے قریب وہ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بھی چوری ہوئیں جن کا سراغ آج تک نہیں ملا۔ یہ صورتحال اس حقیقت کو اُجاگر کرتی ہے کہ جرائم پیشہ نیٹ ورک نہ صرف فعال ہیں بلکہ نگرانی کے نظام سے بھی باخبر ہیں، اور بآسانی اس کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔ صورت حال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جب ٹریفک خلاف ورزیوں کی بات آتی ہے تو یہ نظام روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں شہریوں کو چالان بھیجنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن اسی شہر میں روزانہ اوسطاً 46 سے زائد موبائل فون چھینے جاتے ہیں، 5 سے زائد فور وہیلر گاڑیاں چھینی یا چوری ہوتی ہیں، اور 123 سے زائد موٹر سائیکلیں جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں غائب ہو جاتی ہیں لیکن ان میں سے بمشکل چند ہی وارداتوں میں ٹیکنالوجی کوئی قابل ِ ذکر کردار ادا کرتی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ٹیکنالوجی ناکارہ ہے، بلکہ یہ ہے کہ اس کے استعمال کا دائرہ کار صرف ٹریفک نظم و ضبط تک محدود کیوں کر دیا گیا ہے؟

حیران کن بات یہ بھی ہے کہ ٹارگٹ کلرز جیسی سنگین وارداتوں میں ملوث افراد بھی اب تک اس نظام کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ حالانکہ شہر میں چند مواقع پر Facial Recognition کی مدد سے مطلوب افراد کو پکڑا بھی گیا ہے، جیسا کہ کچھ عرصہ قبل سائوتھ پولیس نے ایک ملزم کو چہرہ شناخت ٹیکنالوجی کی بنیاد پر گرفتار کیا تھا۔ یہ مثال ثابت کرتی ہے کہ نظام فعال ہے، مگر اس کا اطلاق جامع نہیں۔ اگر یہ ٹیکنالوجی چند مخصوص مقامات یا مخصوص کیٹیگریز تک محدود رہے گی تو جرائم پیشہ عناصر کبھی بھی اس کے دائرے میں نہیں آئیں گے۔

صورتحال اس وقت مزید سنگین ہو جاتی ہے جب ہم ان جرائم پر نظر ڈالتے ہیں جن کے نتیجے میں براہِ راست انسانی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ شہر میں گٹر کے ڈھکن چوری ہونے کے واقعات محض مالی نقصان نہیں بلکہ جان لیوا حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ کئی معصوم بچے اور شہری ان کھلے مین ہولز کی نذر ہو چکے ہیں، لیکن اب تک ایسا کوئی واضح ثبوت سامنے نہیں آیا کہ سیف سٹی کیمرے ان جرائم میں ملوث افراد کی نشاندہی میں کوئی کردار ادا کر سکے ہوں۔ ایک طرف ٹیکنالوجی اپنی پوری طاقت کے ساتھ ٹریفک جرمانوں کے اجرا میں سرگرم دکھائی دیتی ہے، دوسری طرف انسانی جانوں سے جڑے جرائم کے حوالے سے اس کی خاموشی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس ساری صورتحال میں سب سے تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ جب متعلقہ حکام سے سوال پوچھا جاتا ہے تو جواب میں خاموشی ملتی ہے۔ کراچی ٹریفک پولیس کے ڈی ایس پی کاشف ندیم سے ای چالان کے مکمل اعداد وشمار کے حصول کی کوشش کوئی نتیجہ نہ دے سکی، جبکہ ڈی جی سیف سٹی آصف اعجاز شیخ سے بھی جرائم کے انسداد میں اس نظام کی کارکردگی کے بارے میں موقف طلب کیا گیا، مگر وہاں سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ یہ خاموشی خود اپنے اندر کئی سوال چھپائے ہوئے ہے۔ اگر نظام کامیابی سے جرائم کو روک رہا ہے یا کم از کم ان کے سراغ میں مدد کر رہا ہے تو اس کے اعداد و شمار عوام کے سامنے لانا کسی پریشانی کا سبب کیوں ہو؟

چالان اور جرائم کے درمیان یہ واضح تضاد کراچی کے شہریوں کو اسی بڑے سوال کی طرف لے جاتا ہے: کیا سیف سٹی نظام حقیقی معنوں میں شہریوں کی حفاظت کے لیے فعال ہے، یا اس کا اصل وزن ٹریفک خلاف ورزیوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے؟ ٹیکنالوجی کے ذریعے محض جرمانوں کی وصولی کو کامیابی سمجھ لینا ایک بڑی غلط فہمی ہے۔ اگر اسی نظام کو جرائم کے خلاف منظم اور مربوط حکمت ِ عملی کے ساتھ استعمال کیا جائے تو کراچی جیسے شہر میں اسٹریٹ کرائم اور ٹارگٹ کلنگ کی فضا میں بڑی حد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیف سٹی منصوبے کو محض ٹریفک مینجمنٹ تک محدود نہ رکھا جائے۔ اس کے تحت موجود کیمروں اور ٹیکنالوجی کو جرائم پیشہ عناصر کی شناخت، تعاقب اور گرفتاری کے لیے پوری قوت کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ جب تک یہ نظام حقیقی معنوں میں شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے فعال نہیں ہوتا، ای چالان کی برق رفتار کامیابی، جرائم کے مقابلے میں ایک اطمینان بخش حقیقت نہیں بلکہ ایک خاموش تضاد ثابت ہوتی رہے گی۔

سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جرائم پیشہ عناصر اسٹریٹ کرائم شہریوں کو جرائم کے تک محدود یہ ہے کہ سیف سٹی کے ساتھ کرتی ہے کے لیے

پڑھیں:

 رواں برس جرائم میں کمی کے پولیس کے دعوے دھرے رہ گئے

رواں سال کے گیارہ مہینے گزر چکے ہیں، لیکن شہر میں اسٹریٹ کرائم بدستور بے قابو ہے، پولیس کی جانب سے روزانہ کی بنیادوں پر جاری سرچ آپریشنز، کومنگ آپریشنز ، اسنیپ چیکنگ اور مبینہ پولیس مقابلوں کے باوجود شہری عدم تحفظ کا شکار دکھائی دیئے اور اس دوران شہر کی گلیاں، سڑکیں اور رہائشی علاقے جرائم پیشہ عناصر کے لیے محفوظ جبکہ شہریوں کے لیے خطرناک ثابت ہوتے رہے ہیں۔

 اس عرصے میں جرائم کی نوعیت کی تعداد اور اس کی شدت پولیس افسران کی جانب سے اسٹریٹ کرائم سمیت دیگر جرائم کی وارداتوں میں کمی کے دعوے زمینی حقائق سے بالکل برعکس دکھائی دیئے ، رواں سال کے 11 ماہ کے دوران شہریوں کو کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں اور موبائل فونز سے محروم کر دیا گیا ، جرائم پیشہ عناصر نہ صرف مصروف شاہراہوں بلکہ رہائشی علاقوں ، گلیوں اور محلوں میں بھی آزادانہ کارروائیاں کرتے رہے۔

سی پی ایل سی کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے 11 مہینوں میں مجموعی طور پر شہری 2 ہزار 275 اپنی قیمتی گاڑیوں سے محروم کر دیئے گئے جس میں 285 گاڑیاں چھینی جبکہ 1990 گاڑیاں چوری کرلی گئیں۔

 اسی طرح سے رواں سال کے 11 ماہ کے دوران متوسط طبقے کی سواری موٹر سائیکلوں کی چھینا جھپٹی کے واقعات بھی عروج پر رہے جس میں شہریوں کو مجموعی طور پر 41 ہزار 700 سے زائد موٹر سائیکلوں سے محروم ہونا پڑا جس میں 6 ہزار سے زائد موٹر سائیکلیں چھینی جبکہ 35 ہزار 700 سے زائد موٹر سائیکلوں کو چوری کرلیا گیا۔ رواں سال کے 11 مہینوں کے دوران اسٹریٹ کرمنلز نے شہریوں کو مجموعی طور پر لاکھوں روپے مالیت کے 15 ہزار سے زائد موبائل فونز سے محروم کر دیا جس میں جبکہ 11 ماہ کے دوران شہر میں جاری قتل و غارت گری کے واقعات میں مجموعی طور پر 509 سے زائد جانیں بے رحمی سے چھین لی گئیں جس میں ڈکیتی مزاحمت ، ذاتی رنجش ، دشمنی اور لڑائی جھگڑوں کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ اور گھریلو تنازعات بھی شامل ہیں۔

رواں سال کے 11 ماہ میں اغوا برائے تاوان کے 12 واقعات رونما ہوئے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اغوا کاروں کے منظم گروہ اب بھی شہر میں سرگرم ہیں اور وہ اپنے ہدف کو شکار کرنے میں مہارت بھی رکھتے ہیں تاہم پولیس کی جانب سے ان اغوا کار گروہوں کے خلاف کارروائیاں بھی کی جاتی رہی ہیں جس میں پولیس مقابلوں میں وہ مارے بھی جا چکے ہیں یا زخمی حالت میں دیگر ساتھویں کے ہمراہ گرفتار بھی ہوچکے ہیں۔ بھتہ خوری کے مجوعی طور پر 75 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے جس میں سب سے زیادہ 18 واقعات اکتوبر میں سامنے آئے۔

 جس میں بھتہ خوروں نے بزنس کمیونٹی ، چھوٹے تاجروں اور دکانداروں کو مختلف غیر ملکی نمبروں سے دھمکی آمیز کالیں کر کے بھتے کا مطالبہ کیا اور دینے پر انھیں گھروں و زیر تعمیر منصوبوں پر فائرنگ اور سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں اور ان بھتہ خوری کے واقعات پر تاجر برداری کی جانب سے بھی شدید تشویش کا اظہار کیا گیا جبکہ پولیس کی جانب سے بھی بھتہ خوری میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائیاں بھی کی گئیں جس میں کچھ بھتہ خور اپنے منطقی انجام تک پہنچا دیئے گئے اور دیگر کو مقابلوں کے دوران زخمی حالت میں دیگر ساتھیوں سمیت گرفتار بھی کرلیا گیا۔

پولیس افسران کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا جاتا رہا کہ پچھلے سال کی نسبت اس سال جرائم میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن جب زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال اس کے بالکل برعکس دکھائی دیتی ہے، اس بات سے بھی انکار نہیں کہ پولیس کی جانب سے روز کی بنیاد پر مقابلوں میں جرائم پیشہ عناصر کو زخمی حالت میں ان کے ساتھیوں سمیت گرفتار کیا جاتا رہا لیکن لوٹ مار کی وارداتوں کا بھی تسلسل بدستور جاری رہا، جس میں گھروں اور دکانوں میں گھس کر لوٹ مار کی وارداتوں کے علاوہ سر راہ گلیوں ، محلوں اور مصروف شاہراہوں پر اسٹریٹ کرمنلز اپنے ہدف کا آزادانہ نشانہ بنا کر نقدی ، موبائل فون ، گاڑی یا موٹر سائیکل سے شہریوں کو محروم کر جاتے ہیں اور یہ تضاد شہریوں کے لیے سوالات چھوڑ جاتا ہے کہ کیا پولیس کے اقدامات واقعی مؤثر ہیں؟

سی پی ایل سی کے جاری اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے 11 ماہ کے دوران جنوری میں شہریوں سے 31 گاڑیاں چھینی گئیں ، 151 چوری کرلی گئیں ، 617 موٹر سائیکلیں چھینی اور 3413 کو چوری کرلیا گیا جبکہ شہریوں کو 1585 موبائل فونز سے بھی محروم کر دیا گیا ، فرروی میں 36 گاڑیاں چھینی ، 159 چوری ، 549 موٹر سائیکلیں چھینی اور 3224 کو چوری کرلیا گیا اس کے علاوہ شہریوں کے 1402 موبائل فونز بھی چھین لیے گئے ، مارچ میں 21 گاڑیاں چھینی ، 139 چوری ، 574 موٹر سائیکلیں چھینی اور 3605 چوری کرلی گئیں جبکہ اسی مہینے میں 1312 موبائل فونز بھی چھینے گئے۔

 اپریل میں 19 گاڑیاں چھینی ، 131 چوری ، 569 موٹر سائیکلیں چھینی اور 3176 کو چوری کرلیا گیا جبکہ شہریوں سے 1364 موبائل فونز بھی چھین لیے گئے ، مئی میں 31 گاڑیاں چھینی ، 166 چوری ، 702 موٹر سائیکل چھینی اور 3292 کو چوری کیا گیا جبکہ 1489 موبائل فونز سے شہری محروم بھی کر دیئے گئے ، جون میں 23 گاڑیاں چھینی ، 115 چوری ، 585 موٹر سائیکلیں چھینی گئیں اور 3298 کو چوری کرلیا گیا جبکہ شہریوں سے 1436 موبائل فون بھی چھین لیے گئے ، جولائی میں 22 گاڑیاں چھینی ، 197 چوری ،502 موٹر سائیکلیں چھینی اور 3357 چوری کرلیا گیا جبکہ اس مہینے میں شہریوں کو 1603 موبائل فونز سے بھی ہاتھ دھونا پڑا ، اگست میں 31 گاڑیاں چھینی ، 204 چوری ، 507 موٹر سائیکلیں چھینی اور 3332 چوری کرنے کے ساتھ شہریوں کو 1480 موبائل فونز سے بھی محروم ہونا پڑا ، ستمبر میں 27 گاڑیاں چھینی ، 172 چوری ، 517 موٹر سائیکلیں چھینی اور 3181 کو چوری کرلیا گیا جبکہ 1542 موبائل فونز چھین بھی لیے گئے ، اکتوبر میں 25 گاڑیاں چھینی ، 153 چوری ، 565 موٹر سائیکلیں چھینی اور 3119 کو چوری کرلیا گیا جبکہ اسی مہینے میں شہریوں سے 1662 موبائل فونز بھی چھین لیے گئے، نومبر میں 19 گاڑیاں چھینی ، 137 چوری ، 390 موسائیکلیں چھینی اور 2750 چوری کرلی گئیں۔

متعلقہ مضامین

  • پولیس عوام کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی،غلام نبی میمن
  • سی پیک، پاک چین نئی تعلیمی و تحقیقی شراکتداری، اہم معاہدے طے
  • حیدرآباد میں بھی ای چالان نظام شروع کرنے کا فیصلہ
  • غزہ میں جنگی جرائم
  •  رواں برس جرائم میں کمی کے پولیس کے دعوے دھرے رہ گئے
  • نظام سے پہلے خود کو بدلو
  • ایران کی ٹیکنالوجی نمائش میں پیش کیے گئے انسان نما روبوٹس حقیقت میں اداکار نکلے
  • ’ہر طرح کا تعاون کیا پھر بھی مارا گیا‘، جیل سے رہائی کے بعد ڈکی بھائی نے خاموشی توڑ دی
  • 100 دنوں میں کیا کیا ہوا؟ ڈکی بھائی نے خاموشی توڑ دی