سینیئر کورٹ رپورٹر ثاقب بشیر کا کہنا ہے کہ ایک جج کے 16 سالہ بیٹے کا بنا لائسنس مبینہ طور پر تیز رفتار لینڈ کروزر سے 2 لڑکیوں کو کچل کر ہلاک کردینا اور پھر 5 دن کے اندر ہی لواحقین سے معافی لے کر رہائی پاجانا انتہائی افسوس ناک اور پریشان کن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد حادثہ، جج کے کم عمر بیٹے کی گاڑی کی ٹکر سے 2 جوان لڑکیاں جاں بحق

وی نیوز کے پروگرام صحافت اور سیاست میں گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی ثاقب بشیر نے کہا کہ اس واقعہ نے معاشرے میں بڑے خوفناک سوالات چھوڑے ہیں۔

ان کے مطابق واقعے کی تفصیلات سب کے علم میں ہیں مگر اصل سوال یہ ہے کہ 2 بچیوں کی ہلاکت کے بعد محض پانچ دن میں ایک بااثر خاندان کا فرد کیسے رہا ہو گیا؟ اس سے یہ تاثر ملا ہے کہ اشرافیہ کے لیے راستے ہمیشہ صاف رہتے ہیں، جبکہ عام شہریوں کو ایسی کوئی سہولت نہیں ملتی۔

ثاقب بشیر کے مطابق اس کیس نے ٹریفک پولیس، پولیس اور ڈسٹرکٹ جوڈیشری کی کارکردگی پر بھی سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ اسلام آباد کے حساس ترین واقعات میں بھی پولیس فوری طور پر سی سی ٹی وی فوٹیج، ایف آئی آر اور گرفتاری سے متعلق اپڈیٹ فراہم کرتی ہے مگر اس کیس میں پولیس ترجمان کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر عام شہری ہوتا تو پولیس کئی سطحوں پر کارروائی کرتی۔

مزید پڑھیے: اسلام آباد حادثہ: ہائیکورٹ جج کی ماورائے عدالت تصفیے کی کوششیں، صحافی اسد ملک کا انکشاف

ثاقب بشیر نے بتایا کہ ٹریفک پولیس نے بھی اس معاملے میں کوئی واضح کارروائی نہیں دکھائی حالانکہ یہ کئی قانونی جرائم پر مشتمل کیس تھا۔

ان کے مطابق یہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ اس سے جڑے 6 دیگر قانونی سوالات بھی موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف لواحقین نے معاف کر دیا لیکن دوسری طرف ریاستی اداروں کو بغیر لائسنس، جالی نمبر پلیٹ اور زیرِ عمر ڈرائیونگ جیسے جرائم پر کارروائی کرنی چاہیے تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ حادثے کے بعد زخمیوں کو قریبی پولی کلینک کے بجائے دور موجود پمز اسپتال لے جانا بھی سوالیہ نشان ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جج صاحب موقعے پر پہنچے اور بچے کو اپنی دوسری گاڑی میں گھر بھیج دیا گیا جبکہ پولیس کو گرفتاری ڈالنے میں تقریباً چار گھنٹے لگے۔

مزید پڑھیں: کم عمر بچے کی گاڑی چلاتے پرانی ویڈیو وائرل، ’کیا یہ وہی ابوذر ہے جس کی گاڑی سے 2 لڑکیاں جاں بحق ہوئیں؟‘

ثاقب بشیر کے مطابق جب ملزم کو ریمانڈ کے لیے عدالت لایا گیا تو عدالت کا وقت ختم ہو چکا تھا، میڈیا کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی اور رپورٹرز کی بنائی گئی کچھ ویڈیوز بھی ڈیلیٹ کروائی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ عدالتی آرڈر کی کاپی بھی 48 گھنٹے گزرنے کے باوجود دستیاب نہیں ہو سکی، جو ایک غیر معمولی بات ہے۔

ثاقب بشیر نے کہا کہ ملزم کا بھائی عدالت سے روتا ہوا نکلا لیکن اندر کیا معاملہ طے ہوا یہ واضح نہیں ہو سکا۔

انہوں نے کہا کہ شفافیت کے بغیر ایسے کیسز میں سوالات بڑھتے رہتے ہیں اور یہ عمل نہ صرف جوڈیشری بلکہ پورے انتظامی نظام کے لیے بدنامی کا باعث بنتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اسکوٹی پر سوار لڑکیوں کو کچلنے کا واقعہ، جج کے بیٹے کا جسمانی ریمانڈ منظور

ان کا کہنا تھا کہ حیران کن طور پر حکومت، پولیس، ٹریفک پولیس، جوڈیشری یا کسی بھی ادارے نے اس معاملے پر ایک لفظ بھی نہیں بولا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسکوٹی سوار لڑکیوں کی ہلاکت جج کے بیٹے کا جرم سینیئر رپورٹر ثاقب بشیر.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جج کے بیٹے کا جرم سینیئر رپورٹر ثاقب بشیر اسلام آباد نے کہا کہ کے مطابق انہوں نے کے لیے

پڑھیں:

200 روپے کے ٹکٹ پر ڈیڑھ کروڑ کا انعام جیتنے کے باوجود مزدور پریشان، مگر کیوں؟

بھارتی پنجاب کے ضلع فریدکوٹ میں ایک دیہاڑی دار مزدور کے خاندان کے لیے خوشی اور خوف اب ایک ساتھ چل رہے ہیں، کیونکہ حال ہی میں انہوں نے ڈیڑھ کروڑ روپے کی لاٹری جیت لی ہے۔

نصیب کور اور ان کے شوہر رام سنگھ، دونوں سائیڈکے گاؤں کے رہائشی اور کھیتوں میں دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدور ہیں۔

انہوں نے 200 روپے کا ایک لاٹری ٹکٹ خریدا تھا جس نے پنجاب اسٹیٹ لاٹری میں پہلا انعام جیت لیا۔

تاہم اس غیر متوقع جیت کی خوشی بہت جلد خوف اور اضطراب میں بدل گئی۔

جیسے ہی اس جیت کی خبر آس پاس کے علاقوں میں پھیلی، وہ پریشان ہوگئے کہ کہیں جرائم پیشہ عناصر انہیں تاوان یا ڈکیتی کا نشانہ نہ بنا لیں۔

اپنی حفاظت کے پیشِ نظر، خاندان نے گھر کو تالے لگا دیے، موبائل فون بند کر دیے اور ایک خفیہ مقام پر منتقل ہو گیا۔

فریدکوٹ پولیس کو منگل کے روز اس صورتحال کا علم ہوا تو انہوں نے فوری طور پر خاندان سے رابطہ کیا اور انہیں تحفظ کی یقین دہانی کرائی۔

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ڈی ایس پی ترلچن سنگھ نے بتایا کہ آج ہمیں پتا چلا کہ نصیب کور نے 15 سے 20 روز قبل 200 روپے کا ایک لاٹری ٹکٹ خریدا تھا، جس میں انہیں ڈیڑھ کروڑ روپے کا انعام ملا ہے۔

’خاندان نے خدشہ ظاہر کیا کہ اچانک دولت ملنے کی وجہ سے کوئی انہیں نقصان پہنچا سکتا ہے یا تاوان کا مطالبہ کر سکتا ہے۔‘

 ڈی ایس پی ترلچن سنگھ کے مطابق پولیس نے انہیں یقین دلایا ہے کہ پولیس عوام کی حفاظت کے لیے ہر وقت موجود ہے اور ان کے خاندان کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیا جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی نے عمران خان کی رہائی کے لیے دیگر صوبوں اور اوورسیز پاکستانیوں سے تعاون طلب کر لیا
  • اسلام آباد اور پنڈی میں جرائم پیشہ عناصر کے شہریوں پر انسانیت سوز تشدد کے واقعات میں پیشرفت
  • کوئی بھی جمہوری قیادت تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار نہیں، اختیار ولی خان
  • تحریک تحفظ آئین کا 20اور 21دسمبر کو اسلام آباد میں قومی کانفرنس بلانے کا اعلان
  • 200 روپے کے ٹکٹ پر ڈیڑھ کروڑ کا انعام جیتنے کے باوجود مزدور پریشان، مگر کیوں؟
  • تحریک تحفظ آئین کا 20 اور 21 دسمبر کو اسلام آباد میں قومی کانفرنس بلانے کا اعلان
  • کورم برقرار رکھنے کے باوجود اسپیکر کے رویے پر افسوس ہے، رہنما پیپلز پارٹی شازیہ مری
  • لاکھوں ٹریفک چالان کے باوجود اسٹریٹ کرمنلز قانون کی گرفت سے باہر عوام کا سوال
  • آج اور کل: اسلام آباد آنے کے لیے کون سے راستے ہرگز استعمال نہیں کرنے چاہئیں؟