خونی رشتوں کی تصدیق کے بغیر شناختی کارڈ کس طرح بنائیں؟ بڑی مشکل آسان
اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT
(ویب ڈیسک)خونی رشتوں کی تصدیق کے بغیر کوئی شہری شناختی کارڈ کس طرح بنواسکتا ہے، اس حوالے سے نادرا نے اہم معلومات شیئر کی ہیں۔
نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی نے ایسے شہریوں کے لیے ایک اہم وضاحت جاری کی ہے جو قومی شناختی کارڈ بنوانے کے خواہشمند ہیں لیکن ان کی شناخت کی تصدیق کے لیے خون کا کوئی رشتہ یا ان کا کوئی رشتے دار دنیا میں موجود نہیں ہے۔
کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کے اجرا کے لیے عام طور پر خونی رشتہ داروں میں سے کسی کو بائیو میٹرک تصدیق کےلیے بلایا جاتا ہے، جیسے کہ والد، ماں، حقیقی بھائی، یا بہن جو خود بھی درست شناختی کارڈ کا حامل ہو۔
باغبان پورہ کی خواتین نے بلاول سے سیاست چھڑوا دی، اسکے بعد کیا باتیں ہوئیں؟ دلچسپ رپورٹ
کسی فرد کو نادرا کی فیملی ٹری سے جوڑنے کے لیے نئی درخواستوں اور سی این آئی سی کی تجدید دونوں کے لیے تصدیق لازمی ہے۔
ایسے افراد جن کے خونی رشتہ دار انتقال کر چکے ہیں یا دستیاب نہیں ہیں، اب نادرا نے ایسے درخواست دہندگان کے لیے ایک طریقہ کار پیش کیا ہے جسے اپنا کر وہ شناختی کارڈ بنوانے کے اہل ہونگے۔
نادرا کے نئے طریقہ کار کے مطابق اگر درخواست دہندہ کا کوئی زندہ خونی رشتہ دار موجود نہیں ہے، تو اسے یہ چیزیں فراہم کرنا ہونگی۔
وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر فلسطینیوں کیلئے 100 ٹن امدادی سامان روانہ
درخواست گزار کی طرف سے تحریری درخواست۔
یونین کونسل، میونسپل کمیٹی، یا کنٹونمنٹ بورڈ کی طرف سے جاری کردہ کمپیوٹرائزڈ برتھ سرٹیفکیٹ – یا شہریت/ نیچرلائزیشن سرٹیفکیٹ۔
یہ بھی پڑھیں:پی پی رہنماحسن مرتضیٰ کے والد کا انتقال، نماز جنازہ ادا،آبائی علاقہ میں تدفین
نادرا کے فارمیٹ کے مطابق ایک حلف نامہ ، کسی بھی سی این آئی سی/ این آئی سی او پی ہولڈر سے بائیو میٹرک تصدیق کے ساتھ، جو بطور گواہ کام کرے گا۔
ایک سیاسی جماعت سیاسی دجال کا کام کر رہی ہے; بلاول بھٹو زرداری
سرکاری طریقہ کار کے مطابق درخواست فارم کی تصدیق۔
کوئی اضافی معاون دستاویزات اگر دستیاب ہوں۔
نادرا نے اس سلسلے میں مزید کہا کہ ایسے کیسز میں اضافی تصدیق اور پروسیسنگ کا وقت درکار ہو سکتا ہے۔ اس طرح کے کیس کے سلسلے میں نادرا نے واضح کیا کہ درج ذیل گواہوں کو ترجیح دی جائے گی۔
پہلی ترجیح: خونی رشتہ دار جیسے پھوپھی/ ماموں اور خالہ، کزن، بھانجیاں، یا بھانجے۔
جعلی ڈگریوں کا ملک گیر نیٹ ورک بے نقاب، 10 لاکھ سے زائد افراد کو جعلی ڈگریاں دینے کا انکشاف
دوسری ترجیح: اگر کوئی رشتہ دار دستیاب نہیں ہے تو درست سی این آئی سی/ این آئی سی او پی کے ساتھ کوئی بھی پاکستانی شہری جو ذاتی طور پر درخواست گزار کو جانتا ہے اور اسی علاقے میں رہتا ہے بطور گواہ کام کر سکتا ہے۔
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: خونی رشتہ دار شناختی کارڈ کی تصدیق تصدیق کے کے لیے
پڑھیں:
سات سال تک شوہر کے بارے میں معلومات نہ ملنے کی صورت میں خاتون آزاد ہو جاتی ہے: سندھ ہائیکورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سندھ ہائی کورٹ نے واضح کیا ہے کہ اگر کسی خاتون کے شوہر کے بارے میں سات سال تک کوئی خبر نہ ملے تو وہ قانونی طور پر آزاد ہو جاتی ہے۔
یہ ریمارکس جسٹس یوسف علی سعید کی سربراہی میں تشکیل پانے والے آئینی بینچ نے دئیے، جس میں جسٹس عبد المبین لاکھو بھی شامل تھے اور اس موقع پر ایک 14 سال سے لاپتا شہری کی بازیابی کے لیے دائر درخواست کی سماعت کی گئی۔
عدالت نے اس کیس میں لاپتا شہری کی اہلیہ کو طلب کیا اور کہا کہ درخواست گزار خود آکر واضح کرے کہ کیا وہ اتنے طویل عرصے کے بعد بھی درخواست کی پیروی میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل سید ندیم الحق نے عدالت کو بتایا کہ عبد الرحمان کی کلفٹن میں دوپٹوں کی دکان تھی اور 28 نومبر 2011 کو کاروباری معاملے کے سلسلے میں فون کے ذریعے مزار قائد بلایا گیا، جس کے بعد ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ گمشدگی اور اغوا کی ایف آئی آر 2017 میں بریگیڈ تھانے میں درج کی جا چکی ہے۔
جسٹس یوسف علی سعید نے کہا کہ مقدمے کے سلسلے میں سپریم کورٹ تک جانے کے باوجود کوئی نتیجہ نہیں نکلا، وکیل نے جواب دیا کہ ہر فورم پر درخواست دی گئی مگر عبد الرحمان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ لاپتا شہری کے کتنے بچے ہیں، جس پر وکیل نے بتایا کہ تین بچے ہیں اور ان کی والدہ نے بازیابی کے لیے درخواست دائر کی ہے۔
عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ سات سال تک شوہر کے بارے میں معلومات نہ ملنے کی صورت میں خاتون کی قانونی حیثیت خود بخود آزاد قرار پاتی ہے۔
تاہم وکیل نے وضاحت کی کہ موجودہ درخواست صرف شوہر کی بازیابی کے لیے دائر کی گئی ہے، نہ کہ خاتون کی قانونی حیثیت کے تعین کے لیے۔
عدالت نے کہا کہ خاتون کی رائے جاننا ضروری ہے اور انہیں عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے۔ اس کیس کی سماعت فروری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی گئی ہے تاکہ تمام متعلقہ پہلوؤں پر غور کیا جا سکے۔