ٹرمپ کی نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹجی کا تاریخی تناظر
اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT
چند روز قبل ٹرمپ انتظامیہ نے امریکا کی نئی قومی سلامتی حکمت عملی کی دستاویز جاری کی ہے۔ یہ دستاویز عالمی میڈیا میں ہر طرف زیر بحث ہے۔ ہمارے ہاں بھی اس پر اپنے اپنے اینگل سے طبع آزمائی ہو رہی ہے۔ خاص طور پر ہمارے لبرل حلقے یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ یہ دستاویز کمزوری نہیں بلکہ طاقت کی تنظیم نو کو ظاہر کرتی ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ حسب روایت اس دستاویز کو بھی پڑھا نہیں گیا بلکہ عالمی اخبارات کی رپورٹس پڑھ کر قلم اٹھا لیے گئے جو ہمارے لبرلز رائٹرز کا عام چلن ہے۔ سو ان کی جانب سے امریکی و برطانوی کالم نگاروں کے حوالے دے دے کر اپنے قارئین کو تسلی دی جا رہی کہ ’آپ نے ڈرنا بالکل نہیں ہے‘۔
عالمی تجزیہ کاروں کے حوالے دینا کوئی جرم نہیں۔ مگر یہ دستاویزات پر بات کرتے ہوئے نہیں بلکہ واقعات کو زیر بحث لاتے ہوئے دیئے جاتے ہیں۔ دستاویز تو پڑھ کر خود ان کا تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تہذیبی کشمکش اور ہمارا لوکل لبرل
تازہ امریکی دستاویز کو درست طور پر تاریخی تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔ اس دستاویز کا تاریخی تناظر یہ ہے کہ امریکا سے قبل برطانیہ عالمی استعمار تھا۔ وہ استعمار جس کی سلطنت میں سورج غروب نہ ہوتا تھا۔ برٹش ہر چیز میں آگے تھے، مگر 1870 کے آس پاس 2 ممالک صنعتی لحاظ سے ان سے آگے بڑھنے لگے۔ ایک امریکا اور دوسرا جرمنی۔ چنانچہ دور اندیش برٹش انٹیلی جنشیا کے ذہنوں میں خطرے کی گھنٹیاں بج گئیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح 2008 کے بعد چائنیز پیشرفت پر امریکی ذہنوں میں بجنی شروع ہوئیں۔ مگر 19ویں صدی کے ان آخری سالوں میں اس پر کوئی کھل کر بات نہیں کر پا رہا تھا۔
بالآخر اس دور کے برطانوی وزیر برائے نوآبادیات جوزف چیمبرلین (نیول چیمبر لین کے والد) وہ پہلے برطانوی بنے جنہوں نے 10 جون1896 کو ’The British Empire: Colonial Commerce and The White Man’s Burden‘ کے عنوان سے لکھی تقریر کی۔ اس تقریر میں انہوں نے جو کہا اس کا خلاصہ یہ تھا
’بڑی ایمپائر صرف بنانی نہیں ہوتی، بلکہ اسے اس لائق بھی رکھنا ہوتا ہے کہ یہ مستحکم طور پر چلتی بھی رہے۔ ہمارے اخراجات اب اس ایمپائر کا بوجھ اٹھانے کے لیے ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔ چنانچہ یہ ایمپائر اپنے ہی وزن تلے ڈوبنے کا عمل شروع کرچکی ہے۔ ہمیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا‘۔
سو جس طرح آج کل ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی قومی سلامتی حکمت عملی والی دستاویز پر مغرب میں شور مچ رہا ہے۔ اور ٹرمپ کو تنقید کا سامنا ہے۔ اسی طرح کا ردعمل جوزف چیمبرلین کی تقریر پر بھی آیا تھا۔ انہیں بری طرح تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ یہ ہماری اچھی بھلی عالمی چوہدراہٹ کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں۔ مگر جانتے ہیں جلد ہی ہوا کیا ؟ یہ ہوا کہ برطانیہ نے فیصلہ کیا کہ اپنا بوجھ انگریزی بولنے والے ممالک مثلا آسٹریلیا اور کینیڈا وغیرہ کو قریب کرکے ان کے ساتھ بانٹنا چاہئے۔ اور اس پر عمل بھی شروع ہوگیا۔ گویا برطانیہ نے وہی کیا جو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تازہ سیکیورٹی پالیسی دستاویز میں کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ سمجھنے والے کے لیے تو یہ تناظر ہی کافی ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ ’فول پروف لبرل خواب‘ اتنی آسانی سے نہیں ٹوٹتے۔ لہذا یہ بھی واضح کرنا پڑے گا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی تازہ دستاویز کیا نوید لائی ہے۔
اس دستاویز کو بغور پڑھنے والا بہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی جوزف چیمبرلین کی طرح یہی کہہ رہے ہیں کہ امریکی ایمپائر کے اخراجات اس کا بوجھ اٹھانے کے لائق نہیں رہے اور اوپر سے چین معاشی و عسکری لحاظ سے آگے بھی نکل گیا ہے۔ لہذا ہمیں بھاری اخراجات سے جان چھڑا کر کچھ بوجھ اتحادیوں پر شفٹ کرنا ہوگا۔
بوجھ شفٹ کرنے کی 2 واضح کوششیں دیکھیے۔ پہلی یہ کہ ایشیا پیسفک میں جاپان اور کوریا سے کہہ دیا گیا کہ بھائی جی ہمارے آسرے نہ رہئے، اپنا دفاع خود سنبھالیے۔ یہ سن کر جاپان کی نئی نویلی وزیر اعظم تکایچی کو ایسا خمار چڑھا کہ چین کو ہی آنکھیں دکھا ڈالیں۔ مگر آگے سے ردعمل ایسا شدید آیا کہ ہر جاپانی کو سانپ سونگھ گیا۔ اور اب تکایچی پر اندرونی دباؤ آرہا ہے کہ بیان واپس لے کر صورحال کو ٹھنڈا کیجیے۔ ہماری یہ بات آپ نوٹ رکھ لیجیے کہ جاپان جلد یا بدیر ایک بار پھر ایٹم بم کھائے گا۔ اور آج کل کے ایٹم بم بھی وہ ہیروشیما اور ناگاساکی والے بموں کی طرح کلو ٹن میں نہیں بلکہ میگا ٹن میں ہوتے ہیں۔ جاپان کا چین اور روس دونوں کے ساتھ دوسری جنگ عظیم اور اس سے قبل کا کھاتہ صاف ہونا ابھی باقی ہے۔ چین میں سنگین جنگی جرائم کرنے والے مجرموں کی راکھ جاپانیوں نے مقدس امانت کی طرح سنبھال رکھی ہے۔ جس کی زیارت کے لیے پچھلے 80 برس سے جاپانی لیڈرز حاضریاں دیتے آئے ہیں۔
امریکا کی طرف سے اتحادیوں کا بوجھ انہی پر شفٹ کرنے کی سب دور روس اثرات والی کوشش یورپ میں ہو رہی ہے۔ وہی یورپ جس کی ناک کاٹ کر ٹرمپ نے اس دستاویز میں اس کی ہتھیلی پر رکھ دی ہے۔ پچھلے 80 سالوں کے دوران امریکی خارجہ پالیسی میں یہ طریقہ واردات برہا استعمال ہوا کہ جہاں امریکا مجبور ہوا برسر اقتدار پارٹی کے صدر نے سمجھوتہ کرلیا اور امن پسندی کی نغمے بجوا دیئے۔ اور جوں ہی امریکا کی مجبوری ختم ہوئی دوسری پارٹی کے صدر نے یہ کہہ کر سمجھوتہ توڑ ڈالا کہ جس صدر نے یہ سمجھوتہ کیا تھا وہ احمق تھا۔ مثلا ایران سے اوباما نے معاہدہ کیا اور ٹرمپ نے آکر ٹوڑ دیا۔
بالکل اسی طرح یوکرین جنگ جو بائیڈن دور میں شروع ہوئی، اور بائیڈن نے اس میں بڑے جوش وخروش کے ساتھ حصہ لیا۔ ان سے قبل خود ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں یوکرین کو مسلح کرکے جنگ کے لیے تیار کیا۔ لیکن جب جنگ شروع ہوئی اور بائیڈن دور کے آخر تک واضح ہوگیا کہ مغرب کو ہولناک قسم کی سٹریٹجک شکست کا سامنا ہے تو ٹرمپ نے کہہ دیا
’بائیڈن سٹوپڈ صدر تھا۔ میں اس جنگ کو اون ہی نہیں کرتا۔ یہ ہماری اور روس کی نہیں بلکہ یوکرین اور روس کی جنگ ہے۔ میں تو ثالث بن کر اسے ختم کراؤں گا‘۔
مگر بات اتنی سی کہاں ہے۔ یہ امریکا تھا جس نے روس پر باندیاں عائد کیں اور یورپ سے کہا، تم بھی یہی کرو۔ یورپین غلام حکم بجا لائے، جس کا نتیجہ جوابا روسی گیس کی بندش کی صورت نکلا۔ اور حاصل یہ کہ یورپین معیشتیں پہلے ڈگگمگائیں، پھر لڑکھڑائیں اور اب ان پر زمین بوسی کا مرحلہ ہے۔ یہ سب یور پ سے کروایا کس نے؟ امریکی صدر جوبائیڈن نے۔ اور اب دونلڈ ٹرمپ اپنی تازہ سکیورٹی پالیسی دستاویز میں اسی یورپ سے متعلق کیا کہہ رہے ہیں، اس کا بھی خلاصہ لے لیجیے۔
’یورپ غیر ذمہ دار ہے۔ اسے اپنے مستقبل کی کوئی فکر نہیں۔ یہ لوگ غلط فیصلے کرتے ہیں۔ ان کی حرکتوں کی وجہ سے یہ زوال کا شکار ہیں‘۔
مزید پڑھیے: مغربی لٹریچر اور ہمارے نوجوان علما
یہ تو کچھ بھی نہیں، آگے چل کر یہ دستاویز روشن مستقبل کا خواب دکھاتے ہوئے قدم قدم پر یورپین ریاستوں کو انفرادی ترقی اور آزاد فیصلوں کی دعوت دیتی ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس نے یورپ کے ہوش اڑا دیے ہیں کیونکہ پہلی بار امریکا نے لکھ کر دیدیا ہے کہ ہمیں یورپین یونین قبول نہیں۔ اسے ختم کرو اور انفرادی ریاستی شکل اختیار کرو۔ حالانکہ یورپین یونین والا ڈھکوسلا بھی خود امریکا نے ہی ان پر مسلط کرکے اجتماعی شکل میں اپنا غلام بنا لیا تھا۔
آپ کا کیا خیال ہے یورپین قیادت کی سلیکشن خود یورپین کرتے رہے ہیں؟ اگر یورپین یونین کو ایک سطر میں بیان کیا جائے تو وہ سطر کچھ یوں ہوگی۔
’غیر منتخب عناصر پر مشتمل وہ امریکی بندوبست جس نے 27 یورپین ممالک کے مالیاتی نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے‘۔
کیا آپ یقین کریں گے برسلز میں بیٹھے یورپین قیادت نامی بیوروکریٹ جب چاہیں کسی بھی ملک کی اے ٹی ایم مشینیں اور بینک بند کرنے کی قدرت رکھتے ہیں؟ کبھی فرصت ملے تو ذرا گوگل کرلیجیے کہ یونان کے ساتھ انہوں نے اس ضمن میں کیا کیا؟
بیٹھے بیٹھے کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی سینسر شپ کا آڈر یہ بیوروکریٹ جاری کردیتے ہیں اور تمام ممالک کے وزرائے اعظم و صدور اس کی تعمیل کروانے کے پابند ہوتے ہیں۔
یعنی یورپین ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم یورپین کمیشن کے اس صدر کے پابند ہوتے ہیں جو آج کل ارسلہ وندرلاین نامی غیر منتخب عورت کی صورت یورپ پر مسلط ہے۔ یہ سسٹم امریکا نے ہی ان سے بنوایا اور جب امریکا پر مشکل وقت آن پڑا تو اب دونلڈ ٹرمپ کی حکومت اس سسٹم کو ’اتھارٹیرین ازم‘ قرار دے رہی ہے۔ ہنری کسنجر نے کہا بھی تھا کہ امریکا دشمنوں سے زیادہ اپنے دوستوں کے لیے خطرناک ہے۔ مگر یورپین خود کو اس سے مستثنی سمجھتے رہے۔
سو جملہ لبرلانِ وطن کو نوید ہو کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے لبرل یورپ کو اپنی دستاویز میں نالائق، نکمے، نکھٹو اور اتھاڑٹیرین قرار دے کر ذلیل بھی کیا ہے اور ساتھ ڈیڈ لائن بھی دیدی ہے کہ 2027ء تک اپنا دفاعی سسٹم تشکیل دے کر اپنا دفاع خود سنبھالیے۔ اس کے بعد ہم جا رہے ہیں۔
ذرا ستم ظریفی دیکھیے کہ دنیا کی سب سے مہنگی چیز دفاعی نظام کی تشکیل ہے۔ فوج کی بھرتی، انہیں ٹرینڈ کرنا، نئی چھاؤنیاں بنانا، جدید ہتھیاروں کے کارخانے تعمیر کرنا اور پھر ماڈرن ترین ہتھیاروں کے انبار لگانا۔ اور ٹرمپ یہ سب محض 2 سال میں تیار کرنے کا مطالبہ کن سے کر رہے ہیں؟ ان سے جنکی معیشت کا بھٹا یوکرین جنگ میں خود امریکا نے ہی بٹھوادیا ہے۔
اس سے بھی مزے کی چیز یہ دیکھیے کہ یورپین ممالک تو ٹھیک ٹھاک قسم کی ملٹری طاقت تھے۔ جانتے ہیں وہ طاقت کہاں گئی؟ سوویت زوال کے کچھ ہی عرصہ بعد یہ امریکا ہی تھا جس نے ان سے کہا
’تم لوگ پاگل تو نہیں ہو ؟ اتنی بڑی فوجیں کیوں رکھی ہیں ؟ سوویت خطرہ تو ٹل گیا، ختم کرو اپنے بجٹ پر یہ اضافی بوجھ‘۔
نتیجہ یہ کہ آج برطانیہ جیسی ماضی قریب کی سپر طاقت کا ملٹری عدد بھی بس اتنا ہے کہ بقول عسکری دانشور سکاٹ رٹر اگر پوری برٹش ملٹری کو برطانیہ کے کسی فٹبال سٹیڈیم میں بٹھا دیا جائے تو 30 ہزار سیٹیں پھر بھی خالی رہ جائیں گی۔
مزید پڑھیں: دہشت گردی: اسباب اور سہ رخی حل
ان حالات میں یورپین یونین ٹرمپ سے کہہ رہی ہے کہ 2027ء نہیں 2030 تک کا وقت دیجیے۔ تب تک ہم کچھ نہ کچھ کرلیں گے۔
چالاکی یہ کی جارہی ہے کہ ٹرمپ کی مدت صدارت 2028 تک ہے۔ سو یورپین سمجھتے ہیں کہ 2028 میں اگر لبرل صدر منتخب ہوگیا تو سمجھو مسئلہ حل۔ لیکن ٹرمپ نے بھی 2027 کی تاریخ اس لیے دی ہے کہ وہ اپنے دور صدارت کے اختتام سے قبل ہی یورپ سے امریکی انخلا کا منصوبہ رکھتے ہیں کیونکہ ڈوبتی ایمپائر کے خرچے کم کرنا ضروری ہیں۔ حالانکہ جتنے بھی خرچے کم کر لیے جائیں۔
امریکی ایمپائر کو بھی برٹش ایمپائر کی طرح ڈوبنا ہی ہے۔ یہ ہم نہیں تاریخ کہتی ہے۔ سلطنتیں ٹریفک یا فضائی حادثات میں نہیں مرتیں۔ یہ انسان کی طرح ہی بوڑھی اور کمزور ہوکر فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا صدر ڈونلڈ ٹرمپ یورپین یونین یورپین یونین دستاویز میں ڈونلڈ ٹرمپ اس دستاویز یہ دستاویز امریکا نے نہیں بلکہ ٹرمپ کی کے ساتھ رہے ہیں ہیں کہ کی طرح کے لیے رہی ہے
پڑھیں:
ٹیرف میرا پسندیدہ لفظ ہے، ملک میں اربوں ڈالر آرہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
اپنے خطاب میں امریکی صدر نے دعویٰ کیا کہ سعودی عرب، قطر اور یو اے ای نے امریکا میں 4 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے، تینوں ممالک کے سربراہان کے مطابق ایک سال کے اندر امریکا دوبارہ طاقتور سٹیٹ بن چکا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پنسلوانیا میں ایک اہم تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیرف اب ان کا "پسندیدہ لفظ" بن چکا ہے، کیونکہ ٹیرف کے ذریعے امریکا میں اربوں ڈالر آرہے ہیں۔ تقریب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاشی ترقی، سرمایہ کاری، بیرونی پالیسی اور بارڈر سکیورٹی سے متعلق متعدد بڑے دعوے کیے۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ حکومت نے ٹیرف کی رقوم سے امریکی کسانوں کو 12 ارب ڈالر کی امداد فراہم کی ہے، انرجی کمپنی پنسلوانیا میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی، جو امریکی معیشت کے لیے خوش آئند قدم ہے۔ اپنے خطاب میں ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ سعودی عرب، قطر اور یو اے ای نے امریکا میں 4 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے، تینوں ممالک کے سربراہان کے مطابق ایک سال کے اندر امریکا دوبارہ طاقتور سٹیٹ بن چکا ہے۔
معاشی صورتِحال پر بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا ہے کہ ملک میں تیل کی قیمت دو ڈالر فی گیلن سے نیچے آچکی ہے اور ان کی کوششوں سے محنت کش طبقے کی آمدن دوگنی ہوچکی ہے۔ انہوں نے سابق صدر بائیڈن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ بائیڈن کی حکومت ورکنگ کلاس کی دشمن تھی اور ان کے دور میں 2 کروڑ 50 لاکھ افراد غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہوئے۔ صدر ٹرمپ نے بارڈر سکیورٹی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کی سخت ترین سرحد شمالی کوریا کی ہے جبکہ امریکی تاریخ میں پہلی بار ریورس مائیگریشن ہو رہی ہے۔ عالمی امن کے حوالے سے امریکی صدر نے کہا ہے کہ ان کی حکومت دنیا میں امن کے لیے سرگرم ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کروانے کے علاوہ انہوں نے تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان بھی کشیدگی کا خاتمہ کروایا۔