امریکی قانون سازوں کا پاکستان میں ‘دھمکانے کے واقعات’ پر کارروائی کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 5th, December 2025 GMT
امریکی قانون سازوں کا پاکستان میں ‘دھمکانے کے واقعات’ پر کارروائی کا مطالبہ WhatsAppFacebookTwitter 0 5 December, 2025 سب نیوز
امریکی ایوانِ نمائندگان کے 44 ڈیموکریٹک اراکین نے وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کو خط لکھ کر پاکستان میں ’جبر کی بڑھتی ہوئی مہم اور انسانی حقوق کے بگڑتے ہوئے بحران‘ کے باعث سینیئر پاکستانی حکام پر فوری پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
رپورٹ کےمطابق اس کوشش کی قیادت ڈیموکریٹک خاتون کانگریس پرمیلا جیبال اور کانگریس مین گریگ کیزار کر رہے ہیں، جبکہ خط پر اِلہان عمر اور رشیدہ طلیب سمیت متعدد اراکین کے دستخط شامل ہیں، جو فلسطینی اور دیگر مسلم مسائل پر اپنی سرگرمی کے لیے مشہور ہیں۔
بدھ کو منظرِ عام پر آنے والے اس خط میں اُن پاکستانی حکام پر ویزا پابندیوں اور اثاثوں کے منجمد کیے جانے جیسے اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے جو پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنے والے امریکی شہریوں، رہائشیوں، اور ان کے پاکستان میں موجود اہلِ خانہ کو دھمکانے یا ہراساں کرنے میں ملوث ہیں۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ یا واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کی طرف سے ابھی تک کوئی فوری ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے ہمدرد کے طور پر مشہور حقوقِ انسانی کے گروپ فرسٹ پاکستان گلوبل نے یہ خط میڈیا میں جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس میں واشنگٹن پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ایسے افراد کے خلاف کارروائی کرے جو ’ریاستی طاقت کو سیاسی مخالفین کو قید کرنے، بیرون ملک شہریوں کو خوفزدہ کرنے اور جمہوری آزادیوں کو کچلنے کے لیے استعمال کرتے ہیں’۔
خط میں کہا گیا کہ ’گزشتہ برسوں میں پاکستان میں آمرانہ زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے امریکی شہریوں اور رہائشیوں کو دھمکیوں، خوفزدہ کرنے اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور اکثر یہ جبر ان کے پاکستان میں موجود اہلِ خانہ تک پھیل جاتا ہے، ان طریقوں میں من مانی گرفتاری، دباؤ ڈالنا اور انتقامی تشدد شامل ہیں، جن کا نشانہ تارکینِ وطن افراد اور ان کے عزیز بنائے جاتے ہیں‘۔
اراکینِ کانگریس نے خبردار کیا کہ پاکستان ایک گہرے ہوتے آمرانہ بحران کی لپیٹ میں ہے، مخالف سیاسی رہنماؤں کو بغیر الزام کے حراست میں رکھا جا رہا ہے، صحافیوں کو دھمکایا یا جلا وطن ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے، اور عام شہریوں کو سوشل میڈیا سرگرمی پر گرفتار کیا جا رہا ہے۔
خط میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ خواتین، مذہبی اقلیتیں اور خصوصاً بلوچستان کی نسلی برادریاں عدم تناسب کے ساتھ ریاستی جبر کا نشانہ بن رہی ہیں۔
خط میں مزید کہا گیا کہ ’یہ آمرانہ نظام پاکستان میں مسلسل جبر کے ذریعے قائم ہے، سیاسی مخالفین کو بغیر الزام کے قید رکھا جاتا ہے، انہیں منصفانہ ٹرائل نہیں دیا جاتا اور طویل عرصے تک قبل از سماعت حراست میں رکھا جاتا ہے، آزاد صحافیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، اغوا کیا جاتا ہے یا ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے، عام شہریوں کو سوشل میڈیا پوسٹس پر گرفتار کیا جاتا ہے جبکہ خواتین، مذہبی اقلیتیں اور پسماندہ نسلی گروہ، خصوصاً بلوچستان میں زیادہ تشدد اور نگرانی کا نشانہ بنتے ہیں‘۔
اراکین نے مخصوص کیسز کا حوالہ بھی دیا، جن میں ورجینیا کے تحقیقاتی صحافی احمد نورانی کا کیس شامل ہے، جن کے بھائی مبینہ طور پر فوجی بدعنوانی کے بارے میں اُن کی رپورٹنگ کے بعد ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک اغوا اور حراست میں رکھے گئے۔
خط میں 2024 کے انتخابات کے بارے میں بھی تشویش ظاہر کی گئی اور کہا گیا کہ غیرجانبدار مبصرین کی رپورٹس نے بدعنوانیوں کی نشاندہی کی ہے۔
اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ بھی ان بے ضابطگیوں پر تشویش ظاہر کر چکا ہے اور مکمل تحقیقات کا مطالبہ کر چکا ہے۔
خط میں امریکی انتظامیہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ منظم اور سرحد پار جبر میں قابلِ اعتبار طور پر ملوث حکام کے خلاف عالمی میگنیٹسکی پابندیاں، ویزا پابندیاں، اور اثاثوں کے منجمد کیے جانے جیسے اقدامات نافذ کرے۔
خط میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
اراکین کا کہنا تھا کہ ’ایسے اقدامات انسانی حقوق کے لیے امریکی عزم کو مضبوط کریں گے، امریکی شہریوں کو سرحد پار جبر سے تحفظ دیں گے، اور علاقائی استحکام کو فروغ دیں گے‘۔
اپنی نگرانی کو مؤثر بنانے کے لیے اراکین نے محکمہ خارجہ کو پابندیوں، ٹارگٹڈ اقدامات کی شرائط، اور امریکی رہائشیوں کے اہلِ خانہ کو بیرونِ ملک لاحق خطرات سے بچانے کے اقدامات سے متعلق 5 تفصیلی سوالات بھیجے ہیں، انہوں نے وزیر خارجہ مارکو روبیو سے 17 دسمبر 2025 تک جواب طلب کیا ہے۔
سال کے اوائل میں ایوان میں 50 سے زیادہ اراکین نے ایک اور قرار داد ’پاکستان فریڈم اینڈ اکاؤنٹیبلٹی ایکٹ‘ پیش کی تھی، جس میں پاکستان میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار افراد کے خلاف قانونی پابندیوں کی سفارش کی گئی تھی، یہ قرارداد ایچ آر 5271 فی الحال ایوان کی فارن افیئرز کمیٹی میں ووٹنگ کے لیے زیرِ التوا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسعودی عرب میں پاک افغان مذاکرات سے متعلق کچھ علم نہیں: ترجمان دفتر خارجہ سعودی عرب میں پاک افغان مذاکرات سے متعلق کچھ علم نہیں: ترجمان دفتر خارجہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری کا ریکارڈ طلب کر لیا ایف ائی اے کی بڑی کارروائی، سی ڈی اے کے56 ملازمین کے خلاف مقدمہ درج،؟ ایف آئی آر و تفصیلات سب نیوز پر جعلی ویزوں کے دھندے میں ملوث مافیا کے خلاف موثر کریک ڈاؤن کا حکم وزیراعظم کا ملائیشین ہم منصب سے رابطہ، قدرتی آفات سے ہلاکتوں پر اظہار تعزیت فیلڈ مارشل کی بطور چیف آف ڈیفنس فورسز تعیناتی اور ائیر چیف مارشل کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹیفکیشن جاریCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: پاکستان میں کیا جاتا ہے کا مطالبہ اراکین نے شہریوں کو کیا گیا کے خلاف گیا ہے اور ان کے لیے
پڑھیں:
کیریبین میں ایک اور امریکی حملہ: منشیات بردار کشتی پر کارروائی، 4 ہلاک
امریکی محکمہ دفاع کے مطابق امریکا کی فوج نے کیریبین سمندر میں ایک مبینہ منشیات اسمگلنگ میں ملوث کشتی پر ایک اور مہلک حملہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہو گئے۔
حالیہ امریکی حملہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو حالیہ حملوں کے حوالے سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: منشیات امریکا اسمگل کرنے والی آبدوز تباہ، ٹرمپ کا 25000 امریکیوں کو موت سے بچانے کا دعویٰ
یہ انکشاف ہوا تھا کہ 2 ستمبر کو نشانہ بنائی جانے والی ایک کشتی پر دو بار حملہ کیا گیا تھا، جس کے بارے میں ماہرین نے کہا ہے کہ ایسا حملہ جنگی جرم کے زمرے میں آ سکتا ہے۔
سوشل پلیٹ فارم ایکس پر امریکی سدرن کمانڈ نے کہا کہ تازہ ترین حملہ وزیرِ دفاع پیٹ ہیگسیتھ کے حکم پر کیا گیا۔
https://Twitter.com/krassenstein/status/1996739773973639634
’فوج نے بین الاقوامی پانیوں میں ایک ایسی کشتی پر مہلک کارروائی کی جو ایک نامزد دہشت گرد تنظیم چلا رہی تھی۔ انٹیلیجنس سے تصدیق ہوئی تھی کہ کشتی میں غیر قانونی منشیات موجود تھیں اور وہ مشرقی بحرالکاہل میں ایک معروف اسمگلنگ روٹ سے گزر رہی تھی۔ کشتی پر موجود 4 مرد افراد ہلاک ہو گئے۔
ٹرمپ انتظامیہ منشیات اسمگلروں کے خلاف مہینوں سے جاری کارروائی میں اب تک 80 سے زائد افراد کو ہلاک کر چکی ہے۔
مزید پڑھیں: بحیرہ کیریبین میں ’دہشتگرد‘ کشتی پر امریکی حملہ، 3 ہلاک
تاہم 2 ستمبر کے واقعے کے بعد اس مہم پر کڑی جانچ پڑتال شروع ہو گئی ہے، اور کانگریس کی 2 جماعتی کمیٹیوں نے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے اس بات کی تردید کی ہے کہ دوسری بار ہونے والا حملہ وزیرِ دفاع ہیگسیتھ کے حکم پر کیا گیا, ان کا کہنا ہے کہ پہلا حملہ ہونے کے بعد دوسرا حملہ، جس میں مبینہ طور پر 2 زندہ بچ جانے والے افراد مارے گئے، ایڈمرل فرینک مِچ بریڈلی کے حکم پر کیا گیا۔
The Pentagon just admitted it.
Per @RepSaraJacobs (via @AnnieGrayerCNN), officials said they "do not need to positively identify individuals on the vessel to do the strikes."
No proof. No trial. Just execution. That's murder. pic.twitter.com/tGyRmzyfz2
— VoteVets (@votevets) October 30, 2025
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ دوسرا حملہ بھی بین الاقوامی مسلح تنازع کے قوانین کے مطابق تھا، جب کہ قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ غیر مسلح افراد کو نشانہ بنانا جنگی جرم ہے۔ خود فوج کے ضابطے کے مطابق ڈوبتی یا تباہ شدہ کشتیوں پر فائرنگ کرنا غیر قانونی ہے۔
ایڈمرل بریڈلی جمعرات کو کیپٹل ہل میں بند دروازوں کے پیچھے بریفنگز دینے کے لیے پیش ہوئے۔ انہوں نے یہ الزام مسترد کیا کہ انہیں ’تمام افراد کو ختم کرنے کی‘ ہدایت دی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: منشیات امریکا اسمگل کرنے والی آبدوز تباہ، ٹرمپ کا 25000 امریکیوں کو موت سے بچانے کا دعویٰ
اراکینِ کانگریس کی جانب سے بریفنگز کے مختلف بیانات سامنے آئے، ریپبلکن سینیٹر ٹام کاٹن نے کہا کہ بریڈلی نے واضح کہا کہ انہیں ایسا کوئی حکم نہیں ملا کہ کوئی رعایت نہ دی جائے یا سب کو قتل کر دیا جائے۔
تاہم ایوانِ نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے ڈیموکریٹ رکن ایڈم اسمتھ کے مطابق، اصل حکم یہ تھا منشیات کو تباہ کرو، اور کشتی پر موجود 11 افراد کو ہلاک کرو۔
مزید پڑھیں: کیریبین میں مبینہ منشیات سے بھری کشتی پر امریکا کا حملہ، 3 افراد ہلاک
انہوں نے بتایا کہ ویڈیو میں دکھایا گیا کہ حملے کے بعد بچ جانے والے 2 افراد نیم برہنہ حالت میں ایک الٹی ہوئی اور ناکارہ کشتی کے اگلے حصے سے چمٹے سمندر میں بمشکل تیررہے تھے، جب تک کہ میزائل نے انہیں نشانہ نہیں بنالیا۔
اس واقعے سے پہلے بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں ان حملوں کو ماورائے عدالت قتل قرار دے چکی ہیں۔
اسی ہفتے کولمبیا کے ماہی گیر الیخاندرو کارانزا کے خاندان نے ایک علاقائی انسانی حقوق کے ادارے میں شکایت درج کرائی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ الیخاندرو کارانزا کی زندگی کا حق اس وقت پامال ہوا جب ستمبر میں ایک امریکی حملے میں انہیں غلطی سے قتل کر دیا گیا۔
مزید پڑھیں: مشرق وسطیٰ میں امریکا کے جنگی اثاثے کیا ہیں اور کہاں کہاں موجود ہیں؟
ٹرمپ انتظامیہ ان کارروائیوں کو نام نہاد ’نارکو دہشت گردوں‘ کے خلاف ایک وسیع جنگ کا حصہ قرار دیتی ہے، حالانکہ کانگریس نے کسی جنگ یا طاقت کے استعمال کی باقاعدہ منظوری نہیں دی۔
تازہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکا وینیزویلا کے ساحل کے قریب فوجی اثاثے مزید بڑھا رہا ہے، اور صدر ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ زمینی حملے ’بہت جلد‘ ہو سکتے ہیں۔
وینیزویلا کے صدر نکولس مادورو کا کہنا ہے کہ امریکا کا دباؤ ان کی حکومت کو گرانے کی کوشش ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسمگلنگ امریکا ایڈمرل بریڈلی ایوان نمائندگان بحرالکاہل جنگی جرم ڈٰیموکریٹ کشتی کیپٹل ہل کیریبین منشیات