پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے مانسہرہ سے چین (سنکیانگ) تک مجوزہ نئی سڑک کی منظوری نے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ خطے میں بھی جیو اکنامک اور جیو اسٹریٹجک بحث کو جنم دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک فیز ٹو کی رفتار میں اضافہ، اقتصادی زونز کے ذریعے 2030 تک 10 ارب ڈالر سرمایہ کاری ہدف

اس منصوبے کو بعض حلقوں میں وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی کے لیے افغانستان کے روایتی زمینی راستے کے ممکنہ متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے تاہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی افغانستان کا مکمل نعم البدل بن سکتا ہے؟

وفاقی حکومت کے مطابق یہ سڑک دراصل قراقرم ہائی وے کی اپ گریڈ اور متبادل الائنمنٹ کے طور پر دیکھی جا رہی ہے جو مانسہرہ، ناران، کاغان اور گلگت بلتستان سے ہوتے ہوئے خنجراب پاس کے ذریعے چین سے منسلک ہوگی۔

اس منصوبے کا بنیادی مقصد چین پاکستان اقتصادی راہداری کو مزید محفوظ اور تمام موسموں کے لیے مؤثر بنانا اور تجارت، سیاحت اور دفاعی لاجسٹکس کو بہتر بنانا ہے۔

جیو اکنامک زاویے سے دیکھا جائے تو یہ روٹ پاکستان کو چین کے موجودہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو نیٹ ورک سے براہ راست جوڑے گا۔

اس نیٹ ورک کے ذریعے پاکستان بالواسطہ طور پر قازقستان، کرغزستان، ازبکستان اور دیگر وسط ایشیائی ریاستوں تک زمینی رسائی حاصل کر سکتا ہے۔

مزید پڑھیے: سی پیک فیز 2 میں کون سے 5 نئے کوریڈور شامل ہیں؟ احسن اقبال نے بتا دیا

اس لحاظ سے یہ راستہ افغانستان پر پاکستان کے انحصار کو کسی حد تک کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب افغانستان میں سیاسی عدم استحکام، سیکیورٹی خدشات اور بارڈر بندشیں تجارت کے لیے مستقل رکاوٹ بنتی رہی ہیں۔

روٹ مکمل طور پر افغانستان کا متبادل نہیں بن سکتا

تاہم زمینی حقائق یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ روٹ افغانستان کا مکمل متبادل نہیں بن سکتا۔

افغانستان کے ذریعے پاکستان کو وسط ایشیا تک جو راستہ ملتا ہے، وہ جغرافیائی لحاظ سے کم فاصلے، کم لاگت اور سیدھی ٹرانزٹ لائن پر مشتمل ہے، مثلاً پاکستان طورخم کابل ترمذ (ازبکستان)۔ اس کے برعکس مانسہرہ چین روٹ طویل ہے اور اس میں کم از کم 2 ممالک (پاکستان اور چین) کے کسٹمز، ضوابط اور لاجسٹک مراحل شامل ہوں گے جس سے لاگت اور وقت دونوں میں اضافہ ہوگا۔

اس منصوبے کو مکمل متبادل کے بجائے ایک اسٹریٹجک بیک اپ یا ’سیکنڈ کوریڈور‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ یعنی اگر افغانستان کے ذریعے وسط ایشیا تک رسائی کسی سیاسی یا سیکیورٹی بحران کی وجہ سے معطل ہو جائے تو پاکستان کے پاس چین کے راستے ایک قابل عمل متبادل موجود ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس سڑک کو معاشی منصوبے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جیو اکنامک سیکیورٹی اسٹریٹیجی کا حصہ بھی سمجھا جا رہا ہے۔

نتیجتاً مانسہرہ سے چین تک نئی سڑک افغانستان کو مکمل طور پر بائی پاس کرنے کے بجائے پاکستان کو خطے میں رسائی کے مزید آپشنز فراہم کرتی ہے۔

مزید پڑھیں: سرحد اور سی پیک کی حفاظت کے لیے 50 ارب روپے کی اضافی رقم کی منظوری

طویل المدت تناظر میں یہ منصوبہ پاکستان کے لیے خطرات کم کرنے، چین کے ساتھ اقتصادی شراکت داری کو مضبوط بنانے اور وسط ایشیا سے روابط کے دائرے کو وسیع کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے مگر افغانستان کا روایتی زمینی راستہ اپنی جغرافیائی اور معاشی افادیت کے باعث بدستور اہم رہے گا۔

حکومت مجوزہ سڑک کے حوالے سے کیا کہتی ہے؟

5 دسمبر کو وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم خان نے اعلٰی سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئےکہا کہ مانسہرہ، ناران، جلکھڈ اور چلاس سے گزرتی ہوئی نئی این۔15 ہائی وے جو موٹروے کے معیار کی ہوگی، چین کی سرحد تک قراقرم ہائی وے کے لیے متبادل راستہ فراہم کرے گی۔ اس کے علاوہ شمالی علاقوں میں سیاحت، تجارت اور دفاع کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قراقرم ہائی وے کے مقابلے میں یہ نیا راستہ سفر کا فاصلہ اور وقت نمایاں طور پر کم کرے گا، جبکہ سڑک کی چوڑائی اور اعلیٰ معیار کے باعث اس پر 60 سے 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار بآسانی برقرار رکھی جا سکے گی۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک دوسرے مرحلے میں داخل، 5 نئے راہداری منصوبے شامل ہوں گے، وزیراعظم شہباز شریف

عبدالعلیم خان کا مزید کہنا تھا کہ کوشش کی جائے گی کہ اس منصوبے کو 2 برس کے اندر مکمل کیا جائے کیونکہ مستقبل میں یہ شاہراہ وسط ایشیا تک رسائی کے لیے ایک محفوظ تجارتی راہداری کے طور پر بھی کام کر سکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان چین سنکیانک سی پیک مانسہرہ مانسہرہ تا سنکیانک سڑک.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان چین سنکیانک سی پیک مانسہرہ تا سنکیانک سڑک افغانستان کا وسط ایشیا تک کے ذریعے ہائی وے کے لیے سی پیک

پڑھیں:

بانی سے 10ویں بار ملاقات کی کوشش، وزیراعلیٰ کے پی اسلام آباد پہنچ گئے، اراکین کو پہنچنے کی ہدایت

وزیراعلی خیبر پختونخواہ سہیل آفریدی 10ویں بار بانی چیئرمین سے ملاقات کے لیے اسلام آباد پہنچ گئے۔

خیبرپختونخوا حکومت کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ سہیل آفریدی جمعرات کو دسویں بار بانی چیئرمین سے ملاقات کی کوشش کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلی خیبرپختونخوا سہیل آفریدی وزارت اعلی کا منصب سنبھالنے کے بعد بانی چیئرمین سے ملاقات کی کوشش کررہے ہیں لیکن 9 بار کوشش کے باوجود انھیں ملاقات کی اجازت نہیں مل رہی اور وہ آج دسویں بار بانی چیرمین سے ملاقات کی کوشش کریں گے۔

وزیراعلی نے تمام حکومتی ارکان اسمبلی کو اڈیالہ جیل پہنچنے کی ہدایت کی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں مہنگائی مزید بڑھ سکتی ہے‘ آئی ایم ایف کا انتباہ
  • پاکستان انڈر 19 ٹیم اے سی سی ایشیا کپ میں شرکت کیلیے دبئی پہنچ گئی
  • بانی سے 10ویں بار ملاقات کی کوشش، وزیراعلیٰ کے پی اسلام آباد پہنچ گئے، اراکین کو پہنچنے کی ہدایت
  • آئی ایم ایف نے پاکستان میں مہنگائی میں اضافے کا خدشہ ظاہر کردیا
  • اسپیکر کی اپوزیشن کو پھرمذاکرات کا راستہ اپنانے کی تجویز
  • طالبان کی ضد نے افغانستان کی معیشت ڈبو دی، کراچی کا راستہ بند ہونے سے اشیا کی لاگت دگنی ہوگئی
  • ہزارہ ڈویژن پاکستان کے قدرتی وسائل کا مرکز ہے‘ممتاز حسین
  • 2050 تک عالمی فضائی سفر 12.4 ارب مسافروں تک پہنچنے کا امکان، انٹرنیشنل سول ایوی ایشن
  • سارک چارٹر سے خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے،صدر ایف پی سی سی آئی