میرٹ کی جنگ میں کراچی کے طلبہ تنہا؛ کیا کوئی سنے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251212-03-3
کراچی کے تعلیمی مستقبل کے ساتھ یہ مسلسل ناانصافی کب ختم ہوگی؟ یہ شہر جو پورے ملک کی معاشی ریڑھ کی ہڈی ہے، جہاں کے بچے روزانہ ہزاروں مشکلات، ٹریفک، شور، اکیڈمک پریشر، مہنگی کوچنگ، اور محدود تعلیمی سہولتوں کے باوجود شب و روز محنت کرتے ہیں، انہیں ہر سال صرف اس لیے دھکیل دیا جاتا ہے کہ ان کے پاس نہ طاقت ہے نہ سفارش۔ کراچی کے تعلیمی ادارے برسوں سے زبوں حالی کا شکار ہیں، سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی کمی، لیب اور لائبریری کا فقدان، اور امتحانی سسٹم کی سختی کے باوجود یہاں کے طلبہ بہتر سے بہتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ جب بات سب سے اہم مرحلے میڈیکل داخلوں پر آتی ہے تو ان کی محنت کو بیرونی امیدواروں کی جعلی رپورٹس، غیر منصفانہ میرٹ، اور کمزور نظام کے نیچے دفن کر دیا جاتا ہے۔ کراچی کے بچوں سے صرف اکیڈمک نہیں بلکہ بنیادی انصاف بھی چھینا جا رہا ہے، اور یہ ظلم اب ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔
کراچی کے سرکاری تعلیمی بورڈ سے انٹر کرنے والے طلبہ و طالبات ایک بار پھر میڈیکل کالجوں میں داخلوں سے محروم رہے اور یہ المیہ نئی بات نہیں بلکہ کئی برسوں سے جاری حقیقت ہے۔ ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کی 3 دسمبر 2025 کو جاری کردہ ایم بی بی ایس داخلہ فہرست نے شہر بھر میں شدید بے چینی پیدا کی ہے، کیونکہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی کراچی بورڈ کے طلبہ بڑے پیمانے پر نظرانداز ہوئے ہیں۔ میرٹ پالیسی کی شفافیت، انتظامی ساکھ اور داخلہ طریقہ کار پر سنگین سوالات نے نہ صرف والدین کو پریشان کیا ہے بلکہ کراچی کے تعلیمی مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
داخلہ فہرست میں ایسے امیدوار شامل ہیں جن کے انٹرمیڈیٹ کے نمبر غیر معمولی حد تک زیادہ ہیں، ایسے نمبر جو کراچی کے سخت امتحانی معیار میں لینا تقریباً ناممکن ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس کراچی کا انٹر نتیجہ اس سال بھی کم رہا جبکہ ایم ڈی کیٹ 2025 کو پورے ملک میں سخت ترین امتحان قرار دیا گیا تھا، مگر حیرت انگیز طور پر وہی امیدوار کراچی کی 860 ایم بی بی ایس سیٹوں میں سے 500 سے زائد سیٹیں لے اڑے۔ یہ توازن خود بخود اس نظام کی شفافیت پر بڑا سوال اُٹھاتا ہے جہاں کراچی کا طالب علم اپنی اصل محنت کے باوجود مقابلے سے باہر کر دیا جاتا ہے۔
تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اندرونِ سندھ کے درجنوں امیدواروں نے جعلی کراچی ڈومیسائل بنوا کر کراچی کوٹے پر داخلے حاصل کیے۔ یہ صرف ضابطہ جاتی غلطی نہیں بلکہ کراچی کے حق پر براہ راست ڈاکا ہے۔ ڈومیسائل ویریفکیشن بورڈ اور داخلہ کمیٹیاں اپنی بنیادی ذمے داری نبھانے میں بری طرح ناکام رہیں۔ مزید افسوسناک انکشاف یہ ہے کہ کچھ ایسے امیدوار بھی داخلہ فہرست میں شامل ہیں جنہوں نے ایم ڈی کیٹ 2025 کا امتحان ہی نہیں دیا تھا، مگر پھر بھی انہیں میڈیکل کالجوں میں نشستیں الاٹ کر دی گئیں۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ڈاؤ یونیورسٹی کی انتظامیہ داخلی بے ضابطگیوں، مبینہ کرپشن اور بدترین غفلت میں مبتلا ہے۔ یہ معاملہ صرف ڈاؤ تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، وفاقی وزیر ِ صحت، اور سندھ کے صوبائی وزیر ِ صحت کی نااہلی کا ثبوت بھی ہے۔ اگر ادارے اپنی نگرانی، اسکروٹنی اور میرٹ پالیسی پر عمل درآمد کو سنجیدگی سے لیتے تو ایسے جعلی ڈومیسائل، مشکوک اسناد اور غلط میرٹ لسٹیں کبھی سامنے نہ آتیں۔ لیکن افسوس کہ کراچی کی آبادی اور اس کے وسائل کو استعمال کرنے والے ادارے جب کراچی کی نوجوان نسل کے مستقبل پر بات آتی ہے تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔
کراچی کے عوام کا سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ شہر سے مینڈیٹ لینے والی سیاسی جماعتیں اس سنگین ناانصافی پر ایک لفظ تک نہیں بول رہیں۔ ہر انتخابی جلسے میں کراچی کے حقوق کا راگ الاپنے والے رہنما آج ان بچوں کی آواز بننے کے لیے تیار نہیں۔ گزشتہ سال بھی یہی مسئلہ سامنے آیا تھا، عدالتوں تک بات گئی، میڈیا نے اُٹھایا، احتجاج ہوئے، مگر اصلاحات نہ ہوئیں اور اس سال دوبارہ وہی معاملہ سامنے آ گیا۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ کراچی کا مینڈیٹ لینے والے اس وقت تو بڑے دعوے کرتے ہیں جب ووٹ چاہیے ہوتا ہے، مگر جب شہر کا مستقبل لٹ رہا ہو تو سب اپنی ذمے داریوں سے نظریں چرا لیتے ہیں۔
کراچی کے طلبہ آج دہائی دے رہے ہیں کہ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو آنے والے برسوں میں صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔ ایسا لگتا ہے جیسے کراچی کے بچوں کے ساتھ ایک منظم ظلم کیا جا رہا ہو، اور ان کی محنت کو کسی منفی نظام کے نیچے روند دیا جاتا ہو۔ طلبہ نے چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر ِ اعلیٰ سندھ، اور پی ایم ڈی سی سے فوری شفاف انکوائری کا مطالبہ کیا ہے تاکہ کراچی کے بچوں کو ان کا حق مل سکے۔ یہ صرف داخلوں کا مسئلہ نہیں بلکہ نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ اگر اس شہر کے بچوں کے ساتھ یہ ناانصافی اسی طرح جاری رہی تو کراچی کی محنتی نسل مایوسی، بیگانگی، اور عدم اعتماد کا شکار ہوتی چلی جائے گی، اور یہ وہ نقصان ہوگا جس کا ازالہ صرف بہتر پالیسیوں سے نہیں بلکہ مضبوط اور منصفانہ نظام سے ہی ہو سکے گا۔ کراچی صرف احتجاج نہیں چاہتا، کراچی انصاف چاہتا ہے اور وہ بھی اب، اسی وقت، بغیر کسی تاخیر کے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نہیں بلکہ کراچی کے دیا جاتا کراچی کی کہ کراچی کے طلبہ کے بچوں نے والے
پڑھیں:
ایک مائنس ہوا تو کوئی بھی باقی نہیں رہے گا،تحریک انصاف
حالات کنٹرول میں نہیں آئیں گے، یہ کاروباری دنیا نہیں ہے کہ دو میں سے ایک مائنس کرو تو ایک رہ جائے گا، خان صاحب کی بہنوں پر واٹر کینن کا استعمال کیا گیا،چیئرمین بیرسٹر گوہر
کیا بشریٰ بی بی کی فیملی پریس کانفرنسز کر رہی ہے ان کی ملاقاتیں کیوں نہیں کروا رہے؟ آپ اس مرتبہ فیڈریشن کے یونٹس کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر رہے ہیں، میڈیا سے گفتگو
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ اگر ایک مائنس ہوا تو اس کے بعد ایک بھی باقی نہیں رہے گا، حالات آپ کے کنٹرول میں نہیں آئیں گے۔پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ کاروباری دنیا نہیں ہے کہ دو میں سے ایک مائنس کرو تو ایک رہ جائے گا، اگر ایک مائنس ہوا تو اس کے بعد ایک بھی باقی نہیں رہے گا، خان صاحب کی بہنوں پر واٹر کینن کا استعمال کیا گیا، "Enough is enough”۔انہوں نے کہا کہ خان صاحب سے ملاقاتوں کی اجازت نہیں ہے جو ملاقاتوں کے لیے آتا ہے اس پر واٹر کینن کا استعمال کیا جاتا ہے، اگر وہ دو گھنٹے تک اور بیٹھے رہتے تو ملک اور قوم کا کیا نقصان ہو جاتا۔بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آپ یہ بہانہ لگا رہے ہیں کہ خان کی ٹویٹ کی وجہ سے ملاقات نہیں ہو رہی، کیا بشریٰ بی بی کی فیملی پریس کانفرنسز کر رہی ہے ان کی ملاقاتیں کیوں نہیں کروا رہے؟۔انہوں نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے کچھ نہیں ہوگا لیکن پھر ایسا ہوگا جو کسی کے کنٹرول میں نہیں ہوگا، ہم سسٹم کا حصہ اس لیے ہیں تاکہ ملک میں جمہوریت برقرار رہے، ہم اس وقت تین کروڑ عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز صوبائی اسمبلی میں ایک قرار داد منظور ہوئی ہے، آپ اس مرتبہ فیڈریشن کے یونٹس کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر رہے ہیں، آپ پی ٹی آئی پر کیا بین لگانے جا رہے ہیں؟، ابھی تک تو اپ نے سرٹیفیکیٹ ہی نہیں قبول کیا، اگر یہی حالات رہے تو مہینے میں بھی حالات آپ کے کنٹرول میں نہیں آئیں گے۔