معرکہ حق میں فتح سے مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی بحث کا موضوع بن گیا ہے، وفاقی وزیر
اشاعت کی تاریخ: 10th, December 2025 GMT
اسلام آباد:
وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان امیرمقام نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی منظم اور سنگین خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مسئلے کے فوری حل کا مطالبہ کیا اور کہا کہ معرکہ حق میں فتح سے مسئلہ کشمیر ایک بات پھر عالمی بحث کا موضوع بن گیا ہے۔
عالمی یوم انسانی حقوق کے موقع پر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز اور کشمیر پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام "کشمیری لوگ حقوق کے حامل ہیں، محض تابع نہیں" کے عنوان سے ایک اہم سیمینار جموں و کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا، جس میں سیاسی رہنماؤں، سابق سفیروں، انسانی حقوق کے ماہرین، محققین، میڈیا کے نمائندگان اور طلبہ نے شرکت کی۔
وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان امیر مقام نے کہا کہ کشمیر ایک متنازع خطہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا ہے، مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان نے طاقت کے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے لیکن کشمیریوں کا جذبہ ازادی نہیں دبا سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور کشمیری عوام کو سلام پیش کرتا ہوں، حکومت آزاد کشمیر کے عوام کی بہتری کے لیے ہر ممکن اقدامات کر ے گی، معرکہ حق میں فتح نے کشمیر کے مسئلے کو ایک بار پھر عالمی بحث کا موضوع بنا لیا ہے۔
مقررین نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے موجودہ حالات اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر، انسانی حقوق کے عالمی چارٹر اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے عہدناموں میں درج حقِ خودارادیت کو کشمیری عوام کا بنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہندوستان اور پاکستان کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ کشمیر کا تنازع اقوام متحدہ کی سطح پر تسلیم شدہ ہے اور ابھی تک حل طلب ہے، بھارت کی جانب سے آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ، پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے جیسے قوانین کے ذریعے انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں منظم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جس میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، گرفتاریوں کا غلط استعمال، گھروں کی مسماری اور املاک کی ضبطی شامل ہیں، جس کی مذمت کی گئی۔
سیمینار کے مقررین نے بھارتی حکومت مذہبی اور ثقافتی شناخت تبدیل کرنے کی کوششوں، کتابوں پر پابندیوں اور "جعلی معمول کی صورت حال" کے سرکاری بیانیے کو مسترد کیا گیا۔
بھارت اور بیرون ملک کشمیری طلبہ اور پیشہ وروں کو ہراساں کرنے کی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
مقررین نے کہا کہ کشمیری عوام 5 اگست 2019 کے بھارتی یک طرفہ اقدامات اور آرٹیکل 370 و 35اے کی منسوخی کو مسترد کرتے ہیں، اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کی 2018 اور 2019 کی رپورٹس اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندگان کی نگرانی کو سراہا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کو اقوام متحدہ کے نظام سے عدم تعاون اور مبصرین کو رسائی نہ دینے پر جواب دہ ٹھہرایا جائے اور مطالبہ کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں تمام سیاسی قیدیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کی فوری رہائی عمل میں لائی جائے اور انسانی حقوق کی ہر قسم کی منظم خلاف ورزیوں کو فوری روکا جائے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظالمانہ کالے قوانین ختم کیے جائیں۔
اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کو کشمیر پر اپنی طویل عرصے سے زیر التوا تیسری رپورٹ جاری کرنے کی اپیل کی گئی اور مقررین نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کہ بھارت کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں پر جواب دہ بنایا جائے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ اپنی منظور شدہ قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنائے اور کشمیری عوام کو آزادانہ استصواب رائے کا حق فراہم کیا جائے۔
مقررین نے خبردار کیا کہ اگر تنازع حل نہ ہوا تو مئی 2025 کے بعد صورت حال سنگین عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے جو علاقائی و عالمی امن کے لیے خطرناک ہے، اس خطے میں امن و سلامتی تنازع کشمیر کے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل میں مضمر ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تشویش کا اظہار اقوام متحدہ کے خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے انسانی حقوق کی کشمیری عوام نے کہا کہ کشمیر کے
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر: اقوامِ متحدہ کی ہوشربا رپورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251208-03-2
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی ریاستی جبر کوئی نئی بات نہیں، لیکن نریندر مودی کے دورِ اقتدار نے اس تاریک تاریخ میں سفاکیت اور انسانیت سوز رویّوں کا ایسا اضافہ کیا ہے جس پر عالمی برادری بھی اب خاموش نہیں رہ سکتی۔ اقوامِ متحدہ کے ماہرین کی حالیہ رپورٹ نے اس ظلم کی وہ پرتیں کھولی ہیں جنہیں دہائیوں سے بھارتی پروپیگنڈا اور میڈیا سنسرشپ کے پردوں میں چھپایا جاتا رہا ہے۔ مودی سرکار کی حکومت، جس کی بنیاد ہندو انتہا پسندی اور طاقت کے زعم پر قائم ہے، نے پوری وادی کو ایک ایسی جیل میں بدل دیا ہے جہاں سانس لینا بھی جرم سمجھا جاتا ہے۔ حالیہ پہل گام حملے کے بعد بھارتی اقدامات کے نام پر جو کارروائیاں کی گئیں، وہ کسی جمہوری ملک کی نہیں بلکہ ایک جابرانہ ریاست کی نشانی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے مناسب الفاظ میں جس تشویش کا اظہار کیا ہے، وہ دراصل اس حقیقت کی گونج ہے کہ جموں و کشمیر انسانی حقوق کی بدترین پامالی کا میدان بن چکا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کی موجودگی اور عالمی نظرثانی کے باوجود بھارت نے جس بے حسی اور سنگدلی کے ساتھ وہاں کے مقامی لوگوں کا بنیادی حق چھینا ہے، وہ مودی حکومت کے سفاک چہرے کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق بھارتی حکام نے انتہا پسندی کے نام پر 2,800 سے زائد افراد کو گرفتار کیا، جن میں انسانی حقوق کے محافظ، مقامی رہنما، صحافی اور نوجوان شامل ہیں۔ ان میں سے کئی افراد آج بھی بلاجواز نظربند ہیں، جب کہ تشدد، جعلی مقابلوں اور مشتبہ ہلاکتوں کا سلسلہ مودی حکومت کے اشارے پر جاری ہے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جنہیں کسی بھی حوالے سے سیکورٹی پالیسی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ کشمیریوں کی آواز دبانے کی ایک منظم کوشش کا حصہ ہیں۔ مودی سرکار کے ہندو قوم پرست نظریات کے زیر ِ سایہ مسلمانوں اور کشمیری عوام کے خلاف نفرت کو حکومتی پالیسیوں کا حصہ بنایا جا چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں 1,900 مسلمانوں کی غیر قانونی ملک بدری، املاک کے انہدام، اور روز مرہ زندگی میں آئے روز ہونے والی ہراسانی کا ذکر صرف اعداد وشمار نہیں بلکہ ظلم کی وہ زندہ حقیقت ہے جسے دنیا اب مزید نظرانداز نہیں کر سکتی۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی رویہ صرف سماجی نفرت کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھنے والی منظم مہم ہے، جس کا مقصد ایک کثیرالثقافتی ملک کو ہندو راج کی شکل دینا ہے۔ بھارت کی جانب سے رابطوں کی بار بار بندش، میڈیا پر قدغن، صحافیوں کی گرفتاری، اور انٹرنیٹ کی مسلسل معطلی صرف اسی لیے ہے کہ سچ دنیا تک نہ پہنچ سکے۔ کسی بھی معاشرے میں صحافت کو خاموش کرنا ریاستی دہشت گردی کی سب سے بھیانک مثال ہے اور مودی حکومت نے اس ہتھیار کو بار بار استعمال کیا ہے۔ آج کشمیر دنیا کا وہ خطہ ہے جہاں سچ بولنا جرم اور سچ سننا ناقابل ِ معافی گناہ قرار دے دیا گیا ہے۔ بھارتی انسدادِ دہشت گردی قوانین کا اصل مقصد دہشت گردی روکنا نہیں بلکہ ریاستی جبر کو قانونی لبادہ پہنانا ہے۔ ان قوانین کے تحت نوجوانوں کو اٹھا کر غائب کر دینا، بغیر مقدمے کے برسوں جیلوں میں رکھنا، اور جب چاہے جھوٹے الزامات لگا دینا معمول بن چکا ہے۔ عالمی تنظیمیں بارہا کہہ چکی ہیں کہ یہ قوانین بھارت کے آئین، بین الاقوامی انسانی حقوق کے منشور اور بنیادی انصاف کے اصولوں سے براہ راست متصادم ہیں، لیکن مودی حکومت اپنی سیاسی بقا کے لیے ان قوانین کو استحصال کا ذریعہ بنائے ہوئے ہے۔ کشمیری 75 سال سے ظلم سہنے کے باوجود آزادی کی امید پر جدوجہد جارہے رکھے ہوئے ہیں اور پرعزم ہیں۔ بھارت جتنا بھی جبر کرے، رابطے بند کرے، آوازیں دبائے، یا نوجوانوں کو لاپتا کرے،کشمیر کی مزاحمت آج بھی اسی مضبوطی سے کھڑی ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے جس خوفناک صورتحال کی نشاندہی کی ہے، وہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کشمیر کا معاملہ محض سرحدی تنازع نہیں، یہ انسانیت، انصاف، اور بنیادی حقوق کی جنگ ہے۔ بھارتی ظلم و جبر کے مقابلے میں کشمیریوں کا حوصلہ آج بھی بلند ہے، اور جب تک وادی میں آزادی کی خواہش کا چراغ روشن ہے، ظلم کی یہ سیاہ رات ختم ہوکر رہے گی۔ ظلم کی حکومت کبھی قائم نہیں رہتی اور مودی سرکار کی سفاک پالیسیوں کا انجام بھی اسی اصول کے مطابق تاریخ کے کوڑے دان میں لکھا جائے گا۔