Jasarat News:
2025-12-04@23:08:33 GMT

رشتوں کا انتخاب

اشاعت کی تاریخ: 5th, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

رشتوں کے انتخاب کا معیار کیا ہو، اس بارے میں قرآن مجید کی ایک آیت سے ہمیں بہت واضح اور فیصلہ کن رہنمائی ملتی ہے، سورہ تحریم میں اللہ تعالی ازواج مطہرات کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ اگر نبی تم کو طلاق دے دیں تو بہت ممکن ہے کہ اللہ تمہاری جگہ انہیں تم سے بہتر بیویاں عطا کردے، جو مسلمہ ہوں، مومنہ ہوں، قانتہ ہوں، تائبہ ہوں، عابدہ ہوں، سائحہ ہوں، اور غیر کنواری بھی ہوں اور کنواری بھی ہوں (التحريم: 5)۔

مفسرین کو اس مقام پر سخت حیرانی ہوئی کہ جب موجودہ بیویوں کی نعم البدل بیویوں کی بات کی جارہی ہے تو ثیبات کا ذکر کیوں کیا گیا، صرف کنواری کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا، مردوں کی رغبت تو کنواری عورت کی طرف زیادہ ہوتی ہے، اور کسی کا ثیب ہونا تو ایک عیب قرار پاتا ہے، اس حیرانی کو دور کرنے کے لیے امام رازی نے عجیب وغریب بات کہی:
ثیبات کو مدح کے مقام میں ذکر کیا گیا، حالانکہ ان کی طرف تو مردوں کی رغبت کم ہوتی ہے، ہم کہتے ہیں: ہوسکتا ہے کہ بعض ثیبات رسول پاک کے نزدیک بعض کنواریوں سے بہتر ہوں مال یا جمال یا نسب یا ان سب کے مجموعے میں خصوصی مقام رکھنے کی وجہ سے، اور اگر ایسا ہے تو ثیبات کو مدح کے مقام پر ذکر کرنے میں کوئی عیب کی بات نہیں ہے، کیوں کہ ہوسکتا ہے ثیبات سے مراد ویسی ثیبات ہوں جن کا ہم نے ذکر کیا (تفسير الرازی)۔

گویا امام صاحب کے لیے یہ ماننا ممکن نہیں تھا کہ ثیب ہونا ایک خوبی بھی ہوسکتی ہے، یا کم از کم بکر کے درجے کی صفت تو ہو ہی سکتی ہے۔
امام ابن کثیر نے اس مشكل کو دوسرے طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
کچھ ثیبات اور کچھ کنواریاں ہوں گی کہ یہ نفس کے لیے زیادہ لذت بخش ہے، کیونکہ تنوع سے نفس کو فرحت حاصل ہوتی ہے۔
امام ابن عاشور نے آیت کی روح برقرار رکھتے ہوئے دونوں کی خوبیوں پر گفتگو کی ہے، اور واضح کیا ہے کہ دونوں کیفیتیں اپنی اپنی جگہ خوبی قرار پاسکتی ہیں، وہ رقم کرتے ہیں:
آیت مذکورہ سے یہ بات تو بہت واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ قابل ترجیح وانتخاب خاتون دراصل وہ ہے جو دینی اوصاف سے مالا مال ہو، اس کے علاوہ وہ ثیب ہو یا بکر ہو، دونوں ہی موزوں اور لائق انتخاب ہوتی ہیں، شریعت کی نظر میں بھی اور عقل وخرد کی رو سے بھی دونوں میں کسی کو کسی پر ترجیح اور فوقیت حاصل نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے اس آیت میں پہلے ثیبات کا تذکرہ کرکے بکر کو ثیب پر ترجیح دینے کا ایک ممکنہ راستہ بھی بند کردیا، ورنہ اگر ابکار پہلے ہوتا تو اس کے مقدم ہونے کو اس کی افضلیت پر محمول کیا جاسکتا تھا (التحرير والتنوير)۔

سورہ احزاب کی آیت نمبر (36) کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ قرطبی بڑی قیمتی اور اہم حقیقت پر سے پردہ اٹھاتے ہیں:
س آیت میں صریح دلیل ہے کہ حسب ونسب میں کفائت معتبر نہیں ہے، بلکہ دین میں کفائت معتبر ہے، برخلاف مالک شافعی مغیرہ اور سحنون کے۔ اس لیے کہ موالی نے قریش میں شادیاں کیں، زید نے زینب بنت جحش سے، مقداد بن أسود نے ضباعہ بنت زبیر سے، ابوحذیفہ نے سالم کی شادی فاطمہ بنت ولید بن عقبہ سے کرادی، اور بلال نے عبدالرحمن بن عوف کی بہن سے شادی کی (تفسير القرطبي)۔
یہی وہ بڑی تبدیلی ہے جو اللہ کے رسولؐ کی اصلاحی جدوجہد کے نتیجے میں ظاہر ہوئی تھی۔ اس روشن تاریخی حقیقت کو بے غبار رکھنا ہماری ذمے داری ہے۔

رشتوں کے معیار انتخاب کے تعلق سے اسلامی لٹریچر میں بہت ساری باتیں ملتی ہیں، فقہاء نے روایات وآثار کی روشنی میں قواعد وضوابط اور آداب ومندوبات پر بھی گفتگو کی ہے، اس باب میں متعدد روایات وآثار ہیں، جن میں سے بعض کا یہاں ذکر کیا گیا ہے، تاہم اس بات پر ہمیں پورا اطمینان ہونا چاہیے کہ صالحیت اور دینداری کو معیار بنانے کا جن روایتوں میں تذکرہ ہے، وہی اس باب میں اصل الاصول کی حیثییت رکھتی ہیں، اور ان کے علاوہ جو روایتیں ہیں، وہ چونکہ اپنے مکمل سیاق کے ساتھ ہم تک نہیں پہنچی ہیں، اس لیے ان کے سلسلے میں توقف کرنا ہی محتاط رویہ ہے۔ ہم روایات کی تصحیح وتضعیف، اور ان کی توجیہ وتاویل سے متعلق جو رویہ بھی اختیار کریں، ہماری نظر سے یہ حقیقت اوجھل نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ کے رسولؐ پوری امت کے خیرخواہ اور ہمدرد تھے، آپؐ کی پوری زندگی انسانوں سے ہمدردی کی تصویر تھی، اور آپ نے ایسے افراد تیار کیے تھے جو ذاتی مصالح سے زیادہ انسانی ہمدردی کے جذبے سے سرشار تھے، انسانی ہمدردی سیرت طیبہ کا بہت نمایاں امتیاز ہے۔ اس امتیاز پر کوئی آنچ نہیں آئے یہ ہم سب کی ذمے داری ہے۔

رشتوں کے انتخاب کا معیار ذکر کرتے ہوئے اخلاقی سطح پر دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
اول، معیار وہ ہو جو ہر کسی کے لیے قابل حصول ہو، اور اس کے حصول کی سعی کرنا اور اس کے لیے مسابقت کرنا مطلوب اور پسندیدہ بھی ہو۔
دوم، معیار ایسا ہو کہ اس کو طے کرنا، اس کو رواج دینا اور اس کا اشتہار کرنا پورے معاشرے کے لیے خیر وبرکت کا باعث ہو، اور اس میں سب کے ساتھ ہمدردی وغمگساری کا تصور موجود ہو۔
ہمیں فخر ہے کہ ہم ایسے نبی کے امتی ہیں جس کی سیرت پاک میں ہمیں معیار انتخاب کے ان دونوں تقاضوں کا بھرپور خیال اور زبردست لحاظ نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر محی الدین غازی گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کیا گیا کے لیے بھی ہو

پڑھیں:

کسی عمل کو معمولی نہ سمجھیے!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اعمال کے مختلف درجات ہیں۔ ان کے اعتبار سے ان پر حاصل ہونے والے اجر وثواب یا سزا و عذاب کے درجات بھی مختلف ہیں۔ کسی نیک عمل پر بڑے اجر وثواب کا وعدہ کیا گیا ہے تو کسی پر اس سے کم تر اجر وثواب کا۔ اسی طرح کسی گناہ کے کام پر دردناک عذاب کی خبر دی گئی ہے تو کسی پر اس سے کم تر عذاب کی۔ لیکن یہ بڑی نادانی کی بات ہوگی کہ کم تر اجروثواب والے عمل کو معمولی اور حقیر سمجھ کر اس پر توجہ نہ دی جائے اور معمولی گناہ کو ہلکا سمجھ کر اس سے بچنے کی کوشش نہ کی جائے۔ جو عمل بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت حاصل کرلے، وہ انسان کو روزِ قیامت سرخ رو کرسکتا ہے، خواہ وہ عام لوگوں کی نظر میں کتنا ہی معمولی اور حقیر کیوں نہ ہو۔ اور جو عمل بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہو، وہ انسان کے لیے موجبِ ہلاکت ہوسکتا ہے خواہ وہ عام لوگوں کی نظر میں کتنا ہی معمولی اور ہلکا کیوں نہ ہو۔ احادیث میں اس پہلو پر بہت زور دیا گیا ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر صحابہ کرامؓ کو بہ تاکید نصیحت فرمائی ہے کہ وہ کسی چھوٹے سے چھوٹے نیک عمل کو معمولی سمجھ کر نظرانداز نہ کریں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو‘‘ (مسلم، ترمذی، سنن ابی داؤد، مسنداحمد)۔
خندہ پیشانی سے پیش آنا: سیدنا ابوذر غفاریؓ بڑے جلیل القدر اور قدیم الاسلام صحابی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبیؐ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو، خواہ یہ تمھارا اپنے بھائی سے خندہ روئی کے ساتھ ملنا ہو (مسلم)۔
کسی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا بظاہر ایک بہت معمولی عمل ہے۔ بسااوقات ہم میں سے کسی کی بھی توجہ اس طرف نہیں جاتی۔ لیکن عملی زندگی میں اس کی بہت اہمیت ہے۔ اس کا احساس ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ہم کسی سے گفتگو کرنا یا اس سے کچھ دریافت کرنا چاہیں اور وہ ہماری طرف التفات نہ کرے یا ترش روئی کے ساتھ جواب دے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر بات کرنے والا یا کچھ دریافت کرنے والا سماجی اعتبار سے کم مرتبے کا ہے تو جواب دینے والا اس کی طرف اس طرح متوجہ نہیں ہوتا جس طرح ہونا چاہیے اور اس کے چہرے پر وہ انبساط نہیں آتا جو مطلوب ہے۔ ایک مومن کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اپنے کسی بھائی سے اس حال میں ملے کہ اس کے چہرے پر تکبر اور رعونت کے آثار ہوں یا وہ بالکل سپاٹ اور انبساط، محبت اور اپنائیت کے احساسات سے عاری ہو۔
سیدنا ابوجری جابر بن سُلیم الھجیمیؓ بصرہ کے رہنے والے تھے۔ ایک وفد کے ساتھ آں حضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! ہم دیہات کے رہنے والے ہیں۔ ہمیں کچھ کارآمد باتوں کی نصیحت فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا: اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو، خواہ یہ تمھارے اپنے ڈول سے کسی پیاسے کے برتن میں پانی انڈیلنا ہو، یا تمھارا اپنے بھائی سے خندہ روئی کے ساتھ گفتگو کرنا ہو (مسنداحمد)۔

دوسری روایت میں ابتدائی الفاظ یہ ہیں: کوئی نیک کام کرنے میں بخل سے کام نہ لو۔
ہجیمی صحابی ہی سے مروی دوسری روایت میں کسی قدر تفصیل ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے آں حضرتؐ سے اچھے کاموں کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:
اچھے کاموں میں سے کسی کام کو معمولی نہ سمجھو خواہ یہ کام ہوں: کوئی چیز باندھنے کے لیے رسّی دینا، جوتے کا تسمہ دینا، اپنے برتن سے پانی کسی پیاسے کے برتن میں انڈیلنا، راستے سے لوگوں کو تکلیف پہنچانے والی کوئی چیز ہٹادینا، اپنے بھائی سے خندہ روئی سے ملنا، ملاقات کے وقت اپنے بھائی کو سلام کرنا، بدکنے والے جانوروں کو مانوس کرنا (مسند احمد)۔
حدیثِ بالا میں جن کاموں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ دیکھنے میں بہت معمولی ہیں۔ روزمرہ کی ضرورت کی چیز کسی کو دینا، کسی پیاسے کو پانی پلانا، کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا، خوش روئی کے ساتھ کسی سے گفتگو کرنا اور اس طرح کے دیگر کام یوں تو بہت معمولی نوعیت کے ہیں۔ اتنے معمولی کہ بسااوقات ان کی طرف ذہن بھی نہیں جاتا۔ لیکن سماجی اور اخلاقی حیثیت سے ان کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ اس لیے انھیں نظرانداز کرنا اور خاطر میں نہ لانا درست رویہ نہیں ہے۔

سادگی سے دعوت اور معمولی تحفے کو حقیر جاننا: عموماً کسی کو دعوت اس موقع پر دی جاتی ہے یا کسی کو کھانا اس وقت کھلایا جاتا ہے جب گھر میں معیاری اور اچھے کھانے کا اہتمام ہو، ورنہ ایسا نہیں کیا جاتا۔ اس لیے کہ کھانے کے معیار کو کھلانے والے کی سماجی حیثیت سے جوڑا جاتا ہے۔ آدمی کسی کو گھر کا عام معیار کا کھانا کھلانے میں اپنی سب کی محسوس کرتا ہے۔ اسے اندیشہ ہوتا ہے کہ کھانے والے اس کے بارے میں پتا نہیں کیا کیا باتیں بنائیں اور کیسے کیسے تبصرے کریں؟ اسی طرح جس کو دعوت دی جاتی ہے وہ بھی کھانے کے معیار کو دعوت دینے والے سے اپنے تعلق کا پیمانہ بناتا ہے۔ دعوت کا زبردست اہتمام اس کے نزدیک قربت اور تعلقِ خاطر پر دلالت کرتا ہے اور اس کا عدم اہتمام تعلقات میں سرد مہری کا پتا دیتا ہے۔ یہی معاملہ تحفے کے لین دین کا بھی ہے۔ تحفہ دینے والے اور تحفہ لینے والے، دونوں کی نظر اس کے معیار اور مالیت پر ہوتی ہے۔ قیمتی تحفے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور معمولی اور کم قیمت تحفے کو کوئی حیثیت نہیں دی جاتی۔ اللہ کے رسولؐ نے اس رجحان پر تنقید فرمائی ہے اور یہ تعلیم دی ہے کہ اصل اہمیت دعوت یا تحفے کو دینی چاہیے نہ کہ اس کے معیار کو۔ اس لیے کہ ایک دوسرے کو دعوت دینے سے تعلقِ خاطر میں اضافہ ہوتا ہے اور تحائف کا تبادلہ کرنے سے باہم محبت بڑھتی ہے۔ صحابیِ رسولؐ سیدنا جابرؓ کی خدمت میں کچھ دوسرے صحابہ ملنے آئے۔ اس وقت ان کے گھر میں صرف روٹی اور سرکہ موجود تھا۔ انھوں نے وہی ان کے سامنے پیش کردیا اور کہا: میں نے اللہ کے رسولؐ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:
بہترین سالن سرکہ ہے۔ اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جس کے پاس اس کے کچھ بھائی آئیں تو اس وقت اس کے گھر میں جو کچھ کھانے کو موجود ہو، اسے ان کے سامنے پیش کرنے میں شرمائے اور ان لوگوں کے لیے بھی ہلاکت ہے جو اس معمولی کھانے کو، جو ان کے سامنے پیش کیا جائے، حقارت سے دیکھیں (مسنداحمد)۔

ایک دوسری حدیث سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبیؐ کا ارشاد ہے: اگر مجھے کھانے کی دعوت دی جائے تو میں قبول کرلوں گا خواہ کھانے میں دست ہو یا پائے۔ اور اگر مجھے تحفہ دیا جائے تو قبول کرلوں گا خواہ تحفہ میں دست ہو یا پائے (بخاری)۔
شاید عورتوں میں یہ جذبہ دوسروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ پایا جاتا ہے۔ وہ کسی کو کھانا کھلانا یا کسی کے یہاں کھانے کی کوئی چیز بھیجنا اس وقت پسند کرتی ہیں جب ان کے یہاں اہتمام ہو۔ دوسری صورت میں انھیں اپنی حیثیت مجروح ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی کے یہاں پڑوس سے کھانے کی کوئی معمولی چیز آگئی تو وہ اسے پسند نہیں کرتیں اور اس میں اپنی تحقیر محسوس کرتی ہیں۔ اسی لیے اللہ کے رسولؐ نے خاص طور سے عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کتنی ہی معمولی چیز کیوں نہ ہو، نہ اسے رشتے داروں اور پڑوسیوں کے یہاں بھیجنے میں شرمانا چاہیے اور نہ جس کے یہاں وہ بھیجی گئی ہو، اسے اس کو حقارت کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ فرمایا کرتے تھے:
اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کو حقارت سے نہ دیکھے خواہ تحفہ میں بھیجی جانے والی چیز بکری کا کھُر ہو (مسلم)۔
معمولی اور حقیر گناہ موجبِ ہلاکت: احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اچھے کاموں میں سے کسی کام کو حقیر اور معمولی سمجھ کر اسے ترک نہیں کرنا چاہیے اسی طرح بُرے اور گناہ کے کاموں میں سے بھی کسی کام کو معمولی سمجھ کر اس کے ارتکاب پر جری نہیں ہونا چاہیے۔ بُرا کام بُرا ہے خواہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ جس طرح قطرہ قطرہ مل کر دریا اور رائی کا ایک ایک دانہ جمع ہوکر پہاڑ بن جاتا ہے اسی طرح اگر انسان معمولی گناہوں سے شعوری طور پر بچنے کی کوشش نہ کرے تو معمولی معمولی بہت سے گناہ اکٹھا ہوکر اس کے لیے موجب ہلاکت بن جائیں گے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے ارشاد فرمایا:
معمولی گناہوں سے بچو، اس لیے کہ وہ اکٹھا ہوکر انسان کے لیے موجب ہلاکت بن سکتے ہیں (مسنداحمد)۔

اسی بات کو آں حضرتؐ نے ایک تمثیل کے ذریعے سمجھایا ہے کہ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کچھ لوگ ایک بیابان میں ٹھیرے۔ وہاں انھیں کھانا پکانے کے لیے ایندھن کی ضرورت پڑی۔ تمام لوگ منتشر ہوگئے اور ایک ایک آدمی ایک ایک لکڑی لے آیا۔ اس طرح انھوں نے ڈھیر سا ایندھن اکٹھا کرلیا اور اس کے ذریعے کھانا تیار کرلیا۔ اسی طرح کہنے کو تو ایک بہت معمولی سا گناہ ہوتا ہے لیکن ایک ایک کرکے انسان بہت سے گناہوں میں لت پت ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہلاکت اور خسران اس کا مقدر بن جاتا ہے (مسنداحمد)۔
دنیا کی کوئی معمولی سے معمولی چیز بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ انسان جو کچھ یہاں کرتا ہے، سب اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہے اور اس کے مقرر کردہ فرشتے اسے نوٹ کرتے رہتے ہیں:
اور لوگو، تم بھی جو کچھ کرتے ہو، اس سب کے دوران میں ہم تم کو دیکھتے رہتے ہیں۔ کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے، نہ چھوٹی نہ بڑی، جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو (یونس: 16)۔
قیامت کے دن بارگاہِ الٰہی میں انسان کا نامۂ اعمال اس کے سامنے پیش کیا جائے گا تو وہ دیکھے گا کہ اس کا معمولی سے معمولی عمل بھی خواہ وہ نیکی کا ہو یا گناہ کا، اس میں درج ہوگا اور اس کے مطابق اس کے ساتھ برتائو کیا جائے گا:
پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لے گا (الزلزال: 7-8)۔
اسی لیے اللہ کے رسولؐ صحابہؓ کو معمولی معمولی گناہوں سے بھی بچنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے اور انھیں ہوشیار کرتے تھے کہ بارگاہِ الٰہی میں ان کا بھی حساب دینا ہوگا۔ اُم المومنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:
اے عائشہ! معمولی گناہوں سے بچو، اس لیے کہ اللہ کے یہاں ان کا بھی حساب ہوگا (مسنداحمد، سنن ابن ماجہ)۔

محمد رضی الاسلام ندوی گلزار

متعلقہ مضامین

  • کسی عمل کو معمولی نہ سمجھیے!
  • مسلم لیگ ن کا سینیٹ ضمنی انتخاب کیلیے عابد شیرعلی کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ
  • چیئرمین ایچ ای سی کا انتخاب یا خالد مقبول کا امتحان؛ ٹاپ امیدواروں کے حتمی انٹرویوز جمعہ کو ہونگے 
  • روسی نژاد جنگی مجنون موساد کا نیا سربراہ بننے کو تیار
  • سینیٹ کی جنرل نشست کے لیے ضمنی انتخاب کا شیڈول جاری
  • مرحوم سینیٹر عرفان صدیقی کی خالی نشست پر ضمنی انتخاب کا اعلان
  • عرفان صدیقی مرحوم کی خالی سینیٹ نشست پر ضمنی انتخاب کا اعلان
  • سینیٹر عرفان صدیقی کی خالی سینیٹ نشست پر ضمنی انتخاب کا اعلان
  • پنجاب میں بلدیاتی نمائندوں کے انتخاب کے نئے طریقہ کار پر اعتراضات