Jasarat News:
2025-12-04@23:08:33 GMT

سیدنا عبدالله بن عباس رضی الله عنہ

اشاعت کی تاریخ: 5th, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سیدنا عبدالله بن عباسؓ خیر القرون کے ان علمائے کبار میں سے ہیں جن کے احسانات علوم ِ اسلامیہ کے ہر شعبے اور ہر شاخ پر ہیں۔ انہیں حبر الامت کہہ کر یاد کیا جاتا ہے۔
آپ حضورؐ کے سگے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ کے فرزند ہیں۔ ہجرت سے پہلے شعب ابی طالب میں بنو ہاشم کی قید کے دنوں میں پیدا ہوئے۔ حضور اکرمؐ نے گھٹی دی، منہ میں اپنا لعاب مبارک ڈالا۔ آپ کی والدہ اُم فضل لبابہ بنت الحارثؓ، اُم المؤمنین سیدہ میمونہؓ اور خالد بن ولیدؓ کی والدہ، یہ تینوں خواتین آپس میں سگی بہنیں تھی۔
سیدنا عبدالله بن عباسؓ حضورؐ کی ہجرت کے وقت تین سال کے تھے۔ ان کے خاندان نے ہجرت نہیں کی تھی، بلکہ اس وقت تک ان کے والد عباسؓ نے اسلام ظاہر بھی نہیں کیا تھا (سیر اعلام النبلاء)۔
ذوالقعدہ7ھ میں عمرہٴ قضا کے موقع پر حضورؐ نے مکہ سے 12 کلو میٹر دور ”سَرِف“ کے مقام پر ان کی خالہ سیدہ میمونہؓ سے نکاح کیا تھا۔ اس نکاح کے انتظامات میں عباسؓ اور ان کی اہلیہ پیش پیش تھے (سنن نسائی)۔

اگلے سال فتح مکہ کے بعد 8ھ کے اواخر میں سیدنا عباس ؓ اپنے خاندان سمیت مدینہ منورہ منتقل ہو گئے۔ اس وقت عبدالله بن عباسؓ کی عمر گیارہ سال تھی۔ حضورؐ سے انہیں تقریباً اڑھائی سال استفادے کا موقع ملا۔ قریبی رشتے داری کی وجہ سے ہر وقت بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوسکتے تھے (سیر اعلام النبلاء)۔
اس مختصر سی مدت میں ہی ان کی عملی جستجو اور طالب علمانہ ذوق کا اندازہ ہو گیا۔ کبھی کبھی اپنی خالہ سیدہ میمونہؓ کے ہاں رات کو بھی ٹھہر جاتے، تاکہ معمولات نبویہ کا مشاہدہ کریں۔ اس دوران ہر ممکن خدمات بھی انجام دیتے اور دعائیں لیتے۔ ایک بار اسی طرح بیتِ نبوی میں ٹھہرے ہوئے تھے تو حضور اکرمؐ کے وضو کے لیے ایک برتن میں پانی ڈال کر رکھ دیا۔ آپؐ نے دیکھا تو دریافت فرمایا: ”پانی کس نے رکھا ہے؟“
سیدہ میمونہؓ نے فرمایا: ”عبدالله بن عباس نے“۔
رسولؐ نے دعا فرمائی: اے الله! اسے فقہ ِ دین اور علم تفسیر عطا فرما (فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل)۔
ایک بار معمولات نبویہ دیکھنے کے لیے خالہ کے گھر رُکے اور تہجد کے وقت حضورؐ کے ساتھ ہی اٹھ گئے۔ حضور اکرمؐ نوافل کے لیے کھڑے ہوئے تو یہ اقتدا کے لیے پیچھے کھڑے ہوگئے۔ حضورؐ نے انہیں کھینچ کر اپنے برابر کھڑا کر دیا۔ جب حضورؐ نے نماز شروع کی تو یہ پھر ذرا سا پیچھے ہٹ گئے۔ جب حضورؐ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”یہ کیا کیا؟“
انہو ں نے عرض کیا: کسی کو کہاں زیب دیتا ہے کہ آپ کے برابر کھڑے ہو کر نماز پڑھے، جب کہ آپ الله کے رسول ہیں۔

حضورؐ نے اس ذہانت اور فہم سے خوش ہو کر دعا دی: ”اے الله! ان کے علم اور سمجھ میں اضافہ فرمایا“ (مسند احمد)۔ حضور اکرمؐ کی وفات کے وقت عبدالله بن عباسؓ تیرہ برس کے تھے۔ اس لیے انہیں پوری طرح استفادے کا موقع نہیں ملا تھا، مگر علوم نبوت کی جستجو دل میں جاگ چکی تھی۔ اس لیے ایک ایک صحابی کے پاس جا کر احادیث یاد کرنا شروع کیں۔ خود فرماتے تھے کہ جب حضورؐ کا انتقال ہوگیا تو میں نے ایک انصاری ساتھی سے کہا:
”آؤ! صحابہ سے احادیث سیکھیں، آج وہ بڑی تعداد میں موجودہیں“۔
ساتھی نے کہا: ”تعجب ہے کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ لوگوں کو مستقبل میں تمہاری ضرورت پڑے گی اور لوگ تمہارے پاس احادیث اور مسائل معلوم کرنے آئیں گے؟“
اس ساتھی نے اس کام کو کوئی اہمیت نہ دی اور میں اس دھن میں لگ گیا، صحابہ کرام سے احادیث معلوم کرتا رہتا تھا۔ بعض اوقات کسی صحابی کے بارے میں مجھے معلوم ہوتا کہ ان کے پاس کوئی حدیث ہے میں ان کے دروازے پر جاتا، وہ سو رہے ہوتے تو میں دروازے پر بیٹھ جاتا یا چادر سر کے نیچے رکھ کر لیٹ جاتا، جب وہ باہر نکلتے تو کہتے: ”اے رسولؐ کے چچا زاد! آپ کس ضرورت کے تحت یہاں تشریف لائے؟ مجھے بلوا کیوں نہیں لیا؟“ میں کہتا: ”حاضر ہونا میری ذمے داری ہے“۔ پھر حدیث معلوم کرتا۔

آخر وہ زمانہ آیا کہ اس انصاری ساتھی نے دیکھا کہ لوگ میرے ارد گرد جمع ہیں اور مجھ سے احادیث ومسائل دریافت کر رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر اس ساتھی نے کہا: ”یہ نوجوان زیادہ سمجھ دار ثابت ہوا“ (الاصابہ)۔
ان کے درس کا انداز بڑا ہی دل آویز ہوا کرتا تھا۔ سیدنا سعید بن جبیرؓ فرماتے تھے:
”میں عبدالله بن عباسؓ سے حدیث سنتا تھا۔ وہ اس عالمانہ اور والہانہ انداز سے حدیث سناتے کہ اگر وہ اجازت دیتے تو میں ان کے سر کو بوسہ دے دیتا“ (الاصابہ)۔
ان کے ایک شاگرد فرماتے تھے: ”وہ چند باتوں میں تمام لوگوں پر فوقیت رکھتے تھے۔ ان سے پہلے جس قدر احادیث منقول ہوئی تھیں انہیں ان کا علم تھا۔ علم فقہ میں بھی ان کو برتری تھی۔ حلم اور برد باری میں علم انساب میں اور تاویل وتفسیر میں سب سے فائق تھے۔ سیدنا ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم کے فیصلوں کو ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ ایک دن بیٹھتے تھے اور سوائے فقہ کے اس دن کچھ بیان نہیں کرتے تھے، ایک دن ان کا موضوع سخن صرف تفسیر ہوا کرتا تھا، ایک دن ان کی مجلس کا موضوع صرف اشعار ہوا کرتے تھے، ایک دن ان کا موضوع تاریخ عرب ہوتا تھا (اسد الغابہ)۔
آخر چند سالوں میں جب عبدالله بن زبیرؓ اور عبدالملک کی کش مکش جاری تھی، آپ طائف منتقل ہو گئے اور وہیں 68ھ میں انتقال فرمایا۔ اس وقت آپ کی عمر71 بر س تھی۔ محمد بن حنفیہؓ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی (الاصابہ)۔

مولانا محمد اسماعیل ریحان گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عبدالله بن عباس حضور اکرم ساتھی نے ایک دن

پڑھیں:

تحریک انصاف جنوبی پنجاب کے صدر سینیٹر عون عباس بپی کا خصوصی انٹرویو

اپنے خصوصی انٹرویو میں سینیٹر عون عباس بپی نے کہا کہ ہم ظلم کے وضع کردہ اصول تسلیم نہیں کرتے۔ عمران خان سے ملاقات اُنکا آئینی اور قانونی حق ہے اور اس حق سے دستبردار ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ریاستی جبر کے سامنے ہم سر نہیں جھکائیں گے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ ہونیوالا ظلم ہماری یادوں سے مٹ نہیں سکتا۔ موجودہ حکومت نے معیشت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، جبکہ کسان بدحالی کی آخری حد تک پہنچ چکے ہیں۔ ملکی معیشت کی بربادی کے اثرات براہِ راست عوام اور زرعی طبقے کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں اور اس ناانصافی اور معاشی زوال کے ذمہ دار حکمران ہیں۔ متعلقہ فائیلیںسینیٹر عون عباس بپی پاکستان کی سیاست میں ایک سرگرم اور عوامی مزاج رکھنے والے رہنماء ہیں۔ وہ پاکستان کی سینیٹ کے رکن ہیں اور پاکستان تحریک انصاف جنوبی پنجاب کے صدر کے طور پر کارکنوں سے مضبوط رابطے اور سیاسی قیادت کیلئے جانے جاتے ہیں۔ انکی پہچان روایتی رسمی سیاست سے ہٹ کر سیدھی اور عملی گفتگو، عوامی مسائل کو نمایاں کرنے اور کارکنوں کیساتھ کھڑے ہونے کے نظریئے سے جڑی ہے۔ گذشتہ روز ہونیوالا احتجاج بھی انکی سیاسی سرگرمیوں کا حصہ تھا، جہاں وہ اڈیالہ جیل احتجاج میں عمران خان سے ملاقات کے مطالبے کیلئے شامل ہوئے۔ انہوں نے جنوبی پنجاب سے آنیوالے متعدد کارکنوں کے قافلے کے ہمراہ اسلام آباد میں شرکت کی اور احتجاجی کارکنوں کی قیادت میں نمایاں نظر آئے۔ اس موقع پر اسلام آباد میں سینیئر صحافی نادر بلوچ نے انکا خصوصی انٹرویو بھی کیا، جو انکے سیاسی مؤقف اور احتجاجی جدوجہد کی واضح ترجمانی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ عون عباس بپی کی سیاست میں علاقائی کارکنوں کی نمائندگی، نوجوانوں کی آواز اور جنوبی پنجاب کے حقوق کی جدوجہد بنیادی ستون سمجھے جاتے ہیں۔ انٹرویو پیش خدمت ہے۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial

متعلقہ مضامین

  • حکومت یوم صدیق اکبر ؓ پر عام تعطیل کا اعلان کرے، سید سکندر شاہ
  • اسرائیل کا ایک وفد لبنان جائیگا
  • تحریک انصاف جنوبی پنجاب کے صدر سینیٹر عون عباس بپی کا خصوصی انٹرویو