گلشن اقبال کے علاقے میں نیپا پل کے قریب مین ہول میں گرکر لاپتا ہونے والے تین برس کے بچے کی لاش نصف میٹر فاصلے سے 15 گھنٹے بعد مل گئی۔ ریسکیو حکام کے مطابق ان کے پاس کھدائی کے لیے ضروری مشینری دستیاب نہیں تھی اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے کی جانب سے کوئی معاونت فراہم کی گئی۔ بعد ازاں علاقہ مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ہیوی مشینری منگوائی اورکھدائی کا کام شروع کیا۔ دوسری جانب سندھ حکومت نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا آغازکردیا ہے۔
کراچی کا سانحہ ایک بار پھر پوری شدت کے ساتھ ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑگیا ہے۔ تین سالہ معصوم بچے کا کھلے مین ہول میں گر کر ہلاک ہونا کوئی حادثہ نہیں، یہ غفلت، ناقص انتظامی مشینری اور ذمے داریوں سے منہ موڑتی ہوئی حکومتوں کی نااہلی کا منہ بولتا ہوا ثبوت ہے۔
یہ واقعہ کوئی پہلا نہیں، نہ ہی آخری معلوم ہوتا ہے،کیونکہ اس شہر میں زندگی کی قیمت اس قدر ارزاں ہو چکی ہے کہ لوگ اب حادثوں پر افسوس نہیں کرتے بلکہ اس پر حیرت کرتے ہیں کہ آخرکب تک ایسے واقعات کو اسی ’’معمول‘‘ کا حصہ سمجھا جاتا رہے گا۔ ریسکیو اداروں کی بے بسی بھی ہمارے سامنے ہے، جن کے پاس نہ مناسب مشینری موجود تھی، نہ تربیت یافتہ عملہ ہے اور نہ دیگر اداروں کی جانب سے کوئی معاونت ملی۔ بالآخر علاقہ مکینوں کو اپنی مدد آپ کے تحت ہیوی مشینری منگوانی پڑی۔ یہ منظر خود اس المیے کا بیانیہ ہے کہ پاکستان کا اکنامک کیپٹل اور سب سے بڑا کاروباری شہر اپنے زخم خود ہی چاٹنے پر مجبور ہے، جب کہ شہری ادارے اور ان کی افسرشاہی کہیں نظر نہیں آتے۔
کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، آج مسائل کی ایسی آماجگاہ بن چکا ہے ۔ ایک طرف خستہ حال انفرا اسٹرکچر ہے ، نکمے دسٹرکٹ منیجمنٹ اور بے پرواہ حکومت جس نے شہریوں کی زندگی کو مستقل عذاب بنا دیا ہے، وہ ہر سانحے کے بعد چند رسمی بیانات دے کر خاموشی کی چادر اوڑھ لیتی ہے۔
یہ شہر نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک کے عوام کا مرکز و محور ہے، مگر اس کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے وہ اس کا حق دار نہیں ہے ۔ گلیاں گٹر کے پانی سے بھری ہیں، مین ہولز کھلے پڑے ہیں، شاہراہیں کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہیں، نالے ابل رہے ہیں اور ٹریفک کا نظام مفلوج ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر کوئی بھی یہ یقین نہیں کر سکتا کہ یہ شہر پاکستان کا معاشی مرکز ہے، وہ شہر جس کا ٹیکس پورے ملک کا بوجھ اٹھاتا ہے، مگر بدلے میں اسے کچھ نہیں ملتا۔
کراچی میں آئے روز حادثاتی اموات، چاہے وہ کھلے مین ہول سے ہوں، ٹریفک حادثے سے ہوں یا اسٹریٹ کرائمز کے ہاتھوں، دراصل کسی ایک فرد کا المیہ نہیں بلکہ یہاں رہنے والے تین کروڑ لوگوں کا المیہ ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر ہے، اس کے بلدیاتی اداروں کو سب سے زیادہ فنڈز بھی ملتے ہیں، لیکن اس کی حالت قابل رحم بن گئی ہے۔
تمام حکومتوں جن میں وفاقی اور صوبائی دونوں شامل ہیں، نے کراچی کو بااختیار اور ترقی یافتہ بنانے کی باتیں تو کی ہیں لیکن انھیں عملی جامع نہیں پہنایا ۔ بے ہنگم اور ان پلانیڈ آبادیاں خود رو جنگل کی طرح پھیلائی گئیں۔ انتظامیہ نے بلڈنگ قوانین پر عملدرآمد نہیں کرایا اور نہ ہاوسنگ سوسائٹیوں کی جانچ پڑتال کی۔
یوٹیلیٹی ایجنسیاں بھی ان اسکیموں کو سروسز فراہم کرنے کے لیے اپنے قوانین میں تبدیلیاں لے کر آتی ہیں، اگر کوئی سڑک ٹوٹی ہے تو اس کی مرمت کا کوئی منصوبہ نہیں، اگر گٹر پھٹتا ہے تو اسے بند کرنے والا کوئی نہیں، اگر پانی نہیں آتا تو واٹر بورڈ کا کوئی اہلکار سننے کو تیار نہیں، مگر ٹینکر مافیا ہر جگہ موجود ہے۔ اس شہر میں پانی ہے، مگر عوام کے لیے نہیں، بجلی ہے، مگر پوری قیمت ادا کرنے کے باوجود بار بار بند ہو جاتی ہے، ٹرانسپورٹ بھی ہے، مگر عام شہری کی سہولت کے لیے نہیں بلکہ چند ٹرانسپورٹروں کے مالی مفاد کے لیے۔ کراچی میں رہنے والا ہر شخص روزانہ یہ سوال کرتا ہے کہ آخر یہ شہرکس کا ہے؟ اس کا مالک کون ہے؟ ذمے داری کس کی ہے؟ اور جواب میں اسے صرف خاموشی ملتی ہے۔
تعلیم اور صحت کے شعبے کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ ایک ایسے شہر میں جہاں ہر سال لاکھوں نوجوان تعلیم حاصل کرتے ہیں، وہاں سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت شکستہ ہے ۔ عمارتیں بوسیدہ، کلاس روم خستہ حال، اساتذہ غیر حاضر، اور نصاب فرسودہ۔ جب کہ نجی اسکول غریبوں کی پہنچ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ صحت کا انفرا اسٹرکچر بھی اسی طرح بے حال ہے۔ یہ سوال ہر شہری کے ذہن میں گردش کرتا ہے کہ آخر اس شہر کے کروڑوں لوگوں کے علاج کا بندوبست کون کرے گا؟ مریض مر رہے ہیں، مگر متعلقہ حکام معمول کی پریس کانفرنسوں اور فوٹو سیشن میں مصروف ہیں۔
نقل و حمل کے نظام کی بات کی جائے تو کراچی کبھی ٹرام کا شہر تھا، یہاں سرکاری بسیں وقت کی پابند تھیں، سڑکیں کشادہ اور محفوظ تھیں اور شہری سکون سے سفر کیا کرتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ سرکار پیچھے ہٹتی گئی اور اس کی جگہ ٹرانسپورٹ مافیا نے لے لی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ بی آر ٹی کو حل قرار دیا جا رہا ہے۔ انتظامیہ یہ دعویٰ کرتی ہے کہ بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم (بی آر ٹی) سے شہر میں ٹرانسپورٹ کے نظام میں بہتری آئے گی لیکن یہ کب مکمل ہوگا، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
کراچی کے مسائل اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ اب یہ صرف شہری سہولیات کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ انتظامی دیوالیہ پن کی علامت بن چکا ہے۔ سرکاری اداروں کی رفتار ناقابلِ فہم حد تک سست ہے۔ ایک فیصلہ ہونے کے لیے فائلیں مہینوں گھومتی رہتی ہیں۔ احتساب کا کوئی تصور نہیں، کارکردگی کا کوئی معیار نہیں اور ملازمین کی تعداد ضرورت سے کئی گنا زیادہ ہے مگر کام کرنے والے بہت کم۔سست روی کے باعث کوئی بھی منصوبہ بروقت مکمل نہیں ہو پاتا۔کراچی میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بھی بڑھ رہے ہیں۔
حالیہ برسوں میں ہونے والی شدید بارشیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ شہر اب موسمیاتی طوفانوں کے مقابلے کے لیے تیار نہیں۔ ساحلی پٹی کے رہائشیوں کو مستقبل میں مزید خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جنھیں موسمی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ خطرہ ہے، مگر یہاں ابھی تک ایسے کسی نظام کی بنیاد نہیں رکھی گئی جو شہریوں کو بروقت خبردار کر سکے یا ان کی حفاظت کو یقینی بنا سکے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ کراچی میں پانی مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا، کچرا مافیا، لینڈ مافیا، تعمیراتی مافیا، ہر ایک شہر کے کسی نہ کسی شعبے پر قابض ہے اورکسی بھی حقیقی اصلاحات کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ حکومتیں جب بھی اصلاحات کا ارادہ کرتی ہیں تو یہی گروہ ان کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں، اور سرکار ہمیشہ کی طرح دب جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مسئلے کے حل کے لیے بننے والی کمیٹیاں، اجلاس اور پریس کانفرنسیں صرف خانہ پری ثابت ہوتی ہیں، جب کہ شہر کی حالت جوں کی توں رہتی ہے۔
اس وقت کراچی کے پاس منتخب میئر، ٹاؤن چیئرمین،کونسلرز اور مقامی نمایندے موجود ہیں۔ ان پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اختیار میں رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عملی اقدامات کریں۔ اختیارات کی کمی اپنی جگہ ایک حقیقی مسئلہ ہے، مگر شہریوں کی توقعات بھی حقیقت ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر کب تک وہ کھلے مین ہول، ٹوٹی سڑکوں، گندے پانی، ٹریفک جام، اسٹریٹ کرائم، رشوت ستانی اور انتظامی بے حسی کا شکار رہیں گے؟ کب تک ہر سانحہ کے بعد صرف نوٹس لیا جائے گا؟
کراچی پاکستان کا معاشی دل ہے، اگر یہ دل دھڑکنا بند کر دے تو پورا ملک مفلوج ہو جائے۔ اس شہر کو وعدوں کی نہیں، اقدامات کی ضرورت ہے۔
یہ وہ شہر ہے جو پاکستان کے مستقبل کی کنجی ہے، مگر اس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ شہریوں کو سزا دینے سے پہلے انھیں سہولت فراہم کرے، قانون سے پہلے انھیں حق دے، اور مطالبات سے پہلے انھیں احترام دے۔ جب تک شہری ریاست پر اعتماد نہیں کریں گے، ریاست مضبوط نہیں ہو سکتی۔ شہر قائد کو انصاف، شفافیت، میرٹ، منصوبہ بندی، جدید طرز کی شہری ترقی، اور سب سے بڑھ کر اخلاص کی ضرورت ہے۔ صرف اسی صورت میں کراچی ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بن سکتا ہے، وہ روشنی جو صرف بجلی کی نہیں بلکہ انصاف، امن، ترقی اور انسانی وقار کی روشنی ہو۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کا کراچی میں اداروں کی سے زیادہ رہے ہیں نہیں کر کا کوئی مین ہول کہ ا خر کے لیے ہیں کہ اور ان یہ شہر
پڑھیں:
جیل میں عمران خان کی صحت سے متعلق بیٹے قاسم خان اہم بیان سامنے آگیا
ویب ڈیسک: بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم عمران خان کے صاحبزادے قاسم خان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ حکام ان کے والد کی صحت کے بارے میں "کسی ناقابلِ تلافی" معلومات چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ بیان اس وقت آیا جب پی ٹی آئی رہنما اور عمران خان کی بہنیں اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج اور دھرنا دے رہی تھیں، جہاں گزشتہ تین ہفتوں سے عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
بحرین میں مستقل رہائش حاصل کریں، آسان شرائط سامنے آگئیں
قاسم خان نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خاندان کو عمران خان سے کوئی براہِ راست یا تصدیق شدہ رابطہ نہیں مل سکا۔ "یہ نہ جاننا کہ آپ کے والد محفوظ ہیں یا نہیں، یہ ذہنی اذیت کی شکل ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ کئی ماہ سے کوئی آزاد ذریعے سے تصدیق شدہ بات چیت نہیں ہوئی۔
قاسم کے مطابق، ان کے پاس آج اپنے والد کی صحت کے بارے میں کوئی قابلِ تصدیق معلومات نہیں ہیں اور ان کا سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ کچھ چھپایا جا رہا ہے۔
پنجاب: افغان دہشتگرد گرفتار، بیان بھی سامنے آگیا
خاندان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے ذاتی معالج کو ایک سال سے ان کا طبی معائنہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
ایک جیل اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عمران خان کی صحت ٹھیک ہے اور انہیں کسی زیادہ سیکیورٹی والی جیل میں منتقل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
عمران خان اگست 2023 سے جیل میں ہیں، جہاں انہیں توشہ خانہ کیس، سائفر کیس اور القادر ٹرسٹ کیس میں سزائیں سنائی گئیں۔ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ یہ مقدمات سیاسی انتقام کا حصہ ہیں تاکہ عمران خان کو 2024 کے انتخابات سے باہر رکھا جا سکے۔
موسم سرما کی چھٹیوں سے متعلق طلبہ کیلئے بڑی خوشخبری!