اقوام متحدہ کے دہرے معیار کے باعث انسانی حقوق کا عالمی دن اپنی اہمیت کھو رہا ہے، فاروق رحمانی
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
ذرائع فاروق رحمانی نے انسانی حقوق کے عالمی دن سے چند روز قبل اسلام آباد میں ایک بیان میں کہا کہ احتساب کو برقرار رکھنے، بین الاقوامی انسانی قانون کے نفاذ اور کمزور آبادیوں کے تحفظ میں بار بار ناکامیوں کی وجہ سے اقوام متحدہ کی ادارہ جاتی حیثیت تیزی سے کمزور ہو رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد جموں و کشمیر شاخ کے سابق کنوینر محمد فاروق رحمانی نے کہا ہے کہ انسانی حقوق کا عالمی دن اپنی ساکھ کھو چکا ہے کیونکہ اقوام متحدہ اور بڑی عالمی طاقتیں دنیا بھر میں جابر حکومتوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کو نظرانداز کر رہی ہیں۔ ذرائع فاروق رحمانی نے انسانی حقوق کے عالمی دن سے چند روز قبل اسلام آباد میں ایک بیان میں کہا کہ احتساب کو برقرار رکھنے، بین الاقوامی انسانی قانون کے نفاذ اور کمزور آبادیوں کے تحفظ میں بار بار ناکامیوں کی وجہ سے اقوام متحدہ کی ادارہ جاتی حیثیت تیزی سے کمزور ہو رہی ہے۔ انہوں نے دنیا بھر میں خطرناک حالات میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں، نظربند سیاسی کارکنوں، صحافیوں، طلباء، مصنفین اور ڈاکٹروں کو شاندار خراج تحسین پیش کیا۔ فاروق رحمانی نے کہا کہ اقوام متحدہ کی تاریخ کشمیر، فلسطین، بھارت، روہنگیا علاقوں اور سوڈان جیسے خطوں میں تنازعات کو روکنے اور انسانی حقوق کے تحفظ میں ناکامیوں سے بھری پڑی ہے جہاں لاکھوں لوگ سیاسی، معاشی اور نسلی جبر کا شکار ہیں۔
انہوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال کو دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت نے اس کی خصوصی حیثیت کو چھین لیا ہے اور کشمیریوں کو قانون سازی، اپنے عزیزوں سے روابط قائم کرنے یہاں تک کہ نوکریوں کے حق سے محروم کر دیا ہے کیونکہ غیر مقامی ملازمین کو زبردستی خطے میں دھکیلا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہزاروں کشمیری رہنما، صحافی اور کارکنان بھارت کی مختلف جیلوں میں صرف اس لیے بند ہیں کہ وہ کشمیری مسلمان ہیں جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے پرامن اور قانونی جدوجہد کر رہے ہیں۔ فاروق رحمانی نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر آج دنیا کا سب سے زیادہ فوجی جمائو والا علاقہ ہے جہاں تقریبا 10 لاکھ بھارتی فوجی اور پیرا ملٹری فورسز کے اہلکارموجود ہیں، حالانکہ 1949ء کی جنگ بندی معاہدے کے تحت اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری میں سہولت کے لیے عارضی طور پر صرف چند ہزار فوجیوں کی ضرورت تھی۔
اس کے علاوہ پانچ لاکھ پولیس اور سادہ لباس اہلکاروں کی وجہ سے علاقہ گھٹن کا شکار ہے جو ہر عوامی سرگرمی اور فون پر گفتگو کی نگرانی کر رہے ہیں جس سے کشمیری معاشرے کو ”روبوٹک سرویلنس زون” میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینئر سیاسی رہنمائوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کو یو اے پی اے اور پی ایس اے جیسے کالے قوانین کے تحت دہائیوں سے جیلوں میں ڈالا گیا ہے، جن میں حریت چیئرمین مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، آسیہ اندرابی، ناہید نسرین، فہمیدہ صوفی، محمد قاسم فکتو، ڈاکٹر حمید فیاض، نعیم احمد خان، ایاز اکبر، انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز، سینئر وکیل میاں عبدالقیوم اور دیگر شامل ہیں جنہیں طبی اور دیگر بنیادی سہولیات سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صرف جموں و کشمیر پیپلز فریڈم لیگ کے 50 سے زائد ارکان اور ہمدردوں کو گزشتہ دو دہائیوں سے یو اے پی اے اور پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت من گھڑت الزامات کا سامنا ہے۔ فاروق رحمانی نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کو کم کرنے کا واحد راستہ کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ ان کا حق خودارادیت دلانا ہے۔ انہوں نے بڑی طاقتوں اور اداروں سمیت عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ تنازعہ کشمیر کو پرامن طریقے سے حل کرانے کے لیے موثر کردار ادا کریں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فاروق رحمانی نے کہا انسانی حقوق کے اقوام متحدہ کی نے کہا کہ انہوں نے عالمی دن
پڑھیں:
یکطرفہ امریکی پابندیوں نے اقوام متحدہ کی ماہر کو مالیاتی نظام سے باہر دھکیل دیا
اقوامِ متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے انسانی حقوق فرانچیسکا البانیزے نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ کی صورتِ حال پر ان کی رپورٹس کے تناظر میں عائد امریکی پابندیوں نے عملاً انہیں ’عالمی مالیاتی نظام سے بے دخل‘ کر دیا ہے۔
دوحہ فورم میں شریک فرانچیسکا البانیزے نے الجزیرہ کو بتایا کہ یکطرفہ طور پر عائد کردہ ’غیرقانونی‘ امریکی پابندیاں ان کی روزمرہ زندگی کو بری طرح متاثر کررہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو مٹانے کے لیے نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ
البانیزے نے بتایا کہ انہیں دنیا بھر سے دھمکیاں مل رہی ہیں، اور ان پر عائد امریکی پابندیوں نے ان کی بنیادی معاشی سرگرمیوں کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔
ان کے مطابق یکطرفہ جبری اقدامات نے انہیں ایک ایسی ’شخصیتِ غیر‘ بنا دیا ہے جو عالمی معاشی نظام میں اپنا وجود نہیں رکھ سکتی۔
’میں کریڈٹ کارڈ نہیں رکھ سکتی؛ مجھے دوسروں سے پیسے یا کارڈ ادھار لینے پڑتے ہیں، جبکہ کئی ممالک دوسرے کے نام کا کارڈ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔‘
پابندیوں کے عملی اثراتاقوام متحدہ کی نمائندہ البانیزے کے مطابق پابندیوں کے باعث ان کا امریکی میڈیکل انشورنس بھی ادائیگی سے انکار کر چکا ہے۔
اسی طرح یورپی پارلیمنٹ کی جانب سے ان کے نام سے بک کرایا گیا ہوٹل کمرا بھی منسوخ کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ سب اقدامات اس بات کی مثال ہیں کہ امریکا، اسرائیل اور دیگر ممالک انسانی حقوق کی آواز کو خاموش کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں۔
’ہم کمزور تب ہوتے ہیں جب اکیلے ہوں‘فرانچیسکا البانیزے کا کہنا تھا کہ ان کوششوں کے باوجود وہ نہ تو خاموش ہوں گی اور نہ ہی اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹیں گی۔
’یہ ضروری ہے کہ لوگ سمجھیں کہ ہم صرف اس وقت کمزور ہوتے ہیں جب ہمیں تنہا کر دیا جائے۔‘
فرانچیسکا البانیزے اقوام متحدہ کی وہ ماہرہیں جنہوں نے غزہ میں جاری انسانی بحران، اسرائیلی فوجی کارروائیوں اور فلسطینی شہریوں کی صورتحال پر کئی تند و تیز رپورٹس شائع کیں۔
مزید پڑھیں: امریکا، برطانیہ، جرمنی اور مسلم ممالک پر غزہ کی نسل کشی میں شراکت داری کا الزام
مذکورہ رپورٹس میں انہوں نے اسرائیلی اقدامات کو ممکنہ ’نسلی صفائی‘ اور ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے تناظرمیں دیکھا تھا۔
ان کے بیانات اور رپورٹس کے بعد امریکی حکومت نے انہیں پابندیوں کا نشانہ بنایا، جن کے تحت وہ امریکی مالیاتی نظام میں کسی اکاؤنٹ، کریڈٹ، سفری یا انشورنس سہولت تک رسائی نہیں رکھ سکتیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ ایک موجودہ اقوامِ متحدہ کے نمائندہ کو اس نوعیت کی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
البانیزے اور کئی عالمی انسانی حقوق تنظیمیں ان پابندیوں کو ’سیاسی دباؤ‘ اور ’یو این ماہرین کی آزادی پر حملہ‘ قرار دیتی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقتصادی پابندیوں اقوام متحدہ اکاؤنٹ انسانی حقوق انشورنس غیرقانونی فرانچیسکا البانیزے کریڈٹ کارڈ