اگر پاکستان بقاء چاہتا ہے تو اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتا، فاطمہ بھٹو
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
اپنی ٹوئٹ میں سابق پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی نے کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ پاکستانی عوام کا سکون اور احترام چاہتی ہے تو وہ اسے اب اور ہمیشہ مسترد کر دیگی۔ط اسلام ٹائمز۔ سابق پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی، معروف مصنفہ اور سماجی کارکن فاطمہ بھٹو کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان بقاء چاہتا ہے تو اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتا، کبھی نہیں، یہ ہمارے لیے ایک وجودی سوال ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ‘ایکس‘ پر اپنی ٹوئٹ میں فاطمہ بھٹو نے کہا کہ اگر یہ پاکستانی حکومت اپنی بقاء چاہتی ہے تو اسے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاملے مہں فوراً پیچھے ہٹنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ پاکستانی عوام کا سکون اور احترام چاہتی ہے تو وہ اسے اب اور ہمیشہ مسترد کر دے گی، عوام اسرائیل سے تعلقات کے فیصلے کو کبھی معاف نہیں کرینگے۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
عنوان: *امام باقر علیہ اسلام کی فکری و عملی جدوجہد اور حقیقی اسلام کی بقاء*
دین و دنیا پروگرام اسلام ٹائمز کی ویب سائٹ پر ہر جمعہ نشر کیا جاتا ہے، اس پروگرام میں مختلف دینی و مذہبی موضوعات کو خصوصاً امام و رہبر کی نگاہ سے، مختلف ماہرین کے ساتھ گفتگو کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ناظرین کی قیمتی آراء اور مفید مشوروں کا انتظار رہتا ہے۔ متعلقہ فائیلیں*پروگرام دین و دنیا*
عنوان: *امام باقر علیہ اسلام کی فکری و عملی جدوجہد اور حقیقی اسلام کی بقاء*
میزبان: محمد سبطین علوی
مہمان: حجہ الاسلام والمسلمین آقای عون علوی
پیشکش: آئی ٹائمز ٹی وی اسلام ٹائمز اردو
موضوعات گفتگو
????امام باقر کے دوران کے سیاسی و اجتماعی حالات
????امام کی تشکیلات اور تنظیم سازی
????امام کے عملی اقدامات اور مجاہدت
خلاصہ گفتگو:
امام محمد باقر علیہ السلام کا دورِ امامت (۹۴ھ تا ۱۱۴ھ) اموی حکومت کے اختتامی سالوں پر محیط تھا، جب خلفاء کی آپسی کشمکش اور داخلی مصروفیات کی وجہ سے آلِ علیؑ پر سابقہ شدید دباؤ نسبتاً کم ہو گیا۔ اس سازگار ماحول میں امام باقرؑ نے شیعی حزبی تشکیلات اور خفیہ تنظیم سازی کا آغاز کیا۔ ان کے کارکنوں کو "اصحاب السر و رازداران" کہا جاتا تھا اور ان کے ذریعے دعوت اسلام خراسان اور دیگر دور دراز علاقوں تک پھیلی۔
امامؑ کا مرکزی فکری جہاد اموی حکمرانوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی تحریفات، جیسے جبر و مرجئہ، اور حتیٰ یہ گمراہ عقیدہ کہ امام حسینؑ کو خدا نے مارا، کے خلاف تھا۔ آپؑ نے لوگوں کو صحیح اسلامی تعلیمات کی طرف بلایا اور علمی تحریک کو وسیع کیا۔ اس ضمن میں امام نے اپنی منی میں دس سال عزاداری کے قیام کی اجازت دی تاکہ امت امام حسینؑ کی قربانی سے آگاہ ہو اور حکومت کے ظلم و جبر کے خلاف شعور پیدا ہو۔ دمشق میں ہشام بن عبدالملک کے دربار میں حاضری بھی آپؑ کے سیاسی اور فکری موقف کی شاندار علامت تھی۔ امام باقرؑ کی یہ علمی، عملی اور تنظیمی جدوجہد واقعی فکری و تنظیمی جہاد کا مثالی دور ہے۔