Express News:
2025-07-31@07:04:32 GMT

اور اب قطر نشانے پر ہے

اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT

وہ جو کہتے ہیں کہ کسی بھی لڑائی میں سب سے پہلی ہلاکت سچائی کی ہوتی ہے۔موجودہ اسرائیلی جارحیت نے اس مقولے کو گزشتہ پونے تین برس میں ایک بار نہیں بیسیوں بار سچ کر دکھایا ہے۔

پہلا جھوٹ جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے دو روز بعد نو اکتوبر دو ہزار تئیس کو سامنے آیا جب اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ حماس کے حملہ آوروں نے چالیس بچوں کے سر قلم کر دیے اور کئی عورتوں کو ریپ کیا۔اس وقت کے امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی آنکھیں بند کر کے ان الزامات کو کم از کم دو بار توتے کی طرح دھرایا۔ آج تک ان الزامات کے حق میں ایک ثبوت بھی سامنے نہیں لایا جا سکا۔یہ اتنا سفید جھوٹ تھا کہ اب اسرائیلی بھی اسے دوہرانے سے کتراتے ہیں۔

غزہ کے اسپتالوں کو یہ کہہ کر تباہ کیا گیا کہ یہ شفا خانے نہیں بلکہ حماس کے کنٹرول روم ہیں۔یہاں حماس اپنا اسلحہ ذخیرہ کرتی ہے اور ان عمارتوں کے نیچے خفیہ سرنگیں ہیں۔ان اسپتالوں کے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکس کو گرفتار کر کے حماس کی ’’ اسپتالی ‘‘ فوجی سرگرمیوں کے بارے میں انتہائی پرتشدد پوچھ گچھ کی گئی۔ متعدد ڈاکٹر اور پیرا میڈکس تشدد کے سبب شہید ہو گئے۔بہت سے اب بھی عقوبت خانوں میں ہیں یا انھیں رہائی کے بعد ڈرون بمباری کر کے پورے پورے کنبے سمیت شہید کر دیا گیا۔مگر اصل دعوی کے بارے میں اب تک کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔

تیسرا بدترین الزام اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے انرا پر عائد کیا گیا کہ اس کے بارہ ملازم سات اکتوبر کی دہشت گردی میں شریک تھے۔اس الزام پر امریکا ، یورپی یونین حتی کہ جاپان نے بھی آنکھیں بند کر کے یقین کر لیا۔اسرائیلی پارلیمنٹ نے ایک قانون کے تحت انرا کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر مقبوضہ علاقوں میں اس کے گوداموں ، دفاتر ، صحت مراکز اور اسکولوں کو یا تو سربمہر کر دیا یا تباہ کر دیا۔

آج تک ان بارہ ’’ دہشت گردوں ‘‘ کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں لایا گیا۔کچھ مغربی ممالک نے اپنی جھینپ مٹانے کے لیے چند ماہ بعد انرا کی امداد بحال کر دی۔مگر اب یہ امداد کس کام کی جب ستتر برس سے فلسطینیوں کی غذائی ، طبی اور تعلیمی لائف لائن بنے رہنے والے اس ادارے کا اسرائیل نے ایک سفید جھوٹ کی رسی سے گھلا گھونٹ دیا ہے۔

یہ دیدہ دلیر اسرائیلی کذب بیانی اور الزامات کی چند جھلکیاں ہیں جو فلسطینیوں کی نسل کشی میں سہولت کے لیے مسلسل گھڑے جا رہے ہیں۔

تازہ ترین نشانہ وہ مصالحت کار ممالک ہیں جو حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کے لیے ابتدا سے متحرک ہیں۔ اس ہفتے کے شروع میں اسرائیلی چینل بارہ نے پہلا نشانہ قطر کو بنایا ۔دعوی کیا گیا کہ اسرائیلی فوج کو ’’ کسی عمارت یا سرنگ سے ‘‘ ایسی حساس دستاویزات ملی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ قطر جو بظاہر غیر جانبدار ثالث ہے دراصل حماس کی ’’ دہشت گردی ‘‘ کا پشت پناہ ہے۔

ان دستاویزات میں مبینہ طور پر حماس کے مقتول رہنماؤں اسماعیل حانیہ اور یحیی شنوار کے نوٹس کے علاوہ قطری قیادت سے حماس لیڈرشپ کی ملاقاتوں کا احوال اور ترکی ، ایران اور قطر سے حماس کے روابط اور مصر کی پالیسی سے ناخوشی ظاہر کرنے والے کاغذات بھی ہیں ۔ان تفصیلات سے چینل بارہ نے یہ نتیجہ نکالا کہ قطر حماس کا ’’ شریکِ جرم ‘‘ ہے۔

قطر نے ان ’’ انکشافات ‘‘ کو یکسر جعلی اور امریکا اور قطر کے خصوصی تعلقات میں شگاف ڈالنے اور فلسطینیوں کو کسی بھی طرح کی علاقائی ثالثی اور مدد سے مکمل محروم کرنے کی سستی سازش قرار دیا ہے۔

 قطر اگر یہ وضاحت نہ بھی کرتا تو مجھ جیسے عقل سے پیدل کے ذہن میں بھی یہ ’’ انکشافات ‘‘ پڑھنے کے بعد پہلا سوال یہی آیا کہ وہ اسرائیل جو ہائی ٹیک دنیا کا جانا مانا لیڈر ہے مگر اس کے پاس ایک بھی اچھا اسکرپٹ رائٹر نہیں جو جھوٹ کو سچ کا ایسا لبادہ پہنا سکے جس پر پوری نہیں تو کم ازکم آدھی دنیا تو یقین کر ہی لے۔

ان ’’ انکشافات ‘‘ کے پیچھے اصل کہانی یہ ہے کہ ان دنوں عدلیہ کے حکم پر اسرائیلی تفتیشی ادارے نیتن یاہو کے اسٹاف کے دو ارکان سے اس بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں کہ انھوں نے اسرائیلی میڈیا میں مصر کی ساکھ نیچے کرنے اور قطر کا امیج ابھارنے کے لیے قطری حکام سے پیسے لیے ہیں۔

’’ قطر گیٹ ‘‘ کے ملزموں میں وزیرِ اعطم نیتن یاہو کے سابق مشیر جوناتھن اوریک اور سابق ترجمان ایلی فیلڈشٹائن ہیں۔ان کے خلاف منی لانڈرنگ ، رشوت ، فراڈ ، غیر ملکی ایجنٹوں سے روابط اور سرکاری اعتماد پامال کرنے کے الزامات بھی زیرِ تفتیش ہیں۔

خود ان دونوں ملزموں کے باس نیتن یاہو کو بھی کرپشن کے متعدد سنگین الزامات کا سامنا ہے۔اگر وزیرِ اعظم سرکاری عہدے پر نہ رہیں تو جیل بھی جا سکتے ہیں۔اسی لیے بقول اسرائیلی حزبِ اختلاف اپنی گردن بچانے کے لیے نیتن یاہو ہر صورت میں جنگی ماحول برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

قطر پر تازہ الزامات کا تعلق نیتن یاہو کے اسی ’’ کھال بچاؤ ‘‘ ڈرامے سے ہے۔مگر ان الزامات میں اس لیے بھی دم نہیں لگتا کہ سب دنیا جانتی ہے کہ قطر ان چند ممالک میں شامل ہے جو فلسطینی اتھارٹی کو اپنے پاؤں پر کھڑا رکھنے کے لیے اسرائیل کی رضامندی سے مالی امداد دیتے ہیں۔

قطر سات اکتوبر سے پہلے غزہ میں حماس انتظامیہ کے ملازمین کو بطور فلسطینی اتھارٹی کے کارکن تنخواہوں کا بجٹ فراہم کرتا رہا ہے۔اس کے علاوہ غزہ میں ایندھن ، صحت اور تعلیم کے کئی منصوبے بھی قطر کی امداد سے رواں تھے۔یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ حماس کی جلاوطن قیادت قطر میں مقیم رہی ہے۔شام کے معزول حکمران بشار الاسد اور ترکی نے بھی حماس کی قیادت کو ملک میں رہنے کی اجازت دی۔یہ راز بھی سب جانتے ہیں کہ ایران اور حزب اللہ حماس کے کھلے حمائیتی ہیں۔ قطر کی شام اور لیبیا سمیت مختلف عرب ریاستوں میں اپنی حامی ملیشیاؤں کی پشت پناہی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ۔

ساتھ ہی ساتھ قطر امریکی سینٹرل کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ٹرمپ کے حالیہ دورے میں قطر اور امریکا کے درمیان ایک اعشاریہ دو کھرب ڈالر کے اقتصادی اور دفاعی خریداری کے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔قطر نے امریکی صدر کو ایک طیارہ ’’ بطور ایرفورس ون ‘‘ تحفے میں پیش کیا ۔ایسے میں اسرائیلی ذرایع ابلاغ میں حماس کی ’’ دھشت گردی ‘‘ میں قطری سرمایہ کاری کی خبریں کامیڈی کے اس ادنی معیار پر بھی پوری نہیں اتر رہیں جن پر کوئی بھی شخص ہنسنا تو دور بمشکل مسکرا بھی سکے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نیتن یاہو حماس کے کیا گیا حماس کی کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

بلوچستان میں اسرائیلی ادارے کے سرگرم ہونے کا انکشاف

اطالوی سیاسی مشیر سرگائیو ریسٹیلی نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل بلوچستان میں اسٹریٹجک مفادات کے تحت سرگرم ہے، اور اس مقصد کیلئے اسرائیلی ادارہ میمری (MEMRI) بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ کے نام سے کام کر رہا ہے اسلام ٹائمز۔ ایران جنگ کے بعد اسرائیل نے اپنی توجہ ایرانی سرحد سے متصل پاکستان کے صوبے بلوچستان پر مرکوز کر دی ہے۔ صیہونی رجیم سے منسلک خبر رساں ادارے "ٹائمز آف اسرائیل" میں شائع ایک آرٹیکل میں اطالوی سیاسی مشیر سرگائیو ریسٹیلی نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل بلوچستان میں اسٹریٹجک مفادات کے تحت سرگرم ہے، اور اس مقصد کے لئے اسرائیلی ادارہ میمری (MEMRI) بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ کے نام سے کام کر رہا ہے۔ میمری، جو بظاہر مشرق وسطیٰ کے میڈیا کا تجزیہ کرنے والا ایک تحقیقی ادارہ ہے، دراصل اسرائیلی انٹیلی جنس سے جڑا ہوا ہے اور بلوچستان میں حساس معلومات اکٹھی کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق میمری نے بلوچستان سے متعلق دستاویزات اور مواد جمع کرنے کا کام برسوں سے خفیہ طور پر جاری رکھا ہے، اور حالیہ برسوں میں اس کی اسرائیلی وابستگی واضح ہو چکی ہے۔

آرٹیکل میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ اسرائیل بلوچ علیحدگی پسند عناصر کی خفیہ مدد کر رہا ہے، تاکہ پاکستان پر دباؤ ڈالا جا سکے۔ اسرائیل مبینہ طور پر بلوچستان میں انتشار، تشدد، سکیورٹی فورسز پر حملے اور بدامنی کو ہوا دے کر پاکستان کو اندرونی سطح پر مصروف رکھنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ ریسٹیلی کے مطابق میمری کے ذریعے بلوچ علیحدگی پسند تحریک کو عالمی سطح پر مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ پاکستان کو بدنام اور غیر مستحکم کیا جا سکے۔ اس پیش رفت نے بلوچستان کی سکیورٹی، سالمیت اور پاکستان کی قومی خودمختاری کے لئے سنگین سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں مزید 7 افراد غذائی قلت سے جاں بحق، مجموعی تعداد 154 ہو گئی
  • مدارس دین بیزار سیکولرز کے نشانے پر
  • غزہ کو اسرائیل میں ضم کرنیکی صیہونی دھمکی
  • لبنان پر اسرائیلی جارحیت کی حوصلہ افزائی کے دوران امریکہ کا حزب‌ الله کو غیر مسلح کرنے پر زور
  • اقوام متحدہ کا 2 ریاستی حل کیلئے اجلاس حماس کی امداد ہے، ٹیمی بروس
  • اسرائیلی آبادکاروں کا فلسطینیوں پر تشدد دہشت گردی ہے، فرانس
  • بلوچستان میں اسرائیلی ادارے کے سرگرم ہونے کا انکشاف
  • غزہ پٹی میں نئے اسرائیلی حملے، خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 30 ہلاکتیں
  • اہل غزہ خون آلود لقمے کی خاطر دشمن کو بھتہ نہیں دیں گے، حماس
  • آپریشن سندور کا دھڑن تختہ، مفتاح اسماعیل مسلم لیگ ن کے نشانے پر