مفت اسمارٹ فونز۔۔۔!!!پی ٹی اےبڑا کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے خواتین سم مالکان کے لیے مفت اسمارٹ فونز کا اعلان کردیا۔
پی ٹی اے کے مطابق براڈ بینڈ صارفین کی تعداد 150 ملین اور فائبر آپٹک صارفین 2 ملین ہو گئے ہیں جس کی خوشی میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی خواتین کو 200 مفت اسمارٹ فونز تقسیم کیے جائیں گے، موبائل فون صارفین کو کل مفت 2 گیگابائٹ ڈیٹا انٹرنیٹ اور 200 آن نیٹ منٹس دیئے جائیں گے جسے اسٹار 2200 ہیش ڈائل کر کے حاصل کیا جا سکے گا۔
پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ موبائل ساز کمپنیوں کی جانب سے 200 مقامی اسمارٹ فونز عطیہ کیے گئے ہیں ، خواتین سم ہولڈرز میں فونز قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم ہوں گے۔
اس حوالے سے تقریب کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں وفاقی وزیر آئی ٹی و ٹیلی کام شزہ فاطمہ خواجہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موبائل برانڈ بینڈ کے لیے اسپیکٹرم کی جلد نیلامی کے لیے کوشاں ہیں۔ اسپیکٹرم کی نیلامی اور نیشنل فائبریشن پالیسی بہت ضروری ہے، شہریوں کو آسان اقساط پر موبائل فون فراہم کرنے کی پالیسی پر کام کررہے ہیں۔
شزا فاطمہ خواجہ نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے میرٹ پر طلباء میں 12 لاکھ لیپ ٹاپ تقسیم کیے ہیں، پاکستان میں خواتین کی موبائل فون، انٹرنیٹ تک رسائی میں اضافہ ہوا ہے، ہم نے پاکستان میں کیش لیس اکانومی کو یقینی بنانا ہے، ہر شخص کی انٹرنیٹ تک رسائی ایک بنیادی ضرورت ہے، تعلیم، صحت، روزگاز، کاروبار کیلئے موبائل فون، انٹرنیٹ انتہائی ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیلیکام صارفین کی تعداد 200 ملین ہونے کا جشن منا رہے ہیں، نوجوان بچے اور بچیاں ہمارا مستقبل ہے، ہرشہری کے گھر تک تیز رفتار انٹرنیٹ پہنچانے کے لیے کوشاں ہیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسمارٹ فونز موبائل فون کے لیے
پڑھیں:
خواتین ماہرین امراضِ پیٹ و جگر کی کمی، خواتین مریضوں کو مرد ڈاکٹروں سے معائنے میں ہچکچاہٹ کا سامنا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: پاکستان میں خواتین ماہرین امراضِ پیٹ و جگر کی شدید کمی کے باعث خواتین مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ وہ مرد ڈاکٹروں سے اپنے حساس اعضاء کے معائنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں۔
اکثر خواتین میں آنتوں اور جگر کے امراض، خصوصاً آنتوں کے کینسر کی دیر سے تشخیص ہوتی ہے، جس کے باعث مرض بگڑنے کے بعد ان کے لیے علاج مشکل ہو جاتا ہے۔
یہ سنگین مسئلہ پاکستان جی آئی اینڈ لیور ڈیزیز سوسائٹی (PGLDS) کی ساتویں سالانہ کانفرنس کے دوسرے دن کراچی میں سامنے آیا جہاں مقامی اور بین الاقوامی ماہرین نے خبردار کیا کہ دیہی و شہری علاقوں کی ہزاروں خواتین معدے، آنتوں اور جگر کے مہلک امراض میں مبتلا ہو کر خاموشی سے تکالیف سہہ رہی ہیں کیونکہ انہیں مرد ڈاکٹروں سے معائنہ کروانے میں شرمندگی اور تذبذب ہوتا ہے۔
کانفرنس میں ماہرین نے فوری طور پر خواتین کے لیے قومی کولوریکٹل کینسر اسکریننگ پروگرام شروع کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ ایسے کیسز ابتدائی مراحل میں سامنے آئیں اور پیچیدہ علاج سے بچا جا سکے۔
پی جی ایل ڈی ایس کی صدر ڈاکٹر لبنیٰ کمانی نے کہا کہ پاکستان کو جگر کی چربی، ہیپاٹائٹس سی اور آنتوں کے کینسر جیسی بیماریوں کی سونامی کا سامنا ہے، اور اگر فوری طور پر اسکریننگ اور آگاہی کے اقدامات نہ کیے گئے تو صحت کا نظام بیٹھ جائے گا۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی کی ادویات پاکستان میں دستیاب ہیں مگر بیشتر افراد لاعلم ہیں کہ وہ ان امراض میں مبتلا ہیں۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر نازش بٹ نے کہا کہ ناقص خوراک، سست طرزِ زندگی اور ہارمونیاتی تبدیلیاں خواتین کو معدے اور جگر کے مسائل کا زیادہ شکار بنا رہی ہیں، اور خواتین دیر سے اسپتال کا رُخ کرتی ہیں، جس کی وجہ سے مرض آخری مراحل میں پہنچ چکا ہوتا ہے۔
پی جی ایل ڈی ایس کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر سجاد جمیل نے موٹاپے کو تمام بیماریوں کی جڑ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے بچوں کو بیماریاں پالنے کی تربیت دے رہے ہیں۔ اسکولوں میں کھیل کے میدان نہیں، فزیکل ایکٹیویٹی کا کوئی رجحان نہیں اور خوراک میں چینی اور جنک فوڈ ہے۔
بین الاقوامی ماہرین نے بھی پریوینشن (بچاؤ) پر زور دیا۔ جنوبی کوریا سے آئی ماہر پروفیسر ایون ینگ کم نے بتایا کہ ان کے ملک میں قومی اسکریننگ پروگرام، صحت مند خوراک اور سرگرمی کی آگاہی کے ذریعے آنتوں و جگر کے امراض پر قابو پایا جا رہا ہے۔
سوسائٹی کے سرپرست ڈاکٹر شاہد احمد نے بتایا کہ کانفرنس کا مقصد پاکستانی ڈاکٹروں کو جدید تحقیق اور علاج سے روشناس کروانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ترکی، کوریا، جنوبی افریقہ سے ماہرین کو مدعو کیا ہے تاکہ ہمارے نوجوان معالجین سیکھ سکیں کہ دنیا کیسے ان بیماریوں کا سامنا کر رہی ہے۔
میڈیکل ویمن ایسوسی ایشن آف پاکستان کی صدر ڈاکٹر وجیحہ رضوان نے کہا کہ اکثر خواتین مرد ڈاکٹروں سے معائنہ کروانے سے کتراتی ہیں، جس کی وجہ سے تشخیص میں تاخیر ہوتی ہے اور وہ اس وقت اسپتال پہنچتی ہیں جب مرض شدت اختیار کر چکا ہوتا ہے۔
انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ ملک میں فارغ التحصیل ہونے والی نصف سے زیادہ خواتین ڈاکٹرز عملی میدان میں قدم نہیں رکھتیں، اور جو آتی ہیں، انہیں غیر محفوظ ماحول اور امتیازی سلوک کا سامنا ہوتا ہے۔
کانفرنس کے دوسرے دن ماہرین نے جگر میں چربی، جدید اینڈوسکوپی، کولوریکٹل کینسر کی اسکریننگ، اور گٹ مائیکرو بایوم جیسے اہم موضوعات پر تحقیقی مقالات پیش کیے۔