ہمارے ایک بزرگ استاد کہا کرتے تھے ’’جس دن تم نے سوال کرنا چھوڑ دیا، سمجھو کہ تم نے سیکھنا چھوڑ دیا۔‘‘
یہ جملہ میں نے ایک سنسان سی دوپہر میں سنا تھا، لیکن اس کی گونج آج تک دل و دماغ میں موجود ہے۔ سوال وہ دروازہ ہے جو ہمیں لاعلمی کے اندھیرے سے نکال کر آگہی کی روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔ استادِ محترم کا یہ جملہ صرف ایک خیال نہیں بلکہ سیکھنے کا وہ بنیادی اصول ہے جس پر جدید تعلیم و تحقیق کی عمارت استوار ہے۔
ایک اور پرانی کہاوت ہے: ’’سوال آدھا علم ہے، یعنی جو سوال نہیں کرتا، وہ اپنی مکمل لا علمی اور اسی پر مطمئن رہنے کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘
سوال کرنا بظاہر ایک معمولی سا عمل لگتا ہے، ایک معصوم سا ’’کیوں؟‘‘، ایک دلچسپ سا ’’کیسے؟‘‘ لیکن درحقیقت یہ چھوٹے چھوٹے سوالات علم، فکر اور جستجو کی وہ کھڑکیاں ہیں جن سے دماغ میں روشنی داخل ہوتی ہے۔
غیر متحرک دماغ، سناٹے میں ڈوبا کمرۂ جماعت
ایک کمرۂ جماعت کا تصور کیجیے جہاں 35 سے 40 طلبا موجود ہیں، ایک استاد ہے اور پھر بھی مکمل خاموشی ہے۔ استاد صاحب کہتے جارہے ہیں اور طلبا سن رہے ہیں۔ نہ کوئی بہ غرضِ سوال ہاتھ اٹھا رہا ہے، نہ کوئی چہرہ الجھا ہوا نظر آرہا ہے۔ ظاہری طور پر یہ ’’مثالی نظم و ضبط‘‘ ہے، لیکن درحقیقت یہ سیکھنے سکھانے کا حلقہ نہیں بلکہ نیم مردہ ذہنوں کا قبرستان ہے۔ کیوں کہ جہاں سوال نہیں وہاں جستجو نہیں۔ جہاں جستجو نہیں، وہاں سیکھنے کی روشنی نہیں اور جہاں یہ روشنی نہیں وہاں علمی حیات نہیں۔ ہمارے اسکولوں کے کمروں میں سب کچھ ہوتا ہے، تختہ سیاہ و سفید، فرنیچر، کتابیں، اساتذہ، نظم و ضبط، بس اکثر ایک چیز کی کمی رہتی ہے اور وہ ہے ’’سوال‘‘۔
کیا ہر سوال اہم ہوتا ہے؟
جی ہاں! ہر سوال اہم ہوتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ لگے۔ سوال صرف ایک جملہ نہیں ہوتا، یہ ایک ذہن کی للکار ہوتی ہے۔ ’’کیوں؟‘‘، ’’کیسے؟‘‘، ’’کب؟‘‘ جیسے یہ چھوٹے چھوٹے الفاظ دراصل سیکھنے کی جانب پیش قدمی ہوتے ہیں۔
ایک طالب علم جب سوال کرتا ہے کہ ’’بادل کیوں گرجتے اور برستے ہیں؟‘‘ تو وہ صرف موسم نہیں جاننا چاہتا، وہ فطرت کے پردے ہٹا کر کائنات کو سمجھنے کا شوق رکھتا ہے۔ جب کوئی طالب علم یہ پوچھتا ہے کہ ’’ہم یہ شعر کیوں پڑھتے ہیں؟‘‘، تو وہ نصاب نہیں، معنی کی تلاش میں ہوتا ہے۔
کیا نیوٹن کا سیب پر سوال بچگانہ تھا؟ کیا غالب کا ’’دل ہی تو ہے، نہ سنگ و خشت‘‘ دل کے مفہوم پر سوال نہیں تھا؟
ہر سوال دراصل کسی نہ کسی ذہنی پیچیدگی یا حیرت کا اظہار ہے اور حیرت علم کی ماں ہوتی ہے۔
ماہرین تعلیم، خاص طور پر Lev Vygotsky اور John Dewey جیسے مفکرین، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سوال کرنا صرف علم حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ سیکھنے کا متحرک عمل (active process) ہے۔ Dewey کے نزدیک تعلیم کا مقصد بچے کو ’’سوچنے‘‘ کے قابل بنانا ہے، نہ کہ صرف یاد کرنے کا۔ وہ کہتا ہے:
"If we teach today’s students as we taught yesterday’s, we rob them of tomorrow.
یعنی اگر ہم آج کے طلبا کو اُسی طرح پڑھائیں جس طرح ہم نے کل پڑھایا تھا، تو ہم اُن سے آنے والا کل چھین رہے ہیں۔
جھجک کی جڑیں کہاں پیوست ہیں؟
سوال علم کا پہلا زینہ ہے، پہلا قدم ہے اور کبھی کبھی پہلا انقلاب بھی۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرتی اور تعلیمی ڈھانچے میں سوال کرنے والا اکثر مشکوک، بدتمیز، نافرمان، نالائق، وقت ضائع کرنے والا یا گستاخ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے تعلیمی ماحول میں سوال کرنے پر چہرے بگڑ جاتے ہیں، آوازیں نیچی ہوجاتی ہیں۔ کلاس روم میں وہ بچہ جو بار بار سوال کرتا ہے، اس کی آواز دبانے کےلیے طنزیہ جملے استعمال ہوتے ہیں:
’’تمھیں ہر بات پر اعتراض کیوں ہوتا ہے؟‘‘
’’ابھی پڑھانے دو، تم بعد میں پوچھ لینا۔‘‘
’’سوال پر سوال وہی کرتا ہے جو سبق پڑھ کر نہیں آتا!‘‘
’’چپ کرکے سنو، استاد سب جانتا ہے!‘‘
ایسے جملے وہ زہر ہیں جو طالب علم کے ذہن میں سوال کی جڑوں اور علم کے دریا کو سُکھا دیتے ہیں۔ پھر وہی طالب علم زندگی بھر خاموش رہنے کا عادی ہوجاتا ہے، دفتر میں، معاشرے میں اور کبھی کبھی اپنے ضمیر کے سامنے بھی یا پھر خود کو ’’کم عقل‘‘ سمجھنے لگتا ہے ۔ اور یہ خاموشی علم کے دروازے پر تالا بن جاتی ہے۔
پاکستانی ماہرِ تعلیم ڈاکٹر محمود بٹ کی تحقیق کے مطابق (Punjab Higher Education Commission, 2021) بیش تر اسکولوں میں طلبا کو سوال کرنے کا حوصلہ نہیں دیا جاتا، جس کے نتیجے میں محض ’’رٹا‘‘ فروغ پاتا ہے، ’’سمجھ بوجھ‘‘ نہیں۔
استاد کا کردار: اِک مشعلِ راہ
ایک استاد اگر صرف سبق سنانے والا ہے تو سوال اس کےلیے ایک خلل اور بغاوت کے مترادف ہے۔ لیکن اگر استاد واقعی معلم ہے تو سوال اس کےلیے نعمت ہے۔ وہ سوالات کو علم کی توسیع کا موقع سمجھتے ہوئے نہ صرف شاگردوں کے سوالات پر خوش ہوتا ہے بلکہ اُن کے ذہنوں کو منور کرتے ہوئے اپنے علم کو بھی نکھارتا ہے۔ ایسا استاد سوال کو چمک دار آنکھوں میں چھپی چنگاری کو سمجھتا ہے اور اسے بجھنے نہیں دیتا۔
ایک بار ایک استاد نے ریاضی کے سبق کے دوران ایک بچی سے پوچھا، ’’تم کچھ پوچھنا چاہتی ہو؟‘‘
بچی نے جھجکتے ہوئے کہا، ’’سر، اگر زیرو کچھ نہیں ہوتا تو زیرو کو لکھنے کا فائدہ کیا؟‘‘ پوری کلاس ہنس پڑی، لیکن استاد مسکرایا اور کہا: ’’تم نے وہ سوال کیا ہے جو صدیوں تک فلاسفہ، ریاضی دانوں اور دانشوروں کے ذہن میں گونجتا رہا۔ آج ہم ریاضی نہیں، ’کچھ نہ ہونے کی طاقت‘ پڑھیں گے۔‘‘
اُس دن وہ کلاس صرف زیرو پر گفتگو کرتی رہی اور وہ بچی کبھی دوبارہ نہیں جھجکی۔ یہی لمحے ہوتے ہیں جہاں علم صرف مضمون نہیں رہتا، بلکہ تجربہ بن جاتا ہے۔
OECD Report on Student Inquiry, 2020 کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جو طلبا سوال کرتے ہیں وہ نہ صرف زیادہ سیکھتے ہیں بلکہ ان کی تجزیاتی (critical thinking) اور تخلیقی (creative thinking) صلاحیتیں بھی بہتر ہوتی ہیں۔
سوال کی فصل کیسے اگائیں؟
اگر اساتذہ، والدین اور تعلیمی ادارے واقعی علم کی روشنی پھیلانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بچے سوال کریں، تو ہمیں پہلے اُنھیں ’’محفوظ ماحول‘‘ دینا ہوگا۔ ایسا ماحول جہاں ان کے سوالات کو اہمیت دی جائے، ان پر ہنسا نہ جائے اور ہر سوال کو سیکھنےکا ایک قدم سمجھا جائے۔ اساتذہ درج ذیل اقدامات سے بہتری لا سکتے ہیں:
1۔ سوالات کے لیے مختص وقت: اساتذہ کو تربیت دی جائے کہ وہ سوالات کو مثبت انداز میں لیں۔ Pre-service اور in-service training میں اس پہلو کو شامل کیا جائے۔ ہر تدریس کے آخر میں چار سے پانچ منٹ صرف سوالات کے لیے رکھے جائیں۔ یا پھر ہر ہفتے دو ہفتے میں ایک کلاس صرف سوال و جواب کے لیے ہو، بغیر کسی امتحانی دباؤ کے۔ طلبا کے سوالات کو خوش دلی سے سنا جائے، چاہے وہ معمولی ہی کیوں نہ ہوں۔
2۔ غیر لفظی حوصلہ افزائی: بچے کی آنکھوں کی چمک یا چہرے کی الجھن کو محسوس کر کے خود سوال کرنے پر اُکسایا جائے۔ اساتذہ کو سکھایا جائے کہ وہ سوال پوچھنے کی روایت کی کیسے حوصلہ افزائی کریں، کیسے بات آگے بڑھائیں اور کیسے طلبا کو کمرۂ جماعت میں بحث و مباحثے میں شامل کریں۔
3۔ انعام نہیں، اعتراف: طلبا کے سوالات پر تنقید کے بجائے ہر سوال پر داد دی جائے، شاباشی دی جائے، تاکہ دیگر طلبا کی ہمت بھی بندھے۔
4۔ سوالات کی نوٹ بک یا سوالات کی دیوار: طلبا سے کہا جائے کہ اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالات ایک مختص کاپی میں لکھا کریں، تاکہ کبھی کوئی سوال ضائع نہ ہو۔ بلکہ کمرۂ جماعت میں ایک چارٹ پیپر یا بورڈ لگائیے اور طلبا کی حوصلہ افزائی کیجیے کہ وہ ہر روز اپنی سوچ کا کم از کم ایک سوال لکھیں اور چارٹ پیپر یا بورڈ پر چسپاں کریں، چاہے اسکول کا ہو یا زندگی کا، نصابی ہو یا غیر نصابی۔
استاد خود سوال کرے: جب استاد خود کہے ’’کیا تم نے کبھی سوچا کہ...‘‘ تو طلبا بھی سوالات میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ یہ طریقہ ’گفتگو پر مبنی سیکھنے کا انداز‘ (Socratic Method) ہے جہاں استاد طلبا سے مسلسل سوالات کرتا ہے تاکہ وہ خود جواب تک پہنچیں۔
سوال، معاشرے کی تعمیر کا ستون
سوال کرنا صرف تعلیم کا جزو نہیں، یہ زندگی کی علامت ہے۔ جو معاشرے سوال کی اجازت نہیں دیتے، وہ سوچنے سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ جس معاشرے میں سوال کرنے کی عادت ہو، وہاں تعصب نہیں پنپتا، تقلید اندھی نہیں رہتی اور شخصیتیں بے روح نہیں ہوتیں۔ اگر کسی بچے کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے تو یہ اس کے اندر ایک علم دوست روح کی گواہی ہے۔ اسے دبانا نہیں، ابھارنا چاہیے۔ سوال وہ چراغ ہے جس سے اور چراغ جلتے ہیں اور پھر وہ چراغ دیگر ذہنوں کو منور کرتے ہیں۔ یاد رکھیے! جو قومیں سوال سے ڈرتی ہیں وہ جواب کے قابل بھی نہیں رہتیں۔
علم کا پہلا قدم سوال ہے اور جو سوال نہیں کرتا، وہ سیکھنے کی راہ پر نہیں بلکہ خاموشی کی دلدل میں پھنسا ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کو صرف جواب نہ دیں بلکہ اُنھیں سوال کرنے کی جرأت دیں، کیوں کہ یہی وہ جرأت ہے جو ایک عام طالب علم کو غیر معمولی بنا دیتی ہے۔ بچے صرف استاد کے جوابات سے نہیں، اپنی حیرت کے اظہار سے بھی سیکھتے ہیں۔ لہٰذا اگر ہمیں ایسا پاکستان چاہیے جو روشن ہو، خودمختار ہو اور جدید دنیا میں کھڑا ہو سکے — تو ہمیں اپنے بچوں کو یہ کہنا ہوگا:
’’پوچھو، سوال کرو، کیوں کہ تمہارے سوال ہی تمہیں وہ انسان بنائیں گے جو کچھ جاننا چاہتا ہے نہ کہ صرف وہ جو مان لیتا ہے!‘‘
سوال کیجیے کہ یہ سیکھنے کی سب سے سچی پہچان ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سوال کرنا سوالات کو سوال نہیں سیکھنے کا نہیں بلکہ سوال کرنے سیکھنے کی کے سوالات طالب علم میں سوال ہیں بلکہ ہوتا ہے نے والا سوال کی وہ سوال جاتا ہے کرتا ہے ہر سوال ہیں وہ ہے اور
پڑھیں:
ایران اسرائیل اور امریکا سیز فائر
امریکا اسرائیل اور ایران کے درمیان سیز فائر ہوگیا۔ سیز فائر سے پہلے ایران نے قطرا ور عراق میں امریکی اڈوں پر میزائل داغے۔ اس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سیز فائر کا اعلان کیا۔ ان کے سیز فائر کا اعلان کافی دلچسپ ہے۔ انھوں نے اپنے سیز فائر کے اعلان میں کہا ہے کہ میں ایران کا شکر گزار ہوں کہ اس نے قطر اور عراق میں ہمارے اڈوں پر میزائل پھینکنے سے پہلے ہمیں بتایا، اسی لیے ہمارا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ بلکہ ہمارا کوئی بھی نقصان نہیں ہوا ۔ اب ایران کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔ اس لیے اب امن کا وقت ہے اور سیز فائر کا وقت ہے۔
ایران کے امریکی اڈوں پر میزائل حملوں کو امریکا نے فرینڈلی حملوں کے طو رپر لیا ہے۔ امریکا نے ان کو جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ اب تو یہ بات صاف ہے کہ امریکا سیز فائر کی کوشش کر رہا تھا لیکن ایران نے کہا کہ جب تک وہ کسی امریکی اڈے پر حملہ نہیں کریں گے، وہ سیز فائر نہیں کریں گے۔ جس کے بعد انھیں قطر کی بیس پر حملہ کرنے کی اجازت دی گئی۔ اور ایران نے امریکا کی اجازت سے امریکی بیس پر حملہ کیا۔ جس کے بعد سیز فائر ہو گیا۔ ایران نے قطر پر میزائل پھینکے۔ قطر نے ہی سیز فائرمیں کردار ادا کیا ہے۔ قطر ہی ثالث تھا۔ کیا ایسا نہیں تھا کہ ثالث نے ہی خود پیش کیا کہ اچھا جنگ بند کرنی ہے تو مجھے ما رلیں۔ یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے۔
قطر پر میزائل مارنے کے بعد تمام عرب ممالک نے اس حملے کی مذمت تو کی لیکن سب نے تحمل سے کام لینے اور سفارت کاری سے مسائل حل کرنے کی بات کی۔ کسی نے ایران سے بدلہ لینے کی بات نہیں کی۔ سعودی عرب نے بھی مذمت کی لیکن صبر اور تحمل کی بات۔ متحدہ عرب امارات نے بھی ایسی ہی بات کی۔ صرف عراق نے ایرانی سفیر کو نکال دیا۔ باقی کسی ملک نے ایران سے کوئی باقاعدہ احتجاج بھی نہیں کیا۔ بلکہ سب نے جنگ بندی کی بات کی۔ اس لیے یہ لگتا ہے کہ عرب ممالک کو بھی ان میزائل حملوں کو علم تھا اور یہ بھی علم تھا کہ اس کے بعد سیز فائر ہو جائے گا۔ اور ایسا ہی ہوا ہے۔
ایک حیران کن بات یہ بھی ہے کہ ایران کے حملوں کے بعدعالمی منڈی میں تیل مہنگا ہونے کے بجائے سستا ہوا۔ میں سیز فائر سے پہلے بات کر رہا ہوں۔ سیز فائر کے بعد تو سستا ہوا۔ لیکن ایران کی جانب سے قطر اور عراق پر میزائل پھینکے جانے کے بعد تیل سستا ہونا شروع ہوگیا تھا۔ ورنہ ایران سرائیل جنگ اور امریکی حملوں کے بعد تیل مہنگا ہو رہا تھا۔ اس لیے کہیں نہ کہیں تیل کی عالمی منڈی کو بھی اندازہ تھا کہ ایران کے میزائل حملوں کے بعد جنگ بڑھے گی نہیں بلکہ ختم ہو جائے گی۔ ایران سیز فائر کے تیار ہے۔ بس یہ ایک رسمی کارروائی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ امریکا نے ایران کو فیس سیونگ دی ہے۔
ہر جنگ کے کچھ اہداف ہوتے ہیں۔ اگر تو اسرائیل اورامریکا کا ہدف ایران کا نیوکلیئر پروگرام تباہ کرنا تھا۔ تو بقول امریکا کے وہ ہدف حاصل ہو گیا ہے۔ امریکی صدر کا ایک بہت سخت پیغام میرے سامنے ہے۔ جس میں وہ ان امریکی صحافیوں کو بر ا بھلا کہہ رہے ہیں کہ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکی حملوں کے نتیجے میں ایران کا ایٹمی پروگرام مکمل طو ر پر تباہ نہیں ہوا ہے۔ وہ نام لے لے کر ان کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ اور ایسی تمام خبروں کو فیک نیوز کہہ رہے ہیں۔ اس لیے امریکا کا یہی موقف ہے کہ اس نے ایران کی تمام نیوکلئیر سائٹس تباہ کر دی ہیں۔ اب ایران کے پاس کوئی نیوکلیئر صلاحیت نہیں ہے۔ اس لیے جب خود امریکا اور اسرائیل یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ ان کا ہد ف حاصل ہوگیا ہے۔ اور ہد ف حاصل کرنے کے بعد جنگ جاری رکھنے کا کوئی جواز نظر نہیں آرہا۔
یہ بات بھی درست ہے کہ غیر جانبدار تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ امریکی حملوں میں ایران کا نیوکلیئر پروگرام مکمل تباہ نہیں ہوا۔ ایسی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ جیسے ایران نے امریکی اڈوں پر حملہ کرنے سے پہلے قطر اور امریکا دونوں کو بتایا۔ ایسے ہی امریکا نے بھی ایران کی نیو کلیئر سائٹس پر حملہ کرنے سے پہلے ایران کو بتایا تھا۔ اسی لیے ایران نے وہاں سے افزودہ یورینیم نکال لیا تھا۔ اہم مشینیں بھی نکال لی تھیں۔
کچھ سٹیلائٹ تصاویر اس کی تصدیق کر رہی ہیں۔ اس لیے یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں فریق جنگ بھی لڑ رہے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں بھی تھے۔ حملے بھی بتا کر کیے جا رہے تھے۔ یہ درست ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان رابطے اور بات چیت کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن ایران اور امریکا بات چیت جاری رہی ہے۔ براہ راست بات چیت کے بھی ثبوت سامنے آئے ہیں۔ اس لیے امریکا اور ایران کے درمیان رابطوں کے ساتھ یہ جنگ لڑی گئی ہے۔
ایک سوال سب پوچھ رہے ہیں کہ آئی اے ای کے مطابق ایران کے پاس چار سو کلو Enriched یورینیم ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کہاں ہے؟ کیا ایران نے اس کو مریکی حملوں سے پہلے محفوظ کر لیا تھا؟ اور وہ اب بھی ایران کے پاس محفوظ ہے۔ اسی لیے یہ سب کہہ رہے ہیں کہ اگر پہلے ایران ایٹم بم پانچ ماہ میں بنا سکتا تھا تو اب اس کو کئی سال لگیں گے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ سال لگ سکتے ہیں۔ لیکن یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ صلاحیت مکمل ختم نہیں ہوئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایران دوبارہ اس پر کام شروع کرے گا نہیں۔
جہاں تک آبنا ئے ہر مز کو بند کرنے کی بات تھی۔ ایران نے وہ کبھی بند نہیں کرنا تھا۔ اس کا نقصان امریکا کے بجائے چین کو تھا۔ اور ایران چین کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔ لیکن یہ جنگ کے بعد اب ایران اور بھارت کے تعلقات کے بارے میں دیکھنا ہوگا۔ اس جنگ میں بھارت مکمل طو رپر اسرائیل کے ساتھ کھڑا نظر آیا ہے۔ اس لیے امید یہی ہے کہ اب بھارت اور ایران کے درمیان وہ گرمجوشی نہیں ہوگی۔ جو پہلے تھی۔ اس جنگ میں بھارت نے ایران کو کھو دیا ہے۔ شاید بھارت کا خیال تھا کہ رجیم چینج ہو جائے گا لیکن وہ نہیں ہوا۔
میں سمجھتا ہوں امریکا اور اسرائیل اس نتیجے پر پہنچے کہ ابھی ایران میں رجیم چینج ممکن نہیں ہے۔ وہاں گراؤنڈ تیار نہیں ہے۔ خامنہ ای کی گرفت کمزور نظر آئی ہے۔ وہ منظر سے غائب بھی ہوئے۔ لیکن ان کی گرفت مضبوط رہی ہے۔ ایرانی نظام میں ابھی رجیم چینج ممکن نظر نہیں آیا ہے۔ اس لیے امریکا اور اسرائیل نے رجیم چینج کے آپشن کو ختم کر دیا۔ حالانکہ ایسے اشارے دیے گئے تھے۔ لیکن پھر ممکن نہیںتھا۔
کون جیتا؟ کون ہارا؟ ایک مشکل سوال ہے۔ لیکن اس سیز فائر کا اعلان بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہی کیا ہے۔ کیا ہم یہ جنگ بند کرنے کا کریڈٹ بھی ٹرمپ کو دیں گے۔ اگر امریکا وہ بمباری نہ کرتا تو اسرائیل اور ایران کافی دیر تک بھی لڑ سکتے تھے۔ امریکا صدر کے مطابق اس بمباری نے جنگ بندی کی راہ ہموار کی۔ اس کے بعد جنگ بندی کا جواز بن گیا۔ جس کو ایران نے بھی تسلیم کر لیا۔ اس لیے ٹرمپ پھر سیز فائر کا اور جنگ رکوانے کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔