Express News:
2025-08-11@19:29:51 GMT

سوال اور سیکھنے کا رشتہ

اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT

ہمارے ایک بزرگ استاد کہا کرتے تھے ’’جس دن تم نے سوال کرنا چھوڑ دیا، سمجھو کہ تم نے سیکھنا چھوڑ دیا۔‘‘

یہ جملہ میں نے ایک سنسان سی دوپہر میں سنا تھا، لیکن اس کی گونج آج تک دل و دماغ میں موجود ہے۔  سوال وہ دروازہ ہے جو ہمیں لاعلمی کے اندھیرے سے نکال کر آگہی کی روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔  استادِ محترم کا  یہ جملہ صرف ایک خیال نہیں بلکہ سیکھنے کا وہ بنیادی اصول ہے جس پر جدید تعلیم و تحقیق کی عمارت استوار ہے۔

ایک اور پرانی کہاوت ہے: ’’سوال آدھا علم ہے، یعنی جو سوال نہیں کرتا، وہ اپنی مکمل لا علمی اور اسی پر مطمئن رہنے کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘

سوال کرنا بظاہر ایک معمولی سا عمل لگتا ہے، ایک معصوم سا ’’کیوں؟‘‘، ایک دلچسپ سا ’’کیسے؟‘‘ لیکن درحقیقت یہ چھوٹے چھوٹے سوالات علم، فکر اور جستجو کی وہ کھڑکیاں ہیں جن سے دماغ میں روشنی داخل ہوتی ہے۔


غیر متحرک دماغ، سناٹے میں ڈوبا کمرۂ جماعت

ایک کمرۂ جماعت کا تصور کیجیے جہاں 35 سے 40 طلبا موجود ہیں، ایک استاد ہے اور پھر بھی مکمل خاموشی ہے۔ استاد صاحب کہتے جارہے ہیں اور طلبا سن رہے ہیں۔ نہ کوئی بہ غرضِ سوال ہاتھ اٹھا رہا ہے، نہ کوئی چہرہ الجھا ہوا نظر آرہا ہے۔ ظاہری طور پر یہ ’’مثالی نظم و ضبط‘‘ ہے، لیکن درحقیقت یہ سیکھنے سکھانے کا حلقہ نہیں بلکہ نیم مردہ ذہنوں کا قبرستان ہے۔ کیوں کہ جہاں سوال نہیں وہاں جستجو نہیں۔ جہاں جستجو نہیں، وہاں سیکھنے کی روشنی نہیں اور جہاں یہ روشنی نہیں وہاں علمی حیات نہیں۔ ہمارے اسکولوں کے کمروں میں سب کچھ ہوتا ہے، تختہ سیاہ و سفید، فرنیچر، کتابیں، اساتذہ، نظم و ضبط، بس اکثر ایک چیز کی کمی رہتی ہے اور وہ ہے ’’سوال‘‘۔


کیا ہر سوال اہم ہوتا ہے؟

جی ہاں! ہر سوال اہم ہوتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ لگے۔ سوال صرف ایک جملہ نہیں ہوتا، یہ ایک ذہن کی للکار ہوتی ہے۔ ’’کیوں؟‘‘، ’’کیسے؟‘‘، ’’کب؟‘‘ جیسے یہ چھوٹے چھوٹے الفاظ دراصل سیکھنے کی جانب پیش قدمی ہوتے ہیں۔

ایک طالب علم جب سوال کرتا ہے کہ ’’بادل کیوں گرجتے اور برستے ہیں؟‘‘ تو وہ صرف موسم نہیں جاننا چاہتا، وہ فطرت کے پردے ہٹا کر کائنات کو سمجھنے کا شوق رکھتا ہے۔ جب کوئی طالب علم یہ پوچھتا ہے کہ ’’ہم یہ شعر کیوں پڑھتے ہیں؟‘‘، تو وہ نصاب نہیں، معنی کی تلاش میں ہوتا ہے۔

کیا نیوٹن کا سیب پر سوال بچگانہ تھا؟ کیا غالب کا ’’دل ہی تو ہے، نہ سنگ و خشت‘‘ دل کے مفہوم پر سوال نہیں تھا؟

ہر سوال دراصل کسی نہ کسی ذہنی پیچیدگی یا حیرت کا اظہار ہے اور حیرت علم کی ماں ہوتی ہے۔

ماہرین تعلیم، خاص طور پر Lev Vygotsky اور John Dewey جیسے مفکرین، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سوال کرنا صرف علم حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ سیکھنے کا متحرک عمل (active process) ہے۔ Dewey کے نزدیک تعلیم کا مقصد بچے کو ’’سوچنے‘‘ کے قابل بنانا ہے، نہ کہ صرف یاد کرنے کا۔ وہ کہتا ہے:
"If we teach today’s students as we taught yesterday’s, we rob them of tomorrow.

"

یعنی اگر ہم آج کے طلبا کو اُسی طرح پڑھائیں جس طرح ہم نے کل پڑھایا تھا، تو ہم اُن سے آنے والا کل چھین رہے ہیں۔


جھجک کی جڑیں کہاں پیوست ہیں؟

سوال علم کا پہلا زینہ ہے، پہلا قدم ہے اور کبھی کبھی پہلا انقلاب بھی۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرتی اور تعلیمی ڈھانچے میں سوال کرنے والا اکثر مشکوک، بدتمیز، نافرمان، نالائق، وقت ضائع کرنے والا یا گستاخ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے تعلیمی ماحول میں سوال کرنے پر چہرے بگڑ جاتے ہیں، آوازیں نیچی ہوجاتی ہیں۔ کلاس روم میں وہ بچہ جو بار بار سوال کرتا ہے، اس کی آواز دبانے کےلیے طنزیہ جملے استعمال ہوتے ہیں: 

’’تمھیں ہر بات پر اعتراض کیوں ہوتا ہے؟‘‘
’’ابھی پڑھانے دو، تم بعد میں پوچھ لینا۔‘‘
’’سوال پر سوال وہی کرتا ہے جو سبق پڑھ کر نہیں آتا!‘‘
’’چپ کرکے سنو، استاد سب جانتا ہے!‘‘

ایسے جملے وہ زہر ہیں جو طالب علم کے ذہن میں سوال کی جڑوں اور علم کے دریا کو سُکھا دیتے ہیں۔ پھر وہی طالب علم زندگی بھر خاموش رہنے کا عادی ہوجاتا ہے، دفتر میں، معاشرے میں اور کبھی کبھی اپنے ضمیر کے سامنے بھی یا پھر خود کو ’’کم عقل‘‘ سمجھنے لگتا ہے ۔ اور یہ خاموشی علم کے دروازے پر تالا بن جاتی ہے۔

پاکستانی ماہرِ تعلیم ڈاکٹر محمود بٹ کی تحقیق کے مطابق (Punjab Higher Education Commission, 2021) بیش تر اسکولوں میں طلبا کو سوال کرنے کا حوصلہ نہیں دیا جاتا، جس کے نتیجے میں محض ’’رٹا‘‘ فروغ پاتا ہے، ’’سمجھ بوجھ‘‘ نہیں۔


استاد کا کردار: اِک مشعلِ راہ

ایک استاد اگر صرف سبق سنانے والا ہے تو سوال اس کےلیے ایک خلل  اور بغاوت کے مترادف ہے۔ لیکن اگر استاد واقعی معلم ہے تو سوال اس کےلیے نعمت ہے۔ وہ سوالات کو علم کی توسیع کا موقع سمجھتے ہوئے نہ صرف شاگردوں کے سوالات پر خوش ہوتا ہے بلکہ اُن کے  ذہنوں کو منور کرتے ہوئے اپنے علم کو بھی نکھارتا ہے۔ ایسا استاد سوال کو چمک دار آنکھوں میں چھپی چنگاری کو سمجھتا ہے اور اسے بجھنے نہیں دیتا۔

ایک بار ایک استاد نے ریاضی کے سبق کے دوران ایک بچی سے پوچھا، ’’تم کچھ پوچھنا چاہتی ہو؟‘‘

بچی نے جھجکتے ہوئے کہا، ’’سر، اگر زیرو کچھ نہیں ہوتا تو زیرو کو لکھنے کا فائدہ کیا؟‘‘ پوری کلاس ہنس پڑی، لیکن استاد مسکرایا اور کہا: ’’تم نے وہ سوال کیا ہے جو صدیوں تک فلاسفہ، ریاضی دانوں اور دانشوروں کے ذہن میں گونجتا رہا۔ آج ہم ریاضی نہیں، ’کچھ نہ ہونے کی طاقت‘ پڑھیں گے۔‘‘

اُس دن وہ کلاس صرف زیرو پر گفتگو کرتی رہی اور وہ بچی کبھی دوبارہ نہیں جھجکی۔ یہی لمحے ہوتے ہیں جہاں علم صرف مضمون نہیں رہتا، بلکہ تجربہ بن جاتا ہے۔

OECD Report on Student Inquiry, 2020 کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جو طلبا سوال کرتے ہیں وہ نہ صرف زیادہ سیکھتے ہیں بلکہ ان کی تجزیاتی (critical thinking) اور تخلیقی (creative thinking) صلاحیتیں بھی بہتر ہوتی ہیں۔


سوال کی فصل کیسے اگائیں؟

اگر اساتذہ، والدین اور تعلیمی ادارے واقعی علم کی روشنی پھیلانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بچے سوال کریں، تو ہمیں پہلے اُنھیں ’’محفوظ ماحول‘‘ دینا ہوگا۔ ایسا ماحول جہاں ان کے سوالات کو اہمیت دی جائے، ان پر ہنسا نہ جائے اور ہر سوال کو سیکھنےکا ایک قدم سمجھا جائے۔ اساتذہ درج ذیل اقدامات سے بہتری لا سکتے ہیں:

1۔ سوالات کے لیے مختص وقت:  اساتذہ کو تربیت دی جائے کہ وہ سوالات کو مثبت انداز میں لیں۔ Pre-service اور in-service training میں اس پہلو کو شامل کیا جائے۔ ہر تدریس کے آخر میں چار سے پانچ منٹ صرف سوالات کے لیے رکھے جائیں۔ یا پھر ہر ہفتے دو ہفتے میں ایک کلاس صرف سوال و جواب کے لیے ہو، بغیر کسی امتحانی دباؤ کے۔ طلبا کے سوالات کو خوش دلی سے سنا جائے، چاہے وہ معمولی ہی کیوں نہ ہوں۔

2۔ غیر لفظی حوصلہ افزائی: بچے کی آنکھوں کی چمک یا چہرے کی الجھن کو محسوس کر کے خود سوال کرنے پر اُکسایا جائے۔ اساتذہ کو سکھایا جائے کہ وہ سوال پوچھنے کی روایت کی کیسے حوصلہ افزائی کریں، کیسے بات آگے بڑھائیں اور کیسے طلبا کو کمرۂ جماعت میں بحث و مباحثے میں شامل کریں۔

3۔ انعام نہیں، اعتراف: طلبا کے سوالات پر تنقید کے بجائے ہر سوال پر داد دی جائے، شاباشی دی جائے، تاکہ دیگر طلبا کی ہمت بھی بندھے۔

4۔ سوالات کی نوٹ بک یا سوالات کی دیوار: طلبا سے کہا جائے کہ اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالات ایک مختص کاپی میں لکھا کریں، تاکہ کبھی کوئی سوال ضائع نہ ہو۔ بلکہ کمرۂ جماعت میں ایک چارٹ پیپر یا بورڈ لگائیے اور طلبا کی حوصلہ افزائی کیجیے کہ وہ ہر روز اپنی سوچ  کا کم از کم ایک سوال لکھیں  اور چارٹ پیپر یا بورڈ پر چسپاں کریں، چاہے اسکول کا ہو یا زندگی کا، نصابی ہو یا غیر نصابی۔

استاد خود سوال کرے: جب استاد خود کہے ’’کیا تم نے کبھی سوچا کہ...‘‘ تو طلبا بھی سوالات میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ یہ طریقہ ’گفتگو پر مبنی سیکھنے کا انداز‘ (Socratic Method) ہے جہاں استاد طلبا سے مسلسل سوالات کرتا ہے تاکہ وہ خود جواب تک پہنچیں۔


سوال، معاشرے کی تعمیر کا ستون

سوال کرنا صرف تعلیم کا جزو نہیں، یہ زندگی کی علامت ہے۔ جو معاشرے سوال کی اجازت نہیں دیتے، وہ سوچنے سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ جس معاشرے میں سوال کرنے کی عادت ہو، وہاں تعصب نہیں پنپتا، تقلید اندھی نہیں رہتی اور شخصیتیں بے روح نہیں ہوتیں۔ اگر کسی بچے کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے تو یہ اس کے اندر ایک علم دوست روح کی گواہی ہے۔ اسے دبانا نہیں، ابھارنا چاہیے۔ سوال وہ چراغ ہے جس سے اور چراغ جلتے ہیں اور پھر وہ چراغ دیگر ذہنوں کو منور کرتے ہیں۔ یاد رکھیے! جو قومیں سوال سے ڈرتی ہیں وہ جواب کے قابل بھی نہیں رہتیں۔

علم کا پہلا قدم سوال ہے اور جو سوال نہیں کرتا، وہ سیکھنے کی راہ پر نہیں بلکہ خاموشی کی دلدل میں پھنسا ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کو صرف جواب نہ دیں بلکہ اُنھیں سوال کرنے کی جرأت دیں، کیوں کہ یہی وہ جرأت ہے جو ایک عام طالب علم کو غیر معمولی بنا دیتی ہے۔ بچے صرف استاد کے جوابات سے نہیں، اپنی حیرت کے اظہار سے بھی سیکھتے ہیں۔ لہٰذا اگر ہمیں ایسا پاکستان چاہیے جو روشن ہو، خودمختار ہو اور جدید دنیا میں کھڑا ہو سکے — تو ہمیں اپنے بچوں کو یہ کہنا ہوگا:

’’پوچھو، سوال کرو، کیوں کہ تمہارے سوال ہی تمہیں وہ انسان بنائیں گے جو کچھ جاننا چاہتا ہے نہ کہ صرف وہ جو مان لیتا ہے!‘‘
سوال کیجیے کہ یہ سیکھنے کی سب سے سچی پہچان ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سوال کرنا سوالات کو سوال نہیں سیکھنے کا نہیں بلکہ سوال کرنے سیکھنے کی کے سوالات طالب علم میں سوال ہیں بلکہ ہوتا ہے نے والا سوال کی وہ سوال جاتا ہے کرتا ہے ہر سوال ہیں وہ ہے اور

پڑھیں:

عمران خان کا مخمصہ

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے یہ توقع کسی کو نہیں تھی وہ اتنا عرصہ جیل میں گزار سکیں گے، ان کے متعلق تمام تجزیے اور تبصرے غلط ثابت ہوئے ہیں، رواں ماہ عمران خان نے اڈیالہ جیل میں 2سال مکمل کرلیے ہیں اور اب ان کے سیاسی حریف بھی اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ عمران خان کے بارے ان کے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں، عمران خان نے نہ صرف 2سال جیل کاٹی بلکہ بہادری کے ساتھ کاٹی ہے۔

گزشتہ 2سال میں کل ملا کے عمران خان کے خلاف 4کیسز کا ٹرائل ہوا جن میں سائفر کیس، توشہ خانہ کیس، عدت میں نکاح کیس اور 190ملین پاونڈ کیس سر فہرست ہیں، توشہ خانہ ٹو اور جی ایچ کیو حملہ کیس سمیت 9مئی کے دیگر کیسز کا ٹرائل تاحال جاری ہے۔ سائفر کیس، توشہ خانہ کیس اور عدت میں نکاح کیس کی سزائیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج ہوئی تو عدالت نے عمران خان، شاہ محمود قریشی اور ان کی اہلیہ کو تینوں کیسز میں بری کردیا جبکہ 190 ملین پاونڈ کیس میں دونوں میاں بیوی کی سزا ابھی تک برقرار ہے۔

190 ملین پاونڈ کیس میں عمران خان کو 14 سال جبکہ انکی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے، عمران خان کی قانونی ٹیم نے 190 ملین پاونڈ کیس کی سزا کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے، توشہ خانہ کا دوسرا کیس بھی کوئی تگڑا کیس نہیں اور 9مئی جی ایچ کیو حملہ کیس ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، عمران خان کے خلاف بنائے گئے کیسز کا فری اینڈ فیئر ٹرائل ہوا یا نہیں اس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کی کم سے کم تین کیسز میں واضع اوبزرویشن موجود ہیں جن میں عمران خان بری ہوچکے ہیں۔

2سال میں عمران خان سے کوئی 100 سے زائد ملاقاتیں رہیں، دوران ٹرائل ان کے رویے، انداز گفتگو، باڈی لینگویج، سیاسی موقف، قومی مسائل پر نقطہ نظر کو جاننے کا قریب سے موقع ملا، اس بات میں کوئی شک نہیں عمران خان کی شخصیت میں ضد اور انا کوٹ کوٹ کے بھری ہے اور وہ ہر معاملے میں اپنی رائے کو دوسروں کی رائے پر مقدم سمجھتے ہیں۔ جیل ٹرائل کے دوران ان کو ججز سے بھی لڑتے دیکھا، پراسیکیوشن سے بھی لڑتے دیکھا، اپنے وکلاء کو بھی ڈانٹتے دیکھا یہاں تک کہ اگر کوئی صحافی تلخ سوال کرے تو اس پر بھی سخت ردعمل عمل دیتے دیکھا ہے۔

2سال میں ہم نے دیکھا کہ عمران خان کسی کی بات نہیں سنتے نہ کسی کو خاطر میں لاتے ہیں، کمرہ عدالت میں اگر کسی شخصیت کا کنٹرول عمران خان پر دیکھا گیا ہے تو وہ صرف ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ہیں۔ بشریٰ بی بی کی کوئی بات عمران خان نظر انداز نہیں کرتے ان کی ہر بات سنجیدگی سے سنتے ہیں، کئی بار عمران خان کو بشری بی بی کے ساتھ سرگوشیاں کرتے بھی دیکھا گیا ہے، لیکن یہ جان کر آپ کو حیرانی ہوگی بشری بی بی کی ضد عمران خان سے بھی دو درجے اوپر ہے، اس کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن ایک واقعہ آپکے سامنے رکھتے ہیں۔

ایک مرتبہ 190ملین پاونڈ کیس کی سماعت ملتوی کرکے بشری بی بی کو اطلاع نہیں کی گئی تھی جس پر ان کو شدید غصہ تھا، کمرہ عدالت میں داخل ہوتے ہی بشری بی بی کے تیور صاف دکھائی دے رہے تھے، عموماً بشریٰ بی بی جب بھی اپنے سیل سے کمرہ عدالت لائی جاتی ہیں تو عمران خان اپنی نشست سے اٹھ کر ان سے گلے ملتے ہیں لیکن حال احوال پوچھتے ہیں پھر دونوں اپنی اپنی نشستوں پر جاکر بیٹھ جاتے ہیں، لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں تھا، بشری بی بی کمرہ عدالت آتے ہی الگ تھلگ بیٹھ گئیں، ہم یہ توقع کررہے تھے عمران خان اٹھ کر ان کے پاس آئینگے لیکن عمران خان اپنی بہنوں کے ہمراہ کمرہ عدالت میں واقع فیملی کارنر میں بیٹھے رہے۔

دس سے پندرہ منٹ گزرے بشریٰ بی بی کے پاس نہ کوئی آیا نہ انہوں نے کسی کو کچھ کہا، بالآخر بشریٰ بی بی نے اپنے ایک وکیل سے پوچھا کہ وہ جج صاحب سے بات کرنا چاہتی ہیں، احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے اجازت دی تو بشریٰ بی بی اپنے وکیل کے ہمراہ روسٹرم پر کھڑی ہوگئیں اور تلخ لہجے میں جج صاحب سے بولیں کہ وہ مسلسل ناانصافی کا شکار ہورہی ہیں گزشتہ سماعت ملتوی کرنے کے بارے انہیں کسی نے کچھ نہیں بتایا لہذا وہ عدالت پر عدم اعتماد کررہی ہیں۔

بشریٰ بی بی کا الگ تھلگ بیٹھنا، کسی سے کوئی بات نہ کرنا، شدید غصے میں روسٹرم پر جانا ہمارے لیے حیران کن تھا کیونکہ بشری بی بی کی جانب سے ایسا رویہ پہلی بار کمرہ عدالت میں سامنے آیا، بشریٰ بی بی کا جج صاحب سے مکالمہ جاری تھا عمران خان بھی اٹھ کر روسٹرم پر چلے گئے اور بشری بی بی کے ساتھ کھڑے ہوگئے، عمران خان نے جب مسئلہ سنا تو انہوں نے اور ان کے وکلاء نے جج صاحب سے کہا سماعت میں وقفہ کرکے ہمیں وقت دیا جائے ہم بشریٰ بی بی کو قائل کرلیں گے۔ عدالت نے سماعت میں وقفہ کیا لیکن بشریٰ بی بی روسٹرم سے اتر کر واپس اسی جگہ بیٹھ گئیں جہاں پہلے الگ تھلگ بیٹھی تھیں۔

عمران خان نے 2مرتبہ بشریٰ بی بی کو اشارہ کیا کہ وہ فیملی کارنر کی طرف آئیں لیکن بشریٰ بی بی نے عمران خان کی بات کو نظر انداز کیا، خیر عدالت میں تین تین گھنٹے کے 2وقفوں کے بعد بالآخر بشریٰ بی بی کو منا لیا گیا اور انہوں نے عدالت پر عدم اعتماد کی درخواست واپس لے لی، ایسے ہی کئی اور واقعات مشاہدے میں آئے جس میں بشری بی بی کی ضد اور انا کا اندازہ ہوا۔

عمران خان کی سیاسی حکمت عملی کا جہاں تک تعلق ہے اس بات میں کوئی شک نہیں عمران خان شروع دن سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں، لیکن 8 فروری 2024 کے عام انتخابات سے قبل عمران خان کا یہ موقف تھا انہیں مذاکرات کی ضرورت نہیں اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے وہ خود آکے ان سے مذاکرات کرے، عام انتخابات کے نتائج کے بعد عمران خان کو یہ اعتماد حاصل ہوا کہ عوام ان کے ساتھ ہے لہذا مذاکرات کا وقت گزر چکا ہے، اب عوام کی طاقت سے ہی وہ جیل سے باہر آئینگے لیکن عام انتخابات کے 3ماہ بعد جب خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی نے حکومت سمبھالی تو عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے 3رکنی کمیٹی تشکیل دے دی جس میں عمر ایوب، شبلی فراز اور علی امین گنڈا پور شامل تھے۔

علی امین گنڈا پور نے کئی مرتبہ اس بات کا برملا اظہار کیا ان کے اسٹیبلشمنٹ سے بالواسطہ یا بلا واسطہ رابطے ہیں اور وہ عمران خان کی رہائی کی کوشش کررہے ہیں، اس مذاکراتی کمیٹی کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہ نکلنے پر عمران خان مایوس ہوئے، پھر انہوں نے موجودہ آرمی چیف کو براہ راست پیغامات دینا شروع کیے کہ آپ نیوٹرل ہوجائیں، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پی ٹی آئی اور فوج کی لڑائی کرانا چاہتے ہیں، فوج اپنا نمائندہ مقرر کرے ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔

جب ان پیغامات کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا تو عمران خان نے 22 اگست 2024 کو اسلام آباد میں جلسے کی کال دے دی، 21 اور 22 اگست کی رات رابطے تیز ہوئے تو علی امین گنڈا پور کے ذریعے اعظم خان سواتی اور چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان 22 اگست کی صبح اڈیالہ جیل عمران خان سے ملاقات کے لیے پہنچ گئے، یہ پہلا موقع تھا جب اڈیالہ جیل میں ملاقات کے لیے صبح 7بجے ملاقات کا انتظام کیا گیا، ملاقات کے بعد اعظم خان سواتی نے بیرسٹر گوہر خان کے ہمراہ اڈیالہ جیل کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ عمران خان کی ہدایت پر جلسہ منسوخ کردیا گیا ہے۔

اعظم سواتی اور بیرسٹر گوہر خان کی ملاقات اور جلسہ منسوخ ہونے پر پی ٹی آئی اور عمران خان کی بہن کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا، لیکن اگلے دن عمران خان نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں کو بتایا ان کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے استوار ہوچکے ہیں اسٹیبلشمنٹ کی درخواست پر جلسہ منسوخ کیا ہے اب یہ جلسہ پر امن طور پر 8 ستمبر 2024 کو سنگ جانی کے مقام پر منعقد ہوگا، 8 ستمبر کو جب پی ٹی آئی نے جلسے کے لیے اسلام آباد کا رخ کیا تو انتظامیہ اور پولیس حرکت میں آئی۔ پارلیمنٹ سے ارکان اسمبلی کی گرفتاریاں ہوئیں پھر سنگ جانی کے مقام پر جلسے کی این او سی کی خلاف ورزی پر پی ٹی آئی کارکنان اور پولیس کا آپس میں ٹکراو ہوا، عمران خان نے جلسے میں رکاوٹ پیدا کرنے اور پارٹی لیڈرز کی گرفتاریوں پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اب اسٹیبلشمنٹ سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہونگے انہوں نے ہمیں دھوکا دیا ہے لہذا مذاکرات کے تمام دروازے بند ہیں۔

پھر عمران خان نے 4 اکتوبر اور 28ستمبر کی احتجاجی کال دی لیکن اسے کوئی فرق نہیں پڑا، 28 ستمبر کو علی امین گنڈا پور جب قافلہ لیکر موٹروے سے واپس روانہ ہوئے تو اگلے دن اعظم خان سواتی عمران خان سے ملنے جیل پہنچے، کمرہ عدالت پہنچتے ہی عمران خان اور بشریٰ بی بی نے اعظم سواتی پر چڑھائی کی کہ احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیوں ہوا قافلہ کیوں واپس روانہ ہوا۔
24 اکتوبر 2024 کو توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور ہونے کے بعد عدالت نے بشری بی بی کو رہا کرنے کے احکامات جاری کردیے، بشری بی بی اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد پہلے کچھ دیر بنی گالہ چلی گئیں پھر خیبرپختونخوا روانہ ہوگئیں، بشریٰ بی بی کی رہائی کے بعد عمران خان نے 13 نومبر کو اسلام آباد کی فائنل کال کا اعلان کردیا اور پارٹی کو 24 نومبر 2024 کے احتجاج کی تیاری کی ہدایت کردی۔

عمران خان خان سے جب پوچھا گیا احتجاج کون لیڈ کرے تو عمران خان نے کہا اس کے لیے انہوں نے 5رکنی کمیٹی بنائی ہے لیکن وہ کمیٹی کے ارکان کا نام نہیں بتائیں گے کیونکہ ان کی گرفتاری کا خدشہ ہے، 24 نومبر کے احتجاج سے قبل بیک ڈور چینل سے بیرسٹر گوہر خان، علی امین گنڈا پور اور بیرسٹر سیف ایک مرتبہ پھر متحرک ہوئے اور وہ مذاکرات کی پیشکش لیکر اڈیالہ جیل عمران خان کے پاس پہنچے، بیرسٹر گوہر خان اور علی امین گنڈا پور کی عمران خان سے 2طویل ملاقاتیں ہوئیں، 24 نومبر کے احتجاج سے قبل 23 نومبر کی رات بیرسٹر سیف اور بیرسٹر گوہر خان کی عمران خان سے اڈیالہ جیل میں آخری نشست ہوئی جس میں بقول بیرسٹر گوہر خان کے انہوں نے عمران خان کو بتایا تمام چیزیں طے ہوگئی ہیں پی ٹی آئی کے جائز مطالبات کو تسلیم کیا گیا ہے، مطالبات پر عملدرآمد مختلف فیزز میں ہوگا۔

بقول بیرسٹر گوہر خان کے عمران خان اس آخری نشست میں ہونے والی گفتگو پر راضی ہوگئے تھے، لیکن بشریٰ بی بی نے یہ ضد لگائی کہ عمران خان کا وڈیو پیغام جب تک نہیں آئے گا وہ کسی کی بات پر یقین نہیں کریں گی، 24 نومبر کو خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی کا قافلہ نکلا تو بشریٰ بی بی منظر عام پر آگئیں اور انہوں نے اسلام آباد تک ایک بڑے قافلے کو لیڈ کیا۔ 24 نومبر کا احتجاج 26 نومبر کو اسلام آباد پہنچتا ہے تو حکومت کی جانب سے احتجاجی مظاہرین کے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ ہوتا ہے، اسلام آباد ریڈ زون کو مکمل سیل کیا جاتا ہے اور مظاہرین کو ریڈ زون میں داخل ہونے سے روک دیا جاتا ہے، پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران پولیس اہلکاروں اور پی ٹی آئی کارکنان کی شہادتیں واقع ہوتی ہیں لیکن بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور قافلے کو بیچ راہ میں چھوڑ کر فرار ہوجاتے ہیں۔

علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کے فرار پر پی ٹی آئی کے اندر سے سخت ردعمل آتا ہے، 26 نومبر کے احتجاج کے بعد جب عمران خان سے بات ہوئی تو ان سے پوچھا گیا آپ تو کہہ رہے ہیں بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں انہوں نے تو بڑا سیاسی قافلہ لیڈ کیا ہے، عمران خان سے یہ بھی پوچھا گیا بیرسٹر گوہر خان اور بیرسٹر سیف سے ملاقات میں آپ قائل ہوئے تھے احتجاج کو محدود کرنے پر؟ عمران خان نے کہا انہوں نے احتجاج کے حوالے سے اصل حکمت عملی بشری بی بی کو بتائی تھی، بشریٰ بی بی کو ساری حکمت عملی بتائی تھی کب کہاں سے کس طرح اسلام آباد پہنچنا ہے وہ سیاست میں نہیں میری اہلیہ کی حیثیت سے ظلم کے خلاف نکلی ہیں۔

26 نومبر کے احتجاج کے بعد 23 دسمبر 2024 کو پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین مذاکرات کا نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے، پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے مطالبے پر عمران خان سے ان کی 7رکنی مذاکراتی کمیٹی کی 2ملاقاتیں کروائی جاتی ہیں، ایک ملاقات 26 دسمبر دوسری ملاقات 12 جنوری کو کرائی جاتی ہے، حکومت کے ساتھ پی ٹی آئی کے مذاکرات کے 3راونڈ ہوتے ہیں لیکن پی ٹی آئی مذاکرات کے چوتھے راونڈ میں بیٹھنے سے قبل یہ کہہ کر مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کرتی ہے جب تک 26 نومبر اور 9مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن نہیں بنتا مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے یوں مذاکرات کا یہ سلسلہ بھی بے نتیجہ ختم ہوتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کو جہاں قومی سیاست میں اس وقت بڑے چیلینجز کا سامنا ہے وہیں پارٹی کے اندر گروہ بندیاں بھی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں، خیبر پختونخوا میں علی امین گنڈا پور سے صوبائی صدارت لیکر جنید اکبر کو دینی کی بات ہو یا پنجاب میں حماد اظہر سے ذمہ داریاں لیکر عالیہ حمزہ کو دینے کی بات ہو، شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکالنے کی بات ہو یا مسلم لیگ ن کے محمد زبیر کو پی ٹی آئی میں شامل کرنے کی بات ہو، کوئی بڑا اپوزیشن الائنس بنانے میں ناکامی کی بات ہو یا پارلیمنٹ میں حکومتی خواہش کے مطابق قانون سازی کا عمل رکوانے میں ناکامی کی بات ہو، مجموعی طور پر پی ٹی آئی گزشتہ تین سال میں کوئی بڑا سیاسی ہدف حاصل نہیں کرسکی، عمران خان کو بھی اکثر گلہ رہتا ہے کہ انکی باہر بیٹھی لیڈر شپ کی کوئی حکمت عملی نہیں بلکہ انہوں نے کئی مواقع پر کھل کے اپنی لیڈر شپ کو چارج شیٹ کیا ہے جبکہ پی ٹی آئی لیڈر شپ یہ شکوہ کرتی ہے کہ عمران خان کی بہن علیمہ خان کا پارٹی معاملات میں اچھا خاصا عمل دخل ہے، کئی رہنماوں نے آف دی ریکارڈ بات کرتے ہوئے بتایا علیمہ خان ہر اہم موقع پر رکاوٹ کھڑی کردیتی ہیں۔

سوشل میڈیا اور اوورسیز لیڈر شپ پر علیمہ خان حاوی ہیں، جیل ملاقاتوں پر بھی پی ٹی آئی کی بیشتر لیڈر شپ کو اعتراضات ہیں کئی اہم رہنماوں کے مطابق جن لوگوں کی عمران خان تک رسائی ہے وہ انہیں مکمل معلومات نہیں پہنچاتے الٹا مس لیڈ کرتے ہیں، 26 ویں آئینی ترمیم سے قبل پی ٹی آئی بالخصوص عمران خان کو عدالتوں سے کسی نہ کسی صورت ریلیف کی امید رہتی تھی اور کئی کیسز میں عمران خان ریلیف حاصل کر بھی چکے ہیں، لیکن اب عمران خان عدالتوں سے بھی مایوس ہوچکے ہیں، عمران خان جیل سے کب باہر آتے ہیں اس بارے کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے لیکن عمران خان سے جب بھی ملاقات ہوئی ہے ان کو ہمیشہ فزیکلی فٹ اور پرامید دیکھا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

شبیر ڈار

متعلقہ مضامین

  • لوک سبھا میں مودی نے 2 گھنٹے کی تقریر میں پاکستانی طیارے گرانے کی بات کیوں نہیں کی سینیٹرعرفان صدیقی کا سوال
  • کورنگی انڈسٹریل ایریا؛ ایک طویل سڑک، کئی سوالات
  • عمران خان کا مخمصہ
  • عالمی شہرت یافتہ ایرانی مصوری استاد محمود فرشچیان انتقال کر گئے
  • غزہ میں شہید فلسطینی فٹبالر کو یوئیفا کا خراج عقیدت، محمد صلاح کا طنزیہ سوال وائرل
  • بھارت کے انتخابی عمل کی شفافیت پر سنگین سوالات اٹھ گئے
  • راہول گاندھی نے نریندر مودی کی انتخابی جیت پر سوال اٹھا دیا
  • بھارت کے انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اُٹھ گئے، مودی کے انتخابی فراڈ کا پردہ چاک
  • سپریم کورٹ کے جج نے بحریہ ٹاؤن کی جائیدادوں کی نیلامی میں جلد بازی پر سوال اٹھا دیا
  • باجوڑ میں خوارج سے سمجھوتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا(سکیورٹی ذرائع )