لیاقت آباد ٹائون کا 2ارب 78کروڑ سے زایدکا بجٹ پیش
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(اسٹاف رپورٹر)چیئرمین لیاقت آباد ٹاون فراز حسیب نے لیاقت آباد ٹاون کا مالی سال 2025 – 2026 کے لئے دو ارب اٹھترکروڑگیارہ لاکھ اٹھارہ ہزار ایک سو پانچ روپے کا بجٹ پیش کردیا۔ اس موقع پر وائس چیئرمین اسحاق تیموری،کو آرڈینٹر صغیر احمد انصاری،، اراکین کونسل، اکاؤنٹ آفیسر پرویز اختر،ڈائریکٹر کونسل وسیم احمد،، ڈائریکٹر پارکس ریحان ہمدانی، اور دیگر افسران سمیت پریس و میڈیا کے نمائندگان بھی موجود تھے۔چیئرمین فراز حسیب نے کہا کہ ہم نے آئینی تقاضوں کے مطابق تعمیر و ترقی کے کام خلوص اور جذبہ خدمت خلق سے سرشار ہو کر ادا کیے، بلدیاتی انتخابات میں کراچی کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرنے والی جماعت جس کا نام جماعت اسلامی ہے، ہم عوام کی خدمت کے جذبے کے ساتھ آئے ہیں، عید قربان، شب برات، محرم الحرام، یا ربیع الاول یا رین ایمرجینسی ہو ان تمام موقعوں پر ہم نے اپنی بھرپور کاکردگی کا مظاہرہ کیا جس کی تعریف عوام کے ساتھ ساتھ ہمارے مخالفین نے بھی کی، بجٹ کی تیاری میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ لیاقت آباد ٹاون کی عوام کو ذیادہ سے ذیادہ شہری سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور لیاقت آباد ٹاون کی صحت و صفائی کی ذمہ داری کو عوام کی امنگوں کے مطابق پورا کرنا ہے۔ بجٹ میں خاطر خواہ رقم ترقیاتی کاموں کے لئے خاطر خواہ رقم رکھی گئی ہے، جس سے لیاقت آباد ٹاون میں سڑکوں اور عمارتوں کی مرمت اور دیکھ بھال، ضلع،میں جاری کلک پروگرام، برساتی نالوں کی تعمیر اور پارکس وکھیل کے میدانوں کی دیکھ بھال اور تعمیر ِنو، ور پنشن اسٹریٹ لائٹس کی تنصیب اور گاڑیوں کی مرمت، اسکولوں کی مرمت و درستگی اور کتب خانہ جات کے ترویج کے کاموں کے ساتھ دیگر امور سر انجام دئے جائیں گے۔ اراکینِ کونسل نے ایک لاکھ ساٹھ ہزار دو سو چھیاسی روپے کی بچت کابجٹ پیش کرنے پر چیئرمین فراز حسیب، مالیاتی کمیٹی اور متعلقہ افسران کی کارکردگی کو خراج تحسین پیش کیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: لیاقت ا باد ٹاون
پڑھیں:
اسرائیل ترکی کو اپنا اگلا ہدف سمجھتا ہے نہ کہ پاکستان کو، ترک عوام
پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے واضح کیا کہ اسرائیلی حملوں کے بعد پاکستان نے ایران کے ساتھ کوئی نیا عسکری تعاون شروع نہیں کیا۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ وہ ایران-اسرائیل تنازعے میں براہِ راست فریق نہیں ہے، اس کی اصل توجہ بھارت اور افغانستان سے آنے والے خطرات پر مرکوز ہے۔ اسلام تائمز۔ عالمی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل درحقیقت مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ از سرِ نو ترتیب دینا چاہتا ہے اور 13 جون کو ایران پر حملہ اور اس کے بعد جوہری تنصیبات پر ہونے والی بمباری اس راستے سے ایک بڑی رکاوٹ کو ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔
ایران کی آبادی 9 کروڑ سے کچھ زیادہ ہے، جو عراق کی آبادی سے تقریباً تین گنا ہے، اور اس کی نسلی ساخت زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس لیے اگر ملک میں بدامنی ہوتی ہے تو یہ ایک بہت بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ 1979 کی اسلامی انقلاب سے پہلے ایران اور اسرائیل قریبی اتحادی تھے اور ان کے درمیان گہرے اقتصادی اور عسکری تعلقات تھے۔ تل ابیب کو یقیناً اس ماضی کو دوبارہ حاصل کرنے کی امید ہے۔
13 سے 24 جون کے درمیان ایران کے ساتھ تباہ کن “پیشگی” جنگ کے بعد، جب ایران کو کمزور کر دیا جائے گا، اسرائیل ممکن ہے کہ کسی دوسری “پریشان کن” علاقائی طاقت یعنی ترکی کے خلاف غیر فوجی طریقے سے اقدامات کرے۔ کچھ ماہرین کے مطابق ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے، اگرچہ اسرائیل کی طرف سے ترکی کے خلاف براہِ راست فوجی کارروائی کا امکان فی الحال کم ہی نظر آتا ہے۔ ترکی کے سیاسی حلقے اور میڈیا میں یہ رائے عام ہے کہ اسرائیل ترکی کو اپنا اگلا ہدف سمجھتا ہے تاکہ اسے قابو میں رکھا جا سکے۔ اس حوالے سے ترکی کی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے سربراہ دولت باہچلی نے کہا کہ “اسرائیل کا مقصد اناطولیہ کے جغرافیے کو گھیر لینا ہے” اور خبردار کیا کہ ترکی “حتمی ہدف” ہے۔
7 اکتوبر 2023 سے مشرقِ وسطیٰ میں جاری بڑی تبدیلیوں اور ایران کے ساتھ حالیہ جنگ کے پس منظر میں ترکی نے اپنے میزائل پروگرام میں تیزی لائی ہے۔ 11 جون 2025 کو اسرائیلی وزیرِاعظم نے کنیسٹ میں کہا کہ “چاہے کوئی کچھ بھی سمجھے، عثمانی سلطنت اب واپس نہیں آئے گی”۔ خطے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے خدشات کی جڑیں ترکی کی تاریخ میں موجود ہیں، جنہیں ترکی کے سابق وزیرِاعظم نجم الدین اربکان اور ان کے بیٹے فاتح اربکان بار بار بیان کر چکے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے کچھ اشارے بھی ان خدشات کو ہوا دیتے ہیں، جیسے ایک اسرائیلی ٹی وی کا وائرل ویڈیو جس میں ایک تبصرہ نگار نے کہا کہ “آخر کار اسرائیل کو ترکی کا سامنا کرنا پڑے گا”۔
اس کے علاوہ پرتگال کے سابق وزیر برائے یورپی امور برونو میسیاس بھی خبردار کر چکے ہیں کہ ایران پر مغربی یا اسرائیلی حملوں کے بعد ترکی کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں ہو سکتی ہیں۔ پاکستان، جو خطے کی ایک اور اہم اسلامی طاقت ہے اور واحد اسلامی ملک ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، ایران سے قریبی تعلقات رکھتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایران کے ساتھ “مضبوط یکجہتی” کا اظہار کیا اور اسرائیلی جارحیت کو “انتہائی خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ” قرار دیا، جو خطے میں مزید عدم استحکام لا سکتی ہے۔ اس کے باوجود پاکستان نے سفارتی ذرائع سے معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کی اور اپنے اسٹریٹیجک شراکت دار چین سے مطالبہ کیا کہ وہ کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے کے لیے سفارتی کردار ادا کرے۔
پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے واضح کیا کہ اسرائیلی حملوں کے بعد پاکستان نے ایران کے ساتھ کوئی نیا عسکری تعاون شروع نہیں کیا۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ وہ ایران-اسرائیل تنازعے میں براہِ راست فریق نہیں ہے، اس کی اصل توجہ بھارت اور افغانستان سے آنے والے خطرات پر مرکوز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کے مطابق اسرائیل کی حالیہ حکمت عملی میں پاکستان کا کردار ثانوی ہے۔ یقیناً اسرائیل، جو ہمیشہ سب کو حیران کرتا رہا ہے، ممکن ہے کہ کچھ اور سوچ رہا ہو۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ اسرائیل کا حملہ غزہ پر شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک سینئر اسرائیلی عہدیدار نے ایران کے ساتھ جنگ بندی کے آثار کے ساتھ ہی کہا: “حماس آج غیر معمولی تنہائی کا شکار ہے، اور یہی وقت ہے کہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا جائے اور غزہ سے مستقل خطرے کا خاتمہ کیا جائے اور مغویوں کو واپس لایا جائے”۔