اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن )  قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 77 مخصوص نشستیں بحال, کس جماعت کو کتنی  نشستیں ملیں گی ۔۔؟  اس حوالے سے اہم تفصیلات سامنے آئی ہیں ۔
 تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستیں منظور کرلیں اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا حکم کالعدم قرار دے دیا۔’’جیو نیوز ‘‘ کے  مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی و صوبائی اسمبلی کی 77 مخصوص نشستیں بحال ہوگئیں۔

محرم الحرام میں ملک بھر میں فوج تعینات کرنے کا فیصلہ

قومی اسمبلی کی پنجاب سے خواتین کی 11 مخصوص نشستیں جبکہ  خیبرپختونخوا سے خواتین کی 8 اور اقلیت کی 3 مخصوص نشستیں بحال ہوئی ہیں۔

قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو 14، پیپلزپارٹی کو 5 اور جے یو آئی (ف) کو 3 مخصوص نشستیں ملیں گی۔

خیبرپختونخوا اسمبلی میں خواتین کی 21  اور اقلیت کی 4 مخصوص نشستیں بحال ہوئی ہیں جس کے بعد اب خیبر پختونخوا اسمبلی میں جے یوآئی (ف) کو 10، مسلم لیگ (ن) کو 7،  پیپلزپارٹی کو 7 اور اے این پی کو ایک مخصوص نشست ملےگی۔

پنجاب اسمبلی میں خواتین کی 24 جبکہ اقلیت کی 3 نشستیں بحال ہوئی ہیں جن میں سے  مسلم لیگ(ن) کو 23، پیپلزپارٹی کو 2 جبکہ پاکستان مسلم لیگ اور آئی پی پی کو ایک ایک نشست ملے گی۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (ہفتے) کا دن کیسا رہے گا ؟

سندھ اسمبلی میں خواتین کی 2 اور اقلیت کی ایک نشست بحال ہوئی ہے جس میں سے پیپلزپارٹی کو 2 اور ایم کیوایم کو ایک مخصوص نشست ملے گی۔

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: مخصوص نشستیں بحال پیپلزپارٹی کو اسمبلی میں خواتین کی بحال ہوئی اقلیت کی مسلم لیگ

پڑھیں:

پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی، آئینی بنچ کا فیصلہ: حکومتی اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے، جس کے بعد پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی اور یہ نشتیں حکومتی اتحاد کو منتقل ہوجائیں گی۔ سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستوں پر سماعت ہوئی، سماعت آئینی بنچ کے11  کے بجائے 10 رکنی بنچ نے کی، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی۔ اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مخصوص نشستوں نظر ثانی کیس کی سماعت مکمل ہوگئی تھی۔ فیصلہ بنچ کے7  ارکان نے اکثریت کی بنیاد پر سنایا جس میں سربراہ جسٹس امین الدین، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس عامر فاروق، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس علی باقر نجفی شامل ہیں۔ آئینی بنچ نے نظرثانی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے12 جولائی کا سپریم کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا فیصلہ برقرار رکھا۔ مختصر فیصلہ جسٹس امین الدین خان نے پڑھ کر سنایا، جس میں کہا گیا کہ تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔12 جولائی کے فیصلے کے خلاف جتنی درخواستیں دائر ہوئی تھیں۔ عدالت نے وہ ساری منظور کرلیں، فیصلے کے بعد پی ٹی آئی تمام نشستوں سے محروم ہوگئی، قومی اسمبلی کی 22  نشستیں اور صوبائی اسمبلی کی55  نشستیں حکومتی اتحاد کو مل جائیں گی۔ جسٹس جمال مندوخل نے39  نشستوں کی حد تک اپنے رائے برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے مشروط نظرثانی درخواستیں منظور کیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس محمد علی مظہر نے لکھا کہ نشستوں کی حد تک معاملہ الیکشن کمشن کو بھجواتے ہیں، الیکشن کمشن تمام متعلقہ ریکارڈ دیکھ کر طے کرے کس کی کتنی مخصوص نشستیں بنتی ہیں۔ فیصلے میں بتایا گیا کہ جسٹس صلاح الدین پنہور نے بنچ سے علیحدگی اختیار کی، ابتدا میں 13رکنی آئینی بنچ تشکیل دیا گیا تھا، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے ابتدائی سماعت میں ہی ریویو درخواستیں خارج کر دی تھیں۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے الیکشن کمشن کو کاغذات نامزدگی کا دوبارہ جائزہ لینے کا حکم دے دیا۔ جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہرر ضوی نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ واضح رہے کہ 12 جولائی 2024 ء کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیا تھا۔ اس سے قبل14 مارچ 2024 ء کو پشاور ہائیکورٹ کے5  رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ قبل ازیں عدالت عظمیٰ کے گیارہ رکنی بنچ میں شامل جسٹس صلاح الدین پنہور نے مخصوص نشستیں کیس کے بنچ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ سماعت کے آغاز ہی پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے بنچ کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شمولیت پر اعتراض کیا گیا ہے۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دئیے کہ آپ سے میرا2010 ء کا تعلق بھی ہے، فیصل صدیقی اور سلمان اکرم راجا جیسے وکلاء نے ججز پر اعتماد کا اظہار کیا، لیکن جس انداز سے اعتراض کیا گیا، اس سے عدالت کے وقار پر سوال اٹھا اس لیے ادارے کی ساکھ کے تحفظ کے لیے بنچ سے الگ ہو رہا ہوں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کا علیحدہ ہونا کسی اعتراض کے اعتراف کے طور پر نہ لیا جائے۔ حامد خان نے جسٹس صلاح الدین پنہور کے فیصلے کو قابلِ ستائش قرار دیا، تاہم جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ ستائش کا معاملہ نہیں، یہ سب آپ کے کنڈکٹ کی وجہ سے ہوا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کہا کہ آپ کا طرزِ عمل اس ردعمل کی بنیاد ہے۔ ہم نے آپ کا لحاظ کرتے ہوئے آپ کو سنا، حالانکہ ایک ہی پارٹی سے2  وکیل دلائل کے حقدار نہیں ہوتے، پھر بھی آپ کو بولنے کا موقع دیا۔ حامد خان نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ اس کیس میں نظرثانی کی بنیاد پر دلائل دینے کا حق رکھتے ہیں، جسٹس جمال نے کہا کہ آپ اس کیس میں دلائل دینے کے حقدار نہیں تھے۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے مزید کہا کہ آپ کے دلائل سے میں ذاتی طور پر رنجیدہ ہوا، لیکن یہاں میری ذات کا معاملہ نہیں، ججز پر جانبداری کا الزام لگایا گیا جس سے تکلیف ہوئی۔ عوام میں یہ تاثر جانا کہ جج جانبدار ہے، درست نہیں۔ اس موقع پر کیس کی سماعت کو10 منٹ کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ بنچ 10 منٹ بعد دوبارہ آ کر سماعت کرے گا۔ اس موقع پر مخدوم علی خان نے دلائل دئیے۔ سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس جمال نے کہا کہ جواب الجواب کی حد تک دلائل محدود رکھیں، جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ کوئی نئی بات نہیں کروں گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ خواہش ہے کہ سپریم کورٹ کا پرانا نظام بحال ہونا چاہیئے، بہت ہو چکا ہے، مخدوم علی خان نے کہا کہ مختصر حکم نامے میں رول 94 کو غیر آئینی نہیں کہا گیا، عدالت نے تفصیلی فیصلے میں ایسا کیا، مختصرحکم نامے سے متصادم تفصیلی فیصلہ برقرار نہیں رہ سکتا۔ جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ مختصر آرڈر میں ہم اتنا ہی کہتے ہیں وجوہات بعد میں دیں گے، شارٹ آرڈر تو بالکل ہی مختصر ہوتا ہے، یہ کیسے کہہ سکتے ہیں جو شارٹ آرڈر میں نہیں وہ تفصیلی میں نہ آئے، سب کچھ شارٹ آرڈر میں ہو تو تفصیلی کی ضرورت کیا ہے؟ جسٹس جمال نے ریمارکس دئیے کہ تفصیلی فیصلے میں مختصر حکم نامے سے کہاں انحراف کیا گیا؟ شارٹ آرڈر کے حق میں ہم پچاس سو وجوہات لکھ سکتے ہیں، جو دلائل دیے گئے جواب الجواب میں انہی پر جواب دیا جائے، میں چاہتا ہوں سپریم کورٹ کا وہی وقار، عزت بحال ہو جس کا جو دل چاہتا ہے کہہ جاتا ہے کوئی پکڑ دھکڑ نہیں۔ ایس آئی سی بارے 13 ججز کا متفقہ فیصلہ تو وہ مان ہی رہے ہیں، نظرثانی درخواست میں ریلیف لینے کے لیے عاجز ہونا پڑتا ہے، جو چیز ہنس کر خوشی سے لے سکتے ہیں وہ لڑ کر نہیں لیا جا سکتا۔ کسی کی تضحیک کر کے کچھ بھی نہیں لیا جا سکتا۔ جسٹس جمال نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں مخصوص نشستوں کے لیے عام انتخابات میں کم ازکم ایک نشست جیتنا لازم ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دئیے کہ عدالتیں سماعت میں کسی فریق کی پارٹی نہیں بنتی، جو آپ نے پڑھا اس سے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی نے پوری قوم کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اصل غلطی پی ٹی آئی کے وکیلوں کی ہیں جن کی ابھی اور تربیت کی ضرورت تھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میں نے یہ کہا کہ جنہوں نے غلطی کی پی ٹی آئی تحقیقات کرائے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کبھی کیس میں فریق بننے کی درخواست نہیں کی۔ جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ درخواست جو دائر ہوئی اس میں فریق بنانے کا لکھا ہوا ہے، کیا انتحابات سے متعلق مقدمات میں طریقہ کار ضروری ہوتا ہے۔ مکمل انصاف کا اختیار اس کیس میں کیسے استعمال نہیں ہو سکتا، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ طریقہ کار کسی بھی کام میں بہت ضروری ہوتا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ پشتون کی ایک کہاوت ہے، جس میں ایک شخص نے کسی کو بیل کچھ روز کے لیے دیا، جب وہ شخص بیل واپس لینے گیا تو جس نے بیل لیا تھا اس نے بیل کو بھی اور مالک کو بھی گالیاں دیں، اس وقت مالک بولا یہ میری غلطی ہے نہ بیل دیتا نہ آج گالیاں سنتا، یہ پی ٹی آئی والا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، ہم نے وہ دے دیا جو مانگا ہی نہیں گیا تھا۔ پھر بھی ہمیں گالیاں پڑ رہی ہیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت نے جذبات میں نہیں قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں نے سٹاف کے ساتھ بیٹھ کر کاغذات نامزدگی دیکھے، کچھ لوگ غلط بیانی سے قوم کو گمراہ کرتے ہیں، ہم نے قوم کو گمراہ نہیں حقیقت بتانی ہے۔ ذاتی علم پر بطور گواہ آ سکتا ہوں جج نہیں، پی ٹی آئی نے آزاد امیدواروں کو خود دھکا دیا کہ اس جماعت میں جائیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو چیزیں زیر بحث نہیں آئیں اس پر فیصلہ کیسے دیا گیا؟ اکثریتی فیصلے میں درخواست سے ہٹ کر فیصلہ دیا گیا، فیصلے کے مکمل انصاف کے پیرا گراف پر نظرثانی ہونی چاہیئے۔ جسٹس نعیم افغان اختر نے کہا کہ رول 94  پر میں نے فیصل صدیقی سے پوچھا بھی تھا، فیصل صدیقی نے کہا تھا ہم رول94  کو چیلنج نہیں کررہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا کسی سیاسی جماعت کا آئینی حق صرف ایک رول سے چھینا جا سکتا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی جماعت کا وجود تو رہے گا مگر انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہونے پر اس کے امیدوار آزاد ہوں گے۔ جسٹس جمال نے کہا کہ یہ آپ کی تشریح ہے آئین یا قانون میں ایسا نہیں، انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہونے پر صرف انتخابی نشان ہی ختم ہوتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری گزارش ہے کہ وہ پارٹی ٹکٹ بھی جاری نہیں کر سکتی۔ یاد رہے کہ6  مئی2025 ء سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کردئیے۔ تاہم، بنچ کے ارکان جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اختلاف کرتے ہوئے نظر ثانی درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا۔
اسلام آباد (وقار عباسی/وقائع نگار + نمائندہ خصوصی) قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 80 مخصوص نشستوں کا معاملہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پھر الیکشن کمشن آف پاکستان پہنچ گیا ہے، عدالتی فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو ایک مرتبہ پھر دو تہائی اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔ سپریم کورٹ نے14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کے الیکشن کمشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بنچ کو ارسال کردیا تھا۔ الیکشن کمشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن (جے یو آئی ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔ چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ بعد ازاں4  مارچ کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمشن آف پاکستان کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔ دوسری جانب 336 کے ایوان میں دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ارکان کی ضرورت ہے، حکمران اتحاد کو 237 ارکان کی حمایت حاصل ہو گئی ہے۔ مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے فیصلے سے قبل پارٹی پوزیشن میں حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں کے ارکان کی مجموعی تعداد 218 تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے 110، پاکستان پیپلز پارٹی کے 70، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے 22 اور مسلم لیگ (ق) کے 5 ارکان ہیں۔ پارٹی پوزیشن کے مطابق قومی اسمبلی میں اپوزیشن میں شامل جماعتوں کے مجموعی ارکان کی تعداد 100 بتائی گئی ہے جس میں سنی اتحاد کونسل کے 80، پاکستان تحریکِ انصاف کی حمایت سے کامیاب ہونے والے 8 آزاد ارکان اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 8 ارکان شامل ہیں۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کو 15، پاکستان پیپلز پارٹی کو 4، جے یو ائی (ف) کو 3 اضافی نشستیں ملی ہیں۔ اس فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 125، پیپلزپارٹی کے 74 ارکان ہوں گے جب کہ جے یو آئی کو بھی فیصلے سے فائدہ پہنچا ہے، اور ان کے ارکان کی تعداد 11 ہو گئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی، آئینی بنچ کا فیصلہ: حکومتی اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل
  • سپریم کورٹ فیصلے کے بعد خیبر پختونخوا میں اپوزیشن تگڑی ہو جائے گی
  • سپریم کورٹ فیصلہ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کتنی مخصوص نشستیں بحال ہوئیں؟
  • سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کس کو کتنی مخصوص نشستیں ملیں گی؟
  • مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے بعد صورتحال، اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن
  • سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پنجاب اسمبلی میں کس کو کتنی مخصوص نشستیں ملیں گی؟
  • سپریم کورٹ کا فیصلہ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں کس جماعت کو کتنی مخصوص نشستیں ملیں گی؟،تفصیلات سب نیوز پر
  • سپریم کورٹ کا فیصلہ: کس جماعت کو کتنی مخصوص نشستیں ملیں گی؟
  • مخصوص نشستیں سے ملیں گی؟ آئینی بینچ مختصر فیصلہ کچھ دیر میں سنائے گا