اسرائیلی اخبار معاریو نے سیاسی اور فوجی سربراہان کے درمیان اختلافات کے باعث بحران کی شدت بڑھ جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فی الحال حماس سے مذاکرات نیتن یاہو کی کچن کیبنٹ تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور فوجی سربراہان کو ان سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ اسلام ٹائمز۔ عبری زبان میں شائع ہونے والے صیہونی اخبار "معاریو" نے فاش کیا ہے کہ غزہ جنگ کے 667 دن بعد صیہونی رژیم کے سیاسی اور فوجی سربراہان کے درمیان اندرونی بحران ماضی کے مقابلے میں زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے اور اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ یہ صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایسے اشارے بھی موصول ہو رہے ہیں کہ اسرائیلی فوج کے چیف آف جوائنٹ اسٹاف ایال ضمیر کو جنگ جاری رکھنے کی مخالفت کرنے پر وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو جان بوجھ کر دباو کا شکار کر رہا ہے۔ مزید برآں، ایال ضمیر کو  اگلے مرحلے کے لیے فوج کے منصوبے سیکورٹی کابینہ کے سامنے پیش کرنے سے بھی روکا جا رہا ہے۔ اس اخبار کے عسکری رپورٹر اور تجزیہ کار ایوی اشکنازی کے مطابق ضمیر کئی دنوں سے غزہ میں فوج کی آئندہ حکمت عملی اور منصوبے پیش کرنے کے لیے کابینہ اجلاس کے انعقاد کی درخواست کر رہا ہے لیکن نیتن یاہو نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے فوج کو جنگ کے دوران غیر یقینی کی کیفیت میں ڈال دیا ہے۔ معاریو کے مطابق یہ صورتحال غزہ جنگ اور اس کے جاری رہنے کے حوالے سے فوج اور سیاسی اداروں کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلاف کی عکاسی کرتی ہے۔
 
ایک طرف ایال ضمیر کی سربراہی میں صیہونی فوج اس وقت غزہ میں جاری آپریشن "گیڈون کی رتھیں" کو مکمل اور تکمیل یافتہ خیال کرتی ہے اور اس نے اعلان کیا ہے کہ گیند اب سیاسی حکام کے کورٹ میں ہے اور انہیں حماس کے ساتھ مذاکرات میں جنگ کے اہداف کو آگے بڑھانا ہوگا۔ اشکنازی نے ایک سینئر سیکورٹی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: "ہم نہیں جانتے کہ سیاسی حکام کیا چاہتے ہیں۔ ہم نے صورتحال کی مکمل تصویر پیش کی اور واضح کیا کہ ہم نے اپنا مشن مکمل کر لیا ہے اور اب ان کی باری ہے۔" اس سیکیورٹی اہلکار نے مزید بتایا کہ سیکیورٹی اور عسکری ادارے صرف یہ جانتے ہیں کہ نیتن یاہو اب حماس کے ساتھ قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک جامع معاہدے کے لیے تیار ہے لیکن وہ نہیں جانتے کہ مذاکرات میں کیا ہو رہا ہے۔ اس نے مزید کہا: "ماضی میں ہم حماس کے ساتھ مذاکرات کی تفصیلات سے پوری طرح واقف رہتے تھے لیکن اب یہ مسئلہ صرف دو لوگوں یعنی نیتن یاہو اور رون ڈرمر (اسرائیل کے اسٹریٹجک امور کے وزیر) کے درمیان چلایا جاتا ہے اور ہم صرف انفارمیشن چینلز کے ذریعے دوسری طرف ہونے والی پیش رفت سے آگاہ ہوتے ہیں۔"
 
اخبار معاریو کے فوجی رپورٹر نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ فوج کا ماحول، اعلیٰ سیاسی عہدیداروں کی طرف سے جنگ کے انتظام کے طریقے سے گہری مایوسی کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک سینئر ذریعے کے مطابق فوج کی قیادت کو کابینہ کے سامنے کوئی منصوبہ پیش کرنے کی اجازت نہیں ہے اور وہ نہیں جانتے کہ نیتن یاہو یا وزیر دفاع یسرائیل کاٹز کیا چاہتے ہیں اور آپریشن کہاں جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اسی ذریعے نے اخبار کو بتایا: "اس وقت صرف ایک چیز واضح ہے کہ نیتن یاہو پر وزیر خزانہ (بزالل اسموتریچ)، وزیر دفاع (یسرائیل کاٹز)، وزیر شہری امور (اوریت استروک) اور قومی سلامتی کے وزیر (اتمار بن غفیر) کا اثرورسوخ ہے، جو غزہ کی پوری پٹی پر قبضے کا کھلے عام مطالبہ کرتے ہیں اور وہاں پر یہودی بستیوں کی تعمیر چاہتے ہیں۔ باقی وزیروں کا موقف ہمارے لیے واضح نہیں ہے۔" اشکنازی کے مطابق حساس مسائل کو مسلسل نیتن یاہو اور ڈرمر پر مشتمل ایک چھوٹے دائرے تک محدود رکھنا، فوج اور حکومت کے درمیان اعتماد کے بحران کو بڑھا رہا ہے جو جنگ چلانے یا اپنے بیان کردہ اہداف کو حاصل کرنے میں صیہونی رژیم کی صلاحیتوں پر برا اثر ڈال سکتا ہے۔ یہ فوجی رپورٹر سمجھتا ہے کہ واضح وژن کی کمی نے اسرائیل کو قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے بڑھتے ہوئے ملکی اور غیر ملکی دباؤ اور فوج کی صفوں میں شدید کمی کے درمیان ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے درمیان چاہتے ہیں نیتن یاہو کے مطابق اور فوج جنگ کے ہے اور رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

نیویارک ٹائمز اور عمران خان کی رہائی پر 1 لاکھ 80 ہزار ڈالر کا مضمون

حال ہی میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والا مضمون ‘عمران خان کو رہا کرو’ صحافت نہیں بلکہ ایک خالصتاً سیاسی اشتہار ہے، جو مبینہ طور پر غیر ملکی لابنگ ایجنٹس کی مالی معاونت سے شائع کیا گیا۔

رپورٹس کے مطابق نیویارک ٹائمز نے یہ مضمون 1 لاکھ 80 ہزار ڈالر کی ادائیگی کے بعد شائع کیا جو ایک سزا یافتہ سیاسی شخصیت کی ساکھ کو بحال کرنے کی ایک کوشش ہے۔

یہ اشتہار ایک سنگین سوال کو جنم دیتا ہے اور وہ یہ کہ صحافت اور کرائے کے سیاسی سرگرم کارکنوں میں فرق کب مٹ جاتا ہے اور ایک عالمی میڈیا ادارہ کس حد تک جانے کو تیار ہے جب اُسے ایک خودمختار ریاست کے اداروں کو بدنام کرنے کے لیے ادائیگی کی جائے؟

یہ بھی پڑھیے:ایک گھنٹے میں عمران خان کی رہائی ممکن ہے، اسد قیصر نے بڑا دعویٰ کردیا

زیرِ بحث مضمون محض گمراہ کن نہیں بلکہ ایک مثال ہے کہ کس طرح کسی مخصوص بیانیے کو دھو کر اسے ایک معزز پلیٹ فارم کے ذریعے قابلِ قبول بنایا جاتا ہے۔ اس میں پاکستان کی عدلیہ، سلامتی کے اداروں اور آئینی نظام کو بغیر کسی توازن یا تحقیق کے نشانہ بنایا گیا ہے۔

یہ مضمون نہ تو کسی شفاف تحقیق پر مبنی ہے، نہ اس میں حقائق کا توازن موجود ہے اور نہ ہی کوئی سیاق و سباق۔ یہ صحافتی معیار کی ایک بدترین مثال ہے جہاں عوامی مفاد کے بجائے مالی فائدے کو ترجیح دی گئی۔

واضح رہے کہ عمران خان کی قانونی مشکلات کسی سیاسی انتقام کا نتیجہ نہیں۔ ان پر کرپشن، ریاستی تحائف سے غیر قانونی منافع کمانے اور ریاستی رازوں کے افشا جیسے سنگین الزامات میں شفاف عدالتی کارروائی ہوئی۔ ان فیصلوں میں نہ کوئی عسکری دباؤ تھا، نہ ہی کوئی سیاسی مداخلت، یہ تمام مقدمات آزاد عدلیہ کے تحت طے پائے۔

یہ بھی پڑھیے: عمران خان کی رہائی، امریکا سے مدد کی اپیل، قاسم خان کا انٹرویو، امریکا کا بھارت کیخلاف اعلان جنگ

نیویارک ٹائمز نے سچائی کے بجائے پیسہ چن کر نہ صرف اپنی صحافتی ساکھ داؤ پر لگا دی ہے بلکہ یہ دکھا دیا ہے کہ وہ اب غیرجانبدار رپورٹنگ کے بجائے غیر ملکی ایجنڈے فروخت کرنے والا ادارہ بن چکا ہے۔

پاکستان برائے فروخت نہیں اور نہ ہی اس کی عدلیہ۔ یہ مہنگے اشتہارات نہ تو عدالتی فیصلوں کو پلٹ سکتے ہیں، نہ ہی ایک سزا یافتہ فرد کے جرائم کو دھو سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رہائی عمران خان نیویارک ٹائمز

متعلقہ مضامین

  • 600 سابق اسرائیلی سکیورٹی عہدیداروں کا ٹرمپ کو خط، غزہ جنگ بندی کیلئے نیتن یاہو پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ
  • بھارت کی سیاسی اور سفارتی مشکلات
  • اسرائیل کے ساتھی یمن کے نشانے پر
  • نیویارک ٹائمز اور عمران خان کی رہائی پر 1 لاکھ 80 ہزار ڈالر کا مضمون
  • الیکشن کمیشن کی جلد بازی
  • پی ٹی آئی رہنماؤں کو خبردار کردیا گیا تھا کہ 9 مئی پر کوئی رعایت نہیں ملے گی
  • 9 مئی : مقتدر حلقوں نے پی ٹی آئی قیادت کو پیغام دیدیا
  • اداکارہ ایمان خان کیساتھ لڑکا کون؟ قربتیں بڑھنے لگیں، مداح کشمکش میں مبتلا
  • گھڑ سوار اور عقوبت خانہ!