WE News:
2025-08-09@06:41:02 GMT

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے!

اشاعت کی تاریخ: 9th, August 2025 GMT

’ارے رضیہ… او رضیہ… کم بخت کہاں دفع ہو گئی‘

نسیمہ نے پتیلے کو پوری قوت سے مانجھتے ہوئے چیخ کر اپنی 8 سالہ بیٹی کو پکارا۔ لان میں فٹبال سے کھیلتی رضیہ ماں کی آواز سنتے ہی ہڑبڑا کر باورچی خانے میں دوڑی چلی آئی۔

’کلموہی، بار بار کہاں مر جاتی ہے؟ چل، برتن لگا خانوں میں! اب ادھر ادھر ہوئی تو سر پٹخ دوں گی تیرا!‘

نسیمہ کی آواز ہر وقت غصے سے بھری رہتی تھی… کب یہ بھی دغا دے جائے، اس ڈر سے میں بھی زیادہ اس کے متھے نہیں لگتی تھی ۔ اس نئی آبادی میں آئے ہوئے ہمیں صرف 2 ماہ ہی ہوئے تھے، اور تب سے 3 کام والیاں آئیں اور دو چار دن کام کر کے چلتی بنی ۔

شاید خطا ان کی نہ تھی کیونکہ خبط تو مجھ پر سوار تھا کہ نئے گھر کی نک سک میں کوئی کسر نہ رہے۔

باتھ روم کے نل چمکیں، کچن کا سنگ مرمر دمکے، اور ہر شیشہ شفاف ہو جیسے ہوا میں معلق۔ سو ہر دم کام والیوں کے سر ہوئے رہتی ـ

میں خود اپنے معیار کی غلام بنی ہوئی تھی۔

’اف شبو! یہ سِنک کا نل چمک کیوں نہیں  نہیں رہا۔ دوبارہ مانجھو!‘

’ہائے سکینہ غضب خدا کا! پونچھا لگاتے ہاتھ کیا لرز رہے تھے؟ پورا لاؤنج پچ پچ ہو رہا ہےـ  کئی بار سمجھایا ہے تمھیں کہ خشک کپڑا ضرور مارا کرو ورنہ نئے ٹائلوں پر داغ پڑ جائیں گے !‘

’صفیہ! دیکھو گندے ہاتھوں سے کھڑکی کو نہ چھوا کرو۔ اسپرے مار کر اخبار سے صاف کرو! مجھے چمکتا ہوا نظر آئے‘

قصور میرا بھی نہیں ـ پوری زندگی شہر کے ایک عام سے علاقے کی ایک تنگ گلی کے چھوٹے سے مکان میں گزار دی۔ میاں بیوی دونوں نوکری کرتے رہے، بچے پالتے رہے، اور ہر ماہ تنخواہ کا بڑا حصہ اس خواہش میں پس انداز کرتے رہے کہ ایک دن شہر کے وسط میں بڑا سا گھر لیں گے۔ لیکن جب اچھا وقت آیا تو شہر کے اچھے علاقے میں زمین کے بھاؤ آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔

آخرکار تھک ہار کر مضافات کی ایک نئی سوسائٹی میں 600 گز کا گھر لیا تو یوں لگا جیسے خواب پورا ہواـ لان، کشادہ کمرے، باتھ ٹب، اور اٹالین کچن۔ سب اپنی پسند کا۔

لیکن ہم جیسے لوگ جو تنگ گلیوں کے چھوٹے گھروں میں جیتے ہیں، جب بڑے مکانوں میں آ بستے ہیں تو ان کی وسعتوں سے زیادہ ان کی چمک دمک پر مر مٹتے ہیں۔ ہر چیز کو جگمگاتا دیکھنے کی ضد ہمیں بے رحم بنا دیتی ہے۔

اب اللہ اللہ کر کے یہ چوتھی کام والی  ’نسیمہ‘ تھی۔ میری اس خوب صورت سی دنیا میں وہ غنیمت تھی کہ پچھلے 20 دنوں سے ٹکی ہوئی تھی، اس لیے میں اس کے کام میں مِین مِیخ نکالنے سے گریز بھی کرتی  اور اس کے غصے کو نظرانداز بھی  ـ

نسیمہ روز برتن مانجھتے، فرش رگڑتے، جھاڑو مارتے مسلسل منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی رہتی جیسے کسی کو کوس رہی ہوں ـ میں چونکہ 3 کام والیوں کی ڈسی ہوئی تھی تو پھونک پھونک کر قدم اٹھاتی تھی ـ

وہ ساتھ والی کچی بستی میں اپنی بیٹی رضیہ کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہتی تھی۔  وہاں ایک چھوٹے سے چھپر میں چند جانوروں کو بھی پال رکھا تھا ـ ایک کتیا، جو اکثر نسیمہ کے پیچھے پیچھے میرے گھر تک آ جاتی، اور باہر دروازے پر چپ چاپ بیٹھی رہتی جب تک کہ نسیمہ واپس نہ لوٹتی۔

کچھ دن بعد سوسائٹی کی دوسری خواتین سے گپ شپ میں ایک تلخ حقیقت کا انکشاف ہوا۔

نسیمہ اور اس جیسے کئی خاندان دراصل اس زمین کے پرانے باسی تھے، اس وقت جب یہاں ہرا بھرا جنگل ہوا کرتا تھا۔ ایسا گھنا جنگل جہاں پرندے، بندر، ہرن، جنگلی بلیاں اور موسمی مہمان پرندے گھنے سایہ دار درختوں کے  سائے میں بسیرا کرتے تھے۔

اور پھر ایک دن مشینوں نے آ کر سب کچھ ہڑپ لیا ـ ایک ہفتے میں پوری فطرت کو مٹی میں دفن کر دیا گیا۔

سرسبز جنگل جوں ہی چٹیل میدان میں تبدیل ہوا اس کی جگہ ہزاروں کی تعداد میں کنکریریٹ اور پتھروں کی سلوں سے بنے وسیع و عریض محل تعمیر ہو گئے ـ

پہلے تو میں نسیمہ کی بڑبڑاہٹ سنی ان سنی کر دیا کرتی تھی، لیکن جب سے مجھے جنگلات کے قتل کی کہانی اور اس جگہ کی پرانی حقیقت کا علم ہوا، مجھے اسکی کہانی جاننے کا اشتیاق بڑھ گیا اور میرے کان اس کے ہر لفظ کی تاک میں رہنے لگے ـ

ایک دن نسیمہ پھٹ پڑی:

’باجی، آپ نہیں سمجھ سکتیں! اس سنگِ مرمر کی دنیا نے ہماری سادہ سی غریب دنیا کو اجاڑ کر رکھ دیا۔ میرا بیمار شوہر تو اسی صدمے میں دنیا سے چلا گیا کہ نئے علاقے میں چھت کہاں سے آئے گی، گھر کیسے لیں گے‘۔

میں نسیمہ کے آگے دو بول بھی نہ بول سکی، کچھ لمحے ساکت کھڑی رہی لیکن پھر دنیا داری کے جھمیلوں میں ایسی الجھی کہ چند ہی روز میں سب کچھ بھول بھال گئی۔

ہمیں اس نئی بستی میں آئے محض ایک ہی سال گزرا تھا، اور دیکھتے ہی دیکھتے یہاں کی آبادی دوگنی کیا، 3 گنی تک بڑھ چکی تھی۔

یعنی یہ ہاؤسنگ اسکیم ایک کامیاب منصوبہ تھا ـ

گھر کے پیچھے جو بقیہ جنگل بچا تھا، وہ میری تسلی کا آخری سہارا تھا۔  ہر کھڑکی سے ہرے بھرے درختوں کا نظارہ، ہر صبح پرندوں کی مسحور کن چہچہاہٹ، ٹیرس پر باجرہ اور پانی رکھنا، بچوں کے ساتھ چائے پیتے ہوئے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونا ـ یہی زندگی تھی ـ

اس گھنے سرسبز جنگل میں بندر، لومڑیاں، گلہریاں چکور، نیل گائے، جنگلی بلیاں، ہد ہد، کوئل، کتے … سب کا بسیرا تھا ـ  قدرت کو جیتے دیکھنا کتنا سکون آور تھا۔ مگر یہ سکون عارضی نکلا۔

کچھ دنوں سے جنگل میں غیر معمولی آمدورفت دکھائی دینے لگی تھی۔

ایک دن خبر آئی کہ سوسائٹی کا فیز ٹو آرہا ہےـ جگہ جگہ فیز ٹو کے قد آور بل بورڈ لگنے لگے ـ پھر ایک دن روبوٹ نما انسان آئے، کرینیں، بلڈوزر اور کاغذی نقشے لے کر۔ وہی مشینوں کی گرج دار آوازیں…

اُس صبح، جب کھڑکی سے جھانکا، تو زمین کانپ رہی تھی۔ درختوں کا قتل عام جاری تھا۔  پرندوں کے گھونسلے بکھر گئے، انڈے زمین پر پھج پھچ گرے اور ریزہ ریزہ ہو گئے۔  چڑیاں بے سمت اِدھر پھرپھرائیں اُدھر چلائیں ـ بندروں کے غول خوخیاتے ہوئے جس درخت پر ڈیرہ جماتے،  آن ہی آن میں اسی شجر کے سینے پر آری پھر جاتی ـ بندر شجر در شجر،  ڈالی در ڈالی، اُچکتے جاتے، نوحہ کناں ہوئے جاتےـ گیڈر، لومڑیاں بدحواس ہو کر کبھی آگے پیچھے دوڑتے تو کبھی رُک کر چیخنے چلانے لگتے ـ  بلیاں، کتے، چرند پرند، چوپائے سب بوکھلائے گھبرائے جان بچانے کے واسطے کبھی ادھر اچھلتے کبھی ادھر دوڑتے ـ پر کہیں جان کی امان نہ پاتے ـ پرندوں اور جانوروں کی آہ و زاری نے پورے علاقے میں حشر برپا کیا ہوا تھا ـ اور ظالم انسان، خاموشی سے ایک اور مقتل تیار کر رہا تھا ـ ایک اور جنگل ، ایک اور پناہ گاہ، اور کتنی ہی زندگیوں کا قتل ـ

صرف ایک ہفتے میں پوری فطرت کو صفحہ ہستی سے مٹا کر، زمین برابر کر دیا گیا۔ اپنے خوابوں کے محل کے بدلے!

نسیمہ اب میرے گھر کی صفائی نہیں کرتی، وہ میرے ضمیر کی جھاڑ پونچھ کرتی ہے۔

ہر بار جب میں اپنے کھڑکیوں کے چمکتے شیشے دیکھتی ہوں،

تو مجھے اُن شیشوں میں قتل ہوتے درخت ، بکھرتے گھونسلے،  کچلے ہوئے پرندوں کے انڈے  مسلے ہوئے بچے، ماتم کرتے بندر اور تڑپ کر ادھر ادھر بھٹکتے جنگل کے تمام جانوروں کی شبیہیں نظر آتیں ہیں۔

میرے گھر کے شیشے ابھی بھی چمکتے ہیں،

لیکن میرے دل کی کھڑکیاں دھندلا گئی ہیں۔

نسیمہ اب بھی روز آتی ہے،

برتن مانجھتی ہے، فرش رگڑتی ہے، اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتی رہتی ہے۔

اب میں جانتی ہوں،

وہ صرف بڑبڑا نہیں رہی

وہ ماتم کر رہی ہے۔

اور اس کی وہی کتیا…

اب بھی گیٹ کے باہر بیٹھتی ہے۔

وفاداری، معصومیت،

اور بے آواز احتجاج کی علامت بن کرـ

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

جنگل کا قتل سنگ مرمر کام والی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جنگل کا قتل کام والی اور اس ایک دن

پڑھیں:

کراچی: بے قابو ہوکر گھر میں گھسنے والا ٹریلر 4 دن بعد بھی وہہیں موجود

کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پیر کی رات جو تیز رفتار ٹریلر بے قابو ہو کر ایک گھر میں جا گھسا تھا، آج چار دن بعد بھی وہیں کھڑا ہے۔

پولیس کے مطابق گھر کے مکین شہر سے باہر ہیں اور انہوں نے ٹریلر نکالنے کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے۔

گھر کے مکینوں کا کہنا ہے کہ وہ واپس آکر ٹریلر مالک سے مذاکرات کے بعد کوئی فیصلہ کریں گے۔ حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • کوئی نیلسن منڈیلا نہیں
  • یہ دہشت گردی نہیں ہے
  • کراچی، بلدیہ جنگل اسکول کے قریب گھر میں پراسرار فائرنگ، ایک شخص زخمی
  • ملک کو جنگل مت بننے دیجیے، پلیز!
  • کراچی: بے قابو ہوکر گھر میں گھسنے والا ٹریلر 4 دن بعد بھی وہہیں موجود
  • بھارت کے پاس پہلگام واقعے کی کوئی توجیح نہیں یہ انہوں نے خود کرایا تھا، مشعال ملک
  • آئینی طور پر غیر حاضری کی بنیاد پر شیخ وقاص اکرم کی اسمبلی رکنیت منسوخ نہیں ہو سکتی نہ ایسی کوئی مثال موجود، آئینی ماہرین
  • پاکستان کی ریاست صہیونی ریاست کو تسلیم کرنا چاہتی ہے،، ذوالفقار بھٹو جونیئر
  • بحریہ ٹاؤن کی ممکنہ بندش کے بعد کیا ہوگا؟