پاکستانی طیارے گرانے کابھارتی دعویٰ بے بنیاد‘ مضحکہ خیز ہے، عر فا ن صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT
اسلام آباد(اپنے سٹاف رپورٹر سے) مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما، سینٹ میں پارلیمانی پارٹی لیڈر سینیٹر عرفان صدیقی نے پاکستانی طیارے گرانے کے نئے بھارتی دعوے کو بے بنیاداور مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا یہ جھوٹے دعوے عالمی سطح پر بھارت کی مزید جگ ہنسائی کا باعث بنیں گے۔ جھوٹ کبھی بانجھ نہیں رہتا بلکہ مزید جھوٹ پیدا کرتا ہے، مودی سرکار کا یہ دعوی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ نجی ٹی وی چینلز سیگفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف سے خواجہ آصف یا کسی بھی رہنما کی ملاقات کو غیر معمولی یا سازش کے رنگ میں پیش کرنا درست نہیں۔ یہ معمول کی سیاسی ملاقاتیں ہیں جنہیں غیر ضروری طور پر بڑھا چڑھا کر میڈیا میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس ملاقات کو کسی سرکاری افسر کی گرفتاری سے جوڑنا درست نہیں۔ تحریک انصاف کے 14 اگست کو احتجاج کے اعلان کے سوال پر انہوں نے کہا پی ٹی آئی عوامی طاقت کھو چکی ہے اور اب کوئی ان کے لیے سڑکوں پر نکلنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ 14 اگست کی قومی تقاریب کو احتجاجی رنگ دینا 9 مئی سوچ کا تسلسل ہے۔ حکومت کو پی ٹی آئی سے کوئی خطرہ نہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
پی آئی اے کے متعدد طیاروں کی عدم دستیابی سے فلائٹ آپریشن شدید متاثر، وجہ بھی سامنے آگئی
قومی ایئرلائن کے متعدد طیارے اس وقت تکنیکی وجوہات اور مینٹیننس تاخیر کے باعث آپریشن کے لیے دستیاب نہیں ہیں، پرواز پی کے 225 اب بھی ڈیلی چیک کے تحت گراؤنڈ پر ہے۔
اے پی بی ایم ایکس رجسٹریشن کا حامل طیارہ جو کراچی تا اسلام آباد پی کے 308 کے تحت آپریٹ کر رہا تھا، اس کو انجن نمبر 1 کے ایگزاسٹ کون سلیو میں نقص کے باعث سروس سے نکال دیا گیا جس کے نتیجے میں پی کے 308/309 اور 451/452 منسوخ کر دی گئیں۔
جمعرات کی شام اسلام آباد کراچی پی کے 369 منسوخ کی گئی جبکہ اسلام آباد/اسکردو کی دوطرفہ پروازیں پی کے 451-452 منسوخ کی گئیں۔
کئی انٹرنیشنل اور ڈومیسٹک پروازوں میں بھی نمایاں تاخیر دیکھنے میں آ رہی ہے جن میں پی کے 287 (اسلام آباد تا دوحہ)، پی کے 286 (دوحہ تا پشاور) اور پی کے 217 اور 262 (پشاور–ابوظہبی–اسلام آباد) شامل ہیں۔ دبئی تا سیالکوٹ کی پرواز بریک سسٹم خرابی کے باعث دبئی میں گراؤنڈ ہے۔
پروازوں کی تاخیر اور منسوخیاں صرف فلیٹ پلاننگ کی کمزوری یا مینجمنٹ کی ناقص حکمتِ عملی کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کے پیچھے ایک اور سنگین مسئلہ اسکلڈ مین پاور اور پرزہ جات کی کمی بھی ہے۔
ان دونوں عوامل کے باعث طیاروں کی بروقت مینٹیننس ممکن نہیں ہو رہی، جب تک مطلوبہ پرزہ جات اور تربیت یافتہ انجینئرز دستیاب نہیں ہوں گے کسی بھی طیارے کی مینٹیننس مکمل یا محفوظ طریقے سے انجام نہیں دی جا سکتی۔
سوسائٹی آف ایئرکرافٹ انجینئرز آف پاکستان (سیپ) کسی بھی ایسی مینٹیننس سرگرمی میں حصہ نہیں لے گی جس میں طیارے کی حفاظت یا ایئروردینس پر سمجھوتہ کرنا پڑے۔
انجینئرز کی اولین ترجیح ہمیشہ سیفٹی اور فلائٹ ویلیویشن اسٹینڈرڈز کو برقرار رکھنا ہے، چاہے اس کے نتیجے میں آپریشنل تاخیر ہی کیوں نہ ہو۔
اسکِلڈ ٹیکنیکل اسٹاف کی فوری فراہمی کو یقینی بنایا جائے، ضروری اسپئیر پارٹس اور کمپونینٹس کی مستقل دستیابی کے لیے مؤثر سپلائی چین سسٹم قائم کیا جائے اور فلیٹ مینجمنٹ و شیڈولنگ میں حقیقت پسندانہ پلاننگ اختیار کی جائے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ادارے کی ساکھ اور مسافروں کا اعتماد مزید متاثر ہوگا۔