data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اللہ تعالیٰ کو بندوں کے ایسے اعمال پسند ہیں جو سنوار کر کیے گئے ہوں اور حُسن و خوبی سے متصف ہوں۔ قرآن پاک میں ہے:
”اللہ نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے زیادہ خوب صورت عمل کس کے ہیں“ (الملک: 1-2)۔
دیکھیے یہ نہیں فرمایا کہ زیادہ عمل کس کے ہیں بلکہ فرمایا خوب صورت عمل کس کے ہیں۔ گویا اللہ کو ہماری طرف سے صرف اعمال نہیں‘ خوب صورت اعمال مطلوب ہیں۔ ہم اپنی نمازوں کو کس طرح مؤثر اور خوب صورت بنائیں؟ اس ضمن میں ہم تعدیل ارکان کا ذکر کریں گے۔
مفھوم اور تقاضے
تعدیل بمعنی توازن و اعتدال میں دو باتیں شامل ہیں: ایک یہ کہ اعمال نماز میں سے ہر عمل کو ٹھہر ٹھہر کر اطمینان سے ادا کیا جائے۔ عجلت اور تیز رفتاری سے پڑھے جانے والے اذکار و آیات پر تفکر و تدبر ممکن نہیں ہوتا۔ جملے اور الفاظ غیر شعوری طور پر‘ سرعت کے ساتھ یکے بعد دیگرے زبان سے ادا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ذہن الفاظ پر ٹک ہی نہیں سکتا۔
تعدیل کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ ارکان و اعمال باہم متوازن و متناسب ہوں‘ مثلاً ایسا نہ ہو کہ رکوع بہت مختصر اور سجدہ بہت طویل ہو‘ یا قومہ (رکوع کے بعد کھڑے ہونے کا وقفہ) بس براے نام ہی ہو اور نمازی رکوع سے سر اُٹھاتے ہی سجدے میں گر پڑے۔ نماز میں حُسن اسی صورت میں پیدا ہوگا جب نماز کے تمام اعمال باہم متناسب و متوازن بھی ہوں اور ادا بھی ٹھہر ٹھہر کر اطمینان سے کیے جائیں۔
عہد نبویؐ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک آدمی نے مسجد نبوی میں نماز پڑھی۔ نبی اکرمؐ بھی قریب ہی تشریف فرما تھے۔ نمازی نے جلدی جلدی نماز ادا کی۔ پھر آنحضرتؐ کے قریب آیا اور سلام کر کے بیٹھ گیا۔ آپؐ نے اسے فرمایا: لوٹ جا اور دوبارہ نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ راوی حدیث سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اس شخص نے تین یا چار مرتبہ نماز پڑھی کیونکہ حضوؐر ہر مرتبہ فرماتے کہ پھر نماز پڑھ‘ تیری نماز نہیں ہوئی۔ آخر اس نے عرض کیا: حضوؐر مجھے سکھائیے کس طرح پڑھوں؟ آپؐ نے فرمایا: ہر رکن کو اطمینان و سکون سے ٹھہر ٹھہر کر ادا کر۔ آپؐ نے قومے‘ جلسے‘ رکوع اور سجدے کا علیحدہ علیحدہ ذکر کیا اور ہر ایک کو اطمینان وسکون سے ادا کرنے کا حکم دیا۔ یہ واقعہ حدیث کی صحیح ترین کتابوں بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہے۔
آپ نے غور فرمایا اس آدمی کی نماز میں کیا خامی تھی۔ وہ نماز کو جلدی جلدی اور سر سے بوجھ اُتارنے کے انداز میں پڑھتا تھا۔ آپؐ نے اسے تاکید فرمائی کہ نماز کے سارے اعمال ٹھہر ٹھہر کر اور سنوار کر ادا کرے۔ یہی تعدیل ہے اس کے بغیر نماز اللہ تعالیٰ کے ہاں قابلِ قبول نہیں ہوتی۔
مجدد الف ثانیؒ کی رائے
حضرت مجدد الف ثانیؒ تعدیل ارکان کے ضمن میں اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں: حضرت رسالت مآبؐ ایک نمازی کے پاس سے گزرے۔ دیکھا کہ ارکان قومہ‘ جلسہ وغیرہ کو ٹھیک طرح سے ادا نہیں کر رہا تو فرمایا: ’’گر تو اسی عادت پر مرگیا تو قیامت کے دن میری اُمت میں نہ اٹھے گا‘‘۔
ایک اور روایت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’زید بن وہب نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور رکوع و سجود وغیرہ ٹھیک طرح سے ادا نہیں کر رہا۔ آپ نے اسے بلاکر پوچھا: تو کب سے اس طرح کی نماز پڑھ رہا ہے؟ اس نے کہا: 40 سال سے۔ فرمایا: اس 40 سال کے عرصے میں تیری کوئی نماز نہیں ہوئی۔ اگر تو مرگیا تو نبیؐ کی سنت پر نہ مرے گا‘‘۔
ذرا آگے چل کر مکتوب الیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’پس چاہیے کہ تعدیل ارکان‘ یعنی رکوع‘ سجود اور قومہ‘ جلسہ کی بخوبی ادایگی کے لیے کوشش کی جائے اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کی جائے‘ کیوں کہ اکثر لوگ اس دولت سے محروم ہیں اور یہ عمل متروک ہوتا جا رہا ہے۔ اس عمل کا زندہ کرنا دین کی ضروریات میں سے ہے‘‘۔ رسولؐ نے فرمایا ہے: ’’جو شخص میری کسی مُردہ سنت کو زندہ کرتا ہے تو اسے سو شہیدوں کا ثواب ملتا ہے‘‘ (مکتوب‘ دفتر دوم)۔
یہ بھی ضروری ہے کہ نماز میں پڑھے جانے والے الفاظ کو نمازی زبان سے ادا کرے۔ ہونٹ ہلائے بغیر دل ہی دل میں پڑھنا درست نہ ہوگا۔ نماز انفرادی ہو تو پھر موقع چاہے قیام کا ہو یا تشہد کا‘ رکوع کا ہو یا سجدے کا‘ الفاظ کو اس طرح ادا کرنا چاہیے کہ پڑھنے والے کے اپنے کان انھیں سنیں۔ نیز ہمیشہ ایک ہی سورت‘ مثلاً سورۂ اخلاص کی تکرار نہ کی جائے۔ سورئہ فاتحہ کے ساتھ دوسری سوروں کو بدل بدل کر پڑھنا چاہیے۔ اس طرح قرأت میں مشینی انداز ختم ہوگا اور شعوری طور پر پڑھنے کا رجحان پیدا ہوگا۔
چند تدابیر
نماز میں تیز رفتاری کی عادت نہایت ناپسندیدہ ہے۔ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ:
1- آیات و اذکار کے مفہوم کو سمجھتے ہوئے ایک ایک جملے کو ٹک کر پڑھتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔ نمازی ہر جملہ ارادے سے پڑھے‘ نہ کہ یاد سے۔
2- انفرادی نمازوں میں رکوع اور سجدے میں صرف تین مرتبہ تسبیح پڑھنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ پانچ یا سات یا دس مرتبہ پڑھی جائیں اور ٹھہر ٹھہر کر اطمینان سے پڑھی جائیں۔
3- وہ دعائیں اور اذکار یاد کر کے پڑھنے کو معمول بنایا جائے جو رسولؐ رکوع و سجود وغیرہ میں پڑھتے تھے‘ مثلاً قومے میں رَبَّنَا لَکَ الْحَمد کے بعد یہ دعا پڑھی جائے: حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُبَارکاً فِیْہِ (ایسی تعریف جو کثرت والی ہے‘ پاکیزہ ہے اور برکت والی ہے)۔ دونوں سجدوں کے درمیان پڑھنے کے لیے یہ دعا سکھائی گئی ہے: اَللّٰھُمَ اغْفِرْلِی وَارْحَمْنِیْ وَعَافِنِیْ وَاھْدِنِیْ وَارْزُقْنِیْ (اے اللہ! میری بخشش فرما‘ مجھ پر رحم فرما‘ مجھے عافیت‘ ہدایت اور رزق عطا فرما)۔ علی ہذاالقیاس۔ دعائوں کی تفصیل کے لیے کسی حدیث کی کتاب سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
4: ’’…اور رکوع و سجود اور قومہ و جلسہ کو اطمینان سے ادا کرنا چاہیے‘ یعنی رکوع کے بعد سیدھے کھڑے ہوکر ایک تسبیح کی مقدار رکنا چاہیے اور دو سجدوں کے درمیان ایک تسبیح کی مقدار بیٹھنا چاہیے تاکہ قومہ اور جلسہ میں اطمینان حاصل ہو۔ جو شخص ایسا نہ کرے وہ چوروں میں داخل ہے‘‘ (اشارہ ہے اس حدیث کی طرف جس کا مضمون یہ ہے کہ بدترین چور وہ ہے جو نماز میں چوری کرے)۔
یہ اقتباس حضرت مجدد الف ثانیؒ کے ایک مکتوب سے اخذ کیا گیا ہے۔ جلدبازی کی عادت ختم کرنے کے لیے یہ ایک عمدہ تدبیر ہے اور احادیث ہی سے اخذ کی گئی ہے‘ یعنی ایک رکن ختم ہونے پر فوراً دوسرا نہ شروع کیا جائے۔ قیام میں قرأت مکمل ہونے پر فوراً رکوع میں جانے کے بجاے ذرا توقف کیا جائے۔ رکوع کی تسبیحات پڑھ لینے کے بعد فوراً قومے کے لیے کھڑے ہونے کے بجاے معمولی سا توقف کرلیا جائے۔ یوں اعمالِ نماز میں ایک طرح کا ٹھہرائو اور وقار پیدا ہوگا۔ حضرت مجدد نے صرف قومے اور جلسے کے توقف کا ذکر کیا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ عام طور پر لوگ اسی میں کوتاہی کرتے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ٹھہر ٹھہر کر کیا جائے نماز پڑھ یہ ہے کہ کے لیے کے بعد
پڑھیں:
کیا آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو اپوزیشن یا جے یو آئی ارکان کی حمایت درکار ہوگی؟
27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے، حکومت کو قومی اسمبلی میں 224 اراکین جبکہ سینیٹ میں 64 اراکین کی حمایت درکار ہے۔
وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ حکومت کو آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے کیا اب اپوزیشن ہر کام کی حمایت یا جے یو آئی کے درکار ہے یا ان کے بغیر ہی آئینی ترمیم کی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: قومی اسمبلی کا اہم اجلاس آج، کیا 27ویں آئینی ترمیم پیش کی جائے گی؟
مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد حکومت کو قومی اسمبلی میں 237 ارکان کی حمایت حاصل ہو چکی ہے اس طرح حکومت کو قومی اسمبلی سے آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے کسی بھی اپوزیشن رکن کی حمایت کی ضرورت نہیں۔
سینیٹ میں حکومت کو اس وقت 61 ارکان کی حمایت حاصل ہے اس کے علاوہ 3 آزاد سینیٹرز کی حمایت درکار ہے جو باآسانی حاصل کی جا سکتی ہے۔
اس وقت حکومت کو مسلم لیگ ن کے 125 اراکین کی حمایت حاصل ہے، پیپلز پارٹی کے 74 ارکان، ایم کیوایم کے 22 ارکان، مسلم لیگ ق کے 5، استحکام پاکستان پارٹی کے 4، نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی اورمسلم لیگ ضیا کے ایک ایک اور 4 آزاد اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ اس طرح حکمراں اتحاد کو مجموعی طور پر 237 اراکین کی حمایت حاصل ہے جبکہ آئینی ترمیم کے لیے 224 اراکین کی حمایت درکار ہے۔
مزید پڑھیں: محسوس ہوتا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم پر کام شروع ہو چکا، ملک محمد احمد خان
سینیٹ میں حکمراں اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل نہیں۔ اس وقت کسی بھی آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو سینیٹ میں 64 ارکان کی حمایت درکار ہے جبکہ حکمران اتحاد کو پیپلز پارٹی کے 26، مسلم لیگ ن کے 20، بی اے پی کے 4، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، ایم کیو ایم کے 3، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق کے ایک رکن اور 3 آزاد سینیٹرز کی حمایت حاصل ہے، ان سینیٹرز کی تعداد 61 بنتی ہے اور حکومت کو آئینی ترمیم کے لیے 3 مزید اراکین کی حمایت درکار ہے، جو آزاد سینیٹر فیصل واوڈا، سینیٹر انوار الحق کاکڑ اور سینیٹر اسد قیصر کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
27 ویں آئینی ترمیم آئینی ترمیم جے یو آئی سینیٹ قومی اسمبلی