امن کی آڑ میں گھسنے کی کوشش
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: بین الاقوامی فورس کی غزہ میں تعیناتی منصوبے کے آگے بڑھنے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ اس میں فلسطینیوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہونا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ٹائم ٹیبل، مشترکہ اہداف اور اختیارات فلسطینیوں کو منتقل کیے جانے کے مرحلے کی وضاحت کے بغیر یہ منصوبہ دراصل "نئے انداز میں غاصبانہ قبضے" کی صورت اختیار کر جائے گا۔ جب اس منصوبے میں منتخب مقامی اداروں اور بہت سے فلسطینی گروہوں کی کوئی جگہ نہیں ہو گی تو غزہ اور خطے کی عوام کی نظر میں تشکیل پانے والی نئی انتظامیہ کی مشروعیت پر سوالیہ نشان اٹھنا شروع ہو جائیں گے۔ موجودہ حالات میں فلسطین اتھارٹی یا دیگر مقامی سیاسی ڈھانچوں جیسے ادارے اس نئے سیٹ اپ میں کسی کردار کے حامل نہیں ہیں۔ فلسطینیوں کی نمائندگی کا نہ ہونا غزہ کی عوام کے لیے قابل قبول سیاسی ڈھانچہ تشکیل پانے میں بھی بڑی رکاوٹ ثابت ہو گا۔ تحریر: مبین مرشدی
امریکہ نے غزہ میں بین الاقوامی فورس تعینات کرنے کا ایک ابتدائی مسودہ تیار کر لیا ہے جس کے تحت امریکہ اور اس کے ہمراہ ممالک کو غزہ کی پٹی کا انتظام سنبھالنے اور سیکورٹی امور کی دیکھ بھال کے لیے وسیع اختیارات سونپ دیے جائیں گے۔ یہ منصوبہ اگرچہ بظاہر عام شہریوں کی حفاظت اور انسانی امداد کی فراہمی کے لیے بنایا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے ذریعے امریکہ کو فلسطین کے حکومتی امور میں براہ راست مداخلت کا بہترین موقع فراہم ہو جائے گا۔ اس منصوبے کے لیے تیار کیے گئے ابتدائی مسودے کی بنیاد پر تعینات ہونے والی بین الاقوامی فورس اسلامی مزاحمتی گروہوں کو غیر مسلح کرنے اور غزہ کے فوجی مراکز کو کنٹرول کرنے کی ذمہ دار ہو گی۔ یہ ایسے اقدامات ہیں جن کا براہ راست نتیجہ مقامی دفاعی صلاحیتوں کے کمزور ہو جانے اور غاصب صیہونی رژیم کی پوزیشن مضبوط ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔
اسی طرح توقع کی جا رہی ہے کہ یہ بین الاقوامی فورس 2027ء تک غزہ میں ہی رہے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ غزہ میں تشکیل پانے والا یہ نیا انتظامی ڈھانچہ براہ راست امریکہ کی زیر نگرانی کام کرے گا جس کے نتیجے میں غزہ کی سیاسی خودمختاری محدود ہو کر رہ جائے گی۔ دوسری طرف اس منصوبے میں امریکہ کی زیر نگرانی اسرائیلی فوج کی سرگرمیاں بھی شامل ہیں اور یہ اسرائیل کو دی جانے والی ایک بہت بڑی رعایت ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی جنگ بندی کا زیادہ تر مقصد غاصب صیہونی رژیم کی سیکورٹی یقینی بنانا اور امریکہ کے سیاسی مفادات کا تحفظ ہے۔ اس منصوبے میں 16 ممالک شریک ہیں جبکہ 20 غیر حکومتی ادارے بھی شامل ہیں۔ یوں امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ ایک ملٹی نیشنل فورس کو مغربی ایشیا میں اپنا فوجی اور سیاسی اثرورسوخ بڑھانے کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کرے۔
فلسطینیوں کی آواز سے بے توجہی
بین الاقوامی فورس کی غزہ میں تعیناتی منصوبے کے آگے بڑھنے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ اس میں فلسطینیوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہونا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ٹائم ٹیبل، مشترکہ اہداف اور اختیارات فلسطینیوں کو منتقل کیے جانے کے مرحلے کی وضاحت کے بغیر یہ منصوبہ دراصل "نئے انداز میں غاصبانہ قبضے" کی صورت اختیار کر جائے گا۔ جب اس منصوبے میں منتخب مقامی اداروں اور بہت سے فلسطینی گروہوں کی کوئی جگہ نہیں ہو گی تو غزہ اور خطے کی عوام کی نظر میں تشکیل پانے والی نئی انتظامیہ کی مشروعیت پر سوالیہ نشان اٹھنا شروع ہو جائیں گے۔ موجودہ حالات میں فلسطین اتھارٹی یا دیگر مقامی سیاسی ڈھانچوں جیسے ادارے اس نئے سیٹ اپ میں کسی کردار کے حامل نہیں ہیں۔ فلسطینیوں کی نمائندگی کا نہ ہونا غزہ کی عوام کے لیے قابل قبول سیاسی ڈھانچہ تشکیل پانے میں بھی بڑی رکاوٹ ثابت ہو گا۔
مزاحمت سے جدا نہ ہونے والے ہتھیار
مغربی حکام کے اوہام کے برعکس غزہ میں اسلامی مزاحمت نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ کسی صورت بھی غیر مسلح ہونے پر تیار نہیں ہے کیونکہ وہ مسلح ہونے کو اپنا "قومی اور قانونی حق" تصور کرتی ہے۔ یہ موقف غزہ پر نظارت یا اسلحہ کے کنٹرول جیسے اقدامات کو ناممکن بنا دیتا ہے۔ جب حماس نے واضح طور پر کہہ دیا کہ وہ ہتھیار پھینکنے پر کوئی سودے بازی نہیں کرے گی تو اب یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ اسلامی مزاحمت سے ہتھیار واپس لینے کا عمل سہولت سے اور مکمل طور پر انجام پا سکے گا۔ کئی سالوں تک جنگ اور فوجی کاروائیوں کے باوجود حماس نے اب تک اپنا فوجی ڈھانچہ اور ہلکے ہتھیاروں سمیت اسلحہ اور فوجی سازوسامان محفوظ بنایا ہوا ہے۔ صیہونی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حماس کے غیر مسلح ہونے کے لیے اس کا صرف تسلیم ہو جانا کافی نہیں ہے۔
اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ غزہ کی عوام کو فریب دینے کے لیے ان کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنا، مقامی سیکورٹی سیٹ اپ کی تشکیل اور سیاسی یقین دہانیاں بھی ضروری ہیں۔ جب تک ایسا نہیں ہو جاتا اس وقت تک بین الاقوامی فورس بھی غزہ میں تعینات نہیں کی جا سکے گی کیونکہ وہ اسلامی مزاحمت کی طاقت کے سامنے مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ اصل میں ایک بامعنی سیاسی عمل اور غزہ کی سیکورٹی کے لیے جائز متبادل فراہم کیے بغیر حماس کا غیر مسلح ہو جانا ناممکن ہے۔ سیکورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ حماس نے "مسلح جدوجہد" کو اپنے تشخص کا حصہ بنا رکھا ہے اور جنگ کے درمیان غیر مسلح ہو کر نہ صرف اپنی سیکورٹی کھو بیٹھے گی بلکہ اس کے سیاسی جواز پر بھی سوال اٹھ کھڑے ہوں گے۔ لہذا بین الاقوامی فورس کی مرکزیت میں ٹرمپ کا منصوبہ بہت تیزی سے بند گلی کا شکار ہو جائے گا۔
تشخص چھن جانے کے مقابلے میں استقامت
غزہ کی تعمیر نو کو اسلامی مزاحمت کا تشخص چھین لینے یعنی اسے غیر مسلح کر کے اس کا سیاسی سماجی کردار ختم کر دینے، سے گرہ لگانا تعمیر نو کے عمل کو ناممکن بنا دیتا ہے۔ ایسی تعمیر نو جو سیکورٹی اور خودمختاری کا خاتمہ کر دیتی ہو فلسطینی اسے ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ لہذا اگر تعمیر نو کو اسلامی مزاحمت کی نشانیاں ختم کر دینے سے مشروط کر دیا گیا تو نہ صرف اس کا جواز ختم ہو جائے گا بلکہ وہ تناو اور عدم استحکام واپس لوٹ آنے کا باعث بن جائے جائے گی۔ اسلامی مزاحمت کے فعال کردار کو نظرانداز کر کے تعمیر نو کا جو بھی منصوبہ پیش کیا جائے گا اس کی کوئی سماجی اور سیاسی حیثیت نہیں ہو گی۔ مقامی گروہوں کی شراکت داری کے بغیر تعمیر نو کی ہر کوشش وسیع پیمانے پر عدم اعتماد کا باعث بنے گی اور اس سے ایک "مصنوعی غزہ" تشکیل پانے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطینیوں کی نمائندگی بین الاقوامی فورس اسلامی مزاحمت غیر مسلح ہو تشکیل پانے بڑی رکاوٹ نہیں ہو جائے گا کی عوام کے لیے غزہ کی
پڑھیں:
27ویں ترمیم کو متنازع بنانے کی کوشش کی مذمت کرتا ہوں، طارق فضل چوہدری
وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے27ویں آئینی ترمیم کو متنازع بنانے کی کوشش کی مذمت کی ہے۔
قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب میں طارق فضل چوہدری نے کہا کہ ہر دور میں انتخابات اور مینڈیٹ پر سوالات اٹھتے رہے ہیں، 2018ء کے انتخابات کو آر ٹی ایس کا الیکشن کہا گیا۔
وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری نے کہا ہے کہ دنیا کی کوئی حکومت اسٹیبلشمنٹ کے بغیر چل ہی نہیں سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم ایوان میں پیش کی جاتی تو بہتر ہوتا اس پر بات ہوتی، پاکستان کے آئین میں ترمیم دو تہائی اکثریت سے ہوتی ہے۔
طارق فضل چوہدری نے مزید کہا کہ اسکولوں اور کالجز کے کنٹرول کی نہیں بلکہ نصاب کی بات کر رہے ہیں، کیا پاکستان میں یکساں نظام تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ تمام چیزیں اتحادیوں کی مشاورت سے طے ہوں گی، آبادی اس وقت پاکستان کا بہت بڑا چیلنج ہے۔
چیئر مین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر نے27 ویں آئینی ترمیم وفاق کےلیے خطرہ اور پارلیمنٹ پر حملہ قرار دیا ہے۔
وفاقی وزیر پارلیمانی امور نے یہ بھی کہا کہ این ایف سی پر بھی مشاورت سے بات ہوگی، پی ٹی آئی آئےاور کمیٹیوں میں کردار ادا کرے، 27ویں آئینی ترمیم کو متنازع بنانے کی کوشش کی مذمت کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ آپ بتائیں خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف آپ کی پالیسی کیا ہے؟ صوبے میں اپنا قبلہ درست فرمائیں، آپ کے بیانات ریاست کے خلاف ہیں۔
طارق فضل چوہدری نے کہا کہ افغان طالبان سے مطالبہ ہے کہ ٹی ٹی پی کی حمایت چھوڑ دیں، ہم پر امید ہیں کہ افغانستان سے بات چیت کامیاب ہوگی۔
اُن کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کا ایک طریقہ کار ہے، جیل مینوئل میں تمام تفصیل موجود ہے۔