چین  کے پانچ نیشنل پارکس کے لئے حقوق کی رجسٹریشن مکمل ہو گئی WhatsAppFacebookTwitter 0 11 August, 2025 سب نیوز

بیجنگ :  چین کی وزارت  قدرتی وسائل   نے اعلان کیا ہے کہ پہلے مرحلے میں پانچ نیشنل پارکس کے لئے  حقوق کی رجسٹریشن مکمل کرلی گئی  ہے۔ نیشنل پارک قومی معیار کی نمائندگی کرنے والے قدرتی ماحولیاتی نظام ہیں ، جس میں  تحفظ کا سب سے وسیع دائرہ   اور مکمل ماحولیاتی عمل موجود   ہے۔ نیشنل پارک چین کے قدرتی ماحولیاتی نظام میں سب سے اہم ، سب سے منفرد قدرتی نظاروں ،

بے مثال قدرتی ورثہ ، اور  حیاتیاتی تنوع سے مالامال ہوتے ہیں۔ قومی پارکوں میں قدرتی وسائل کے حقوق کی رجسٹریشن ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کوفروغ دینے کے سلسلے میں ایک اہم اقدام ہے، جس کے ذریعے  قدرتی وسائل کی ملکیت کے حقوق کے متعدد تنازعات حل ہوتے ہیں ، جو قومی پارکس میں عوامی ملکیت کے حامل قدرتی وسائل کے اثاثوں  کے انتظام اور  معاوضے کیلئے قانونی  بنیاد فراہم کرے گا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرانصاف صرف دلوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اسے عمل میں لانے کی ضرورت ہے، رپورٹ انصاف صرف دلوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اسے عمل میں لانے کی ضرورت ہے، رپورٹ الیکشن کمیشن اور بی جے پی پر سنگین الزامات، دہلی پولیس نے راہول گاندھی کو گرفتار کرلیا ایران نے نئے جوہری سائنس دان روپوش کردیے، اسرائیل کی نئی ہٹ لسٹ تیار ایشیا کے امیر ترین آدمی مکیش امبانی کو اپنی کمپنی سے کتنی تنخواہ ملتی ہے؟ آسٹریلیا کا ستمبر میں جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان ترکیہ سمیت مختلف ممالک میں اسرائیلی مظالم کیخلاف احتجاج، غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: حقوق کی رجسٹریشن

پڑھیں:

پرنٹ میڈیا اور موسمیاتی بحران، قلم سے ماحول کی حفاظت

جب زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہو، برف پگھل رہی ہو، سمندری سطح میں اضافہ ہو رہا ہو اور موسمیاتی تغیرات ہماری روزمرہ زندگی کو بدل رہے ہوں تو یہ سوال مزید اہمیت اختیارکرجاتا ہے کہ عوام تک یہ تمام خطرات کس ذریعے سے پہنچائے جا رہے ہیں؟

اگر کوئی پلیٹ فارم ان پیچیدہ مسائل کو عام فہم انداز میں، مستند معلومات کے ساتھ پیش کر رہا ہے، تو وہ ہے پرنٹ میڈیا۔ اخبارات، جرائد اور ماحولیاتی میگزین نہ صرف موسمیاتی بحران کو اجاگر کرتے ہیں بلکہ رائے عامہ، پالیسی سازی اور اجتماعی شعور کی تعمیر میں ایک خاموش مگر طاقتور انقلاب کا آغاز کرتے ہیں۔

پرنٹ میڈیا محض خبر نہیں دیتا، بلکہ خبر کے پیچھے چھپے محرکات، اس کے ماحولیاتی، معاشی اور سماجی پہلوؤں کو تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی جیسے طویل المدتی اور سائنسی نوعیت کے موضوعات کے لیے یہ انداز نہایت موزوں ہے۔

اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی پینل (IPCC) کی 2023 کی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ ’’مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق مؤثر ابلاغ عوامی شعور اجاگر کرنے اور پالیسی سازی پر اثر ڈالنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔‘‘ اسی طرح رائٹر انسٹیٹیوٹ کی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ ’’پرنٹ جرنلزم موسمیاتی تجزیے کے لیے ایک معتبر ذریعہ ہے، خصوصاً ان علاقوں میں جہاں انٹرنیٹ تک رسائی محدود ہے۔‘‘

لمس یونیورسٹی کی 2021 کی ایک تحقیق کے مطابق ’’ پاکستانی اخبارات میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق خبروں کی شرح 3 فیصد سے بھی کم ہے، جب کہ قدرتی آفات کی رپورٹنگ 60 فیصد سے زیادہ ہے، مگر ان میں موسمیاتی پس منظر اکثر غائب ہوتا ہے۔‘‘

یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ اگرچہ سیلاب، بارشوں، شدید گرمی کی لہروں، آندھیوں اور دیگر آفات پر خبریں آتی ہیں، مگر انھیں موسمیاتی تبدیلی سے جوڑنے کا تناظر انتہائی کم ہوتا ہے۔ پاکستان میں اردو زبان عوامی سطح پر سب سے زیادہ پڑھی اور سمجھی جاتی ہے۔

لہٰذا، اردو اخبارات، جرائد اور ماحولیاتی میگزین جیسے ’’ فروزاں‘‘ اگر موسمیاتی تبدیلی جیسے موضوعات پر تواتر اور سادہ انداز میں مواد شایع کریں تو نہ صرف شہروں بلکہ دیہی اور نیم شہری علاقوں میں بھی ماحول دوست شعور اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک بڑھتا ہوا بحران بن چکی ہے، جس کے اثرات ہر گزرتے سال کے ساتھ شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سے جڑی آفات، بشمول شدید بارشیں، سیلاب اور گرمی کی لہریں سمیت دیگر مظاہر، نہ صرف سیکڑوں انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بن رہے ہیں بلکہ اربوں روپے کے معاشی نقصانات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (IPCC)'' کی چھٹی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق اگر موجودہ درجہ حرارت میں اضافے کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو 1.5°C کی حد عبور ہونے کے بعد دنیا کو ناقابلِ واپسی ماحولیاتی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا، جس میں پانی کی قلت، زرعی پیداوار میں کمی اور قدرتی آفات کی شدت میں اضافہ شامل ہے۔

اس تناظر میں میڈیا، بالخصوص پرنٹ میڈیا کی ذمے داری کہیں زیادہ اہم ہو جاتی ہے کیونکہ وہ عوامی رائے سازی اور شعور کی بیداری کا مؤثر ذریعہ ہے، اگرچہ ڈیجیٹل میڈیا کے عروج کے باعث یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ پرنٹ میڈیا اپنی اہمیت کھو چکا ہے، لیکن تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اخبارات اور رسائل اب بھی ایک بڑا طبقہ متاثر کرتے ہیں، خصوصاً وہ قارئین جو سنجیدہ، تفصیلی اور حوالہ جاتی تجزیے کو ترجیح دیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ماحولیاتی مسائل جیسے پیچیدہ موضوعات کی تفہیم کے لیے پرنٹ میڈیا ایک قابلِ اعتماد اور گہرائی پر مبنی پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے تاہم جنوبی ایشیا میں ہونے والی ایک علاقائی تحقیق ’’ کلائمٹ ٹریکر ایشیا رپورٹ 2022 ‘‘ کے مطابق اس خطے میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پرنٹ میڈیا میں شایع ہونے والی خبروں اور مضامین کی شرح محض 12 فیصد کے قریب ہے، جو کہ بحران کی وسعت کے لحاظ سے انتہائی ناکافی ہے۔

ناروے کے روزنامہ Aftenposten  نے ایک سالہ ’’ کلائمیٹ چینج اسپیشل سیریز‘‘ شایع کی، جس کا اثر ملکی انتخابی مہم پر بھی پڑا۔ برطانیہ کا اخبار ’’ دی گارڈین ‘‘ موسمیاتی خبروں کے لیے مخصوص سیکشن ’’ کلائیمٹ کرائسس‘‘ کے تحت رپورٹنگ کر رہا ہے، جو دنیا بھر میں اثر انداز ہو رہا ہے۔

بھارت میں ''Down To Earth'' ایک ماحولیاتی ہفت روزہ ہے جو دیہی سطح پر ماحولیاتی شعور کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔اس حوالے سے جائزہ لیا جائے تو ہمیں نظر آئے گا کہ ماحولیاتی تربیت یافتہ صحافیوں کی کمی، ادارتی ترجیحات میں موسمیاتی موضوعات کی کم اہمیت، اشتہارات کا دباؤ، خاص طور پر ماحولیاتی نقصان دہ صنعتوں کا، قارئین کی ترجیح سیاست، کرائم اور معاشی خبروں کی طرف زیادہ ہے۔

ڈاکٹر ساجدہ بی بی، ماحولیاتی ابلاغ کی ماہر اپنے شایع شدہ مقالے میں کہتی ہیں کہ ’’پرنٹ میڈیا کو ماحولیاتی مسئلے کو سیاسی اور اقتصادی مسئلے کے طور پر بھی پیش کرنا چاہیے، تاکہ یہ اشرافیہ کی ترجیح بنے۔‘‘

موسمیاتی اور ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ماحولیاتی موضوعات پر پرنٹ میڈیا میں باقاعدہ کالم، صفحات یا اسپیشل ایڈیشن مختص کیے جائیں۔ ماحولیاتی صحافیوں کو خصوصی تربیت دی جائے۔ ماحولیاتی ادارے، جامعات اور میڈیا ہاؤسز کے درمیان اشتراک قائم کیا جائے۔

ماحولیاتی تحقیق پر مبنی فیچرز، انٹرویوز اور ڈیٹا رپورٹنگ کو فروغ دیا جائے۔پرنٹ میڈیا ایک سست مگر پائیدار انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی جیسا مسئلہ فوری توجہ نہیں مانگتا، بلکہ مستقل مزاجی، تحقیق اور عوامی آگہی کا تقاضا کرتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں پرنٹ میڈیا دیگر ذرایع ابلاغ پر سبقت لے سکتا ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلیں صاف فضا، محفوظ زمین اور مستحکم موسم کا سامنا کریں تو ہمیں آج ہی سے پرنٹ میڈیا کو اس جنگ کا اصل سپاہی بنانا ہوگا، ایک ایسا سپاہی جو قلم سے ماحول کی حفاظت کرے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی پہلی نیشنل آرٹیفیشل انٹیلیجنس پالیسی منظور، 2030 تک 30 لاکھ نوکریاں پیدا کرنے کا ہدف
  • غزہ پٹی میں اسرائیلی حملے میں ’الجزیرہ‘ کے پانچ صحافی ہلاک
  • نیب کی بحریہ ٹاؤن رہائشیوں اور مالکان کو حقوق و سرمایہ محفوظ ہونے کی یقین دہانی
  • قدیمی باشندوں کے حقوق کو مصنوعی ذہانت سے خطرہ، اقوام متحدہ
  • پرنٹ میڈیا اور موسمیاتی بحران، قلم سے ماحول کی حفاظت
  • قدرتی مناظر کو نقصان، فیصل مسجد سمیت 50 سے زائد مساجد غیر قانونی قرار، مسمار کرنے کی تیاریاں
  • معیشت درست سمت میں گامزن، پاکستان کو جی 20 ممالک میں شامل کرنا ہدف: اسحاق ڈار
  • جماعت اسلامی، مینار پاکستان میں اجتماع عام منعقد کرنے کا اعلان
  • وطن لوٹنے والی افغان خواتین و لڑکیوں کو طالبان حکومت میں مسائل کا سامنا