مودی کا دورۂ منی پور محض سیاسی ڈھونگ قرار دیا جا رہا ہے جب کہ ریاست بدستور تشدد اور تقسیم کی لپیٹ میں ہے، منی پور کے 9 بڑے مسائل مودی کے تاخیر سے کیے گئے مختصر دورے کے بعد بھی حل نہ ہوسکے۔

رپورٹ کے مطابق جنسی تشدد اور آتشزدگی کے واضح شواہد کے باوجود مجرم آزاد ہیں اور بی جے پی ریاستی رٹ قائم کرنے میں ناکام ہے۔

بھارتی جریدے دی وائر کے مطابق منی پور میں مئی 2023 میں لوٹے گئے 6 ہزار سے زائد جدید ہتھیار آج بھی واپس نہ مل سکے، منی پور کے کُکی-زو متاثرین کو انصاف محض نعروں تک محدود، مرکزی ایجنسیاں سست اور جانبدار ثابت ہوئیں۔

دی وائر نے اعتراف کیا کہ منی پور آج عملی طور پر نسلی بنیادوں پر تقسیم شدہ ریاست ہے، وادیٔ اِمفال میں میتئی اکثریت اور پہاڑوں میں کُکی برادری کے درمیان "غیر اعلانیہ سرحد" قائم ہو چکی ہے، سابق وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ آڈیو کیس میں تاخیر بی جے پی وفاداروں کو تحفظ دینے کی منظم کوشش ہے۔

مودی حکومت کی سرحدی باڑھ مقامی ناگا و کُکی برادریوں کے ثقافتی رشتے توڑ رہی ہے، 2015 کا ناگا معاہدہ ناکام ہے جب کہ ایک دہائی بعد بھی کوئی حتمی تصفیہ سامنے نہ آیا، سرکار نے انسدادِ اسمگلنگ پالیسی کے بجائے گروہوں کو "غیر قانونی" اور مجرم قرار دے کر نسلی کشیدگی پیدا کی۔

دی وائر کے مطابق منی پور سب سے طویل انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کا شکار ہے، انسانی حقوق کی پامالی چھپائی گئی، انٹرنیٹ بلیک آؤٹ نے صحافیوں کو خاموش اور منی پور میں تعلیم و خدمات کو مفلوج کر دیا، منی پور کے 60 ہزار سے زائد متاثرین ریلیف کیمپوں میں بے یارو مددگار، حکومت تاحال بحالی کی پالیسی نہ دے سکی۔

"امن قائم نہ کرنے والوں کو حکومت کا حق نہیں" کا راگ الاپنے والے مودی کے اقتدار میں منی پور 28 ماہ سے جل رہا ہے، مودی کا 2015 میں کیا فریم ورک ایگریمنٹ ایک دہائی بعد بھی محض کاغذی وعدہ ثابت ہوا، 2024 میں منی پور کے عوام بی جے پی کو انتخابی شکست دے کر مودی کا غرور خاک میں ملا چکی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: منی پور کے مودی کا

پڑھیں:

تماشا دکھا کر مداری گیا!!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251104-03-7

 

 

اسماعیل صدیقی

آج نیویارک میں مئیر کا الیکشن ہونے جارہا ہے جس نے نہ صرف نیویارک اور امریکا بلکہ پوری دنیا کی توجہ حاصل کی ہوئی ہے۔ اس سے پہلے نیویارک میں ہونے والے مئیر کے الیکشن میں لوگوں کی عدم دلچسپی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ چار سال پہلے ہونے والے الیکشن میں فقط تیئس ۲۳ فی صد ووٹ ڈالے گئے تھے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عام الیکشن سے پہلے ہونے والی ابتدائی (early) ووٹنگ میں تقریباً ساڑھے سات لاکھ ووٹ ڈالے جاچکے ہیں جو پچھلی دفعہ کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہیں۔ اس دفعہ بھی شاید عوامی بے رُخی پچھلی دفعہ والی ہوتی اگر یوگینڈا میں پیدا ہونے والے ہندوستانی نژاد امیدوار ظہران ممدانی میدان میں نہ ہوتے جو خود کو مسلم سوشلسٹ کہہ کر متعارف کرواتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کا گڑھ کہلانے والے نیویارک میں ان کے اس تعارف کے دونوں حصے ’’مسلمان‘‘ اور ’’سوشلسٹ‘‘ دہکتے ہوئے انگاروں کی مانند ہیں۔

تاریخی طور پر نیویارک میں سفید فاموں کے علاوہ اطالوی نژاد امریکی، یہودی اور سیاہ فام میئرز منتخب ہوتے آئے ہیں۔ ایسے میں ایک مسلمان امیدوار کا سنجیدگی سے انتخابی دوڑ میں شامل ہونا کبھی بعید از قیاس سمجھا جاتا تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ظہران ممدانی کی مقبولیت ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ مسلمان ہونے کے باوجود ہے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف ان کا پیغام عوام کے دل کی آواز بن چکا ہے۔

امریکا میں عوام اس وقت دولت کی ظالمانہ حد تک غیر منصفانہ تقسیم سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ خصوصی طور پر نیویارک میں جہاں ایک طرف لوگوں کو فقط مکان کا کرایہ ادا کرنے کے لیے دو نوکریاں کرنی پڑ رہی ہیں وہاں امرا کی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے۔ اس وقت امریکا میں بالائی ایک فی صد طبقہ دولت کے تیس فی صد سے زائد حصے پر قابض ہے جبکہ زیریں پچاس فی صد کے حصے میں فقط تین فی صد دولت آئی ہے۔ کسی کمپنی کے ایک عام آدمی کی تنخواہ اور ایک سی ای او کی تنخواہ میں ایک اور ساڑھے چار سو کا تناسب ہے۔ دولت کی اس قدر غیر منصفانہ تقسیم پر امریکا میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ گزشتہ سال نیویارک میں ہونے والا ایک واقعہ یوں تو معمولی واقعہ تھا مگر وہ عوام میں پائی جانے والی اس بے چینی کا عکاس ہے۔

چار دسمبر 2024 کی ایک سرد صبح امریکا کی سب سے بڑی ہیلتھ انشورنس کمپنی یونائیٹڈ ہیلتھ کئیرکے سی ای او برائین تھامپسن کو دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام کے گڑھ نیویارک کے تجارتی علاقے مین ہیٹن میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ یہ قتل کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا۔ امریکا میں ہر سال تقریباً بیس ہزار قتل ہوتے ہیں۔ جو چیز انوکھی تھی وہ اس قتل کے بعد آنے والا رد عمل تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لوگ مقتول سے ہمدردی کرتے مگر لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد قاتل کو سراہنے لگی۔ تھامپسن کے جسم میں پیوست تین گولیوں پر ’’deny, defend, depose‘‘ کے الفاظ کندہ تھے۔ یہ تین الفاظ دراصل وہی حربے ہیں جن کے ذریعے ہیلتھ انشورنس کمپنیاں اپنی تنخواہ سے ماہانہ رقم کٹوانے کے باوجود صارفین کو وقت پڑنے پر علاج کے لیے رقم دینے سے گریز کرتی ہیں۔ چند ہی دنوں میں ملزم لوئیجی منجیونی گرفتار کر لیا گیا، مگر وہ ایک عوامی ہیرو بن چکا تھا۔ اس نے اپنے مینی فیسٹو میں لکھا کہ ان خون چوسنے والے طفیلیوں (parasites) کو یہ دن دیکھنا ہی تھا۔ اس کی مقبولیت سے خوف زدہ حکام نے قتل کے ساتھ ساتھ اس پر دہشت گردی کے الزامات بھی عائد کیے، مگر گزشتہ ماہ عدالت نے دہشت گردی کے الزامات مسترد کر دیے ہیں۔ اگرچہ کہ نیویارک کے قانون میں سزائے موت نہیں ہے مگر اس کیس کو وفاقی کیس بنا کر لوئیجی کو سزائے موت دلوانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ اس کو نشان عبرت بنایا جاسکے۔

لوئیجی منجیونی کی عوامی حمایت امریکا میں سیاسی تقسیم کی نوعیت میں تبدیلی کا ایک اشارہ تھی۔ یہ معاملہ دائیں یا بائیں بازو کا نہیں تھا، بلکہ بالائی اور زیریں طبقے کے درمیان ایک واضح لکیر کا تھا۔ دونوں بڑی جماعتوں کے غریب طبقے میں لوئیجی ایک ہیرو تھا، جب کہ امرا کی نظروں میں وہ ایک سفاک قاتل تھا۔ یہی بالائی اور زیریں تقسیم نیویارک کے موجودہ مئیر کے الیکشن میں نظر آتی ہے۔ اس وقت ڈیموکریٹک پارٹی کے اپنے منتخب امیدوار ظہران ممدانی کو ان کی پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے جو اشرافیہ پر مشتمل ہے اپنی حمایت مہیا کرنے سے انکار کردیا ہے جن کی سیاست کا انحصار ان بلینرز کی دولت پر ہے جن سے عوام تنگ آئے ہوئے ہیں۔ اس وقت ان بلینرز کا کسی قسم کا پروپیگنڈا عوام پر کام کرتا نظر نہیں آرہا۔ نیویارک میں ان بلینرز کی ایک بہت بڑی تعداد صہیونی یہودیوں پر مشتمل ہے جنہوں نے ظہران ممدانی کو شکست دینے کے لیے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے ہیں۔ غزہ میں جاری نسل کشی کی حمایت کی وجہ سے ان بلینرز کے خلاف پہلے ہی سے عوامی جذبات موجود تھے۔

۲۰۰۸ میں بھی جب امریکا کو ان دولت کے بھوکے بے لگام بلینرز کی وجہ سے اقتصادی بحران سے گزرنا پڑا تھا اور ان بلینرز کو اپنے اعمال کی سزا بھگتنے کے لیے چھوڑنے کے بجائے ان کمپنیوں کو حکومت نے Too big to fail کے عنوان کے تحت بیل آؤٹ کیا تھا اس وقت بھی عوامی رد عمل میں امریکی معاشرہ دائیں بازو اور بائیں بازو کی تقسیم کے بجائے بالائی اور زیریں طور پر منقسم نظر آیا۔ جہاں ایک طرف بائیں بازو کی طرف Occupy Wall Street کی تحریک نظر آئی وہیں دائیں بازو کی طرف Tea Party Movement موجود تھی۔ بیک وقت اٹھنے والی یہ دونوں تحریکیں اگرچہ کہ بالکل مختلف محرکات کے تحت اٹھی تھیں مگر ان دونوں تحریکوں کا ہدف اشرافیہ سے تعلق رکھنے والا طبقہ تھا۔ بائیں بازو کا ہدف کارپوریشنز اور دائیں بازو کا ہدف حکومت کا حجم اور اس کی طرف سے عائد کردہ ٹیکس اور عوامی زندگی میں بڑھتی مداخلت تھی۔ حکومت کی جانب سے امریکی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے والی کارپوریشنوں اور ان کو چلانے والے بلینرز کی عوام کے دیے ہوئے ٹیکسوں سے بیل آؤٹ سے دونوں اطراف پر یہ واضح ہوچلا تھا کہ حکومت اور کارپوریشنز ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں اور دونوں کے درمیان ایک ریولونگ ڈور موجود ہے۔ امریکا اس وقت انقلاب کے دہانے پر نظر آرہا تھا۔ مگر سرمایہ دار کی مکر کی چالوں سے انتہائے سادگی سے مزدور مات کھا گیا اور امریکا کی سیاست کو پھر مصنوعی طور پر بائیں اور دائیں بازو کی سیاست میں تقسیم کرکے رکھا گیا جبکہ حقیقی تقسیم اوپر اور نیچے کی تھی۔

صہیونی سرمایہ داروں کی طرف سے اس وقت پھر اس تقسیم پر پردہ ڈالنے کے لیے ظہران ممدانی کے خلاف اسلاموفوبیا پر مبنی ایک مہم چلائی جارہی ہے جس کی شدت اتنی ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس الیکشن کے نتائج کچھ بھی ہوں مگر ایک مرد درویش کا قول ذہن میں گونجتا ہے کہ: ’’ایک وقت آئے گا کہ کمینوزم کو ماسکو میں پناہ نہ ملے گی اور سرمایہ دارانہ جمہوریت خود واشنگٹن اور نیویارک میں لرزہ براندام ہوگی‘‘۔

اسماعیل صدیقی

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد شہر شدید دھند کی لپیٹ میں ہے، جس سے ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہورہی ہے
  • تماشا دکھا کر مداری گیا!!
  • ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان کی 12 رکنی سیاسی کونسل کا اعلان
  • معروف سیاسی و سماجی شخصیت میر مصطفی مدنی گلگت بلتستان کو قائم مقام وزیراعلی بنائے جانے کا امکان
  • پی پی اور ن لیگ کی سیاسی کشمکش؛ آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
  • پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں ڈیڈ لاک برقرار، آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
  • ملک بھر میں موسم خشک، پنجاب کے کئی علاقے اسموگ کی لپیٹ میں رہنے کا امکان
  • آپریشن سندور پر مودی کی خاموشی سیاسی طوفان میں تبدیل
  • ٹریفک پولیس اہلکاروں سے جھگڑا اور تشدد کرنے والا نوجوان گرفتار
  • وزیراعظم کی نوازشریف سے ملاقات‘ ملکی مجموعی صورتحال پر گفتگو