Express News:
2025-09-23@23:29:42 GMT

معیشت کی نئی سمت، کثیر الجہتی چیلنجز

اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT

وزیراعظم شہباز شریف نے قابل عمل منصوبوں کی نشاندہی کر کے ان کو عملی شکل دینے کے لیے فوری اقدامات کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ زراعت، آئی ٹی، معدنیات، سیاحت اور قابل تجدید توانائی اہم شعبے ہیں جن میں بیرون ملک سرمایہ کاری آسکتی ہے، اقتصادی سرگرمیوں کے روڈ میپ میں نجی شعبے کا کلیدی کردار ہوگا، اس کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا۔

ادھر ورلڈ بینک کے وفد نے وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال سے ملاقات میں پاکستان کے نظام صحت کو مضبوط بنانے کے لیے جاری اقدامات اور چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا ۔ مزید برآں آیندہ دو سے تین ماہ میں ڈونر کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کردی ہے۔

وزیراعظم کی جانب سے جاری کیے گئے یہ احکامات دراصل ایک وسیع تر وژن کا حصہ ہیں، جس کا مقصد معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنا۔ اس وژن میں نجی شعبے کو مرکزی حیثیت دینا نہایت دانشمندانہ فیصلہ ہے، کیونکہ دنیا بھر میں نجی شعبہ ہی ترقی کا انجن مانا جاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ عزم کہ اقتصادی سرگرمیوں میں نجی شعبے کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا، سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے،مگر جدید زرعی ٹیکنالوجی، بہتر انتظامی ڈھانچے اور مالیاتی سہولیات کی کمی نے اس شعبے کی ترقی کو محدود رکھا۔ وزیراعظم کی جانب سے زراعت کے شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دینے کی ہدایت اس بات کا ثبوت ہے کہ وفاقی حکومت روایتی طریقوں سے ہٹ کر جدید زرعی پالیسیوں کو اپنانے کی جانب راغب ہے، اگر وفاقی حکومت صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر پانی کے انتظام، جدید بیجوں، ڈرپ ایریگیشن اور کسانوں کو براہ راست منڈیوں سے جوڑنے کے اقدامات کرے تو اس شعبے میں انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح آئی ٹی کا شعبہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ منافع بخش اور تیزی سے ترقی کرنے والا میدان ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو آئی ٹی کی تعلیم حاصل کر رہی ہے، فری لانسنگ میں نمایاں مقام حاصل کر رہی ہے اور عالمی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا رہی ہے، اگر حکومت اس شعبے میں انفرا اسٹرکچر، ٹریننگ، انٹرنیٹ سہولیات اور سافٹ ویئر ہاؤسز کو سہارا دے، تو نہ صرف روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ برآمدات میں بھی قابل قدر اضافہ ممکن ہے۔

 بلوچستان، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان ، سندھ اور پنجاب میں بیش بہا معدنی ذخائر موجود ہیں جن میں سونا، تانبہ، لوہا، کرومائٹ، کوئلہ اور دیگر قیمتی دھاتیں شامل ہیں۔ اگر ان ذخائر کی سائنسی بنیادوں پر تلاش، کان کنی اور پروسیسنگ کی جائے تو پاکستان نہ صرف اپنے صنعتی شعبے کو تقویت دے سکتا ہے بلکہ ان معدنیات کی برآمد سے قیمتی زرمبادلہ بھی حاصل کر سکتا ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت کہ ان شعبوں میں قابل عمل منصوبے فوری طور پر عملی جامہ پہنیں، اس لحاظ سے خوش آیند ہے کہ حکومت اب ان وسائل کے استعمال کو محض دستاویزات تک محدود نہیں رکھنا چاہتی، بلکہ عملی اقدامات کی طرف بڑھ رہی ہے۔

سیاحت کا شعبہ بھی پاکستان کے لیے ایک سنہری موقع ہے۔ قدرتی خوبصورتی، تاریخی مقامات، مذہبی ورثہ اور ثقافتی تنوع کی دولت سے مالامال یہ ملک دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے کشش رکھتا ہے۔ تاہم، اس شعبے میں ترقی کی راہ میں بنیادی ڈھانچے کی کمی، سیکیورٹی خدشات اور ناقص انتظامات بڑی رکاوٹ بنے رہے ہیں۔

اگر صوبائی حکومتتیں ہوٹلنگ انڈسٹری کو سہولت دیں، ٹرانسپورٹ سسٹم بہتر بنائیں، اور سیاحتی مقامات کی حفاظت کو یقینی بنائیں، تو یہ شعبہ ملکی معیشت کو اربوں ڈالرز کا فائدہ دے سکتا ہے۔ پاکستان میں شمسی، ہوائی اور پن بجلی کے وسیع امکانات موجود ہیں، اگر حکومت اس شعبے میں غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کرے، مقامی سرمایہ کاروں کو مراعات دے اور ادارہ جاتی اصلاحات کرے تو نہ صرف توانائی بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ ماحولیات کے تحفظ میں بھی نمایاں کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان جن کثیرالجہتی چیلنجز سے دوچار ہے، ان میں صحت کا شعبہ نہایت اہم ہے۔ حالیہ دنوں میں ورلڈ بینک کے وفد کی وفاقی وزیر صحت جناب مصطفیٰ کمال سے ملاقات خاصی ثمرآور ثابت ہوسکتی ہے ۔ بین الاقوامی برادری بھی پاکستان کے نظامِ صحت کی بحالی اور بہتری کے لیے سنجیدہ ہے۔ یہ ملاقات جہاں ایک طرف عالمی اداروں کے اعتماد کا مظہر ہے، وہیں یہ حکومت پاکستان کے لیے ایک موقع بھی ہے کہ وہ اپنے نظامِ صحت کی خامیوں کا جائزہ لے کر انھیں درست کرنے کی عملی تدابیر کرے۔

ورلڈ بینک جیسے عالمی مالیاتی ادارے کا کردار صرف مالی معاونت تک محدود نہیں بلکہ وہ تکنیکی مشورے، عالمی تجربات اور پالیسی سازی میں بھی بھرپور معاونت فراہم کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث کئی قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے، ان قدرتی آفات نے جہاں رہائشی، معاشی اور زرعی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا، وہیں صحت کے شعبے کو بھی بحران سے دوچار کیا۔ سیلاب زدہ علاقوں میں بنیادی طبی سہولیات کا فقدان، بیماریوں کا پھیلاؤ اور غذائی قلت جیسے مسائل نے حکومتی اداروں کی کارکردگی پرکئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ سیاست سے بالاتر ہو کر صحت کے شعبے کی بہتری کو قومی ایجنڈے کا حصہ بنائیں۔ خاص طور پر آفات سے متاثرہ علاقوں میں مقامی سطح پر صحت کے مراکز کی بحالی، موبائل کلینکس کی فراہمی اور حفظانِ صحت کے اصولوں پر مبنی آگاہی مہمات کو فوری طور پر فعال کیا جانا چاہیے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب تک بین الاقوامی ادارے یا میڈیا کسی مسئلے کو اجاگر نہ کریں، اس وقت تک حکومت کی جانب سے خاطرخواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ متاثرہ علاقوں کے عوام بار بار امداد کی اپیل کرتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن ان کی داد رسی بروقت نہیں ہو پاتی۔ایک اور اہم پہلو جس پر فوری توجہ دی جانی چاہیے، وہ ہے کسان طبقے کی صحت اور ان کی آبائی علاقوں میں واپسی کا مسئلہ۔ کسان ہمارے معاشی نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ سیلاب کے باعث ان کی زمینیں، گھر اور ذرایع معاش تباہ ہو چکے ہیں۔ ان کی واپسی اور روزگار کی بحالی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ صحت کے مسائل ان کی واپسی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ جب تک ان کے لیے بنیادی طبی سہولیات، صاف پانی، اور رہائش کے محفوظ انتظامات نہیں کیے جاتے، ان کی واپسی ممکن نہیں ہو سکے گی۔ لہٰذا ایک قومی پالیسی کی ضرورت ہے جو نہ صرف ان کے معاشی بحالی کے منصوبے مرتب کرے بلکہ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کو بھی مقدم رکھے۔

پاکستان کا نظام صحت اس وقت کئی سطحوں پر تقسیم اور غیر متوازن ہے۔ دیہی علاقوں میں بنیادی طبی سہولیات کا شدید فقدان ہے، جب کہ شہری مراکز میں توجہ زیادہ تر بڑے اسپتالوں تک محدود ہے۔ ایک مؤثر قومی صحت پالیسی وہی ہو سکتی ہے جو اس عدم توازن کو ختم کرے۔ اس مقصد کے لیے مرکز اور صوبوں کو باہمی مشاورت اور ہم آہنگی سے کام کرنا ہوگا۔ ماضی میں ہم نے بارہا دیکھا کہ مختلف منصوبے صرف اس لیے ناکام ہوئے کہ ان میں سیاسی ترجیحات کو فنی تقاضوں پر ترجیح دی گئی۔

یہ بھی امر قابل ذکر ہے کہ صحت کے مسائل کا تعلق صرف جسمانی بیماریوں سے نہیں بلکہ ذہنی صحت بھی ایک ایسا موضوع ہے جسے طویل عرصے تک نظر انداز کیا گیا۔ قدرتی آفات، معاشی بدحالی، اور بے یقینی کی فضا نے عوام کو ذہنی دباؤ، بے چینی، اور ڈپریشن جیسے مسائل میں مبتلا کر دیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ذہنی صحت کو بھی اپنی پالیسیوں میں شامل کرے اور ہر سطح پر ماہرینِ نفسیات کی خدمات فراہم کرے۔ان تمام شعبوں میں ترقی کے لیے حکومت کی جاری کردہ معاشی اور اقتصادی اصلاحات کلیدی اہمیت رکھتی ہیں۔

وزیراعظم کا یہ کہنا کہ ان اصلاحات نے معیشت کو ایک نئی سمت دی ہے، ایک اہم حقیقت کی نشاندہی ہے۔ پاکستان نے ماضی میں بارہا معاشی اصلاحات کی کوشش کی مگر ان پر تسلسل سے عملدرآمد نہ ہو سکا۔ اگر موجودہ حکومت ان اصلاحات کو سیاسی مصلحتوں سے بالا ہو کر نافذ کرتی ہے، اور ادارہ جاتی استحکام، شفافیت، احتساب اور طویل المدتی پالیسی سازی کو یقینی بناتی ہے تو یہ اصلاحات واقعی ایک نئے معاشی دور کا آغاز ثابت ہو سکتی ہیں۔

بیرونی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ کاروبار کرنے میں آسانیاں پیدا کرے، ٹیکس نظام کو شفاف اور سہل بنائے، کرپشن کے خاتمے کے لیے مضبوط اقدامات کرے، اور سرمایہ کاروں کو قانونی تحفظ دے۔ اس کے ساتھ ساتھ، سفارتی محاذ پر بھی پاکستان کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ دنیا بھر میں پاکستان کو ایک پرکشش اور محفوظ سرمایہ کاری مرکز کے طور پر پیش کیا جا سکے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سرمایہ کاری پاکستان کے علاقوں میں کی جانب سے کو یقینی شعبے کو سکتا ہے رہی ہے کے لیے صحت کے کیا جا

پڑھیں:

معیشت کیلئےبڑی خوشخبری، پاور سیکٹر کے سرکلرڈیٹ پراہم اعلان ہوگیا

ویب ڈیسک: معیشت کیلئے بڑی خوشخبری، پاور سیکٹر کے سرکلر ڈیٹ پر اہم اعلان ہوگیا۔

 سرکلرڈیٹ ختم کرنےکی آئی ایم ایف کی شرط پرعمل درآمد ہونےجارہاہے،کل بینکوں اورحکومت کےدرمیان 1275 ارب قرض معاہدے پردستخط ہوں گے،وزیراعظم آفس میں دستخط کی خصوصی تقریب منعقد ہوگی۔

 وزیراعظم شہبازشریف خصوصی تقریب میں ورچوئل شرکت کریں گے،سینٹرل پاورپرچیزنگ ایجنسی کا اسٹیک ہولڈرزکودعوت نامے کا لیٹر بھی میڈیا کوموصول ہوگیا،تقریب کاوقت کل وزیراعظم کی دستیابی کےمطابق دیا جائےگا۔

تھانہ راوی روڈ نے بلیک میلر اور گٹگا مافیا کا سرغنہ پکڑ لیا

 واضح رہے کہ 18 جون کو وفاقی کابینہ نے پاور سیکٹر کا گردشی قرض ختم کرنے کی منظوری دے دی تھی۔

 وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ اجلاس میں کمرشل بینکوں سے 1275 ارب روپے لے کر گردشی قرض ختم کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔

 جون 2025 کے مقابلےمیں جولائی 2025 میں پاورسیکٹرکا گردشی قرضہ 47 ارب روپےبڑھا،دستاویز کے مطابق جولائی 2025 تک پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 1661 ارب روپے ہوگیا، جبکہ اس کا حجم جون2025 تک 1614 ارب روپےتھا۔
 
 

کھیلتا پنجاب اور پنک گیمز کے ٹرائلز نومبر میں کروانے کا فیصلہ

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم سے کویت کے ولی عہد کی ملاقات، دو طرفہ اور کثیر الجہتی فورمز پر تعاون کے عزم کا اعادہ
  • معیشت کیلئےبڑی خوشخبری، پاور سیکٹر کے سرکلرڈیٹ پراہم اعلان ہوگیا
  • وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی صحت کے شعبے میں انقلابی پیش رفت
  • اقتصادی سرگرمیوں کے روڈ میپ میں نجی شعبے کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا،وزیراعظم شہباز شریف کا زوم پر اجلاس سے خطاب
  • ملکی معیشت ترقی کی راہ پر؛ زرمبادلہ ذخائر 20 ارب ڈالر کے قریب، برآمدات میں نمایاں اضافہ
  • وزیر اعظم یوتھ پروگرام اور پاشا کے تعاون سے پاکستانی ڈیجیٹل معیشت کو مستحکم کیا جائےگا، رانا مشہود
  • پاکستان کی آدھی معیشت سیلابی خطرات کی زد میں ہونے کا انکشاف
  • کراچی کی خوشحالی ملک کی مضبوط معیشت کی ضمانت ہے، خالد مقبول
  • سعودی عرب نے فوجی یونیفارم فیکٹری کی نجکاری کا عمل شروع کردیا