انٹلیک چوئل پراپرٹی رائٹس انفورسمنٹ کو مضبوط بنانے کے لیے آن لائن شکایتی نظام کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر)پاکستان کی انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن (آئی پی او) نے ایک نیا آن لائن پلیٹ فارم، انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس انفورسمنٹ کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم (IPRE-CMS) کا آغاز کیا ہے، تاکہ انٹلیکچوئل پراپرٹی (IP) کی خلاف ورزی کی شکایات کے دائر کرنے اور انتظام کو ہموار کیا جاسکے۔سسٹم کا افتتاح گزشتہ روز آئی پی او کے کراچی آفس میں منعقدہ ایک تقریب میں کیا گیا۔نئے پورٹل کا مقصد عوام کے لیے شکایت کے عمل کو مزید قابل رسائی اور شفاف بنانا ہے۔ اس سے پہلے، شکایات روایتی میل یا ذاتی طور پر جمع کرائی جاتی تھیں، جس سے بہت سے شہریوں کی رسائی محدود تھی۔ IPRE-CMS، جو 24/7 دستیاب ہے، توقع کی جاتی ہے کہ موصول ہونے والی شکایات کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور ان کے بروقت حل کو بہتر بنایا جائے گا۔آئی پی او پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل نعمان اسلم نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں وزارت تجارت و تجارت کے تحت ایک وفاقی ادارے کے طور پر تنظیم کے کردار پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نیا نظام آئی پی او کے مشن کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے تاکہ صارف دوست اور شفاف خدمات فراہم کی جائیں، بین الاقوامی پراپرٹی قوانین کی تعمیل کو یقینی بنایا جائے۔آئی پی او پاکستان کے چیئرمین سفیر (ر) فرخ امل نے کہا کہ آئی پی او کراچی لاہور کے بعد آئی پی کیسز کے لیے مصروف ترین اسٹیشن ہے۔ انفورسمنٹ کے ڈائریکٹر محمد اسماعیل کی ایک پریزنٹیشن نے IPRE-CMS کا تکنیکی جائزہ فراہم کیا ہے۔انہوں نے وضاحت کی ہے کہ مطلوبہ دستاویزات کے ساتھ آن لائن شکایت جمع کروانے کے بعد اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جانچ کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کیس کی سفارش سات آپریشنل آئی پی ٹربیونلز میں سے ایک کو کی جاتی ہے، جو حتمی فیصلہ کرتے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ا ئی پی او کے لیے
پڑھیں:
قرآنی لفظ (أَبَقَ) سے آشنائی
اسلام ٹائمز: حضرت یونسؑ کا "فرار" دراصل قوم سے اعراض تھا، نہ کہ امرِ الہیٰ سے انحراف۔۔۔۔ یہ "فرار" گناہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ بلکہ مقامِ عبودیت کی لطافت کے لحاظ سے ایک ادنیٰ سی پیشقدمی تھی، لہذا۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن نے لفظ "أبق" کے انتخاب سے یہ حقیقت نمایاں کی کہ اللہ کے مقرب بندے اپنی بندگی کے سفر میں اس قدر حساس ہوتے ہیں کہ معمولی سی "پیشقدمی" بھی ان کے لیے تادیبِ کا باعث بن جاتی ہے، کیونکہ۔۔۔۔۔۔ قربِ الہیٰ جتنا بڑھتا ہے، تادیبِ ربانی بھی اتنی ہی لطیف ہو جاتی ہے۔ اردو ترجمہ و ترتیب: ساجد علی گوندل
sajidaligondal55@gmail.com
"إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ" (الصافات: 140) "جب وہ بھری ہوئی کشتی کی طرف بھاگے۔" لفظ "أَبَقَ" قرآنِ کریم میں حضرت یونسؑ کے واقعے میں استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ لغوی طور پر بغیر اجازت چلے جانے یا فرار کرنے کے مفہوم پر دلالت کرتا ہے۔ علامہ مصطفوی لکھتے ہیں: "الأبق والهرب مشتركان في الذهاب من غير استئذان،" یعنی "أبق" اور "هَرب" دونوں کا مفہوم کسی مقام سے بغیر اجازت نکل جانا ہے۔ "وفي الأبق" قيد آخر۔ البتہ لفظِ "أبق" میں ایک خصوصی قید ہے۔۔۔۔۔ "وهو الهرب قبل أن يتوجه إليه خوف أو شدة من سيده" "ابق" ایسے فرار کو کہتے ہیں، جو کسی خوف، سزا یا دباؤ کے ظاہر ہونے سے پہلے انجام پائے۔۔۔۔۔
یعنی لفظ "أبق" اس مورد میں استعمال ہوتا ہے، جہاں غلام اپنے مالک کے کچھ کہنے سے پہلے ہی فرار ہو جائے۔۔۔۔۔۔ قرآن میں حضرت یونسؑ کے بارے میں لفظ "أَبَقَ" کا استعمال: نہ ہی گستاخی کے معنی میں ہے۔۔۔۔۔۔ اور نہ ہی معصیت و نافرمانی کے معنی میں۔۔۔۔ بلکہ یہ ایک تربیتی اشارہ ہے۔۔۔۔۔ کہ مقامِ عبودیت میں ذرا سی پیش قدمی یعنی (امرِ الہیٰ سے قبل اقدام) تنبیہ کا سبب بن سکتی ہے۔ علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں: "اباق به معناى فرار كردن عبد از مولايش مى باشد۔" و مراد از فرار كردن او به طرف كشتى اين است كه او از بين قوم خود بيرون آمد و از آنان اعراض كرد. و آن جناب هر چند در اين عمل خود خدا را نافرمانی نكرد و قبلا هم خدا او را از چنين كارى نهى نكرده بود و ليكن اين عمل شباهتى تام به فرار يك خدمتگزار از خدمت مولى داشت، و به همين جهت خدای تعالی او را به کیفر اين عمل بگرفت۔ (تفسیر المیزان، ترجمہ فارسی، محمد باقر موسوی، جلد 17 ص 247)
کہ حضرت یونسؑ کا "فرار" دراصل قوم سے اعراض تھا، نہ کہ امرِ الہیٰ سے انحراف۔۔۔۔ یہ "فرار" گناہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ بلکہ مقامِ عبودیت کی لطافت کے لحاظ سے ایک ادنیٰ سی پیشقدمی تھی، لہذا۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن نے لفظ "أبق" کے انتخاب سے یہ حقیقت نمایاں کی کہ اللہ کے مقرب بندے اپنی بندگی کے سفر میں اس قدر حساس ہوتے ہیں کہ معمولی سی "پیشقدمی" بھی ان کے لیے تادیبِ کا باعث بن جاتی ہے، کیونکہ۔۔۔۔۔۔ قربِ الہیٰ جتنا بڑھتا ہے، تادیبِ ربانی بھی اتنی ہی لطیف ہو جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماخذ:
التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، علامہ حسن مصطفوی، جلد 1، ص 27