صدر ٹرمپ کا جنرل اسمبلی سے خطاب!
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر عالمی برادری کے سامنے اعلانیہ کہا کہ انھوں نے پاک بھارت جنگ رکوانے میں کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے واضح طور پرکہا کہ وہ اب تک سات جنگیں رکوا چکے ہیں۔ انھوں نے اقوام متحدہ کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جنگیں رکوانے میں اقوام متحدہ نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد عالمی سطح پر امن کا قیام تھا لیکن اس نے کسی تنازع کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اقوام متحدہ کے کردار پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ناقدانہ تبصرہ اس امر کا عکاس ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے موجودہ عالمی کردار کو جاری تنازعات کے تناظر میں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، غالباً اسی لیے انھوں نے اپنی تقریر میں یہ کہنا ضروری سمجھا کہ اقوام متحدہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
صدر ٹرمپ نے بعض مغربی ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کے اعلانات کے پس منظر میں کہا کہ کئی طاقتور ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے ایسا کرنا حماس کے لیے انعام ہوگا۔ انھوں نے غزہ میں جاری انسانی المیے پر اپنی گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں پائیدار امن نہایت ضروری ہے۔ وہاں سنگین بحران جنم لے رہا ہے، جنگ بندی ازبس ضروری ہے۔ حماس کو قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنانا ہوگا۔ امریکی صدر نے اسلامی ممالک کے تعاون سے فلسطین میں قیام امن اور جنگ بندی کے لیے کردار ادا کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ باہم مل کر ہی تنازع کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ امریکا دنیا میں قیام امن کے لیے اپنا موثرکردار ادا کرے گا۔
صدر ٹرمپ نے جنوبی ایشیا کے کشیدہ حالات پر بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ جنوبی ایشیا میں امن کے بغیر عالمی امن کا تصور ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے اس ضمن میں پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرینہ تنازع کشمیر کے حوالے سے واضح کیا کہ بھارت کو خطے میں امن قائم کرنے اور انسانی حقوق کی ذمے داریاں پوری کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انھوں نے بھارت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ روس سے تیل خرید رہا ہے جو غیر منصفانہ رویہ ہے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دنیا کو منصفانہ تجارت کے اصول اپنانا ہوں گے تاکہ سب کے لیے یکساں مواقع پیدا ہوں۔ صدر ٹرمپ نے دنیا میں اسلحے کی دوڑ کو امن کے لیے خطرناک رجحان قرار دیا۔ ان کا موقف ہے کہ امن معاہدے اور سفارت کاری ہی تمام تنازعات کا مستقل حل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر یہ اعلان بھی کیا کہ امریکا اب کسی کی جنگ نہیں لڑے گا۔ صدر ٹرمپ نے جنرل اسمبلی سے تاریخ کا طویل ترین خطاب کیا جو تقریباً 57 منٹ پر مشتمل تھا۔
صدر ٹرمپ نے اپنے طویل ترین خطاب میں دنیا میں جاری تنازعات بالخصوص مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین اور روس یوکرین جنگ سمیت جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور امریکی تجارتی پالیسیوں اور امیگریشن کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر یہ واضح کیا کہ وہ امریکا عالمی امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ انھوں نے اقوام متحدہ کے کردار کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس وقت پوری دنیا میں فلسطین کا تنازعہ سب سے زیادہ موضوع بحث ہے۔
اسرائیل فلسطین میں گزشتہ تقریباً دو سال سے آگ و خون کی جو ہولی کھیل رہا ہے اور نیتن یاہو ’’ گریٹر اسرائیل‘‘ کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جس بربریت، سفاکی اور شقی القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، اس کی پشت پر امریکا ہی کا ہاتھ ہے۔ مشرق سے لے کر مغرب تک ساری دنیا فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہے اور مسلسل جنگ بندی کے مطالبات کیے جا رہے ہیں لیکن اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ دوسری جانب عالمی سطح پر فلسطینیوں کی حمایت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال کے بعد اب فرانس، بیلجیم، اسپین، مناکو اور دیگر ممالک نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے جو نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکا کے لیے بھی ایک دھچکا ہے۔ پاکستان، سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کے لیے ضروری ہے کہ صورت حال کی نزاکت کے پیش نظر اسرائیل کے خلاف تیزی سے عملی اقدامات اٹھائیں۔ یہودی آبادکاری روکنے اور جنگ بندی کے لیے دباؤ میں اضافہ کریں۔ صدر ٹرمپ فلسطین کا تنازعہ حل کروانے میں اگر کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ تاریخ میں امر ہو جائیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کے نے اقوام متحدہ کرتے ہوئے انھوں نے دنیا میں کیا کہ رہا ہے امن کے کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
اقوام متحدہ نے شامی صدر پر عائد پابندیاں ہٹا دیں، اگلے ہفتے وائٹ ہاؤس کا دورہ متوقع
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک امریکی قرار داد کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت شامی صدر احمد الشرع پر عائد پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں۔ صدر شرع آئندہ ہفتے وائٹ ہاؤس کا دورہ کریں گے۔
احمد الشرع کو دسمبر 2024 میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد عبوری صدر نامزد کیا گیا تھا، جس کے ساتھ شام میں 13 سالہ خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا۔
شام ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے، امریکااقوام متحدہ میں امریکی سفیر مائیک والٹز نے کہا کہ یہ فیصلہ ایک سیاسی طور پر مضبوط اشارہ ہے کہ شام اب ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیے اسرائیل کی خطے میں عدم استحکام کی سازشیں ناکام، شامی صدر کا مؤقف
یاد رہے کہ شرع پر اقوام متحدہ کی پابندیاں اس وقت عائد کی گئی تھیں جب وہ اسلامی تنظیم ہیئت تحریر الشام کے سربراہ تھے، جو ماضی میں القاعدہ سے منسلک تھی۔ تاہم، امریکا نے جولائی 2025 میں ہیئت تحریر الشام کو دہشتگرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کر دیا تھا۔
اقوام متحدہ نے شامی وزیر داخلہ انس خطاب پر سے بھی پابندیاں ختم کر دی ہیں۔
شام کی حکومت کا ردعملشامی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ شام اقوام متحدہ، امریکا اور دوست ممالک کا شکریہ ادا کرتا ہے جنہوں نے شام اور اس کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
وائٹ ہاؤس دورہ اور عالمی سیاست میں واپسیصدر شرع کا یہ پہلا وائٹ ہاؤس کا دورہ نہیں ہوگا۔ وہ اس سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کر چکے ہیں، جہاں وہ تقریباً 60 سال بعد اقوام متحدہ سے خطاب کرنے والے پہلے شامی رہنما بنے۔
اپنے خطاب میں شرع نے کہا تھا کہ شام دنیا کی قوموں کے درمیان اپنا جائز مقام دوبارہ حاصل کر رہا ہے، اور ہم غزہ کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے امریکی قید میں رہنے والے شامی صدر سے ٹرمپ نے کس کے کہنے پر ملاقات کی؟
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شرع کو ’ایک مضبوط اور سخت گیر شخصیت‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ شام میں امن کے قیام کی سمت مثبت پیش رفت کر رہے ہیں۔
صدر احمد الشرع پر عائد پابندیاں ہٹانے کے اس اقدام کی اس پیش رفت کو شام اور مغرب کے تعلقات میں بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھی جا رہی ہے، جو برسوں سے خانہ جنگی، دہشت گردی اور بین الاقوامی پابندیوں کا شکار رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں