میں ٹرمپ کے سر پر سوار ہوں وہ بھی بغیر کرائے کے، میئر لندن
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
میئر لندن صادق خان نے ٹرمپ کو نسل پرست اور اسلامو فوبیا کا شکار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں ان کے سر پر سوار ہوں۔
لندن کے مسلمان میئر صادق خان نے بس میں سفر کے دوران انٹرویو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خود پر تنقید پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ نے اپنی متعصبانہ سوچ ظاہر کر دی ہے کہ وہ نسل پرست، جنسی تعصب کا شکار اور خواتین واسلام کے خلاف ہیں۔
میئر لندن نے امریکی صدر کی جانب سے انہیں بار بار تنقید کا نشانہ بنائے جانے پر ازراہ تنفن کہا کہ وہ (صادق خان) ہر وقت ڈونلڈ ٹرمپ کے سر پر سوار رہتے ہیں اور وہ بھی بغیر کرائے کے۔
انہوں نے صحافی کی جانب سے ٹرمپ کے ان کو خوفناک میئر قرار دیے جانے پر کہا کہ مسلمان میئر ایک لبرل، کثیر ثقافتی، ترقی پسند، کامیاب شہر کی قیادت کر رہا ہے اور میں شکر گزار ہوں کہ اب ریکارڈ تعداد میں امریکی لندن آ رہے ہیں۔
میئر لندن کا کہنا تھا کہ مجھے صدر ٹرمپ کے تبصروں کی کوئی پروا نہیں کیونکہ میرے پاس فکر کرنے کے لیے اس سے زیادہ اہم چیزیں ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ ہم دنیا کے عظیم ترین شہر ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں صادق خان کو ’’خوفناک میئر‘‘ قرار دیا تھا اور ان پر لندن میں شریعت نافذ کرنے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔
یہ پہلی بار نہیں جب امریکی صدر نے میئر لندن پر تنقید کی ہو۔ اپنے حالیہ دورہ برطانیہ میں بھی انہوں نے کہا تھا کہ صادق خان شاہی ضیافت میں آنا چاہتے تھے، مگر میرے منع کرنے پر انہیں مدعو نہیں کیا گیا کیونکہ میں انہیں یہاں دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ اس سے قبل امریکی صدر کے ان توہین آمیز ریمارکس پر لیبر ممبران پارلیمنٹ نے میئر لندن صادق خان کی حمایت میں ریلی نکالی۔ شرکا نے ٹرمپ کے دعووں کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ امریکی سفیر طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرانے کا مطالبہ کیا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: امریکی صدر ٹرمپ کے
پڑھیں:
امریکی قیادت میں بین الاقوامی امن و استحکام فورس غزہ میں جلد تعینات ہوگی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے توقع ظاہر کی ہے کہ امریکا کی قیادت میں بین الاقوامی امن و استحکام فورس بہت جلد غزہ میں تعینات کردی جائے گی تاکہ جنگ کے بعد کے حالات میں علاقے میں استحکام اور شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: سماجی ترقی کا خواب غزہ جنگ کو نظرانداز کرکے پورا نہیں ہوسکتا، صدر مملکت کا دوحہ کانفرنس سے خطاب
الجزیرہ کے مطابق غزہ اب بھی شدید انسانی بحران کا شکار ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے بمباری جاری ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ بہت جلد ہو جائے گا اور غزہ میں صورت حال اچھے طریقے سے بہتر ہو رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انتہائی طاقتور ممالک نے رضا مندی ظاہر کی ہے کہ اگر فلسطینی عسکری گروہ حماس کے ساتھ کسی قسم کا مسئلہ پیدا ہوا تو فورس مداخلت کرے گی حالانکہ حماس نے ابھی تک ہتھیار ڈالنے کی تصدیق نہیں کی ہے۔
اقوام متحدہ کا کردار اور امن مشنصدر ٹرمپ کے بیان کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی غزہ میں 2 سالہ عبوری حکومتی اور استحکام فورس کے قیام کے لیے مذاکرات شروع کرنے جا رہی ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستانی دستوں کو غزہ بھیجنے کی خبروں پر پی ٹی آئی کی طرف سے تحفظات کا اظہار
یہ فورس شہریوں کی حفاظت کرے گی سرحدی علاقوں کو محفوظ بنائے گی اور فلسطینی پولیس کی تربیت فراہم کرے گی۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوترس نے بتایا کہ کسی بھی استحکام فورس کو مکمل بین الاقوامی قانونی حیثیت حاصل ہونی چاہیے تاکہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کی مدد کر سکے۔
امریکی مسودہ قرارداد اور فوجی تفصیلاتدریں اثنا رائٹرز کے مطابق ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے بتایا کہ قرارداد کا مسودہ امریکا نے اقوام متحدہ کی 10 منتخب رکن ریاستوں اور کئی علاقائی شراکت داروں کو بھیجا ہے۔
اس مسودے کے تحت 20,000 فوجی پر مشتمل استحکام فورس کو اپنا مینڈیٹ پورا کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات اختیار کرنے کی اجازت دی جائے گی، جس میں فورس کے استعمال کی اجازت بھی شامل ہے۔
حماس اور اس کی عسکری صلاحیتیںصدر ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کی ایک کلیدی شرط یہ ہے کہ حماس اپنے ہتھیار اتارے۔ اگرچہ حماس نے اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا مگر استحکام فورس کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگا کہ وہ حماس کی عسکری صلاحیتوں اور جارحانہ انفراسٹرکچر کو تباہ کرے اور دوبارہ اس کے دوبارہ قیام کو روکے۔
مزید پڑھیں: غزہ امن سربراہ اجلاس: صدر ٹرمپ سے وزیراعظم شہباز شریف کی ملاقات، گرمجوشی سے مصافحہ
امریکی صدر کے منصوبے نے اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدی رہا کرنے اور عارضی جنگ بندی میں مدد فراہم کی تھی تاہم اسرائیل نے اپنی بمباری اور امدادی پابندیوں کے ذریعے بار بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے۔
ترکی کی ثالثی اور اسرائیل کا مؤقفترکی نے مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا حماس کو امن منصوبہ قبول کروانے کے ساتھ ہی استحکام فورس کے لیے حمایت حاصل کی اور اس سلسلے میں قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن، پاکستان اور انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ کو استنبول میں بلایا۔
یہ بھی پڑھیے: ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ یکطرفہ اور ناقابلِ عمل، بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، خواجہ سعد رفیق
ترکی نے اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی کی جنگ کی بارہا مذمت کی اور عالمی سطح پر مطالبہ کیا کہ اسرائیل جنگ بندی کی خلاف ورزی بند کرے اور انسانی امداد داخل کرنے کی اجازت دے۔
تاہم اسرائیلی عہدیدار، بشمول وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور وزیر خارجہ گیڈیون سآر نے واضح کیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں ترکی کی فوجی موجودگی قبول نہیں کرے گا۔
مزید پڑھیں: فلسطین سے متعلق پاکستان کی پالیسی واضح، غزہ امن منصوبے پر سیاست نہ کی جائے، اسحاق ڈار
نیتن یاہو نے ستمبر میں صدر ٹرمپ کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ اسرائیل مستقبل میں غزہ میں سیکیورٹی ذمہ داری برقرار رکھے گا۔
’امریکی فوجیوں کی تعیناتی کا امکان نہیں‘مشرق وسطیٰ کے لیے ذمہ دار امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ نے گزشتہ ماہ غزہ کے دورے کے دوران واضح کیا تھا کہ کوئی امریکی فوجی وہاں تعینات نہیں ہوں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈونلڈ ٹرمپ غزہ غزہ میں استحکام فورس غزہ میں امن فوج