امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے میئر لندن صادق خان پر تنقیدکرتے ہوئےکہا ہےکہ وہ لندن میں شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار  پھر لندن کے پاکستانی نژاد  میئر  صادق خان پر تنقیدکی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ میں لندن کو دیکھتا ہوں جہاں ایک بہت برا میئر ہے،  وہ شہر مکمل طور  پر بدل گیا ہے،   اب وہ شرعی قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں، لیکن آپ ایک مختلف ملک میں ہیں، آپ یہ نہیں کر سکتے۔

برطانوی میڈیا کے مطابق صادق خان کے ترجمان امریکی صدر کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ  ہم ان کے خوفناک  اور  متعصب بیانات کو کوئی اہمیت دینے کے قابل نہیں سمجھتے، لندن دنیا کا سب سے عظیم شہر ہے جو  بڑے امریکی شہروں سے زیادہ محفوظ ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ ریکارڈ تعداد میں امریکی شہری بھی  یہاں منتقل ہو رہے ہیں۔

خیال رہےکہ گزشتہ ہفتے  ہی برطانیہ کے دورے کے موقع پر ٹرمپ نے کہا تھا کہ صادق خان دنیا کے بدترین میئروں میں سے ایک ہے۔

وطن واپسی پر  اپنے طیارے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ  انہوں نے گزشتہ رات ہونے والے اسٹیٹ بینکوئٹ میں صادق خان کو  مدعو نہ کرنےکی درخواست کی تھی کیونکہ وہ صادق خان کو ایک عرصہ سے پسند نہیں کرتے اور   وہ نہیں چاہتے تھے کہ صادق خان وہاں آئیں۔

دوسری جانب  برطانوی میڈیا کا کہنا تھا کہ میئر لندن صادق خان نے دعوت نامہ حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی اور نہ ہی اُمید رکھی  تھی۔

خیال رہےکہ  ٹرمپ 2015 سے صادق خان کو تنقید کا نشانہ بناتے آرہے ہیں جب کہ  جب لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے صادق خان نے امریکی صدارتی امیدوار ٹرمپ کی اس تجویز کی مذمت کی تھی جس میں مسلمانوں پر امریکا آمد پر پابندی لگانےکا مطالبہ کیا گیا تھا۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: تھا کہ

پڑھیں:

امریکا میں تاریخ رقم؛ پہلا مسلم میئر منتخب

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251107-03-3

 

میر بابر مشتاق

نیویارک کی سیاسی تاریخ میں ۴ نومبر ۲۰۲۵ ایک یادگار دن بن گیا۔ دنیا کے اس سب سے متنوع شہر نے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا ہے جو صرف سیاست دان نہیں بلکہ ایک نظریہ اور تحریک کی نمائندگی کرتا ہے۔ زہران ممدانی، ایک مسلم، جنوبی ایشیائی نژاد، اصلاح پسند رہنما، جو اب نیویارک شہر کے ۱۱۱ ویں میئر بن چکے ہیں۔ انتخابات میں دو ملین سے زائد ووٹرز نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا جو ۲۰۰۱ کے بعد سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ ہے۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں بلکہ عوام کے بدلتے رجحان کا ثبوت ہے۔ لوگ اب نسلی یا جماعتی سیاست سے ہٹ کر عوامی فلاح اور سماجی انصاف کی بنیاد پر ووٹ دینے لگے ہیں۔ پولنگ اسٹیشنوں پر نوجوانوں، مزدور طبقے اور اقلیتوں کی غیر معمولی شرکت نے ایک نئے سیاسی رجحان کو جنم دیا۔ نیویارک کے گلی کوچوں سے ایک ہی صدا بلند ہو رہی تھی: ’’ہمیں وہ قیادت چاہیے جو کرائے کم کرے، انصاف مہیا کرے، اور شہر کو صرف امیروں کا نہیں، سب کا بنائے‘‘۔

ممدانی کا مقابلہ سابق گورنر اینڈریو کومو اور ری پبلکن امیدوار کرٹس سلیوا سے تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ، ایلون مسک اور دیگر ارب پتی سرمایہ کاروں نے کومو کی حمایت کی، مگر اس انتخاب نے ایک بات ثابت کر دی: عوامی طاقت، سرمایہ دارانہ اثر سے بڑی ہے۔ ٹرمپ کی حمایت، میڈیا پر اشتہارات اور سرمایہ دار طبقے کی بھرپور پشت پناہی کے باوجود عوام نے فیصلہ اس طبقے کے حق میں کیا جو برسوں سے دباؤ میں تھا۔ ورکنگ کلاس۔ ممدانی کا ایجنڈا ’’عوام کے لیے شہر‘‘ زہران ممدانی کا منشور سادہ مگر انقلابی تھا۔ گھروں اور دفاتر کے کرائے منجمد کیے جائیں۔ مفت پبلک ٹرانسپورٹ کا آغاز کیا جائے۔ یونیورسل چائلڈ کیئر فراہم کی جائے۔ مڈل کلاس اور لوئر کلاس کے مسائل کو ترجیح دی جائے، یہ وہ نکات تھے جنہیں نیویارک کے عام شہریوں نے اپنی زندگی سے جڑا پایا۔

ممدانی نے انتخابی مہم میں نعرے نہیں، حل اور پالیسی دی۔ ان کا مؤقف تھا: ’’جب شہر کی ترقی کا بوجھ صرف غریب اٹھاتا ہے، تو وہ ترقی نہیں، استحصال کہلاتا ہے‘‘۔ زہران نے نیویارک کی کوئینز یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور نوجوانی میں ہی سماجی سرگرمیوں سے وابستہ ہو گئے۔ انہیں نیویارک کے شہری مسائل کا براہِ راست تجربہ ہے۔ وہ خود کرائے کے فلیٹ میں پلے بڑھے، اور یہی تجربہ ان کے سیاسی وژن کی بنیاد بنا۔ زہران ممدانی کی کامیابی امریکی تاریخ میں ایک نیا باب ہے۔ امریکا میں اسلاموفوبیا، نسل پرستی اور تعصبات کے دور میں، نیویارک جیسے شہر کا ایک مسلمان، جنوبی ایشیائی نژاد شخص کو منتخب کرنا اس بات کا اعلان ہے کہ جمہوریت اب شناخت سے زیادہ کارکردگی پر یقین رکھتی ہے۔ دنیا بھر کے مسلم حلقوں نے اس کامیابی پر خوشی اور فخر کا اظہار کیا۔

عالمی تجزیہ نگاروں نے کہا کہ: ’’یہ انتخابی جیت صرف نیویارک کی نہیں، پوری مسلم دنیا کی اخلاقی فتح ہے‘‘۔ ممدانی نے اپنی مہم کے دوران فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کی۔ انہوں نے کہا تھا: ’’اگر عالمی عدالت ِ انصاف کے وارنٹ کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نیویارک آئے، تو میں قانون کے مطابق انہیں گرفتار کراؤں گا‘‘۔ یہ بیان امریکی مین اسٹریم سیاست کے لیے غیرمعمولی تھا۔ لیکن ممدانی نے دکھا دیا کہ انصاف پسندی، اخلاقی جرأت اور سچ بولنے کا حوصلہ بھی سیاست کا حصہ ہو سکتا ہے۔

CNN, The New York Times اور Politico نے ممدانی کی کامیابی کو “Progressive Revolution in Urban Politics” قرار دیا۔ امریکی میڈیا نے تسلیم کیا کہ ممدانی نے نیویارک کے عوام کے ذہنوں میں ایک نیا فریم ورک بنا دیا ہے —”City for People, Not for Profit”۔ کچھ دائیں بازو کے تبصرہ نگاروں نے انہیں “Left Populist” اور “Idealist” کہا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ممدانی نے صرف خواب نہیں دکھائے بلکہ ان کے لیے پالیسی روڈ میپ بھی پیش کیا۔ اب جبکہ نیویارک کا انتظام سنبھالنا ممدانی کی ذمے داری ہے، انہیں شدید عملی مشکلات کا سامنا ہوگا: مالی وسائل کی کمی۔ ریاستی قوانین کی رکاوٹیں۔ رئیل اسٹیٹ لابی کا دباؤ۔ وفاقی حکومت کے ساتھ ہم آہنگی کے چیلنجز۔ ان چیلنجز کے باوجود ممدانی کی اخلاقی برتری اور عوامی مقبولیت انہیں ایک مضبوط پوزیشن میں رکھتی ہے۔

ان کے لیے اصل امتحان یہی ہوگا کہ وہ تحریک کو پالیسی میں کیسے ڈھالتے ہیں۔ زہران ممدانی کی کامیابی صرف امریکی سیاست نہیں، بلکہ عالمی بیانیے کی تبدیلی کی علامت ہے۔ یہ کامیابی بتاتی ہے کہ دنیا کی طاقتور معیشتوں میں بھی سماجی انصاف اور عوامی فلاح کی سیاست جگہ بنا سکتی ہے۔ برطانیہ، کینیڈا، اور فرانس میں بھی مسلم نژاد امیدواروں کی مہم کو نئی توانائی ملی ہے۔ امریکا کے اندر بھی یہ نتیجہ بتا رہا ہے کہ ریاستی اشرافیہ کے خلاف عوامی مزاحمت اب محض نعرہ نہیں، ایک حقیقت ہے۔

زہران ممدانی کی کامیابی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جب مسلمان معاشروں میں تعلیم، سماجی خدمت، اور فکری خوداعتمادی کو بنیاد بنایا جائے تو وہ دنیا کے کسی بھی سیاسی نظام میں عزت، اثر اور قیادت حاصل کر سکتے ہیں۔

یہ جیت امت کے نوجوانوں کے لیے پیغام ہے: ’’تبدیلی کا انتظار مت کرو۔ خود وہ تبدیلی بنو جس کی تمہیں ضرورت ہے‘‘۔ زہران ممدانی کا یہ جملہ اب عالمی سطح پر مقبول ہو چکا ہے: ’’ہم شہر کو دوبارہ انسانی ہاتھوں میں لوٹا رہے ہیں، طاقت کے ایوانوں سے عوام کے دلوں تک‘‘۔ یہی وہ فلسفہ ہے جو نیویارک کی گلیوں سے اْٹھ کر دنیا بھر کے شہریوں کے ضمیر میں گونج رہا ہے۔ اور شاید یہی وہ لمحہ ہے جب امریکی خواب ایک نئے مفہوم میں زندہ ہوا۔ انصاف، برابری اور انسانی وقار کے خواب کے طور پر۔

میر بابر مشتاق

متعلقہ مضامین

  • نیو یارک اور لندن کے مسلم میئرز کو مذہب کی بنیاد پر تنقید کا سامنا
  • جنوبی افریقہ میں جی 20 اجلاس میں کوئی امریکی عہدیدار شریک نہیں ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • سکیورٹی فورسز کیخلاف وزیراعلیٰ پختونخوا کی ہرزہ سرائی ناقابلِ برداشت ہے، محسن نقوی
  • سہیل آفریدی نے  ہرزہ سرائی کرکے پاکستان کے ازلی  دشمن کو خوش کرنے کی کوشش کی ، قوم سے معافی مانگیں
  • امریکا میں تاریخ رقم؛ پہلا مسلم میئر منتخب
  • نریندر مودی 10 ہزار روپے دیکر ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں، کانگریس
  • صادق خان نے ممدانی کے میئر منتخب ہونےکو فنٹاسٹک فتح قراردیدیا
  • ٹرمپ جنوبی افریقہ کے خلاف آپے سے باہر، جی-20 سے نکالنے کا مطالبہ
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بڑا یوٹرن، میئر نیویارک ظہران ممدانی کی مدد کرنے کو تیار
  • ظہران ممدانی نے میئر نیویارک کے انتخاب میں شاندار فتح حاصل کی، میئر لندن صادق خان