اسلامی ممالک کے سربراہان کا امریکہ سے غزہ میں جنگ ختم کروانے کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔24 ستمبر ۔2025 )اسلامی ممالک کے سربراہان نے امریکہ سے غزہ میں جنگ ختم کروانے اور عوام کو مشکلات سے نکالنے کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر سائیڈ لائن پر قطر اور امریکہ کی میزبانی میں اجلاس منعقد ہوا جس میں منتخب اسلامی ممالک کو مدعو کیا گیا تھا.
(جاری ہے)
امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق ملاقات کا مقصد غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے خاتمے کے مجوزہ منصوے کے بارے میں منتخب اسلامی ممالک کو آگاہ کرنا تھا اس اجلاس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارت، قطر، مصر، ،ترکی، اردن، انڈونیشیا اور پاکستان کے سربراہان شریک تھے باضابطہ ملاقات سے قبل ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی بات چیت کے مطابق ملاقات میں شریک قطر کے امیر نے کہا کہ اس اجلاس کا مقصد غزہ میں جنگ کا خاتمہ اور اسرائیلی مغویوں کی رہائی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ غزہ میں جنگ ختم کروانے کے لیے امریکہ ان کے ساتھ ہے. امیر قطر کی گفتگو کے جواب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہم اسرائیلی مغویوں کی رہائی چاہتے ہیں اور دنیا میں کوئی بھی یہ نہیں کروا سکتا سوا منتخب اسلامی ممالک کے گروپ کے اس لیے یہ ملاقات ا±ن کے لیے بھی ایک عزاز ہے. صدرٹرمپ نے کہا کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر میری 32 ملاقاتیں ہیں لیکن یہ سب سے اہم ملاقات ہے ہم جنگ کو ختم کرنے جا رہے جسے شروع ہی نہیں ہونا چاہیے تھا ملاقات سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے حصول کی کوششوں کا حصہ رہے ہیں تاکہ مذاکرات کرنے والے فریقین اس ہدف کو حاصل کر لیں. انہوں نے یہ بھی کہا کہ حالیہ دنوں میں کئی طاقتور ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے حماس کے تاوان کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے بجائے ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جو لوگ امن چاہتے ہیں انہیں ایک نکتے پر متحد ہونا چاہیے کہ یرغمالیوں کو اب فوری رہا کر دیا جائے. صدر ٹرمپ نے اپنی جنرل کونسل سے خطاب کے دوران ایک مرتبہ پھر سے ا±ن سات جنگوں کا ذکر کیا ہے کہ جنہیں وہ اپنے دوسرے دورصدارت میں اب تک ختم کرنے کا دعوی کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ لوگوں نے انہیں بتایا تھا کہ یہ تنازعات ایسے ہیں کہ جنہیں ختم نہیں کیا جا سکتا . امریکی صدر نے جن تنازعات کا ذکر کیا ان میں کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کے درمیان کشیدگی، کوسوو اور سربیا، پاکستان اور انڈیا، اسرائیل اور ایران، مصر اور ایتھوپیا، آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان اور جمہوریہ کانگو اور روانڈا کے درمیان جھڑپیں شامل ہیں انہوں نے کہا کہ کوئی اور امریکی صدر جو انہوں نے اب تک کیا ہے وہ اس میں سے ذرہ برابر یا اس کے قریب قریب بھی کچھ نہیں کر سکا امریکی صدر نے کہا کہ اقوامِ متحدہ نے ان میں سے کسی تنازعے میں کے حل کے لیے تو کوشش تک نہیں کی.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسلامی ممالک امریکی صدر نے کہا کہ انہوں نے کے لیے کیا ہے
پڑھیں:
صہیونی رجیم کے مقابلے میں مسلمان ممالک کی قوت کے استعمال کی ضرورت
اسلام ٹائمز: اسلام آباد میں پاکستانی مذہبی علما، اساتذہ یونیورسٹی اور فکری و سماجی شخصیات سے خطاب میں ایرانی پارلیمان کے سربراہ نے کہا کہ ہم ہمیشہ امام، انقلاب اور قرآن مجید، احادیث اور اہلِ بیتؑ کے عقائد و روایات سے یہ سیکھتے آئے ہیں کہ ظلم کے مقابلے پر ثابت قدم رہنا لازم ہے۔ مسلمانوں کو ایسے خودمختار، مضبوط اور باصلاحیت ملکوں کی ضرورت ہے جو علمی و فنی میدانوں میں، خاص طور پر اس دورِ جدید میں جب جدید ٹیکنالوجی عروج پر ہے، بلند ترین مقام حاصل کریں اور مواقع سے فائدہ اٹھائیں؛ ہمیں چند صدیوں کی پسماندگی کو دور کرنا ہوگا۔ اس پسماندگی کی جڑ بھی استعماری نظریات ہیں جن کا ازالہ ضروری ہے۔ رئیسِ مجلس نے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران انقلاب کے بعد ہمیشہ سازشوں، ترہریوں، مسلط شدہ جنگ، اندرونی دباؤ اور منافق و الحاد گروہوں کا نشانہ رہا ہے۔ خصوصی رپورٹ:
ایرانی پارلیمنٹ (مجلسِ شورائے اسلامی) کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے کہا ہے کہ اسلامی ممالک کو صہیونی رجیم کے خلاف طاقت کے استعمال سے دریغ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہ رجیم صرف زبانِ قدرت کو سمجھتی ہے۔ تسنیم نیوز کی پارلیمانی رپورٹ کے مطابق قالیباف پاکستان کے قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی دعوت پر پاکستان کے سرکاری دورے پر ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد میں ایران کے سفارتخانے میں پاکستانی دینی مفکرین، یونیورسٹی اساتذہ اور سیاسی و سماجی شخصیات سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ جب ۱۲ روزہ جنگ کے دوران پاکستان کی عوام، حکومت اور پارلیمان نے ملتِ ایران کے ساتھ یکجہتی کا پیغام دیا، تو میں نے فیصلہ کیا کہ جنگ کے بعد پہلا غیرملکی دورہ پاکستان کا ہی ہوگا۔
پاکستان نے حق طلبی، عدالت پسندی اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ کی براہِ راست حمایت یافتہ صہیونی حملے کے مقابلے میں ملتِ ایران کی بہادری سے حمایت کی۔ قالیباف نے کہا کہ ہمیں اس جنگ کے اسباب اور نتائج پر غور کرنا چاہیے، کیونکہ یہ امتِ اسلامیہ کے لیے ایک تاریخی سبق بن سکتا ہے۔ اس موضوع پر طویل گفتگو اور درست تجزیہ ضروری ہے تاکہ ہم عوام اور نوجوانوں کو صحیح سمت دکھا سکیں۔ انہوں نے صہیونی رجیم کی فوجی حکمتِ عملی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس رجیم کا اصول رہا ہے کہ وہ کسی بھی خطرے کو جنم لینے سے پہلے ہی ختم کر دیتی ہے، آئرن ڈوم کے ذریعے ان کی سرحدیں ناقابلِ نفوذ ہیں اور اگر کوئی کارروائی ان کے خلاف ہوئی تو فوراً جواب دیا جائے گا۔
قالیباف نے مزید کہا کہ آپریشن طوفانُ الأقصیٰ دراصل فلسطینی عوام کے ۸۰ سالہ زخموں اور دبی ہوئی فریاد کا دھماکہ تھا۔ وہ قوم جو دہائیوں سے صہیونی ظلم، قتل، محاصرے اور بےدخلی کا شکار رہی، اس نے پہلی بار متحد ہو کر اپنی مظلومیت کے خلاف قیام کیا۔ انہوں نے ان دعووں کو جھوٹ اور خیانت قرار دیا کہ ۷ اکتوبر کو فلسطینیوں نے جنگ شروع کی تھی۔ قالیباف نے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ گزشتہ ۸۰ برسوں میں فلسطینیوں پر قتل، آوارگی اور جبر کے پہاڑ توڑے گئے۔ انہوں نے صرف ایک بار فیصلہ کیا کہ صہیونی جرائم کے خلاف عملی اقدام کریں۔ ماضی میں اسلامی ممالک کی جنگیں صہیونی رجیم کے خلاف کبھی ۵ یا ۶ دن سے زیادہ نہ چل سکیں، اور ہر بار شکست اسلامی دنیا کے حصے میں آئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ، جسے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کہا جاتا ہے، دو ملین سے زائد انسانوں پر مشتمل ہے جو مکمل محاصرے میں ہیں۔ انہوں نے ۷ اکتوبر کو یہ طے کیا کہ ایک ایسی کارروائی کریں جو صہیونی رجیم کے تمام فوجی نظریات کو چیلنج کر دے اور وہی مکڑی کے جالے کا گھر ثابت ہو جو شہید سید حسن نصراللہ نے کہا تھا۔ قالیباف نے بتایا کہ حماس نے اس وقت حملہ کیا جب اسرائیل نے اپنے دفاع کو زمین سے ۲۰ تا ۳۰ میٹر زیرِ زمین تک مضبوط کر رکھا تھا، سرحدوں پر دیواریں، الیکٹرانک سینسرز، جاسوس ڈرونز اور سیٹلائٹ نگرانی موجود تھی۔ اس کے باوجود نوجوان فلسطینی ان تمام رکاوٹوں کو پار کر کے سرحدیں توڑنے میں کامیاب ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ حتیٰ کہ ایف-۱۵ طیارے کو ٹرک پر گھسیٹے جانے کی ویڈیو اس رجیم کی ذلت اور بے بسی کی علامت بن گئی۔ آخر میں قالیباف نے زور دیا کہ اسلامی ممالک کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری اصل قوت منطق اور ایمان ہے، مگر جب فہم ختم ہو جائے، تو طاقت کے مقابلے میں طاقت ہی جواب ہے، کیونکہ صہیونی رجیم کسی اور زبان کو نہیں سمجھتی۔ قالیباف نے مزید کہا: تمام استعماری قوتیں، خاص طور پر امریکہ، صہیونی رجیم کی حمایت کرتی ہیں؛ میں نے 12 روزہ جنگ کے دوران ایرانی عوام اور نوجوانوں سے کہا تھا کہ اگر اسرائیل اکیلا اور امریکی حمایت کے بغیر ہوتا تو وہ سات دن سے بھی کم میں سخت شکست کھا جاتا اور یہ بات ثابت ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ حتیٰ کہ جنگ کے ابتدائی ایام میں جب امریکی وزیرِ خارجہ تل ابیب گئے تو انہوں نے وہاں کی حالت دیکھ کر ایک علاقائی وزیرِ خارجہ کو بتایا کہ تل ابیب تباہ حال ہے اور اس رجیم کی فوجی و ستادی قوتیں بکھر چکی ہیں۔ دراصل امریکہ ہی تھا جس نے اپنے مشیروں اور کمانڈروں کے ذریعے اس مرکزی کمانڈ کو سنبھالا اور دوبارہ بحال کیا اور جب امریکی صدر اسرائیل سفر پر گیا تو اس نے کہا کہ اگر پہلے ہم نے اسرائیل کو وجود میں نہ لایا ہوتا تو آج ہمیں خطے میں ایک نیا اسرائیل بنانا پڑتا۔ امریکہ کا یہ استعماری نظریہ ہمیں مسلمانوں کے خلاف سازشیں تیار کرنے کی غرض دکھاتا ہے۔
قالیباف نے کہا کہ ہم ہمیشہ امام، انقلاب اور قرآن مجید، احادیث اور اہلِ بیتؑ کے عقائد و روایات سے یہ سیکھتے آئے ہیں کہ ظلم کے مقابلے پر ثابت قدم رہنا لازم ہے۔ مسلمانوں کو ایسے خودمختار، مضبوط اور باصلاحیت ملکوں کی ضرورت ہے جو علمی و فنی میدانوں میں، خاص طور پر اس دورِ جدید میں جب جدید ٹیکنالوجی عروج پر ہے، بلند ترین مقام حاصل کریں اور مواقع سے فائدہ اٹھائیں؛ ہمیں چند صدیوں کی پسماندگی کو دور کرنا ہوگا۔ اس پسماندگی کی جڑ بھی استعماری نظریات ہیں جن کا ازالہ ضروری ہے۔ رئیسِ مجلس نے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران انقلاب کے بعد ہمیشہ سازشوں، ترہریوں، مسلط شدہ جنگ، اندرونی دباؤ اور منافق و الحاد گروہوں کا نشانہ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہی گروہوں نے سیاسی شخصیات جیسے صدر، رئیسِ قضائیہ، پارلیمانی ارکان، علمی و ثقافتی شخصیات اور عام شہریوں کو نشانہ بنا کر قریباً 26 ہزار افراد کو شہید کیا۔ استعماری طاقتوں نے بعث پارٹی کی مدد سے ہمارے تئیں جنگ تھوپ دی، مگر ایرانی قوم نے ظلم کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کیا، پابندیوں کا سامنا کیا اور علمی میدان میں شاندار ترقی کی۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریہ اسلامی ایران کی ایک اہم سائنسی پیشرفت ایٹمی میدان میں ہے، ہمارے پاس اس شعبے میں بہت سے سائنسدان اور ماہرین موجود ہیں اور ہم ابتدا سے اعلان کرتے آئے ہیں کہ ہم جوہری ہتھیار بنانے کی طرف نہیں جا رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حتیٰ کہ امریکہ اور اسرائیل کے حملوں کے بعد بھی، عالمی ایٹمی ایجنسی کے سربراہ گروسی نے کہا کہ ایران کے جوہری ہتھیار بنانے کی کوئی دستاویزی نشاندہی موجود نہیں۔ اس کے باوجود ہمارا ملک ایٹمی میدان میں ترقی یافتہ شمار ہوتا ہے اور جدید ترین سینٹری فیوجز یہاں موجود ہیں۔ نیز نینو ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہم دنیا کے پانچ بہترین ممالک میں ہیں اور فضائی و طبّی شعبوں میں بھی ہم نمایاں ہیں، حالانکہ پچھلے بیس سالوں میں امریکہ نے ہمارے خلاف ناجائز پابندیاں عائد کیں، کیونکہ وہ کسی بھی خودمختار ملک کی موجودگی یا مسلم ممالک کی ترقی کو برداشت نہیں کرنا چاہتے۔
قالیباف نے اشارہ کیا کہ ہمارے اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے چھٹے دور کے زمانے میں، جب عمان میں بات چیت کی از سرِ نو تاریخ قریب تھی، اسرائیل نے ہمارے ملک پر وسیع حملہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ایران دو روز سے زیادہ مزاحمت نہیں کرے گا، حالانکہ ہم نے سولہ گھنٹوں سے بھی کم میں سخت ترین جوابی کارروائیاں کیں، چوتھے روز ہم نے تقریباً 2000 کلومیٹر فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے ذریعے ردعمل ظاہر کیا۔ اس عمل نے امریکہ کو براہِ راست مداخلت پر مجبور کیا اور ہم نے خطے میں سینٹ کام کے کمانڈ مرکز کو 14 میزائلوں سے نشانہ بنایا جن میں سات میزائل ہدف پر لگے۔
انہوں نے کہا کہ اسی حالتِ جنگ نے دشمن کو آتش بس کی درخواست پر مجبور کیا اور ہم نے واضح کیا کہ آتش بس اسی وقت ہو گی جب ہم آخری ضرب لگائیں گے۔ قالیباف نے زور دیا کہ دشمن کے مقابلے ہمیں مضبوط ہونا پڑے گا اور یاد دہانی کروائی کہ اسلامی ممالک کو صہیونی رجیم کے خلاف طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہیے، ہماری اصل قوت منطق ہے، مگر جب سمجھ بوجھ و ادراک موجود نہ ہو تو طاقت کے سامنے طاقت دکھانی پڑتی ہے، کیونکہ یہ رجیم کسی اور زبان کو نہیں سمجھتی۔ انہوں نے آگے کہا کہ صہیونی رجیم کی خواہش تھی کہ فلسطین کا نام و نشان مٹ جائے، مگر 1948 کے بعد کئی نسلوں کے گزر جانے کے باوجود بھی لوگ فلسطین کے حق کے لیے کھڑے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف مسلم ممالک بلکہ ساری دنیا فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کر رہی ہے اور ہمیں اسلامی ممالک کے اندر اس مسئلے پر توجہ دے کر آپس میں نزدیکی بڑھانی چاہیے تاکہ اس رجیم کے خاتمے کے امکانات پیدا ہوں۔ اس وقت اسرائیل امریکی حمایت کے ساتھ عالم اسلام کو نقصان پہنچا رہا ہے اور لبنان، شام اور دیگر اسلامی ممالک کو بمباری کا نشانہ بنا رہا ہے۔ قالیباف نے کہا کہ امریکہ امتِ اسلامیہ کو دو دھڑوں میں بانٹ رہا ہے، ایک وہ جو حملے اور قبضے کے تابع ہوں گے اور دوسرا وہ جو ابراہیمی معاہدے کو قبول کر کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کریں گے، کسی بھی مسلم ملک کو یہ اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن کے ساتھ روابط قائم کرے۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی مسلط شدہ امن اور مسلط شدہ جنگ نے بعض ملکوں کو کمزور کیا، تو کوئی بھی ملک عالم اسلام میں مضبوط اور خودمختار نہیں رہا، اگر وہ ایران پر جنگ مسلط کرتے ہیں تو مقصد یہ ہے کہ ایران خودمختار اور طاقتور نہ رہے بلکہ ایک کمزور ایران چاہتے ہیں جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جیسا کہ ہم نے شام، لیبیا اور لبنان میں دیکھا، داعش جو ان ہی کی پیداوار تھی، اسی منصوبے کو آگے بڑھا رہا تھا تاکہ علاقائی ممالک کو تباہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک کو ایک ہو کر صہیونی دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہونا چاہیے، اس لئے اگر کسی مسلم ملک پر اس رجیم کا حملہ ہوا تو تمام مسلمان اسے روکنے کے لیے اکٹھے ہوں۔
اختتامی کلمات میں قالیباف نے کہا کہ ہمیں سیاسی، ثقافتی، تعلیمی، سائنسی، سماجی اور ماحولیاتی شعبوں میں عالم اسلام کے اندر روابط کو یکجا کرنا ہوگا، اگر ہم واقعی خودمختاری چاہتے ہیں اور دنیا میں ایک نیا نظم قائم کرنا چاہتے ہیں تو لازمی ہے کہ ہم متحد اور مربوط ہوں۔ ہمارا مقصد کسی کی زمین پر قبضہ کرنا نہیں، ہم سب کے لیے امن و سلامتی چاہتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس نشست کے آغاز میں پاکستانی مذہبی علما، اساتذہ یونیورسٹی اور فکری و سماجی شخصیات نے دونوں ملکوں کے ثقافتی قرابت، مسئلہ فلسطین اور امتِ مسلمہ کے اتحاد بالخصوص انقلابِ اسلامی کے خطّی اثرات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔