امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ جنوبی افریقہ کو جی-20 ممالک کے گروپ سے نکال دینا چاہیے، اور وہ آئندہ ماہ جوہانسبرگ میں ہونے والے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔

امریکن بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا ’جنوبی افریقہ کو اب جی کے کسی بھی گروپ میں نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت خراب ہے۔ میں وہاں نہیں جا رہا… میں اپنے ملک کی نمائندگی وہاں نہیں کروں گا۔‘

یہ بھی پڑھیے ڈونلڈ ٹرمپ اور جنوبی افریقہ کے صدر کے درمیان ملاقات میں گرماگرمی

واضح رہے کہ جی-20 سمٹ 22 اور 23 نومبر کو جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں منعقد ہونے والی ہے، تاہم ٹرمپ نے اس میں شرکت سے صاف انکار کر دیا۔

’زمین ضبطی اور نسل کشی‘ پر سخت مؤقف

ٹرمپ نے ایک بار پھر جنوبی افریقہ پر زمین ضبط کرنے اور بعض طبقات کے ساتھ ناروا سلوک کرنے کا الزام لگایا، اسے ’بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی‘ قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیے جنوبی افریقہ فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کی مذمت کیوں کر رہا ہے؟

انہوں نے کہا ’ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ جنوبی افریقہ جائیں جب زمین ضبطی اور نسل کشی وہاں کا سب سے بڑا موضوع ہیں؟‘

امریکی پالیسی میں تبدیلی: سفید فام افریقی باشندوں کی آبادکاری کا حکم

امریکی صدر نے رواں سال فروری میں ایگزیکٹو آرڈر 14204 جاری کیا تھا، جس کے تحت امریکی اداروں کو ہدایت دی گئی کہ وہ سفید فام جنوبی افریقی باشندوں  جنہیں ٹرمپ نے ’غیر منصفانہ نسلی امتیاز کے شکار افراد‘ قرار دیا، کی امریکا میں آبادکاری میں مدد کریں، اور جنوبی افریقہ کے لیے امریکی امداد میں کمی کریں۔

یہ بھی پڑھیے جنوبی افریقہ نے امریکا سے اپنے سفیر کی بے دخلی کو افسوس ناک قرار دے دیا

جنوبی افریقہ کا سخت ردِعمل

جنوبی افریقی حکومت نے ٹرمپ کے الزامات کو ’بنیادی طور پر غلط اور بے بنیاد‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں زمین کی اصلاحات شفاف قانونی عمل کے تحت ہو رہی ہیں اور ٹرمپ کے بیانات زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جنوبی افریقہ ڈونلڈ ٹرمپ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جنوبی افریقہ ڈونلڈ ٹرمپ جنوبی افریقہ کے

پڑھیں:

بھوک کا شکار امریکہ اور ٹرمپ انتظامیہ کی بے حسی

اسلام ٹائمز: امریکہ کے محکمہ زراعت نے بھی حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ میں سالانہ غذائی عدم تحفظ کی رپورٹ کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنا بند کر دے گا۔ یہ رپورٹ واحد ایسا امریکی ذریعہ تھا جو مستقل طور پر بھوک اور غذائی عدم تحفظ کی نگرانی کرتا تھا۔ روزنامہ "یو ایس نیوز" نے آخر میں لکھا ہے کہ یہ زمان بندی نہ صرف مسئلے کے متعلق بے حسی ظاہر کرتی ہے بلکہ اس کے پیمانے کے بارے بھی لاعلمی برتی گئی ہے۔ جب کوئی حکومت بھوکے شہریوں کی گنتی بھی روک دے، تو یہ کوئی پالیسی نہیں بلکہ غفلت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ریاست ہائے متحدہ کی وفاقی حکومت کے بند ہونے کو ایک ماہ گزر چکا ہے، لاکھوں امریکی، جن میں بچے بھی شامل ہیں، اگر یہ صورتحال برقرار رہی اور خوراکی امداد ادا نہ کی گئی تو ممکن ہے بھوکے رہ جائیں۔ خبر رساں ادارہ تسنیم کے بین الاقوامی شعبے نے روزنامہ یو ایس نیوز کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ تقریباً 42 ملین محتاج امریکی، جن میں 15 ملین سے زائد بچے شامل ہیں، اگر حکومت کی جانب سے خوراک کی امداد فراہم نہ کی گئی تو ممکن ہے یہ تمام لوگ بھوکے رہ جائیں۔

بچوں، بزرگوں اور مزدور خاندانوں کے لیے "اضافی غذائی معاونت کا پروگرام" (SNAP) کھو دینے کا مطلب تعطیلات کے موقع پر الماریوں اور فریجوں کا خالی ہوجانا ہے۔ یہ امدادی پروگرام پہلے فوڈ کوپن کے نام سے جانا جاتا تھا، ہر آٹھویں امریکی میں سے ایک اور لاکھوں مزدور گھرانوں کے لیے نجات کی ایک راہ نجات ہے۔ پچھلے سال جن بالغوں نے اضافی خوراکی امداد حاصل کی، ان میں تقریباً 70 فیصد فل ٹائم کام کرتے تھے، مگر پھر بھی خوراک خریدنے میں مشکل کا سامنا کرتے تھے۔ 

اس ہفتے 20 سے زائد ریاستوں نے وفاقی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور مطالبہ کیا کہ واشنگٹن نومبر کے جزوی فوائد کے لیے 6 بلین ڈالر کے ہنگامی بجٹ کو استعمال کرے۔ اگرچہ حکومت نے نومبر میں SNAP فوائد کی ادائیگی کے لیے دو وفاقی عدالتوں کے احکامات کی پیروی کی بھی، لیکن یہ ہنگامی فنڈز ایک مکمل ماہ کے SNAP فوائد کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ ریاستوں کے لئے وفاق کی فراہم فنڈنگ کے بغیر آسانی سے SNAP فوائد برقرار نہیں رکھ سکتیں۔

وفاقی حکومت SNAP کے تمام (یعنی 100 فیصد) فوائد ادا کرتی ہے اور پروگرام کے نفاذ کے لیے انتظامی اخراجات ریاستوں کے ساتھ بانٹتی ہے۔ یہ اہتمام ان امریکی گھرانوں کے لیے مناسب ہوتا ہے جو اپنی ماہانہ آمدنی پر گزارا کرتے ہیں، حتیٰ کہ ایک ہفتے کی تاخیر بھی خوراک کے پیک حذف ہونے کا سبب بن سکتی ہے، جس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، ممکنہ طور پر یہ فوائد بند ہو سکتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک بڑے اور خوبصورت بل سے متعلق نئی پابندیاں نافذ ہونے والی ہیں۔

یہ SNAP کے اہل ہونے کی شرائط کو محدود کریں گی۔ یہ تبدیلیاں تقریباً 4 ملین افراد کے ماہانہ غذائی فوائد کو ختم یا کم کر دیں گی۔ امریکہ پہلے اس صورتحال سے دوچار رہا ہے، مگر کبھی اس حد تک نہیں۔ ماضی کی بندشوں کے دوران وفاقی حکومت نے SNAP وصول کنندگان کو تحفظ فراہم کرنے کے طریقے نکالے اور تسلیم کیا کہ امریکیوں کو بھوکا رکھنا کبھی سیاسی سودے بازی کا مفید آلہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس بار، ٹرمپ حکومت نے کہا ہے کہ وہ احتیاطی فنڈز یا کسی اور دستیاب ذریعہ کا استعمال کر کے فوائد فراہم نہیں کرے گی۔

 امریکہ کے محکمہ زراعت نے بھی حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ میں سالانہ غذائی عدم تحفظ کی رپورٹ کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنا بند کر دے گا۔ یہ رپورٹ واحد ایسا امریکی ذریعہ تھا جو مستقل طور پر بھوک اور غذائی عدم تحفظ کی نگرانی کرتا تھا۔ روزنامہ "یو ایس نیوز" نے آخر میں لکھا ہے کہ یہ زمان بندی نہ صرف مسئلے کے متعلق بے حسی ظاہر کرتی ہے بلکہ اس کے پیمانے کے بارے بھی لاعلمی برتی گئی ہے۔ جب کوئی حکومت بھوکے شہریوں کی گنتی بھی روک دے، تو یہ کوئی پالیسی نہیں بلکہ غفلت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان دوسرا ون ڈے آج اقبال اسٹیڈیم فیصل آباد میں کھیلا جائے گا
  • پاک بھارت جنگ کے دوران آٹھ طیارے مار گرائے گئے، امریکی صدر ٹرمپ کا دعویٰ
  • 17 سال کے بعد فیصل آباد میں انٹرنیشنل کرکٹ لوٹ آئی ہے: محسن نقوی
  • پہلا ون ڈے، پاکستان کا جنوبی افریقہ کے خلاف ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ
  • اقبال اسٹیڈیم میں 17 سترہ سال بعد عالمی کرکٹ کی واپسی، پاکستان کا پہلے ون ڈے میں فیلڈنگ کا فیصلہ
  • ہاؤس فل ہونے کا امکان، پاکستان اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں 17 سال بعد آج اقبال اسٹیڈیم کی رونقیں بحال کرنے کے لیے تیار
  • 59 فیصد امریکی صدر ٹرمپ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں، تازہ ترین سروے
  • بھوک کا شکار امریکہ اور ٹرمپ انتظامیہ کی بے حسی
  • نتن یاہو کے ساتھ اسرائیل میں اچھا برتاؤ نہیں ہو رہا وہاں مداخلت کرونگا، ٹرمپ