7 ارب ڈالرز قرض پروگرام: آئی ایم ایف مشن پاکستان پہنچ گیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
اسلام آباد:۔ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف)کا جائزہ مشن 7ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے حوالے سے تکنیکی مذاکرات کے لیے پاکستان پہنچ گیا، جس کے بعد اگلی قسط جاری کی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف جائزہ مشن اسلام آباد کے بجائے کراچی پہنچا جہاں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تکنیکی مذاکرات شروع ہوں گے۔جائزہ مشن آج جمعرات کواسٹیٹ بینک میں تکنیکی مذاکرات شروع کرے گا۔
آئی ایم ایف دو ہفتے تک پاکستان کی معیشت کا جائزہ لے گا۔ یہ 7ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہے، جائزہ مشن کی رپورٹ کی بنیاد پر اگلی قسط جاری ہو گی۔ ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف وفد پاکستان کی معاشی صورتحال کا جائزہ لے گا، اسی طرح حالیہ سیلاب کا معیشت پر اور بجٹ اہداف پر اثرات کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف کا جائزہ
پڑھیں:
آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط، مذاکرات آج شروع ہوں گے
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے سابق ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کیخلاف توہین عدالت انٹرا کورٹ اپیل کیس کے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ آرٹیکل 5کی شق دو کے تحت ہر شہری پر آئین کی پابندی لازم ہے۔
یہ سپریم کورٹ کے ریگولر بینچ کے معزز ججز (جسٹس منصو ر علی شاہ کی سربراہی میں بینچ ) کی آئینی ذمے داری تھی کہ وہ آئین پاکستان پر عمل کرتے ہوئے عدالتی کارروائی کو مزید آگے بڑھانے سے اس وقت رک جاتے جب آئین کے آرٹیکل 191اے تین اور پانچ کا حوالہ دیا گیا ۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کا جج اسی عدالت کے جج کے سامنے جوابدہ نہیں،جب اعلی عدلیہ کا جج اپنے جج کیخلاف رٹ جاری نہیں کر سکتا تو توہین عدالت کی کارروائی کیسے کر سکتا ہے؟
سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ جج کیخلاف کارروائی صرف سپریم جوڈیشل کونسل کر سکتی ہے۔11 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس جمال مندوخیل نے تحریر کیا ہے۔
عدالت نے فیصلے میں قرار دیا سوال یہ ہے کہ آئینی اور ریگولر کمیٹی میں شامل ججز کیخلاف توہین عدالت کاروائی ممکن ہے یا نہیں،آرٹیکل 199 کے تحت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ ججز کو انتظامی امور میں استثنی حاصل ہے،ججز کو اندرونی اور بیرونی مداخلت سے تحفظ دیا گیا ہے۔
ایک ججز اپنی ہی عدالت کے کسی جج کیخلاف کسی قسم کی رٹ یا کاروائی نہیں کر سکتا،محمد اکرام چوہدری کیس کے فیصلے کی مطابق ججز کیخلاف کارروائی ممکن نہیں،عدلیہ جمہوری ریاست میں قانون کی حکمرانی کے محافظ کے طور پر بنیادی ستون ہے۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کا جج اسی عدالت کے جج کے سامنے جوابدہ نہیں،جب اعلی عدلیہ کا جج اپنے جج کیخلاف رٹ جاری نہیں کر سکتا تو توہین عدالت کی کارروائی کیسے کر سکتا ہے،سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ جج کیخلاف کارروائی صرف سپریم جوڈیشل کونسل کر سکتی ہے۔
آرٹیکل 209 جوڈیشل کونسل کے علاوہ کسی اور فورم پر جج کیخلاف کاروائی پر قدغن لگاتا ہے، توہین عدالت قانون بنانے کا پارلیمنٹ کا یہ مقصد نہیں تھا کہ ایک جج دوسرے جج کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ ججز اپنے ساتھی ججز کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کر سکتے اور نہ ہی سزا دے سکتے ہیں۔
اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان اپنے دائرے میں مساوی حیثیت اور اختیار رکھتے ہیں،اعلیٰ عدلیہ کا کوئی جج دوسرے پر برتر یا کم تر حیثیت نہیں رکھتا کہ وہ ہدایت جاری کرے یا سزا دے سکے، اگر سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کو اپنے ہی ساتھی جج کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کی اجازت دی جائے تو یہ ان کے درمیان باہمی احترام اور یکجہتی کو نقصان پہنچائے گا۔
اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم رکھنا عدالتوں کے ہموار کام کے لیے ضروری ہے، کسی جج کا اپنے ساتھی جج کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کرنا اندرونی اختلافات، شکایات اور کدورتیں پیدا کرے گا، اس سے انارکی پھیلے گی اور نظامِ عدل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گا۔
پاکستانی عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس عدالت نے ”جسٹس (ر) افتخار حسین چوہدری و دیگر“ کیس میں سپریم کورٹ اور مختلف ہائی کورٹس کے ان جج صاحبان کو توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کیے جنہوں نے 3 نومبر 2007 کے حکم امتناعی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پی سی او کا حلف اٹھایا۔
جولائی 2009 کے فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ غیرآئینی پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کے بعد وہ صاحبان جج ہی نہیں رہے تھے۔ یہ اصول طے شدہ ہے کہ جزوی طور پر سنے گئے مقدمات کو کسی انتظامی حکم کے ذریعے منتقل نہیں کیا جا سکتا تاہم اگر کسی مقدمے کی سماعت کے دوران آئین یا قانون میں ترمیم یا نئی قانون سازی کے ذریعے عدالت کا دائرہ اختیار ختم کر دیا جائے تو وہ عدالت مزید کارروائی کی مجاز نہیں رہتی۔
کسی جج یا بینچ کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ دفتر یا کسی کمیٹی کو یہ ہدایت دے کہ کوئی مخصوص مقدمہ اس کے سامنے مقرر کیا جائے جبکہ وہ مقدمہ اس کے دائرہ اختیار میں نہ ہو یا رول کے مطابق اس کے سامنے مقرر نہ کیا گیا ہو، جج صاحبان اپنے حلف، ججوں کے ضابطہ اخلاق، قانون اور قواعد کے پابند ہیں، اگر ہر جج اپنی مرضی کے مقدمے سننے لگے تو عدالت کا نظم و ضبط متاثر اور عوام کا اعتماد مجروح ہوگا۔