نیویارک، جنرل اسمبلی سے ایرانی صدر کے خطاب میں آیت اللہ خامنہ ای کے بیانیے کی گونج
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
مسعود پزشکیان نے نیو یارک میں رہبر انقلاب کے اس بیان کو دوبارہ پڑھا اور بیان کیا کہ کوئی عقل مند سیاستدان دھمکی کے ساتھ مذاکرات کی تصدیق نہیں کرتا، حقیقتاً امریکہ کو اسلامی جمہوریہ ایران کے باعزت اصولوں کی پاسداری کا واضح پیغام ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79 ویں اجلاس میں خطاب کے دوران امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے موضوع پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے گزشتہ شب کے بیانات کو دوبارہ دہراتے ہوئے دنیا کو ایک اہم پیغام دیا ہے۔ پزشکیان نے اپنے پاس ایک صفحے پر لکھے رہبر انقلاب اسلامی کے اس فرمان کو دوبارہ بیان کیا کہ امریکی فریق ایسے مذاکرات کرنا چاہتا ہے، جن کا نتیجہ ایران میں جوہری سرگرمیوں اور افزودگی کا خاتمہ ہو، یہ مذاکرات نہیں ہیں، یہ دھمکی اور زبردستی ہے، کوئی بھی باوقار قوم ایسے مذاکرات کو قبول نہیں کرتی، جو دھمکی کے ساتھ ہوں، اور کوئی بھی عقلمند سیاستدان اس کی تصدیق نہیں کرتا۔
یہ موقف ایسے حالات میں دہرایا گیا ہے جب حالیہ دنوں میں بعض اندرونی اور بیرونی سیاسی دھاروں نے ایرانی صدر کی امریکی صدر کے ساتھ "ممکنہ ملاقات" کے مسئلے کو ایک تشہیری مہم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ پزشکیان کی جانب سے ان بیانات کی دوبارہ بیان کئے جانے میں دو اہم پیغامات ہیں، پہلا امریکہ کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کے ریڈ لائنز اور اصولوں کی پاسداری، اور دوسرا رہبر انقلاب اسلامی کے اس اٹل اور عزم مندانہ موقف کی تائید و تکرار، جو انہوں نے گزشتہ شب کی تقریر میں بیان فرمایا۔ پزشکیان کے اس اقدام کو بہت سے لوگوں نے حکومت کی جانب سے "باعزت مذاکرات، دباؤ اور دھمکی کے تحت نہیں" کی حکمت عملی کے تسلسل میں ہم آہنگی کی علامت قرار دیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: رہبر انقلاب کے ساتھ
پڑھیں:
ایران میں اقبال ؒ شناسی
اسلام ٹائمز: ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایک بار فرمایا کہ ڈاکٹر علی شریعتی میں علامہ اقبال کی جھلک نظر آتی ہے، انکی فکر اقبال کی مانند ہے اور وہ بھی اقبال کی طرح صاحب فقر اور امت مسلمہ کے درد سے آشنا ہیں۔ ڈاکٹر شریعتی خود کہتے تھے کہ اقبال کی شخصیت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اسوہ حسنہ کی جھلک ملتی ہے۔ علامہ اقبال کا پی ایچ ڈی مقالہ بھی ایرانی تہذیب و فلسفے پر مبنی تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک لیکچر کے دوران انہوں نے کہا کہ یونان کی فتح سے روم کو جو نعمتیں ملیں، اسی طرح ایران کی فتح سے مسلمان مالا مال ہوئے۔ بلاشبہ علامہ اقبال کی شخصیت اور کلام پاکستان اور ایران کے درمیان ایک مضبوط ثقافتی اور فکری پل کی حیثیت رکھتا ہے، جو آنیوالے زمانوں میں بھی دونوں ممالک کے دلوں کو جوڑے رکھے گا۔ تحریر: توقیر کھرل
شاعر مشرق، حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ برصغیر کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں، جن کی فکر اور شاعری نے نہ صرف اُمت مسلمہ بلکہ پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔ انہوں نے اردو، فارسی اور انگریزی زبانوں میں طبع آزمائی کی اور ہر زبان کو اپنے بلند افکار کی بدولت اعلیٰ مقام عطا کیا۔ شاعری کے لیے انہوں نے خاص طور پر اردو اور فارسی کو منتخب کیا، جو ان کی فکری گہرائی اور روحانی وسعت کی غماز ہے۔ علامہ اقبال ایران میں ''اقبال لاہوری'' کے نام سے معروف ہیں اور ان کی شاعری کا تقریباً ساٹھ فیصد حصہ فارسی میں ہے، جو انہیں ایرانی ادبی اور فکری ورثے کا ناگزیر جزو بناتا ہے۔ اقبال نے کبھی ایران کا دورہ نہیں کیا، مگر ان کی فکر نے 1979ء کے اسلامی انقلاب کو گہرا اثر دیا اور آج بھی ایرانی دانشوروں، طلباء اور عوام میں مقبول ہیں۔
انہوں نے فارسی کو اپنے فلسفیانہ اور روحانی افکار کے اظہار کے لیے منتخب کیا، کیونکہ یہ زبان ان کے خیالات کی گہرائی کو بہتر طور پر بیان کرسکتی تھی۔ ایرانی دانشور اقبال کو مولانا رومی کے بعد فارسی کا سب سے عظیم شاعر قرار دیتے ہیں اور ان کی شاعری میں ایران کو اسلامی اتحاد کا مرکز گردانتے ہیں، جیسا کہ اقبال نے فرمایا: ''اگر تہران مشرق کا جنیوا بن جائے تو دنیا کی حالت بدل جائے گی۔'' ایران میں اقبال کی شاعری کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے، خاص طور پر ''زبور عجم'' جو انقلاب سے قبل نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کا ذریعہ بنی۔ ایک زمانے میں ایران بھر میں کوئی ''خیابان اقبال'' موجود نہ تھا اور اقبال کی نظم ''جوانان عجم'' کی آواز پر لبیک کہنے والے کم تھے، مگر اقبال خود آگاہ تھے کہ ان کی صدا ایک دن ضرور گونجے گی۔
آج ایران کا کوئی بڑا شہر ایسا نہیں، جہاں اقبال کے نام سے منسوب شاہراہ نہ ہو۔ مشہد میں وزارت تعلیم کے تحت چلنے والا کالج اقبال کے نام پر ہے، جبکہ تہران کی شاہراہ ولی عصر پر ''اقبال لاہوری سٹریٹ'' واقع ہے، جہاں استعمال شدہ کتابوں کی دکانوں میں اقبال کی کتابیں آسانی سے دستیاب ہیں۔ تہران یونیورسٹی اور فردوسی یونیورسٹی مشہد میں اقبال پر تحقیقاتی مقالہ جات لکھے جاتے ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان علمی تعاون کی روشن مثال ہیں۔ پاکستان اور ایران نہ صرف مذہبی اور ثقافتی بنیادوں پر جڑے ہوئے ہیں، بلکہ شاعر مشرق علامہ اقبال سے گہری عقیدت بھی ان کا مشترکہ ورثہ ہے۔ علامہ اقبال دونوں اسلامی جمہوریاؤں کے درمیان تاریخی اور فکری روابط کا ایک اہم باب ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے علامہ اقبال پر ایک کتاب بھی تحریر کی ہے اور انہیں ''مرشد'' کا درجہ دیا ہے، وہ اقبال کو ''مشرق کا بلند ستارہ'' قرار دیتے ہیں، جو ایرانی عوام میں ان کی قدر و منزلت کی عکاسی کرتا ہے۔
علامہ اقبال کو ایران اور اس کی ثقافت سے گہرا لگاؤ تھا، انہوں نے اپنی شاعری میں ہر خوبصورت چیز کو ایران سے تشبیہ دی اور کشمیر کو ''ایران صغیر'' کہہ کر اس کی خوبصورتی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ تہران میں منعقد ہونے والی پہلی بین الاقوامی اقبال کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں آیت اللہ خامنہ ای نے اقبال کی شخصیت اور شاعری پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اقبال کا فارسی کلام بھی میرے نزدیک شعری معجزات میں سے ہے۔ ہمارے ادب کی تاریخ میں فارسی میں شعر کہنے والے غیر ایرانی بہت زیادہ ہیں، لیکن کسی کی بھی نشان دہی نہیں کی جاسکتی، جو فارسی میں شعر کہنے میں اقبال کی خصوصیات کا حامل ہو۔ اقبال کی مادری زبان فارسی نہ ہونے کے باوجود انہوں نے اعلیٰ پائے کی فارسی شاعری کی، جو نہ صرف عوامی زبان سے بلند تھی بلکہ ادبی حلقوں کی زبان بھی تھی۔ ایرانی عوام نے اقبال کی شاعری کو بے حد پسند کیا اور اس کی پذیرائی کی۔
ایران میں اقبال شناسی کا سلسلہ دونوں برادر اسلامی ممالک پاکستان اور ایران کے درمیان ثقافتی اور فکری رابطوں کو مزید مستحکم کر رہا ہے۔ اس روایت کی بنیاد جامعہ عثمانیہ کے شعبہ ایرانیات کے استاد سید محمد علی داعی الاسلام نے رکھی، جنہوں نے لیکچرز اور مقالات پر مبنی کتاب ''اقبال و شعر فارسی'' تحریر کی۔ اسی طرح سید محیط طباطبائی نے 1945ء میں اپنے مجلے کا ایک خصوصی اقبال نمبر شائع کیا، جو اقبال کی فکر کو ایرانی حلقوں میں متعارف کرانے کا اہم ذریعہ بنا۔ مرحوم پروفیسر سعید نفیسی نے فارسی میں اقبال شناسی کی بنیادوں کو مزید پختہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی، جبکہ ڈاکٹر پرویز ناتل خانلری نے مجلہ سخن میں ایک گراں قدر مقالہ لکھ کر اس روایت کو وسعت بخشی۔ 1951ء میں ایران کے مجلہ ''دانش'' نے ''اقبال نامہ'' کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی، جس میں 1950ء سے 1951ء کے دوران یوم اقبال کے موقع پر پڑھے گئے مقالات اور نظمیں شامل تھیں، جو اقبال کی شاعری اور فلسفے کی ایرانی معاشرے میں گونج کی عکاس تھیں۔
1970ء میں ایران کے مذہبی ادارے ''حسینہ ارشاد'' نے اقبال کی یاد میں ایک یادگار کانفرنس کا اہتمام کیا، جہاں تقاریر، مضامین اور شاعری کے ذریعے اقبال کے افکار کو اجاگر کیا گیا۔ 1973ء میں تہران یونیورسٹی کے سابق چانسلر ڈاکٹر فضل اللہ نے ''محمد اقبال'' کے عنوان سے ایک مختصر مگر مدلل مقالہ تحریر کیا، جو محض پچاس صفحات پر مشتمل ہونے کے باوجود اقبال شناسی کی راہ میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ 1975ء میں فخرالدین حجازی نے تہران سے ''سرود اقبال'' نامی کتاب شائع کی، جو اقبال کی شاعری کی موسیقی اور لسانی خوبصورتی کو نمایاں کرتی ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی اقبال شناسی کے میدان میں ایک تابناک ستارہ ہیں، جو اقبال کے جلسوں اور کانفرنسوں میں پیش پیش رہتے اور ان کے خیالات کی ترویج میں دیانتداری کا مظاہرہ کرتے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایک بار فرمایا کہ ڈاکٹر علی شریعتی میں علامہ اقبال کی جھلک نظر آتی ہے، ان کی فکر اقبال کی مانند ہے اور وہ بھی اقبال کی طرح صاحب فقر اور امت مسلمہ کے درد سے آشنا ہیں۔ ڈاکٹر شریعتی خود کہتے تھے کہ اقبال کی شخصیت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اسوہ حسنہ کی جھلک ملتی ہے۔ علامہ اقبال کا پی ایچ ڈی مقالہ بھی ایرانی تہذیب و فلسفے پر مبنی تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک لیکچر کے دوران انہوں نے کہا کہ یونان کی فتح سے روم کو جو نعمتیں ملیں، اسی طرح ایران کی فتح سے مسلمان مالا مال ہوئے۔ بلاشبہ علامہ اقبال کی شخصیت اور کلام پاکستان اور ایران کے درمیان ایک مضبوط ثقافتی اور فکری پل کی حیثیت رکھتا ہے، جو آنے والے زمانوں میں بھی دونوں ممالک کے دلوں کو جوڑے رکھے گا۔
اقبال نے اپنی مادری زبان پنجابی کے بجائے اردو اور فارسی کو خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا، ان کی شاعری کے تقریباً بارہ ہزار اشعار میں سے سات ہزار فارسی میں ہیں، جو ان کے دس شعری مجموعوں میں سے چھ پر مشتمل ہیں۔ یہ انتخاب ان کی ایرانی تہذیب و فلسفہ سے گہری وابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔ اقبال کی شاعری اور فلسفے نے ایرانی معاشرے پر گہری چھاپ چھوڑی، جہاں متعدد سڑکیں، لائبریریاں، جامعات اور ادارے ان کے نام پر ہیں، جو ان کے نظریات کی قدر کے غماز ہیں۔ یہ سب پاکستان اور ایران کے درمیان برادرانہ روابط کو مزید مستحکم کرنے کا ذریعہ ہیں، جو قومی اتحاد اور اسلامی بھائی چارے کی روشن مثالیں پیش کرتے ہیں۔