UrduPoint:
2025-11-10@01:55:46 GMT

پاکستان خطے کا سب سے غریب ملک قرار

اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT

پاکستان خطے کا سب سے غریب ملک قرار

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 25 ستمبر2025ء) پاکستان خطے کا سب سے غریب ملک قرار، 3 سالوں میں غربت میں تشویش ناک اضافہ، 45 فیصد پاکستانی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان خطے میں غربت کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک بن گیا جہاں 45 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں غربت کی اوسط شرح 27.

7 فیصد ہے جبکہ بھارت میں یہ شرح 23.9 فیصد اور بنگلا دیش میں 24.4 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔

رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں غربت کی بلند سطح کے ساتھ ساتھ 16.5 فیصد آبادی یعنی تقریباً 4 کروڑ 12 لاکھ افراد روزانہ کی بنیاد پر 900 روپے سے بھی کم کماتے ہیں۔ عالمی بینک نے خبردار کیا ہے کہ آبادی کو کنٹرول کیے بغیر غربت پر قابو پانا مشکل ہو گا، پاکستان میں آبادی کی سالانہ شرحِ نمو 2.6 فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ ایک عورت اوسطاً 4 بچے پیدا کر رہی ہے جو خطے میں سب سے زیادہ ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق صوبہ بلوچستان میں غربت کی شرح سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی جو مالی سال 2019 تک 42 فیصد تک پہنچ گئی تھی، خیبرپختونخوا میں یہ شرح 30 فیصد، سندھ میں 25 فیصد سے کم اور پنجاب میں 15 فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ عالمی بینک نے موسمیاتی تبدیلیوں کو بھی تشویشناک قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ 2050 تک پاکستان کی جی ڈی پی کا 8 فیصد حصہ متاثر ہو سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 2024 کے دوران 7 لاکھ 27 ہزار سے زائد پاکستانی روزگار کے حصول کے لیے ملک چھوڑ گئے جبکہ تعلیم کی کمی کے باعث پاکستان کے بچے خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بنیادی مہارتوں میں بھی پیچھے ہیں اور سادہ ٹیکسٹ پیغامات تک پڑھنے سے قاصر ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غربت، بے روزگاری اور تعلیم کی کمی جیسے مسائل اگر فوری طور پر حل نہ کیے گئے تو پاکستان کو مستقبل میں مزید معاشی اور سماجی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے مطابق

پڑھیں:

ترسیلات زر بڑھنے کے ساتھ تجارتی خسارے میں بھی اضافہ،  ماہرین کا انتباہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: پاکستانی معیشت کے لیے ایک جانب بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر نے وقتی سہارا فراہم کیا ہے، تو دوسری طرف بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ ماہرین کے نزدیک خطرے کی نئی گھنٹی بجا رہا ہے۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2025 کے دوران بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے وطن عزیز میں 3.42 ارب ڈالرز کی ترسیلات بھیجیں، جو گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں تقریباً 11.9 فیصد زیادہ ہیں۔ یہ اضافہ وقتی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری کا اشارہ ضرور دیتا ہے، لیکن بڑھتی ہوئی درآمدات اور سکڑتی برآمدات نے حکومت کے لیے ایک نیا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے عبوری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2025-26 کے ابتدائی چار ماہ (جولائی تا اکتوبر) میں ترسیلات زر 12.96 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 9.3 فیصد زیادہ ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب بدستور سب سے بڑا ذریعہ ہے جہاں سے اکتوبر میں 820.9 ملین ڈالر موصول ہوئے، جو ماہانہ بنیاد پر 9.3 فیصد اور سالانہ بنیاد پر 7.1 فیصد زیادہ ہیں۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات سے 697.7 ملین ڈالر (15 فیصد اضافہ)، برطانیہ سے 487.7 ملین ڈالر (4.7 فیصد اضافہ)  جب کہ امریکا سے ترسیلات 290 ملین ڈالر رہیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 8.8 فیصد کم ہیں۔

اسی طرح یورپی یونین کے ممالک سے مجموعی طور پر 457.4 ملین ڈالر موصول ہوئے، جو 19.7 فیصد سالانہ اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔

دوسری سمت صورتِ حال تشویشناک ہے۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق مالی سال کے ابتدائی چار ماہ میں تجارتی خسارہ 12.6 ارب ڈالر تک جا پہنچا، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ ہے۔ اس عرصے میں درآمدات 15.1 فیصد اضافے سے 23 ارب ڈالر تک جاپہنچیں جب کہ برآمدات 4 فیصد کمی کے ساتھ 10.5 ارب ڈالر پر سکڑ گئیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف اکتوبر کے مہینے میں درآمدات 6.1 ارب ڈالر تک پہنچیں جو مارچ 2022 کے بعد سب سے زیادہ سطح ہے جب کہ برآمدات 2.8 ارب ڈالر رہیں، یوں ماہانہ تجارتی خسارہ 3.2 ارب ڈالر تک جا پہنچا — جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 56 فیصد زیادہ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ترسیلات میں اضافہ وقتی ریلیف ضرور ہے، لیکن مستقل حل برآمدات میں اضافے اور درآمدی انحصار میں کمی سے ہی ممکن ہے۔ اگر حکومت نے فوری طور پر برآمدی پالیسی میں اصلاحات نہ کیں، تو موجودہ درآمدی دباؤ ایک بار پھر بیرونی کھاتوں پر شدید بوجھ ڈال سکتا ہے۔

معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو اب درآمدی معیشت سے نکل کر پیداواری معیشت کی طرف جانا ہوگا تاکہ پائیدار اقتصادی استحکام حاصل کیا جا سکے۔

ذرائع کے مطابق وزیرِاعظم نے بڑھتے خسارے سے نمٹنے کے لیے توانائی، ٹیکس اصلاحات اور برآمدی پالیسیوں پر مشتمل آٹھ ورکنگ گروپس قائم کر دیے ہیں، جو رواں ماہ کے وسط تک اپنی سفارشات پیش کریں گے، تاہم معیشت پر دباؤ کم کرنے کے لیے عملی اقدامات، صنعتی شعبے کی بحالی اور برآمدکنندگان کو سہولتیں دینے کے بغیر کوئی پائیدار بہتری ممکن نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • غربت میں کمی اور حقیقی غربت
  • اٹلی: جرمن کوہ پیمائوں کی لاشیں نکال لی گئیں
  • سوڈان کا ماتم: مسلم آبادی پر تباہی، بیرونی مفادات اور مستقبل کا ممکنہ منظرنامہ
  • آٹو انڈسٹری نئی پالیسی کی جنگ کی تیاری میں مصروف
  • افغان طالبان رجیم کی جابرانہ پالیسیوں اور بدانتظامی سے افغانستان شدید گراوٹ سے دو چار
  • بھارت: امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق میں غیرمعمولی اضافہ
  • ملک میں فی تولہ سونا 600 روپے سستا ہوگیا
  • رواں سال کی پہلی سہہ ماہی میں 2119 ارب سے زائد کا بجٹ سرپلس رہا، رپورٹ
  • ترسیلات زر بڑھنے کے ساتھ تجارتی خسارے میں بھی اضافہ،  ماہرین کا انتباہ
  • افغانستان بدستور افیون پیداوار کا بڑا مرکز، 2025 میں 20 فیصد کمی رپورٹ