UrduPoint:
2025-09-25@18:23:42 GMT

موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے نئے قومی منصوبوں کا اعلان

اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT

موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے نئے قومی منصوبوں کا اعلان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں ایک اہم اجلاس میں سو سے زیادہ ممالک کے رہنماؤں نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے نئے قومی منصوبے اور وعدے پیش کیے جن میں صاف توانائی کی جانب تیزی سے منتقلی اور درخت لگانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

یہ سربراہی اجلاس اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش اور برازیل کے صدر لولا ڈا سلوا کی قیادت میں منعقد ہوا۔

اس کے آغاز پر ممتاز موسمیاتی سائنس دان جان راکسٹروم اور کیتھرین ہیوئے نے پیرس معاہدے کے حوالے سے اب تک کی جانے والی عالمی کوششوں کا ایک کڑا اور حقیقت پسندانہ جائزہ پیش کیا۔ Tweet URL

راکسٹروم نے کہا کہ دس سال گزر جانے کے باوجودگرین ہاؤس گیسوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور گزشتہ سال پہلی بار عالمی حدت میں سالانہ اضافہ 1.

5 ڈگری سیلسیس سے تجاوز کر گیا تھا۔

(جاری ہے)

یہ تشویش کی بات ہے اور اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ عالمی حدت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی رفتار کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

تاہم، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اب بھی 1.5 ڈگری کا ہدف حاصل کرنا ممکن ہے لیکن اس کے لیے موثر اقدامات کرنا ہون گے جن میں معدنی ایندھن سے ماحول دوست توانائی کی طرف منتقلی اور غذائی نظام میں ایسی تبدیلیاں شامل ہیں جن سے خوراک ضیاع میں کمی لائی جا سکے۔

پروفیسر ہیوئے نے کہا کہ کوئی اکیلا اس تباہی کو روک نہیں سکتا۔ لیکن متحدہ حیثیت میں، مضبوط اہداف مقرر کر کے، تیز تر اقدامات کے ذریعے اور مزید ٹھوس وعدوں کے ساتھ یہ سب کچھ ممکن ہے۔

پیرس معاہدے کی افادیت

پیرس معاہدے کے تحت حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے ہاں موسمیاتی اقدامات سے متعلق ایسے منصوبے اقوام متحدہ کو جمع کرائیں جن میں آئندہ دہائی کے لیے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی خاطر جرات مندانہ اقدامات کا خاکہ پیش کیا جائے۔

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اس معاہدے نے واضح فرق پیدا کیا ہے کیونکہ اگر موجودہ منصوبے مکمل طور پر نافذ کیے جائیں تو عالمی حدت میں اضافہ گزشتہ اندازوں کے مطابق چار ڈگری سیلسیس سے کم ہو کر تین ڈگری سے بھی نیچے آ جائے گا۔ اب 2035 کے لیے ایسے نئے منصوبوں کی ضرورت ہے جو نہ صرف زیادہ جامع ہوں بلکہ بہت تیزی سے عمل میں لائے جائیں۔

انہوں نے زور دیا کہ نومبر میں اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی کانفرنس ایک ایسا معتبر اور قابلِ اعتماد عالمی منصوبہ دے کر اختتام پذیر ہونی چاہیے جو دنیا کو موسمیاتی ہدف کی جانب درست راستے پر ڈال سکے۔

انہوں نے پانچ اہم شعبوں کی نشان دہی بھی کی جن میں فوری اقدامات ضروری ہیں۔ ان میں صاف توانائی کی طرف منتقلی کو تیز کرنا، میتھین گیس کے اخراج میں بڑی حد تک کمی لانا، جنگلات کا تحفظ کرنا، بھاری صنعتوں سے کاربن کے اخراج کو محدود کرنا اور ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی انصاف کو یقینی بنانا شامل ہیں۔ UN Photo/Manuel Elías موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی تیاری

اس موقع پر برازیل کے صدر لولا ڈا سلوا نے یہ سوال اٹھایا کہ آیا دنیا عالمی موسمیاتی کانفرنس میں اپنا ہوم ورک مکمل کر کے پہنچے گی؟

انہوں نے کہا کہ ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی ایک ایسی پیداواری اور تکنیکی تبدیلی کا دروازہ کھولتی ہے جو صنعتی انقلاب کے برابر ہے اور ہر ملک کے موسمیاتی منصوبے اس کے لیے تبدیلی کے سفر میں رہنمائی کا کام دیں گے۔

صدر لولا نے مزید کہا کہ برازیل نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ تمام گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو 59 سے 67 فیصد تک کم کر دے گا اور اس میں معیشت کے تمام شعبے شامل ہوں گے۔ علاوہ ازیں، ان کا ملک 2030 تک جنگلات کی کٹائی کے خاتمے کی کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔

چین اور یورپ کا عزم

چین کے صدر شی جن پنگ نے ایک ویڈیو پیغام میں اعلان کیا کہ ان کا ملک 2035 تک اپنی پوری معیشت میں خالص گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو بلند ترین سطح سے 7 تا 10 فیصد تک کم کرے گا۔

توانائی کی مجموعی کھپت میں غیرمعدنی ایندھن کا حصہ 30 فیصد سے زیادہ بڑھایا جائے گا اور ہوائی و شمسی توانائی کی پیداواری صلاحیت میں 2020 کی سطح کے مقابلے میں چھ گنا اضافہ کیا جائے گا۔

یورپی کمیشن کی صدر ارسلا فان ڈیر لیئن نے بتایا کہ یورپی ممالک عالمی سطح پر شراکت داری کو مزید مضبوط کر رہے ہیں اور موسمیاتی مالی امداد فراہم کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے خطے کی حیثیت سے اپنا کردار برقرار رکھیں گے۔

یونین نے دنیا بھر میں ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی کے لیے 300 ارب یورو تک کی مالی معاونت فراہم کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے۔ UN Photo/Manuel Elías امید اور آزمائش کے درمیان

اس موقع پر بیلیز کے وزیراعظم جانی بریسینو نے کہا کہ 1.5 ڈگری سیلسیئس کا ہدف ان کے ملک کے لیے صرف ایک خواہش ہی نہیں بلکہ امید اور آزمائش کے درمیان ایک حد بھی ہے۔

ایسی حد جہاں یا تو لوگ خوشحال ہو سکتے ہیں یا انہیں جبری نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، مشترکہ خوشحالی ممکن ہو سکتی ہے یا ناقابل تلافی نقصان جھیلنا پڑے گا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے ملک نے 2035 تک قابلِ تجدید توانائی سے 80 فیصد ملکی ضروریات پوری کرنے، 25,000 ہیکٹر پر خراب شدہ جنگلات کی بحالی اور آئندہ تین سال میں دس لاکھ درخت لگانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔

وزیرِاعظم نے واضح کیا کہ بلند عزائم صرف اسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جب چھوٹے اور موسمیاتی لحاظ سے کمزور ممالک کو مکمل معاونت فراہم کی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مالی وسائل کو بڑھایا جائے، ٹیکنالوجی آسانی سے دستیاب ہو اور حقیقی شراکت داریاں قائم کی جائیں۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ ہاؤس گیسوں توانائی کی نے کہا کہ کے اخراج انہوں نے کی جانب ہے اور کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کی فارما صنعت کو عالمی پہچان ملنے لگی، ہیلیون کا 12 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان

پاکستان کی فارما انڈسٹری عالمی سطح پر شناخت حاصل کر رہی ہے، جس کی بڑی وجہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کی معاونت ہے۔

اس حوالے سے عالمی سطح پر صارفین کی صحت کی دیکھ بھال میں نمایاں کمپنی ”ہیلیون“ (Haleon) نے پاکستان میں 12 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ کمپنی کا مقصد ملک میں اپنی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا اور پیناڈو کی تیاری کو وسیع پیمانے پر بڑھانا ہے تاکہ بڑھتی ہوئی ملکی طلب کو پورا کیا جا سکے۔

بزنس ریکارڈر کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فارماسیوٹیکل برآمدات میں بھی حالیہ برسوں کے دوران اضافہ دیکھا گیا ہے اور موجودہ مالی سال میں یہ برآمدات 457 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہیں، جس میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی معاونت کو اہم قرار دیا گیا ہے۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق تھراپیوٹک مصنوعات، جن میں فارما، سرجیکل مصنوعات، ڈائیٹری سپلیمنٹس اور میڈیکل ڈیوائسز شامل ہیں، کی مجموعی برآمدات ریکارڈ 909 ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ پاکستان فارما مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے ذرائع کے مطابق فارما مصنوعات کی برآمدات میں مالی سال کے دوران 34 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس میں حکومت کی مناسب قیمتوں کی پالیسی کو کلیدی عنصر قرار دیا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ قیمتوں کی ڈی ریگولیشن کی پالیسی بین الاقوامی معیار کے مطابق ہے، جس کے نتیجے میں سرمایہ کاری میں اضافہ اور پیداوار میں بہتری آئی ہے۔

مزید برآں، افغانستان، فلپائن، سری لنکا، ازبکستان اور عراق پاکستانی ادویات کے بڑے خریدار ہیں، جبکہ کینیا، ویتنام، میانمار اور تھائی لینڈ میں بھی پاکستانی فارما مصنوعات کی برآمدات کے لیے قابلِ ذکر مواقع موجود ہیں۔

پی پی ایم اے کے ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ 2030 تک پاکستانی فارما مصنوعات کی برآمدات عالمی مارکیٹ میں 1.5 بلین ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  •   عالمی برادری موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اپنے وعدے پورے کرے،وزیراعظم شہباز شریف
  • پاکستان کاربن گیسسز کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے باوجود موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف
  • قرض، قرض اورمزید قرض، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کا حل نہیں: شہبازشریف
  • آئی ایم ایف جائزے میں سیلاب کے اثرات کو بھی شامل کرے، قرض مسئلہ کا حل نہیں، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید ترین متاثر: شہباز شریف
  • عالمی موسمیاتی ادارہ اور سیلاب سے بچاؤ
  • جنوبی افریقہ کیخلاف ٹیسٹ سیریز کیلیے قومی اسکواڈ پر مشاورت مکمل، اعلان جلد متوقع
  • پاکستان کی فارما صنعت کو عالمی پہچان ملنے لگی، ہیلیون کا 12 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان
  • کاپ 30 سے پہلے سیکرٹری جنرل کی موسمیاتی کانفرنس کے بارے میں جانیے
  • پاکستان اور چین کی دوستی فولاد سے بھی زیادہ مضبوط ہے: گورنر سندھ