یوکرینی صدر نے جنگ بندی پر عہدہ چھوڑنے کی پیشکش کردی
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کیف (انٹرنیشنل ڈیسک) یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے روس سے جنگ کے خاتمے کے بعد عہدہ چھوڑنے کی پیشکش کردی۔ یوکرینی صدر نے کہا کہ روس سے جنگ کے خاتمے کے بعدعہدہ چھوڑنے کو تیار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میرا مقصد جنگ ختم کرنا ہے، نہ کہ صدارت کے عہدے پر براجمان رہنا ہے۔ واضح رہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان سال 2022 ء سے جاری جنگ میں اب تک دونوں جانب سے لاکھوں فوجی اور عام شہری ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں جب کہ جنگ بندی کی متعدد کوششیں کی گئیں جو اب تک ناکام رہیں۔ یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی نے اعلان کیا کہ یوکرین اور شام نے سرکاری طور پر سفارتی تعلقات دوبارہ قائم کر لیے ہیں۔ یہ اعلان دونوں صدور کی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران ملاقات کے بعد کیا گیا۔زیلنسکی نے اپنے اکاؤنٹ پر جاری بیان میں کہاکہ یوکرین اور شام نے آج سرکاری طور پر سفارتی تعلقات کی بحالی کے سلسلے میں ایک مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کیے ہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ ہم اس اہم اقدام کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہم شام کے عوام کی استحکام کی راہ میں حمایت کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ شام کے صدر احمد الشرع کے ساتھ مذاکرات کے دوران ہم نے تعاون کو فروغ دینے والے امید افزا شعبوں، دونوں ممالک کو درپیش سیکورٹی خطرات اور ان سے نمٹنے کی اہمیت پر تفصیل سے بات کی۔صدر یوکرین نے اپنی پوسٹ کے آخر میں کہاکہ ہم نے اپنے تعلقات کی بنیاد باہمی احترام اور اعتماد پر رکھنے پر متفق ہونے کا اعلان کیا ہے۔یوکرین نے 2022 ء میں شام کے ساتھ اس وقت تعلقات ختم کر دیے تھے، جب روسی حمایت یافتہ سابق صدر بشار الاسد کی حکومت نے روس کے زیرِ قبضہ یوکرینی علاقوں کو خودمختار علاقے تسلیم کیا تھا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: یوکرینی صدر
پڑھیں:
صدر ٹرمپ سے نہیں ڈرتا، زیلنسکی
فنانشل ٹائمز کی رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ٹرمپ نے ملاقات کے دوران یوکرین کے وفد کی طرف جنگی دستاویزات پھینکیں اور جنگ کے خاتمے کے لئے پیوٹن کی زیادہ سے زیادہ شرائط کو قبول کرنے پر اصرار کیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے گارڈین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ سے خوفزدہ نہیں ہیں اور ان کے تعلقات نارمل اور تعمیری ہیں۔ انہوں نے وائٹ ہاؤس کے اپنے آخری دورے کے دوران کشیدگی کی افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم امریکہ کے دوست ہیں، تو ہمیں کیوں ڈرنا چاہیے؟۔ کیف میں برطانوی اخبار دی گارڈین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ زیلنسکی نے میڈیا کی ان رپورٹوں کو بھی مسترد کردیا کہ اکتوبر میں وائٹ ہاؤس میں ان کی آخری ملاقات کشیدگی کا شکار تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ الزامات درست نہیں ہیں۔
زیلنسکی نے واضح طور پر کہا کہ نہیں... ہم امریکہ کے دشمن نہیں ہیں، ہم دوست ہیں، تو پھر ہمیں کیوں ڈرنا چاہئے؟ انہوں نے کہا کہ دنیا میں ہر کوئی ٹرمپ سے خوفزدہ ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس خوف کا یوکرین اور امریکہ کے مابین دوستانہ تعلقات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ زیلنسکی نے امریکی عوام کے انتخاب کے احترام کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کو امریکی عوام نے منتخب کیا تھا، ہمیں امریکی عوام کے انتخاب کا احترام کرنا چاہیے۔ زیلنسکی نے اکتوبر میں وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کے بارے میں افواہوں کی تردید کی کہ وہ ٹوماہاک کروز میزائلوں پر بات چیت کے لئے واشنگٹن گئے تھے۔
فنانشل ٹائمز کی رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ٹرمپ نے ملاقات کے دوران یوکرین کے وفد کی طرف جنگی دستاویزات پھینکیں اور جنگ کے خاتمے کے لئے پیوٹن کی زیادہ سے زیادہ شرائط کو قبول کرنے پر اصرار کیا۔ زیلنسکی نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے کچھ نہیں پھینکا، مجھے یقین ہے کہ ملاقات کے دوران یوکرین کے وفد نے ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو تین ویڈیو شوز پیش کیے، جن میں فوجی اقدامات، معاشی پابندیاں اور روس کو کمزور کرنے اور ولادیمیر پیوٹن کو مذاکرات پر مجبور کرنے کے اقدامات شامل تھے۔ واضح رہے کہ زیلنسکی بار بار بجلی کی بندش کی وجہ سے منتقل ہونے پر مجبور ہوجاتے تھے۔
یاد رہے کہ روسی فوج نے حالیہ دنوں میں کیف میں شہر کے بجلی کے بنیادی ڈھانچے پر کئی بار بمباری کی ہے۔ یہ انٹرویو ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب یوکرین اور امریکہ کے مابین تعلقات کو ٹرمپ کے دور میں چیلنجوں کا سامنا ہے۔ پچھلی ملاقاتیں بشمول فروری 2025 میں وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات، عوامی تناؤ سے بھری ہوئی ہیں، ٹرمپ نے زیلنسکی پر تیسری جنگ عظیم کا خطرہ مول لینے کا الزام عائد کیا تھا۔ تاہم، زیلنسکی نے روسی سامراج کا مقابلہ کرنے میں امریکہ کو یوکرین کا کلیدی شراکت دار قرار دیتے ہوئے اسٹریٹجک تعاون کے امکانات پر زور دیا۔