کراچی۔۔۔ ایک بدقسمت شہر
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
کراچی والے بارش سے ڈرتے ہیں،کیونکہ ایک دن کی بارش سے شہر تاریکی میں ڈوب جاتا ہے، حالیہ بارشوں نے جہاں جنوبی پنجاب کو نشانہ بنایا،گجرات کو ڈبویا، وہیں کراچی کو تباہ کر دیا، چند علاقوں کو چھوڑ کر سارا شہر پانی میں ڈوبا ہوا ہے، سڑکیں زیر آب آگئی ہیں، لوگوں کے گھروں میں پانی بھر گیا ہے۔
بعض علاقوں میں یوں ہوا کہ سیلابی پانی سے بچاؤ کی خاطر اپنا سامان اپنے رشتے داروں کے ہاں منتقل کر دیا، لیکن ان کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ جہاں انھوں نے سامان رکھا تھا، وہاں بھی سیلابی ریلا آ گیا، لوگوں نے بڑی مشکل سے اپنی جانیں بچائیں، وزیر اعلیٰ سندھ اور صوبائی وزیر سیلاب آنے سے پہلے بڑے بڑے دعوے کر رہے تھے کہ انھوں نے بارش سے نمٹنے کی تیاری کر لی ہے اور یہ کہ انتظامی صورت حال ان کی گرفت میں ہے لیکن بارش ہوتے ہی سارا کچا چٹھا سامنے آ گیا، تمام سڑکیں زیر آب اور باقی رہ گئی ہیں، ان میں شگاف پڑھ گئے ہیں، سڑکیں دھنس گئی ہیں اور گڑھوں میں پانی بھر گیا ہے۔
کراچی وہ بدقسمت شہر ہے جو میٹروپولیٹن سٹی کہلاتا ہے، یہاں سے 70 فی صد ٹیکس حکومت کو جاتا ہے، چونکہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو کبھی ووٹ نہیں ملتے، اس لیے پی پی کبھی کراچی پر کراچی کا ٹیکس خرچ نہیں کرتی، تنگ دلی کی یہ مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ گجرات شہر بھی سیلابی پانی میں ڈوب گیا لیکن مسلم لیگی حکمرانوں نے اس پر توجہ نہیں دی کیونکہ گجرات سے ووٹ نہیں ملے تھے، لیکن جو حال کراچی کا ہے اس کے ساتھ المیہ بھی یہی ہے کہ پیپلز پارٹی سب کچھ ہضم کر جاتی ہے۔ کراچی کے میئر کو بھی اس شہر کی کوئی پرواہ نہیں ہے، ساری سڑکیں گڑھوں میں تبدیل ہوگئی ہیں، ان سڑکوں پہ سفرکرنے والوں کی کمر جھٹکوں کی تاب نہیں لا سکتی۔
ہر دوسرا آدمی کمر درد اور سروائیکل کی تکلیف میں مبتلا ہے۔ الیکشن کے بعد جن کو نوازا گیا، انھوں نے اپنی مرضی کا نظام نافذ کر دیا۔ ’’ بڑوں‘‘ نے حکم دیا کہ انھیں نہ چھیڑا جائے، انھیں اپنی مرضی کرنے دی جائے اور اس حکم کے بعد پیاروں کو حکومت دے دی۔ اسی لیے کراچی کو لاوارث قرار دے دیا، اس شہر سے لوگ ووٹ لیتے ہیں لیکن اس بدنصیب شہر کی پرواہ کوئی نہیں کرتا، کسی نے کہا تھا کہ ’’ہم کراچی کو پیرس بنائیں گے۔‘‘ لیکن ہوا کیا؟ بھتہ خور مافیا نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا۔
حکمران اگر چاہیں تو کراچی سنور سکتا ہے کیونکہ (ن) لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف تینوں نے اپنے دور میں وعدہ کیا کہ وہ کراچی کی فکر کریں گے، لیکن ہو کیا رہا ہے؟ ہر طرف کچرے کے ڈھیر ہیں، لوگوں کا گزرنا محال ہے۔صورتحال بہت تشویشناک ہے، لقمہ اجل صرف غریب کیوں بن رہا ہے؟ تباہی صرف غریبوں کو کیوں خون کے آنسو رلا رہی ہے؟ جن کی وجہ سے یہ سیلابی صورت حال پیدا ہوئی ہے وہ تو آرام سے اپنے اپنے گھروں میں محو خواب ہیں، جنھوں نے نالوں پہ گھر بنا کر بیچ دیے، وہ تو اپنا حصہ لے کر بیٹھ گئے، تباہی آئی تو غریب پر، قدرت سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی سزا بہرحال ملتی ہے۔
کہتے ہیں دریا اور سمندر اپنی زمین واپس لیتے ہیں۔ لاہور میں راوی کنارے جو بستی بسائی گئی تھی وہ زیر آب آگئی، بلڈرز نے رشوت دے کر این او سی حاصل کر لیا اور گھر بنا کر بیچ دیے۔
ان کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ ابھی تک کوئی دوسری خبر نہیں آئی کہ راوی کنارے ہاؤسنگ اسکیم کے بنانے والے کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی یا نہیں؟ ہر جگہ پیسہ چلتا ہے، جس طرح مافیا نے بستی بسانے کا لائسنس حاصل کیا، اسی طرح وہ چھوٹ بھی جائیں گے۔
ہمارے صاحب اقتدار افراد نے دولت کی ہوس میں سمندر کے پاس زمین بھی بیچ دی اور اسے خشک کرکے وہاں پوش آبادیاں قائم کر لیں، کبھی بہت پہلے باتھ آئی لینڈ تک پانی آیا کرتا تھا، اس وقت ہاوسنگ سوسائٹی بننا شروع ہوئی تھی، مزید دولت کی ہوس میں سمندر کو مٹی سے پاٹ کر انتہائی قیمتی ہائی رائز اپارٹمنٹ بنا دیے گئے ، صرف یہی نہیں بلکہ ساحل سمندر پر بے شمار ریسٹورنٹ بنا دیے گئے ہیں جہاں علاوہ بسیار خوری کے کچھ بھی نہیں، کبھی کلفٹن پر فش ایکوریم، امیوزمنٹ پارک اور مختلف تفریحات کا انتظام تھا، بچوں کی تفریح کا انتظام تھا، لیکن اب صرف کھانے پینے کے ڈھابے رہ گئے ہیں، مینگروز جو سمندری سیلاب کے خلاف قدرتی مدافعت ہوتی ہے اسے بھی تلف کرکے پلاٹ بنا دیے گئے ہیں اور مختلف ہاوسنگ سوسائٹیاں بنا کر اربوں روپے کما لیے گئے۔
ہوس ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی۔ اس لوٹ مار میں سبھی شامل ہیں، کے ایم سی اور کے ڈی اے کے افسران سے کبھی رشوت کبھی سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے اورکبھی بدمعاشی سے تجاوزات اور چائنا کٹنگ کرکے ہر طرف تعمیر شروع کر دی، کراچی اب کنکریٹ کے جنگل کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ ایک سو بیس اور دو سو گز پر صرف ایک گھر ہوتا تھا، اور ایک گھرانہ۔ اب ان چھوٹے پلاٹوں پر چھ اور سات منزلہ بلڈنگز تعمیر ہو گئی ہیں، پہلے ایک گھرانہ رہتا تھا اب تین فلیٹ بن گئے ہیں، بعض علاقوں میں نوے گز پر آٹھ دس فلیٹ بن گئے ہیں جس سے سیوریج کا سسٹم خراب ہو گیا ہے، ہر طرف گٹر ابل رہے ہیں، حالیہ بارشوں کے بعد شہر کا نقشہ ہی بدل گیا ہے لیکن حکومت کو کوئی پرواہ نہیں۔بے تحاشا آبادی، سڑکوں پر دھواں اگلتی گاڑیاں اور ان سے کاربن گیس کا اخراج ماحول میں زہر گھول رہا ہے، شہر کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔
باہر سے آئے ہوئے لوگوں نے اس شہر کو مزید برباد کر دیا ہے، چوری اور ڈاکہ زنی میں یہی لوگ ملوث ہوتے ہیں۔ دوسرے علاقوں کی اجنی عورتیں سڑکوں اور ویگنوں میں خواتین کے پرس سے مال چرا لیتی ہیں اور کسی خاتون نے اگر سونے کی چین پہنی ہو تو تین عورتیں مل کر اس کے گرد گھیرا تنگ کرکے چین اتار لیتی ہیں۔
خود میرے ساتھ یہ ہو چکا ہے کہ تقریباً تین تولے کی چین اور اس میں پڑا ہوا لاکٹ الٰہ دین پارک میں ان عورتوں نے اتار لیا اور مجھے خبر تک نہ ہوئی، لیکن ساری خواتین ایسی نہیں ہوتیں، کچھ گھروں میں کام کرتی ہیں اور عزت کی روٹی کماتی ہیں، بعض مرد چنگ چی رکشہ چلاتے ہیں۔اگر کراچی کے اطراف میں پھیلے سمندر نے واپسی کا سفر شروع کر دیا تو کیا ہوگا، کراچی سطح سمندر سے نیچے واقع ہے۔
شاید یہ کسی نیک بندے کا فیض ہے کہ کراچی اب تک طوفانوں سے بچا ہوا ہے، لیکن حالیہ بارشوں نے جو تباہی مچائی ہے اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خدارا تعصب ختم کیجیے اور کراچی کو مزید تباہ ہونے سے بچائیے۔ یہ شہر بڑا پالن ہار ہے، یہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا، یہ شہر بڑا غریب پرور ہے۔ پورے پاکستان سے یہاں لوگ آئے ہوئے ہیں تاکہ روزی کما سکیں، خدارا اس شہر پر رحم کیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کراچی کو گئی ہیں گئے ہیں ہیں اور کر دیا گیا ہے
پڑھیں:
گرین لائن منصوبے کی وجہ سے ایم اے جناح روڈ کا برا حال ہوگیا، میئر کراچی وفاق پر برس پڑے
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ یہ گرین لائن ٹاور تک نہیں بنا رہے، گرین لائن جامع کلاتھ مارکیٹ تک بنا رہے ہیں، وفاقی حکومت کو شرم نہیں کہ 9 سال سے این او سی پڑی ہوئی ہے، کیا وفاقی حکومت کے ادارے کے پاس حق ہے کہ وہ مقامی حکومت کو بائی پاس کرے، جب روڈ کا برا حال ہوتا ہے تو کیا آپ وزیراعظم سے سوال پوچھتے ہیں یا میئر سے؟ اسلام ٹائمز۔ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ گرین لائن منصوبے کی وجہ سے ایم اے جناح روڈ کا برا حال ہوگیا، 2017ء کی این او سی پر 2025 میں وہ دوبارہ کام شروع کرتے ہیں۔ کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گرین لائن کے لیے 2017ء میں این او سی جاری کی تھی، 8 سال بعد بھی کہہ رہے ہیں ہم صحیح اور میئر صاحب غلط ہیں۔ مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ گرین لائن دوبارہ شروع کرنے کے لیے 7 جولائی 2025ء کو ہمیں خط لکھا گیا، 9 جولائی کو جواب دیا اور کہا کہ نیا کام شروع کرنے سے پہلے پرانے کام کو ختم کریں، ہم نے پوچھا کہ کام کے شروع اور ختم کرنے کی مدت بتائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لکھے گئے خط کا آج تک جواب نہیں ملا، کیا وفاقی حکومت کے ادارے کے پاس حق ہے کہ وہ مقامی حکومت کو بائی پاس کرے، جب روڈ کا برا حال ہوتا ہے تو کیا آپ وزیراعظم سے سوال پوچھتے ہیں یا میئر سے؟ ایم اے جناح روڈ کی اسٹریٹ لائٹ اور سیوریج سب خراب ہوگیا ہے۔
میئر کراچی کا کہنا ہے کہ یہ گرین لائن ٹاور تک نہیں بنا رہے، گرین لائن جامع کلاتھ مارکیٹ تک بنا رہے ہیں، وفاقی حکومت کو شرم نہیں کہ 9 سال سے این او سی پڑی ہوئی ہے، کہتے ہیں کوئی ایس او پی نہیں کہ میئر کو پیسے دیے جائیں، مصطفیٰ کمال کے دور میں وفاقی حکومت لوکل گورنمنٹ کو پیسے دیتی تھی۔ مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ریڈ لائن کا مسئلہ لاگت میں اضافے کا ہے، ریڈ لائن کا جس ریٹ پر ٹھیکہ ہوا تھا آج اس میں اضافہ ہو چکا ہے، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ریڈ لائن کے ٹیکنیکل ایشو کو حل کریں، ریڈ لائن پروجیکٹ کی لاگت میں اضافے کا فیصلہ نہیں کریں گے تو لاگت مزید بڑھے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کریم آباد انڈر پاس ڈیڑھ دو ماہ میں مکمل ہو جائے گا، کے ایم سی نے اپنی 106 سڑکوں پر کام شروع کر دیا ہے، دو ماہ میں مکمل کر لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ٹاؤن نے بغیر سوچے سمجھے ایس ایس جی کو سڑکیں کھودنے کی اجازت دے دی، ٹاؤن نے ایس ایس جی سے نہیں پوچھا کہ کام کب تک مکمل کریں گے، جو ٹھکیدار صحیح کام نہیں کرے گا اسے بلیک لسٹ کردیں گے۔