Jasarat News:
2025-12-15@02:37:25 GMT

ٹریڈ مارک تصویر یا حقیقی سفارت؟

اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251029-03-4

 

محمد مطاہر خان

عصر حاضر کی بین الاقوامی سیاست میں بصری تاثر (Visual Framing) نے حقیقت کی جگہ لینے کی جو طاقت حاصل کی ہے، وہ محض جمالیاتی اثر نہیں بلکہ سیاسی سرمائے کا ایک اہم جزو بن چکا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ نمائشی تصویر جو کچھ حلقوں میں ’’ٹریڈ مارک‘‘ قرار پائی، اسی دور جدید کا آئینہ ہے، تصویر نے فوری طور پر ایک بیانیاتی کنٹرول قائم کیا، مگر زمینی حقائق معاہدوں کی پیچیدگیاں، ثالثی عمل، اور متحرک علاقائی مفادات نے اس تصویر کو مستند سفارتی کامیابی میں تبدیل کرنا لازم کردیا۔ اس ماہ میں جو عارضی امن معاہدہ سامنے آیا، اس کی نوعیت، بین الاقوامی ردِ عمل، اور فوری نتائج ہمیں یہی سکھاتے ہیں کہ تصویر تبھی پائیداری حاصل کرتی ہے جب وہ زمینی سیاست، نگرانی کے مکینزم اور شفافیت سے ہم آہنگ ہو۔

پہلا زاویہ جو فوری طور پر واضح ہوتا ہے وہ بین الاقوامی ردِ عمل کا ہے۔ اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور متعدد مغربی دارالحکومتوں نے اس معاہدے کو خوش آئند قرار دیا اور متاثرین کی واپسی کو انسانی نقطہ ٔ نظر سے سراہا، مگر ساتھ ہی انہوں نے اس کی دوامیت اور نفاذ کی نگرانی پر زور دیا۔ یورپی کمیشن کی سربراہ کی بیان بازی اور اقوامِ متحدہ کی تشویش اس امر کا ثبوت ہے کہ عالمی برادری نے اس پیش رفت کو خوش آئند تو سمجھا، مگر اس کی تشخیص کو احتیاط سے جوڑا۔ یہ بیانیہ خوشی اور احتیاط ایک ساتھ تصویر کی فوری پذیرائی اور حقیقت کی طویل جانچ کے درمیان پْل کا کام کرتا ہے۔

دوسرا اہم نکتہ علاقائی مفادات اور تہران جیسی قوتوں کا ردِ عمل ہے۔ ایران نے اس قسم کے معاہدوں کی نزاکت پر بارہا نشاندہی کی ہے اور اس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر انسانی حقوق کے انتقامات جاری رہے تو کسی بھی سفارتی کامیابی کا دیرپا فائدہ محدود رہے گا۔ اسی طرح مصر، قطر، سعودی عرب اور ترکی جیسے ثالث ممالک کی رسہ کشی اس معاہدے کی عملی کامیابی کے لیے فیصلہ کن ہے چاہے وہ انسانی امداد کے راستے کھولنا ہو یا بعد از جنگ تعمیر ِ نو کے منصوبے۔ خطے کے اندرونی اور بیرونی مفادات کا یہ ملاپ اس معاہدے کو بقا دینے یا ردِ عمل کے باعث پھر سے بحران کی طرف واپس دھکیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

تیسرا اور اقتصادی زاویہ کثیر جہتی ہے۔ وقتی طور پر عالمی توانائی بازاروں نے سکون کا اظہار کیا تیل و گیس کی قیمتوں میں نرمی، ری کنسٹرکشن اور تعمیراتی شعبوں میں ممکنہ سرمایہ کاری کی امید مگر بڑے مالیاتی فیصلے انفرادی اور رکن ریاستوں کے واضح مالی پیکیجز، شفاف میکانزم، اور سیاسی استحکام پر منحصر ہوں گے۔ سرمایہ کار وقتی خوشگواری میں پرافٹ لے سکتے ہیں، مگر حقیقی بحالی تبھی آئے گی جب شراکت دار ممالک واضح رول شیئرنگ، احتساب اور شفاف فنڈنگ لائحہ عمل وضع کریں گے، ورنہ یہ منصوبے وقتی جذبات کے تابع رہ کر ناکام ہو سکتے ہیں۔

چوتھا نقطہ ٔ نظر امریکی اندرونی سیاست ہے۔ اگرچہ یہ پیش رفت صدر کی انتخابی مہماتی بیانیے کو وقتی طور پر تقویت دے سکتی ہے اسے ایک ’’خارجہ پالیسی کامیابی‘‘ کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے مگر خطرات بھی کم نہیں۔ ایک طرف یہ بیانیہ حامی حلقوں میں طاقت اور قیادت کے ثبوت کے طور پر دیکھا جائے گا، دوسری طرف نقاد اسے تصویری نمائش یا سابقہ انتظامی کوششوں کی ری برانڈنگ کہہ کر مسترد کر سکتے ہیں۔ مزید برآں امریکی ووٹرز کی ترجیحات معیشت، روزگار اور سماجی مسائل اب بھی انتخابی فیصلوں میں اہم کردار ادا کریں گی، لہٰذا بیرونی کامیابی کا انتخاباتی منافع محدود اور وقتی ثابت ہو سکتا ہے۔

آخر میں عملی حقیقتیں لاگو ہونے والے نگرانی کے نظام، ثالثی کی مستقل موجودگی، اور دونوں فریقین کی پابندی اس پورے بیانیے کو یا تو مستند سفارتی فتح میں تبدیل کریں گی یا اسے محض ایک عارضی تصویر تک محدود رکھ دیں گی۔ تازہ رپورٹس نے بھی دکھایا ہے کہ معاہدے کے نفاذ کے بعد بھی خلاف ورزیاں اور ہنگامی واقعات رونما ہو رہے ہیں، جو اس امر کی علامت ہیں کہ تصویر نے اب تک حقیقت کو مکمل طور پر پوشیدہ نہیں کیا۔ اگر بین الاقوامی شفاف نگرانی، انسانی امداد کی مستقل فراہمی، اور علاقائی ثالثی کے مؤثر ادارے نہ بنائے گئے تو یہ سب کچھ دوبارہ تشدد کی طرف پلٹ سکتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ دور کی سب سے بڑی سفارتی اور سیاسی آزمائش یہی ہے۔ کیا تصویر حقیقت کا ساتھی بنے گی یا حقیقت کی جگہ لے لے گی؟ سیاسی بیانیہ اگر زمینی حقائق، شفاف نگرانی اور بامعنی ثالثی کے ساتھ منسلک ہو تو تصویر مضبوط بنیاد حاصل کرتی ہے، ورنہ صرف ایک ’’ٹریڈ مارک تصویر‘‘ کے طور پر رہ کر وقت کے ساتھ ماند پڑ جائے گی۔ عالمی برادری، علاقائی کھلاڑی اور مقامی فریقین کے مشترکہ عملی اقدامات ہی طویل المدت امن و استحکام کے ضامن بن سکتے ہیں۔

 

محمد مطاہر خان سنگھانوی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی سکتے ہیں

پڑھیں:

عنوان: *امام باقر علیہ اسلام کی فکری و عملی جدوجہد اور حقیقی اسلام کی بقاء*

دین و دنیا پروگرام اسلام ٹائمز کی ویب سائٹ پر ہر جمعہ نشر کیا جاتا ہے، اس پروگرام میں مختلف دینی و مذہبی موضوعات کو خصوصاً امام و رہبر کی نگاہ سے، مختلف ماہرین کے ساتھ گفتگو کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ناظرین کی قیمتی آراء اور مفید مشوروں کا انتظار رہتا ہے۔ متعلقہ فائیلیں*پروگرام دین و دنیا*
 عنوان: *امام باقر علیہ اسلام کی فکری و عملی جدوجہد اور حقیقی اسلام کی بقاء*
میزبان: محمد سبطین علوی
مہمان: حجہ الاسلام والمسلمین آقای عون علوی
پیشکش: آئی ٹائمز ٹی وی اسلام ٹائمز اردو
موضوعات گفتگو
????امام باقر کے دوران کے سیاسی و اجتماعی حالات
????امام کی تشکیلات اور تنظیم سازی
????امام کے عملی اقدامات اور مجاہدت
خلاصہ گفتگو:
امام محمد باقر علیہ السلام کا دورِ امامت (۹۴ھ تا ۱۱۴ھ) اموی حکومت کے اختتامی سالوں پر محیط تھا، جب خلفاء کی آپسی کشمکش اور داخلی مصروفیات کی وجہ سے آلِ علیؑ پر سابقہ شدید دباؤ نسبتاً کم ہو گیا۔ اس سازگار ماحول میں امام باقرؑ نے شیعی حزبی تشکیلات اور خفیہ تنظیم سازی کا آغاز کیا۔ ان کے کارکنوں کو "اصحاب السر و رازداران" کہا جاتا تھا اور ان کے ذریعے دعوت اسلام خراسان اور دیگر دور دراز علاقوں تک پھیلی۔
امامؑ کا مرکزی فکری جہاد اموی حکمرانوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی تحریفات، جیسے جبر و مرجئہ، اور حتیٰ یہ گمراہ عقیدہ کہ امام حسینؑ کو خدا نے مارا، کے خلاف تھا۔ آپؑ نے لوگوں کو صحیح اسلامی تعلیمات کی طرف بلایا اور علمی تحریک کو وسیع کیا۔ اس ضمن میں امام نے اپنی منی میں دس سال عزاداری کے قیام کی اجازت دی تاکہ امت امام حسینؑ کی قربانی سے آگاہ ہو اور حکومت کے ظلم و جبر کے خلاف شعور پیدا ہو۔ دمشق میں ہشام بن عبدالملک کے دربار میں حاضری بھی آپؑ کے سیاسی اور فکری موقف کی شاندار علامت تھی۔ امام باقرؑ کی یہ علمی، عملی اور تنظیمی جدوجہد واقعی فکری و تنظیمی جہاد کا مثالی دور ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • گوگل نے حقیقی وقت میں ترجمہ سننے کی سہولت متعارف کرا دی
  • عنوان: *امام باقر علیہ اسلام کی فکری و عملی جدوجہد اور حقیقی اسلام کی بقاء*