ایک محب وطن پاکستانی شہری ہونے کے ناتے میں نے ہمیشہ قوم پرستی کے بجائے پاکستانیت کو فروغ دینے کا درس دیا ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مختلف زبانیں بولنے والی دیگر قومیں کمتر ہیں، بلاشبہ ہر قوم قابل احترام ہیں، پاکستان کی پہچان ہیں۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ جن ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں، ان ممالک کی خاصیت یہ ہے کہ انھوں نے ترقی کے معیارکو لسانیت کی کسوٹی پر نہیں بلکہ میرٹ کی بنیاد پر پرکھا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کے ادنیٰ سے اعلیٰ عہدوں پر بلا امتیاز رنگ و نسل کے لوگ عوامی و سرکاری عہدوں پر فائز ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں، لیکن ہمارے یہاں معاملہ اس کے برعکس چلا آرہا ہے۔ ہمارے یہاں وہی لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوسکتے ہیں جن کا تعلق کسی مخصوص سیاسی و لسانی جماعت یا اشرافیہ خاندان سے ہو، اگرچہ آئین پاکستان کے مطابق تمام پاکستانیوں کے حقوق برابر ہیں، لیکن عملاً ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے یہاں صوبہ پرستی اور اشرافیہ پرستی کی پالیسی کو اولیت حاصل ہے۔ پہلے ہی سے اعلیٰ ملکی عہدے آپس میں بانٹ لیے جاتے رہے ہیں، اور بانٹے جا رہے ہیں۔
ہمارے یہاں پالیسی یہ بنی ہوئی ہے کہ ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ اورگورنرصرف وہ ہی ہوسکتے ہیں، جن کا اس صوبے سے تعلق ہو لہٰذا کسی دوسری قوم اور صوبے کا فرد اس عہدے پر فائز نہیں ہو سکتا۔ البتہ سندھ کا گورنر صرف اردو بولنے والافرد ہی بن سکتا ہے، کسی دوسری قوم کا فرد نہیں۔
کراچی کا میئر صرف اردو بولنے والا ہی قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔کسی اورکو یہ حق حاصل نہیں، اگر غلطی سے مئیرکراچی دوسری قوم کا فرد بن گیا تو سیاسی کشمکش جنم لیتی ہے، جس کی ایک مثال موجودہ مئیرکراچی کی ہے۔ جن کی سیاسی وابستگی پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے اور جنھوں نے یونین کونسل کا انتخاب ہی نہیں لڑا تھا، یعنی یونین کونسل کے چیئرمین منتخب ہی نہیں ہوئے تھے، لیکن چونکہ پیپلز پارٹی کو اردو بولنے والے فرد کی ضرورت تھی، اس لیے انھیں مئیرکراچی بنا دیا گیا اور بعد ازاں مہاجروں کی نمایندہ جماعت ایم کیو ایم سے سیاسی معاہدے کے تحت صوبائی قوانین میں ترمیم کر کے پی پی پی نے اپنے کسی یونین کونسل چیئرمین کو سیاسی قربانی کا بکرا بنا کر سیٹ خالی کرا دی اور سیاسی معاہدے کے تحت انھیں بلا مقابلہ متعلقہ یونین کونسل کا چیئرمین منتخب کرایا۔ اب ایسے سیاسی نظام میں میرٹ کی توقع کرنا عبث ہے۔
اسی طرح صوبہ بلوچستان کا میں بھی وزیر اعلیٰ صرف بلوچ بن سکتا ہے کسی دوسری قوم کا فرد نہیں۔ وہاں گورنر بھی صرف پشتون ہوسکتا ہے کسی دوسری قوم کا فرد نہیں۔ اسی طرح صوبہ خیبر پختون خوا میں صرف پختون ہی وزیر اعلیٰ اورگورنر ہوسکتے ہیں کسی دوسری قوم کے افراد نہیں۔ اسی طرح پنجاب اور سندھ میں بھی ہے۔ آپ ملک کے چاروں صوبائی سرکاری دفاترکا چکر لگا کر دیکھ لیں۔ آپ کو ہر صوبائی دفاتر میں بڑے بڑے عہدوں پر صرف مقامی افراد ہی فائز نظر آئیں گے،کسی دوسری قوم کے افراد نہیں ملیں گے۔
کیوں؟ کیونکہ چاروں صوبوںمیں چاروں صوبائی زبانیں بولنے والے افراد اپنے اپنے صوبوں میں حکمرانی کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں اور یہ کہ ایک دوسرے کے صوبوں میں بڑے عہدوں پر فائز رہنے کا مجاز نہیں ہیں۔
اسی طرح ملکی اشرافیہ نے دیگر سرکاری کلیدی عہدے اور عوامی کلیدی عہدے آپس میں بانٹ رکھے ہیں۔ ہم اور آپ اور ہماری اولادیںکتنی ہی باصلاحیت کیوں نہ ہوں، ان بانٹے گئے کلیدی و دیگر بڑے عہدوں پر فائز ہونے کا تصورہی کیا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان زمینی حقائق کی روشنی میں اس بات کی کیا وقعت باقی رہ جاتی ہے جس میں تمام پاکستانیوں کے حقوق کو برابر تسلیم کیا گیا ہے ؟
اس غیر آئینی و غیر منصفانہ اور من پسند نظام پر عدالتیں فیصلے کرتی رہی ہیں لیکن با اثر نظام ان فیصلوں کی راہ پر من پسند قوانین نافذ کرتی رہی ہیں۔ اس طرح میرٹ کا قتل عام جاری و ساری ہے۔ اکثر و بیشتر میڈیا میں یہ اطلاعات گردش کرتی رہتی ہیں کہ فلاں ترقی یافتہ ممالک میں وہاں دیگر ممالک سے وابستہ افراد جنھیں فلاں فلاں نژاد کہا جاتا ہے بڑے عہدے پر فائز ہوگیا ہے۔
ایسے میں ہمارے یہاں دل جلے شہری اس کی مثالیں دیتے ہیں کہ دیکھو جی، ان روشن خیال ممالک میں فلاں ملک کا نژاد فرد فلاں اعلیٰ عہدے پر منتخب ہوا ہے۔ پھر ان ممالک کے مقابلے میں اپنے ملکی سیاسی نظام کی خامیاں گنوانے لگ جاتے ہیں اور اپنی قسمت پر ماتم کرتے ہیں کہ کاش ! ہماری پیدائش بھی انھی ممالک میں سے کسی ایک ملک میں ہوجاتی، تاکہ ہم بھی اور ہماری اولادیں بھی کسی بڑے عہدے پر فائز ہوجاتے۔ یہ وہ جنگ ہے جو مدتوں سے پاک سرزمین پر باصلاحیت نوجوانوں سے لڑی جاتی رہی ہے اور انھیں ہرا کرکلیدی عہدوں پر فائزرہ کر سینے چوڑے اورگردنیں اکڑاتے جاتے رہے ہیں۔
مشاہدہ یہ ہے کہ ایسے حالات میں اسلام دشمن اور پاکستان دشمن عناصر بھرپور فائدہ اٹھا تے رہے ہیں۔ کم فہم، تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد اورنوجوان ان دشمن عناصرکی چنگل میں پھنستے رہے ہیں اور اپنی دین و دنیا۔ اپنی زندگی اور حب الوطنی گنواتے رہے ہیں۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ اب کلیدی و دیگر بڑے عہدوں کی غیر مساوی تقسیم کی پالیسیوں کا یکسر خاتمہ کرتے ہوئے، ملک میں میرٹ کی پالیسی کو ترجیح دی جائے، تاکہ باصلاحیت تعلیم یافتہ و ہنر مند نوجوانوں میں موجود احساس محرومی کا خاتمہ ہوسکے اور پاکستان کے دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملایا جاسکے۔ جب تک ملک میں میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی رہے گی، یہ غیر منصفانہ جنگ جیت کر بھی ہاری ہوئی جنگ تصورکی جاتی رہے گی اور بڑی تعداد میں صلاحیتیں کھوتے رہیں گے، جس کا نتیجہ اسی طرح کمزور معیشت کی صورت میں سامنے آتا رہے گا اور ملکی معیشت قرضوں اور سود پر چلتی رہے گی، لٰہذا یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ میرٹ ہی ملکی ترقی کا ضامن ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عہدوں پر فائز دوسری قوم کا یونین کونسل ہمارے یہاں بڑے عہدوں ہیں اور میرٹ کی رہے ہیں کا فرد ہیں کہ
پڑھیں:
فوج کے انٹرنل سٹرکچر میں تبدیلی کو سیاسی تنازع نہیں بنایا جاسکتا، رانا ثناء
اسلام آباد(این این آئی) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ مسلح افواج کے انٹرنل اسٹرکچر میں تبدیلی ایک پیشہ ورانہ معاملہ ہے، اسے سیاسی تنازع نہیں بنایا جا سکتا۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما رانا ثناء اللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم مکمل طور پر آئین میں درج پارلیمانی طریقہ کار کے مطابق عمل میں لائی گئی ہے، اسے متنازع قرار دینا درست نہیں۔وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ ترمیم کا مسودہ پہلے باضابطہ طور پر ایوان میں پیش کیا گیا اور پھر قواعد کے مطابق متعلقہ کمیٹی کے سپرد کیا گیا، کمیٹی نے 3 دن تک ہر شق پر تفصیلی غور کیا، بعض نکات کو حذف کیا گیا اور کچھ میں ترمیم شامل کی گئی جبکہ ہر شق پر باقاعدہ ووٹنگ ہوئی۔انہوں نے کہا کہ جو ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور ہو چکی ہو اسے متنازع نہیں کہا جا سکتا، اپوزیشن نے اگر اتفاق رائے کرنا ہوتا تو تجاویز لے کر آتی مگر انہوں نے سٹینڈنگ کمیٹیوں کا بھی بائیکاٹ کر رکھا ہے۔رانا ثناء اللہ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے یوم آزادی پر بھی اپوزیشن کو میثاق پاکستان کیلئے دعوت دی تھی تاکہ ملکی مسائل پر مشترکہ پالیسی تشکیل دی جائے تاہم پی ٹی آئی اور اپوزیشن بیٹھنے کو تیار ہی نہیں، پارلیمنٹ سے اپوزیشن کو تین بار مذاکرات کی پیشکش کی جا چکی ہے، اس بار بھی کوشش کی گئی مگر انہوں نے انکار کیا۔وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ مسلح افواج کے انٹرنل اسٹرکچر میں تبدیلی ایک پیشہ ورانہ معاملہ ہے، اسے سیاسی تنازع نہیں بنایا جا سکتا، حکومت چاہتی تھی کہ صحت، آبادی، لوکل باڈیز اور دیگر عوامی مسائل پر بھی اتفاق رائے پیدا ہو لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔رانا ثناء اللہ نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ عوامی اہمیت کے معاملات پر بحث اور غور و فکر کا آغاز ہو چکا ہے، جیسے جیسے اتفاق رائے پیدا ہوتا جائے گا مزید ترامیم بھی متوقع ہیں۔