Express News:
2025-04-26@04:44:56 GMT

مقامی مارکیٹ میں روئی کی قیمتوں میں تیزی کا رجحان

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

اسلام آ باد:

درآمدی معاہدوں کے تحت روئی کی آمد میں غیر متوقع تاخیر، کپاس کی ملکی پیداوار میں غیر معمولی کمی اور موصول ہونے بڑے برآمدی آرڈرز کے دباؤ سے مقامی مارکیٹ میں روئی کی قیمتوں میں تیزی کا رجحان پیدا ہوگیا ہے جس سے روئی کی فی من قیمت 20ہزار روپے کے ساتھ کاٹن ایئر 25۔2024 کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی ہے۔

جبکہ درآمدی روئی اور دھاگے پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ بحال رکھنے یا نہ رکھنے سے متعلق ایف بی آر نے 13جنوری کو اجلاس طلب کرلیا ہے۔

چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ روئی درآمدی کنندگان کی جانب سے پیشگی کیے گئے معاہدوں کی حامل روئی اگرچہ پاکستان پہنچ گئی ہے لیکن نئے درآمدی معاہدوں کے تحت روئی کی پاکستان میں مارچ سے مئی تک پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔

جس کے باعث ٹیکسٹائل ملز کی جانب سے اندرون ملک روئی خریداری میں ریکارڈ اضافے کے باعث روئی کی قیمتوں میں زبردست تیزی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے جس کے دوران ایک ماہ کی موخر ادائیگی پر روئی کی قیمتیں جاری سیزن کی بلند ترین سطح بیس ہزار روپے فی من تک جبکہ روٹین ادائیگی میں انیس ہزار سے انیس ہزار 500 روپے فی من تک پہنچ گئی ہیں جبکہ ان میں مزید تیزی کا رجحان بھی متوقع ہے۔

انھوں نے بتایا رواں سال کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار ہدف کے مقابلے میں اکاون فیصد جبکہ پچھلے سال کے مقابلے میں32فیصد کم ہونے لیکن ملز کو بڑی مقدار میں ٹیکسٹائل پراڈکٹس کے برآمدی آرڈرز ملنے کے باعث روئی کی قیمتوں میں تیزی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: روئی کی قیمتوں میں تیزی کا رجحان

پڑھیں:

لاہور میں تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی نے شدید گرمی کے بحران کو سنگین بنا دیا

کبھی لاہور کے باسی چاروں موسموں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ خوشگوار گرمی، خنک خزاں، سردیاں اور بہار کی رونقیں، لیکن گزشتہ چند برسوں میں تیزی سے بڑھتی شہری آبادی اور موسمیاتی تبدیلیوں نے شہر کو صرف دو موسموں، دم گھٹاتی اسموگ اور جھلسا دینے والی گرمی تک محدود کر دیا ہے۔

پنجاب کے مختلف اضلاع سمیت لاہور میں شدید گرمی کی نئی لہر کا آغاز ہو چکا ہے اور محکمہ موسمیات نے آئندہ دس دنوں کے دوران غیر معمولی درجہ حرارت کی پیش گوئی کی ہے۔ اپریل میں عمومی طور پر درجہ حرارت 30 سے 37 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے، تاہم پچھلے چند سالوں میں درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق اپریل 2020 میں اوسط درجہ حرارت 33 ڈگری تھا، جو 2021 میں 35، 2022 میں 42، 2023 میں 35 اور 2024 میں 37 ڈگری سینٹی گریڈ رہا۔ رواں برس 2025 میں یہ درجہ حرارت 40 ڈگری تک پہنچنے کا امکان ہے۔

ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ لاہور میں بڑھتی آبادی اور تیز رفتار تعمیرات درجہ حرارت میں اضافے کی بڑی وجوہات ہیں۔ تحقیق کے مطابق 1990 سے 2020 کے دوران شہر کے بڑے حصے پر موجود سبزہ ختم ہو کر کنکریٹ، سڑکوں اور عمارتوں میں تبدیل ہو گیا۔ 2010 سے 2017 کے درمیان لاہور کا 70 فیصد درختوں کا احاطہ ختم ہو چکا ہے۔

پنجاب اربن یونٹ کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں میں لاہور کا تعمیراتی رقبہ 438 مربع کلومیٹر سے بڑھ کر 759 مربع کلومیٹر تک جا پہنچا ہے جبکہ شہر کے مجموعی رقبے کا صرف 2.8 فیصد حصہ اب سبزہ زاروں پر مشتمل ہے۔ درختوں کی کٹائی کے باعث لاہور ’’اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ‘‘ کا شکار ہو چکا ہے، جہاں عمارتیں اور سڑکیں دن بھر گرمی جذب کر کے رات کو اسے آہستہ آہستہ خارج کرتی ہیں، جس سے درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔

محکمہ موسمیات کے ماہرین نے عالمی حدت، سبزہ زاروں کی کمی، صنعتی آلودگی اور ناقص شہری منصوبہ بندی کو گرمی کی لہروں کا بنیادی سبب قرار دیا ہے۔ جامعہ پنجاب کے پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی کا کہنا ہے کہ ’’جب کئی دن تک درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہتا ہے اور قدرتی ٹھنڈک کے ذرائع موجود نہ ہوں، تو گرمی کی شدت مزید بڑھ جاتی ہے۔‘‘

شدید گرمی کی ممکنہ لہر کے پیش نظر، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے شہریوں کے تحفظ کے لیے احتیاطی تدابیر جاری کی ہیں۔

شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ دن 11 بجے سے 4 بجے کے دوران غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کریں، زیادہ پانی پئیں، ہلکے اور ڈھیلے کپڑے پہنیں، ٹھنڈے مشروبات استعمال کریں اور بچوں و بزرگوں کا خصوصی خیال رکھیں۔ گرمی کی شدت سے چکر آنا، بخار، نقاہت، متلی یا بے ہوشی کی شکایت ہو تو متاثرہ شخص کو فوراً سائے میں لے جاکر پانی یا او آر ایس پلایا جائے، اور ضرورت پڑنے پر طبی امداد حاصل کی جائے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ عارضی احتیاطی تدابیر وقتی ریلیف تو دے سکتی ہیں، لیکن اس سنگین ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے مستقل اور مؤثر اقدامات ناگزیر ہیں، جن میں سبزہ زاروں کا تحفظ، نئے درختوں کی شجر کاری، موسمیاتی تبدیلی کو شہری منصوبہ بندی کا حصہ بنانا اور عوامی آگاہی شامل ہیں۔

اگر فوری اور جامع اقدامات نہ کیے گئے، تو گرمی کی یہ شدید لہریں لاہور جیسے بڑے شہروں میں معمول کا حصہ بن سکتی ہیں، جس کے اثرات نہ صرف انسانی صحت بلکہ معیشت، زراعت اور شہری زندگی کے دیگر شعبوں پر بھی مرتب ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

  • سونے کی قیمتوں میں پھر یکدم ہزاروں روپے کی کمی
  • عالمی اور مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت مستحکم
  • آج عالمی اور مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں استحکام
  • پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی ، انڈیکس ایک لاکھ ، 15 ہزار سے نیچے آ گیا
  • تیل کی عالمی قیمتوں میں ایک بار پھر کمی
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں منفی رجحان، 1553 پوائنٹس کی کمی
  • سونا فی تولہ11 ہزار 7 سو روپے سستا ۔۔۔قیمت کہاں تک جاپہنچی،کنواروں کے لیے خوشی کی خبرآگئی
  • بھارت: حملے کے بعد سیاحوں کا کشمیر سے تیزی سے انخلا
  • سوزوکی آلٹو کی قیمتوں میں اضافہ، فائلرز اور نان فائلرز کے لیے ٹیکس بڑھ گیا
  • لاہور میں تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی نے شدید گرمی کے بحران کو سنگین بنا دیا