موجودہ سیاسی صورتحال، بگاڑ اور حل کے امکانات
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
(آخری حصہ)
2018 کے انتخابات میں عمران خان نے تبدیلی، کرپشن ختم کرنے، آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے، کشکول توڑنے، پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریوں، گرین پاسپورٹ کی عزت، پاکستان میں غیر ملکیوں کی روزگار کی تلاش میں آمد جیسی سحر انگیز باتیں نعرے اور وعدے کیے، گو کہ پی ٹی آئی کو ان کا دور حکمرانی مکمل کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن اقتدار کے پونے چار سالہ دور میں وقت کے دھارے نے کوئی قدم بھی ان کے عوام سے کیے وعدوں اور دعوؤں کی طرف بڑھتے نہیں دیکھا۔ پی ٹی آئی نے ریاست مدینہ کے دعوے بھی کیے، لیکن اس جانب کوئی عملی اقدام نظر نہیں آیا، ٹیلی وژن چینل اور میڈیا حسب سابق عریانی اور فحاشی کے ابلاغ کے مراکز بنے رہے۔
جنرل ضیا کے 90 دن میں الیکشن کرانے اور جنرل مشرف کے وردی اتارنے کے وعدوں کی بے توقیری خود ان ہی کے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ اس ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں (ن) لیگ، پی پی اور پی ٹی آئی اقتدار کی بھول بھلیوں میں ایسے گم ہوئیں کہ الیکشن سے قبل کیے گئے دعوے وعدے اور باتیں سب فراموش کر بیٹھے، غربت کے مارے اور تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات سے محروم عوام نہ جانے کیوں اب بھی اپنے اپنے بتوں سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔
بھتوں اور بوری بند لاشوں کی سیاست کی موجد ایم کیو ایم جنہیں ماضی میں عمران خان نفیس لوگوں کا لقب دے چکے ہیں اور حال ہی میں ایم کیو ایم کے سندھ کے گورنر کامران ٹسوری جنہیں مفتی تقی عثمانی نے سیدنا عمر فاروق اعظم کی روایت کو زندہ کرنے کے مماثل قرار دیا، آج وہی ایم کیو ایم کہاں اور کس کے ساتھ کھڑی ہے۔ تین کروڑ سے زائد کراچی کی آبادی کے تناظر میں زمینی حقائق کے مطابق بمشکل لاکھ سوا لاکھ ووٹ لینے والی ایم کیو ایم کو 17 قومی اسمبلی کی بخشی سیٹوں کی بات ہو یا فیصل واوڈا، محسن نقوی اور انوار الحق کاکڑ جیسے سینیٹرز کی مثلث، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو ہم دوسرے عوامل بشمول میڈیا اور اجرت پر مامور صحافیوں کو کیوں فراموش کر جاتے ہیں چاہے وہ کسی سیاسی پارٹی کے ’’پے رول‘‘ پر ہوں یا مقتدر طبقات اور اسٹیبلشمنٹ کی ’’ترجمانی‘‘ کے فرائض کی انجام دہی پر مامور ہوں۔
پاکستان میں سردست اصل جنگ اقتدار کی ہے۔ بظاہر ایک دوسرے کے لیے ناقابل برداشت رویوں کی حامل لیکن جنرل باجوہ کا ایکسٹینشن اور آئی ایم ایف سے معاہدوں جیسے اہم ترین اشوز پر حکومت اور اپوزیشن کی تین بڑی جماعتیں (ن) لیگ، پی پی اور پی ٹی آئی پارلیمینٹ کے اندر اور باہر ایک پیج پر اور ایک ہی موقف کی سو فی صد حامی رہیں، اگر آئی ایم ایف کی غلامی میں پی پی اور (ن) لیگ نے ملکی معیشت کو تباہ حال کیا اور اسی کی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے ملک میں مہنگائی کا طوفان، بجلی کے بھاری بلوں، ٹیکسیوں کی بھرمار اور مہنگائی ان سب نے عوام کی کمر توڑ رکھی تو آئی ایم ایف ہی کی غلامی قبول کرنے والی پی ٹی آئی کیسے اس ملک کو معاشی مسائل کی دلدل اور مہنگائی کے عفریت سے نکال پائے گی؟۔ اہم اقتصادی اور معاشی مسائل کے ساتھ پاکستان کا مسئلہ نظریاتی بھی ہے، سیاسی جماعتوں سے لے کر میڈیا، وزارتوں سے اداروں اور محکموں تک ہر جگہ سیکولر، لبرل، قادیانی اور مغربی اقدار کے دلدادہ اور غلامانہ ذہنیت کے لوگ بِراجمان ہیں اور ان سب کا ایجنڈا ایک ہی ہے کہ پاکستان سب کچھ بن جائے لیکن ایک فلاحی اسلامی ریاست جو اس کا مقصد وجود ہے کے سفر کی سمت نہ اختیار کر سکے اور ایسی کوشش کرنے والی سیاسی و دینی قوتوں کو دیوار سے لگا دیا جائے۔
پاکستان میں عوامی امنگوں کے مطابق حکومتوں کی تبدیلی کا ذریعہ صرف عام انتخابات ہیں، لیکن اگر انتخابات ڈھونگ ہوں جیسا کہ فروری 2024 میں اربوں روپے لٹا کر ڈراما رچایا گیا تو موجودہ اور پیچیدہ صورتحال میں پاکستان میں غیر جانبدار صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد بعید از قیاس ہے جب تک فروری 2024 کے انتخابات میں فارم 47 کے ذریعہ بڑے پیمانے پر انتخابی نتائج میں رد و بدل اور کراچی میں پی پی کے دھاندلی مئیر کے الیکشن کی تحقیقات اور ذمے داران کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا اور نتائج کے رد وبدل کے ذریعہ اسمبلی میں آنے والے افراد کو تاحیات نا اہل قرار نہیں دیا جاتا کوئی بھی انتخاب معتبر اور قابل قبول نہیں ہوگا۔ گزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی ہی سب سے زیادہ متاثر فریق ہے، فارم 47 کے ذریعہ اس سے حق حکمرانی چھینا گیا ہے لہٰذا اسے ہی آگے بڑھ کر اور دیگر سیاسی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر انتخابی دھاندلی کے حوالے سے ایک پر امن تحریک شروع کرنی چاہیے تھی جو کہ نہ ہو سکا، گو کہ اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہت چکا ہے لیکن اب بھی اگر پی ٹی آئی کم سے کم نکاتی ایجنڈے پر متاثرہ جماعتوں کو متحد کرے اور ’’لیڈ‘‘ کرے تو عوام کا ایک بپھرا ہوا سمندر فارم 47 کی متاثرہ جماعتوں کی پشت پر ہوگا جس کے مطالبات نظر انداز کرنا نہ کسی اسٹیبلشمنٹ کے بس میں ہوگا نہ کوئی حکمران ٹھیر سکے گا، آخر ماضی قریب میں بشار الا اسد اور شیخ حسینہ واجد کا حشر اور عبرت ناک انجام کس کے حافظے سے محو ہوگا؟
اہل وطن سوچیں اور خود فیصلہ کریں کہ اب تک پی پی، (ن) لیگ، فوجی جرنیل اور پی ٹی آئی کے دور حکومت میں نہ ملک اور نہ عوام کے حالات بدل سکے بلکہ سیکورٹی کا خطرہ بھی رہا تو پھر کون ہے جو ملک اور عوام کے حالات بدل سکتا ہے؟ مہنگائی کا خاتمہ بجلی بلوں اور ٹیکسوں میں کمی لا سکتا ہے؟، حکومتی اخراجات میں کمی، وزیروں، ارکان اسمبلی جرنیلوں اور ججوں کی ناجائز مراعات ختم کرسکتا ہے؟، مسئلہ فلسطین، مسجد اقصیٰ اور کشمیر کی آزادی کے لیے امت مسلمہ کو یکجا اور عملی قدم کی جانب بڑھ سکتا ہے؟ اسی سوال کے جواب میں پاکستان کے عوام کے مسائل کا حل مضمر ہے۔ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی کے مصداق پاکستان کو مسائل سے نکالنے اور عوام کو خوشحال بنانے کے لیے کرپٹ عناصر سے پاک، بے داغ ماضی اور عوامی خدمت کے جذبے سے بھر پور ایک اہل اور ایک منظم جماعت اور صالحیت اور صلاحیت سے مالا مال ایک دیانتدار قیادت ہی ملک کو دشمنوں کے ہاتھوں سے محفوظ، مسائل سے آزاد اور عوام کو خوشحال رکھ سکتی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف پاکستان میں پی ٹی ا ئی اور عوام اور پی
پڑھیں:
عراق کے حساس انتخابات کا جائزہ، اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
اسلام ٹائمز: عراق کے پارلیمانی انتخابات یقیناً ایک نیا موقع ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں تو یہ انتخابات استحکام اور ترقی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ماضی کی طرح اقتدار کی رسہ کشی نے نظام کو پھر سے مفلوج کر دیا، تو یہ انتخابات بھی عراق کی تاریخ میں ایک کھویا ہوا موقع بن کر رہ جائیں گے۔ تحریر: سید انجم رضا
عراق مشرقِ وسطیٰ کا وہ ملک ہے، جو اپنے تاریخی ورثے، مذہبی مقامات اور جغرافیائی اہمیت کے باعث ہمیشہ عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ سے لے کر جدید دور تک، یہ خطہ تہذیبی اور روحانی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر اہلِ تشیع کے لیے عراق ایک مقدس سرزمین ہے، جہاں نجفِ اشرف، کربلا، کاظمین اور سامرہ جیسے روحانی مراکز واقع ہیں۔
داعش کے خلاف عراقی عوام کی جدوجہد
گذشتہ دہائی میں عراق کو "داعش" جیسے دہشت گرد گروہ کے فتنے کا سامنا رہا۔ اس دوران عراقی عوام نے بے مثال قربانیاں دے کر اپنی زمین کو دہشت گردی کے چنگل سے آزاد کرایا۔ اس جنگ نے نہ صرف عراق کی داخلی مزاحمت کو مستحکم کیا بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے ایک نئی مثال بھی قائم کی۔ "الحشد الشعبی" (عوامی مزاحمتی فورسز) کی شمولیت اور پارلیمان کی طرف سے انہیں باضابطہ طور پر ریاستی ڈھانچے میں شامل کرنا عراقی خودمختاری کی ایک اہم پیش رفت قرار دی جاتی ہے۔
مقاومت کا نظریہ اور خطے کی سیاست
عراق میں مزاحمت کا نظریہ محض عسکری نہیں بلکہ فکری و سیاسی پہلو رکھتا ہے۔ یہ تصور خطے میں غیر ملکی مداخلت، خاص طور پر امریکی اثر و نفوذ کے ردِعمل کے طور پر سامنے آیا۔ صدام ملعون کے سقوط کے بعد اگرچہ امریکہ نے عراق میں اپنی موجودگی برقرار رکھی، مگر عوامی سطح پر مزاحمتی سوچ نے ہمیشہ بیرونی تسلط کو چیلنج کیا۔ جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی کمانڈر کی بغداد کے ہوائی اڈے پر شہادت نے عراقی خود مختاری کے مسئلے کو مزید اجاگر کیا اور عوامی مزاحمت کو نیا جوش بخشا۔
غزہ و فلسطین کے مسئلے پر عراقی موقف
"طوفان الاقصیٰ" کے بعد جب خطے میں کشیدگی بڑھی تو عراق نے فلسطینی عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف عراقی حکومت اور عوام نے کھل کر مذمت کی اور غزہ کے عوام کی حمایت کو انسانی و اسلامی فریضہ قرار دیا۔ یہ موقف اس امر کا غماز ہے کہ عراقی خارجہ پالیسی میں فلسطین کی آزادی ایک مستقل اصولی حیثیت رکھتی ہے۔
امریکی اثر و رسوخ اور نیا ایلچی
عراق کی سیاست میں امریکی اثر و رسوخ کوئی نیا موضوع نہیں۔ مختلف ادوار میں امریکی حکمتِ عملی نے عراق کے داخلی معاملات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ حال ہی میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے "مارک ساوایا" کو عراق کے لیے خصوصی ایلچی نامزد کیا ہے۔ مارک ساوایا ایک کاروباری شخصیت ہے، جو بھنگ اور جائیداد کے کاروبار سے منسلک ہے اور یہ شخص سفارتی تجربے سے محروم ہے۔ مبصرین کے مطابق اس تقرری کا مقصد عراق کی سیاست میں امریکی مفادات کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ یہ اقدام عراق میں امریکی اثر کے نئے دور کا آغاز سمجھا جا رہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے زلمئی خلیل زاد نے افغانستان میں اور ٹام باراک نے لبنان میں کیا تھا۔
نومبر کے پارلیمانی انتخابات۔۔۔۔ علاقائی مفادات کا محور
عراق میں پارلیمانی انتخابات کا اہم مرحلہ ہے، انتخابات کی تارہخ 11 نومبر مقرر کی گئی ہے، انتخابات کے ذریعے ملک کی پارلیمنٹ یعنی مجلس النواب العراقي کے 239 ارکان کا انتخاب کیا جائے گا۔ عراق میں سیاسی جماعتوں، مکتبۂ فکر، فرقوں اور علاقائی تقسیم کے تناظر میں یہ ایک اہم مرحلہ ہے اور اس کا اثر حکومت سازی، طاقت کے توازن اور داخلی استحکام پر پڑے گا۔ عراق میں 11 نومبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات داخلی سیاست سے بڑھ کر ایک علاقائی اور بین الاقوامی معاملہ بن چکے ہیں۔ مختلف طاقتیں اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ شیعہ اکثریتی علاقوں میں انتخابی اتحادوں کی کثرت اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ عراق کا سیاسی منظر نامہ متحرک مگر غیر مستحکم ہے۔ اگرچہ مقتدیٰ صدر نے انتخابی عمل سے کنارہ کشی اختیار کی ہے، تاہم مرجعِ عالی قدر آیت اللہ العظمٰی سید علی سیستانی نے عوام کو بھرپور شرکت کی تلقین کی ہے، جو عوامی شعور اور جمہوری تسلسل کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔
عراقی سماج کا بیانیہ۔۔۔۔ رواداری اور وحدت
عراقی سماج کی بنیاد قبائلی ڈھانچے پر ضرور ہے، مگر وہاں کے قبائل اور عام عوام مسلکی اختلافات کے باوجود باہمی رواداری کے قائل ہیں۔ اکثریت کے شیعہ ہونے کے باوجود عراقی معاشرہ بین المسالک ہم آہنگی کی مثال پیش کرتا ہے۔ یہی وحدت عراق کے استحکام اور مزاحمت دونوں کی بنیاد ہے۔
عراق کے پارلیمانی انتخابات۔۔۔۔ استحکام کی امید یا ایک اور آزمائش؟
عراق ایک بار پھر جمہوری امتحان سے گزرنے جا رہا ہے۔ نئی پارلیمنٹ کے انتخابات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب ملک سیاسی انتشار، معاشی بدحالی اور عوامی بے زاری کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ اکیس سال گزرنے کے باوجود عراق کا جمہوری سفر اب بھی عدم استحکام اور طاقت کے کھیل سے آزاد نہیں ہوسکا۔
عوامی توقعات اور سیاسی حقیقت
عراقی عوام کے لیے یہ انتخابات محض ووٹ ڈالنے کا موقع نہیں بلکہ ایک اور امید کی کرن ہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں اب وہ چہرے آئیں، جو بدعنوانی، فرقہ واریت اور بیرونی اثرات سے بلند ہو کر عراق کی تعمیر نو کا بیڑا اٹھائیں۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ملک کی سیاسی بساط اب بھی پرانی جماعتوں اور طاقتور گروہوں کے زیرِ اثر ہے، جو انتخابات کے نتائج کے باوجود اقتدار کی تقسیم کے لیے ایک دوسرے سے سودے بازی کرتے ہیں۔
فرقہ واریت اور اتحاد کی سیاست
2003ء میں صدام کے زوال کے بعد سے عراقی سیاست شیعہ، سنی اور کرد جماعتوں کے درمیان اقتدار کی بندربانٹ پر استوار ہے۔ کوئی ایک جماعت اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آتی، اس لیے مخلوط حکومتیں بنتی ہیں، جو جلد ہی اختلافات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس بار بھی یہی خدشہ موجود ہے کہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کے طویل مذاکرات، الزامات اور مفاہمتوں کا وہی پرانا سلسلہ دہرایا جائے گا۔
احتجاجی تحریکوں کی بازگشت
2019ء کی عوامی تحریک نے عراقی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ نوجوانوں نے فرقہ وارانہ تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے ایک نئے سیاسی کلچر کا مطالبہ کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ جذبہ ووٹ کے ذریعے تبدیلی لا پاتا ہے یا نہیں۔ عوام میں سیاسی اشرافیہ کے خلاف غم و غصہ تو اب بھی موجود ہے، مگر نظام پر اعتماد بحال ہونا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ انتخابی ٹرن آؤٹ اسی اعتماد کی حقیقی پیمائش ہوگی۔
علاقائی اثرات اور بین الاقوامی توازن
عراق مشرقِ وسطیٰ میں ایک ایسی سرزمین ہے، جہاں ایران اور امریکا دونوں کے مفادات ٹکراتے ہیں۔ انتخابات کا نتیجہ اس بات کا عندیہ دے گا کہ نئی حکومت کس حد تک بیرونی دباؤ سے آزاد پالیسی اپناتی ہے۔ بغداد کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ایران سے تعلقات قائم رکھتے ہوئے واشنگٹن سے بھی متوازن روابط برقرار رکھ سکے۔۔۔ یعنی ایک خود مختار مگر حقیقت پسند خارجہ پالیسی۔
سلامتی اور تعمیرِ نو
داعش کے خاتمے کے باوجود عراق مکمل طور پر پرامن نہیں۔ سکیورٹی اداروں میں سیاسی اثراندازی، کرپشن اور ملیشیاؤں کا کردار ریاستی عملداری کے لیے رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ نئی حکومت سلامتی، روزگار، بجلی، پانی اور صحت جیسے بنیادی مسائل پر توجہ دے۔۔۔۔ وہ وعدے جو ہر انتخابی مہم میں کیے جاتے ہیں، مگر پورے کم ہی ہوتے ہیں۔
امید باقی ہے
عراق کے پارلیمانی انتخابات یقیناً ایک نیا موقع ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں تو یہ انتخابات استحکام اور ترقی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ماضی کی طرح اقتدار کی رسہ کشی نے نظام کو پھر سے مفلوج کر دیا، تو یہ انتخابات بھی عراق کی تاریخ میں ایک کھویا ہوا موقع بن کر رہ جائیں گے۔