Nai Baat:
2025-04-25@11:47:10 GMT

اقتدار آمدن کا ذریعہ

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

اقتدار آمدن کا ذریعہ

چینی کہاوت ہے گھرمیں لگی آگ دورکے پانی سے نہیں بجھائی جا سکتی ۔مگر طالبان حکومت ہمسایہ ممالک کومسائل میں الجھا کرمستحکم ہونے کے چکرمیں ہے وہ اپنی سرحدوں سے دورآباد ممالک کا اعتماد حاصل کرنے اور اقتدار کو ذریعہ آمدن بنانا چاہتی ہے جس سے خطے میں انتشار وافراتفری بڑھنے کا اندیشہ ہے پاکستان سے سرحدی مسائل کوہوادینااکثر افغان حکومتوں کا مشغلہ رہا ہے حالانکہ دونوں ممالک کے عوام میں بہت قربت ہے مذہبی کے ساتھ کاروباری روابط ہیںمشترکہ ثقافت ہے رشتہ داریاں ہیں دونوں ممالک کی آبادی کا ایک دوسرے کی طرف آنا جانالگا رہتاہے جسے باوجود کوشش ختم نہیں کیا جا سکتا لیکن سچ یہ ہے کہ افغان عوام کا ساتھ دینے کی پاداش میں پاکستان نے ہمیشہ نقصان اُٹھایا ہے نہ صرف روس کی مخالفت کا سامنا کیابلکہ امریکی ناراضی کی وجہ بھی افغانستان ہے لاکھوں افغانوں کی عشروںسے مہمان نوازی کے باوجودطالبان کاحالیہ رویہ ناقابلِ فہم ہے بھارت جس نے ہر حملہ آور کا ساتھ دیا اورکابل کی کٹھ پتلی حکومتوں کی سرپرستی کی وہ آج طالبان کا بااعتماد اور قریبی دوست ہے مزیدیہ کہ اِس اعتماد و دوستی کومزید مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے طا لبان حکومت کوشاں ہے۔
روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو بھارت نے روس کاساتھ دیا امریکی اور نیٹو افواج مشترکہ طورپر حملہ آور ہوئیں تو بھی ہرممکن مددکی حامد کرزئی سے لیکر اشرف غنی جیسی کٹھ پتلیوں کو حقیقی قیادت کہتارہاجبکہ پاکستان نے ہمیشہ غیر ملکی افواج کی مخالفت کی جس کی پاداش میں ڈرون حملوں کا نشانہ بنتا رہا۔ تمام تر نقصانات کے باوجود پاکستان کااصولی موقف رہا کہ افغان عوام کو اپنی حکومت کے انتخاب کا حق دیاجائے غیر ملکی افواج کے انخلا کے دوران تعاون کی وجہ بھی یہ تھی کہ افغانستان کی آزادی وخود مختاری بحال ہولیکن آج جب افغان حکومتی منظر نامہ دیکھتے ہیں تو بھارت زیادہ قریب اورپاکستان دورہوتانظرآتاہے حالانکہ 2021 میںغیر ملکی افواج کے انخلا سے توقع تھی کہ پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ ختم ہوگا اور دونوں برادرممالک ترقی و خوشحالی کی طرف مشترکہ سفرشروع کریں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہو سکابلکہ آج بھی افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے مزید ستم ظریفی یہ کہ افغان حکومت پاکستان مخالف عناصر کی مہمان نواز اور اپنے اقتدار کو آمدن کا ذریعہ بنانے کی روش پرگامزن ہے۔
یہ تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسرائیل کے بعد امریکہ سے امداد لینے والا دنیاکا سب سے بڑا ملک افغانستان ہے یہ امداد سالانہ دوارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے قابلِ غور پہلو یہ کہ جس امریکہ کو ملک سے نکالنے کے لیے طالبان کی قیادت میں افغانوں نے طویل جدوجہد کی اور جانی و مالی نقصانات اُٹھائے اُسی امریکہ سے اُلفت کا رشتہ کیوں ہے نیز آج بھی کابل میں سی آئی اے کا محفوظ اور متحرک ٹھکانہ کیوں موجودہے؟ ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ طالبان سے ہمسایہ ممالک کے خلاف کام کرنے کے معاملات طے کرنے کے عوض ادائیگی جاری ہے اور یہ کہ خطے کے خلاف کام کرنے کے حوالے سے طالبان اور امریکہ ایک ہیں علاوہ ازیں حامدکرزئی اوراشرف غنی کی طرح طالبان قیادت بھی دولت حاصل کرنے کے چکرمیں ہے اور دولت کے لیے کاروباری، مشترکہ ثقافتی اقدار ،لسانی اور قریبی رشتے داریاں تو ایک طرف مذہبی رشتے تک قربان کرنے پرآمادہ ہے مگر دولت کی ہوس کے نتیجے میں افغانستان خطے میں دہشت گردی کا بڑا مرکز بن سکتاہے جس کے سدِباب کے لیے مشترکہ کوششیں ناگزیرہیں ۔
طالبان قیادت پاکستان کے تحفظات پربات کرنے کو تیار نہیں البتہ سکیورٹی کے حوالے سے بھارت کو لاحق خدشات دور کرنے کی تگ ودومیں ہے بھارت سے روابط بڑھانے کی طالبان کاوشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت خطے کی ایک بڑی معاشی طاقت ہے اوراُس کا اعتمادحاصل کرنے کے عوض فوائد نظرآتے ہیں فضائی و زمینی حملوں کے دوران امریکی اور نیٹو افواج افغانستان میں جوتباہی کرگئی ہیں اُس کی بحالی کے لیے امدادکی وصولی کے لیے طالبان کی نظریں بھارت پر ہیں دولت کے حصول کے لیے وہ پاکستان کی قربانیاں اور برسوں کے احسانات بھلانے پر بھی تیار ہیں بھارت کو بخوبی معلوم ہے کہ طالبان دولت حاصل کرنے کے لیے ہر رشتہ قربان کر سکتے ہیں اِس لیے وہ کرایہ پر خدمات حاصل کرناچاہتا ہے دولت کی ہوس اورکرایہ پر خدمات کے مطلب نے دونوں کو قریب کردیاہے بھارت کے سیکرٹری خارجہ وکرم مشری اور قائم مقام افغان وزیرِ خارجہ مولوی امیر خان متقی کی ملاقات میں دونوں ایک دوسرے کی ضروریات جاننے کے ساتھ مشترکہ مقاصد کاتعین کر چکے طالبان نے دوستی کا پیغام دیاتوبھارت نے افغانستان میں ترقیاتی سرگرمیوں میں شامل ہونے کی یقین دہانی کرادی صحت اور تعمیر نومیں مالی مددکا وعدہ کیا کرکٹ کے شعبے میں تعاون کو فروغ دینے کے ساتھ چاہ بہار بندرگاہ سے باہمی تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے پر دونوں کی رضامندی معنی خیزہے سفارتی حلقوں کے لیے حیران کُن پہلو یہ ہے کہ وہ افغانستان جس کے تمام ہمسائے اِس وجہ سے بے اطمینانی وبے چینی کا شکار ہےں کیونکہ غیرملکی افواج کے انخلا کے باوجودافغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکا نیزیہ ملک دہشت گردی کا مرکز بنتا جا رہا ہے اِن حالات میں بھارتی سرمایہ کاری کے وعدے و آمادگی سمجھ سے بالاتر ہیں۔
دہلی حکومت کو افغانوں کی سرشت کا پتہ ہے کہ یہ تمام رشتوں پر دولت کو مقدم رکھتے ہیںدولت جہاں سے اور جس بھاﺅ ملے حاصل کرناہی اُن کامقصدِ حیات ہے شاید اسی لیے ہر افغان حکومت کو دولت کی چکا چوندسے متاثر اور نرم کرلیتی ہے خراب گندم اور مُضر صحت کووڈویکسین سمیت دیگرادویات کی فراہمی کے بعد اب سردیوں کے کپڑے بھیجے جارہے ہیں طالبان سے سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود سرمایہ کاری کا عندیہ ظاہر کرتا ہے کہ خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کوئی بڑی ہلچل شروع ہونے والی ہے۔
امریکہ ہر صورت چین کومعاشی اور سیاسی حوالے سے غیرمستحکم کرنا چاہتا ہے بھارت کی بھی یہی خواہش ہے پاکستان جو چین کا قریبی اور بااعتماد ہمسایہ ہے ایرانی جھکاﺅ بھی چین کی طرف ہے اِس تناظرمیں امریکہ اور بھارت کی طالبان سے دلچسپی خالی ازعلت نہیں ہو سکتی اب یہ چین اور پاکستان کے شہ دماغوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حرکات کے مقاصد کو سمجھیں اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کی سازشوں کو ناکام بنائیں اِس کے لیے حالات زیادہ پیچیدہ نہیں خطے کے کئی ممالک کاباآسانی تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے پاکستان کی طرح ایران نے بھی غیر قانونی مقیم افغانوں کو نکالنے کا اعلان کر دیا ہے ایسٹ ترکستان موومنٹ کی سرگرمیاں چین کے لیے پریشان کُن ہےں جس کاٹھکانہ افغانستان ہے وسطی ایشیائی ریاستیں بھی طالبان سے مطمئن نہیں اگر امریکہ اور بھارت کے افغان طالبان سے تعاون کا پردہ چاک کیا جائے اور ٹی ٹی پی پرغیرمعمولی بھارتی نوازشات کے حوالے سے پاکستان دیگر ہمسایہ ممالک کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو نہ صرف خطہ غیر مستحکم ہونے سے بچ سکتاہے بلکہ طالبان کو کرایہ پر خدمات فراہم کرنے سے روکناممکن ہے طالبان کی سرگرمیاں تو پہلے ہی غیر دوستانہ ،مکارانہ اور مفادپرستانہ تھی یہ عالمی نوازشات اُنھیں کرایہ پر لے کر بارودبنا سکتی ہیں طالبان کے وزیرِدفاع ملا یعقوب کی بھارت میں قیام کے دوران تربیت کوئی رازنہیں ضرورت اِس امر کی ہے کہ اقتدارکو آمدن کا ذریعہ بنانے سے طالبان کو روکنے کے لیے پاکستان جامع حکمتِ عملی کے ساتھ ہمہ گیر کوششیں کرے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: افغان حکومت طالبان سے حوالے سے ہے بھارت کہ افغان کے ساتھ کرنے کے کے لیے

پڑھیں:

انسانیت کے نام پر

افغانستان کی خاتون صحافی فرشتہ سدید کا تعلق ’ کیسا ‘ صوبہ سے ہے، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ جب افغانستان میں حالات بہتر تھے تو وہ ایک ریڈیو بہار میں کام کرتی تھیں۔ جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا اور کابل میں ان کی حکومت قائم ہوگئی تو طالبان حکومت نے خواتین اور اقلیتوں کو نشانہ بنایا۔ طالبان کی شوریٰ نے فتویٰ دیا کہ خواتین بغیر محرم گھر سے نکل نہیں سکتیں ، خواتین کے لیے ملازمت کرنا مشکل بنا دیا گیا ، یوں فرشتہ سدید کے برے دن شروع ہوگئے۔

انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ وہ کسی طرح جان جوکھوں میں ڈال کر سرحد پار کر کے پاکستان میں داخل ہوگئیں۔ یہاں فرشتہ اور ان کے اہلِ خانہ نے امریکا اور یورپی ممالک میں سیاسی پناہ لینے کے لیے عرض داشتیں بھجوانی شروع کردیں۔ فرانس کی حکومت نے عرض داشت پر مثبت کارروائی پر اتفاق کیا اور اس بارے میں باقاعدہ دفتری کارروائی شروع ہوگئی۔ چند برس کے بعد حکومت پاکستان نے غیرقانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو نکالنے کی پالیسی اختیارکی۔

گزشتہ سال سیکڑوں افغان پناہ گزینوں کو ان کے وطن افغانستان بھیج دیا گیا۔ پھر پاکستان سے واپس وطن جانے کی تاریخ میں توسیع کردی گئی اور جب گزشتہ ماہ رضاکارانہ واپسی کے لیے بڑھائی گئی یہ مدت پوری ہوئی تو اسلام آباد، پنجاب اور سندھ پولیس نے ان پناہ گزینوں کو ٹرانزٹ کیمپوں میں منتقل کرنے کے لیے آپریشن شروع گئے۔ اسلام آباد میں مقیم پناہ گزینوں کی لسٹ میں شامل افغان صحافی بھی اس کی لپیٹ میں آئے۔ فرشتہ بھی  تین دن تک ٹرانزٹ کیمپ میں قیام پذیر رہی۔ البتہ صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے احتجاج پر فرشتہ کو کمیپ سے نکلنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

 افغانستان میں جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تو شروع شروع میں تو ریڈیو اور ٹیلی وژن اسٹیشن میں خواتین کو کام کرنے کا موقع دیا گیا۔ افغانستان کی عبوری حکومت کے ایک وزیر نے ایک خاتون اینکر پرسن کو انٹرویو بھی دیا تھا۔ پھر شاید قندھار گروپ کے رجعت پسندوں نے کابل میں فیصلہ سازی پر بالادستی حاصل کر لی اور ایک دن یہ اعلان ہوا کہ تمام ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن بند کردیے گئے ہیں۔

افغانستان کی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے صحافی جن میں مرد اور خواتین شامل تھے، حالات سے دلبرداشتہ ہوکر سرحد عبور کر کے اسلام آباد پہنچ گئے۔ ان پناہ گزینوں نے خود کو اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے دفتر میں رجسٹر کرایا اور امریکا اور یورپی ممالک میں سیاسی پناہ کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ امریکا میںجب تک ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن وائٹ ہاؤس میں براجمان رہے، تب تک پاکستان میں مقیم پناہ گزین افغان صحافیوں، غیر ملکی این جی اوز میں کام کرنے والے افغان شہریوں اور وہ لو گ جو امریکی اداروں میں کام کرتے تھے، انھیں امریکا کا ویزا دینے کی یقین دہانی کرائی گئی مگر صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد اب ان سب کا مستقبل مخدوش ہوگیا ہے۔

ان میں سے کئی وہ ہیں جو امریکا اور برطانیہ کے اداروں میں کام کرتے تھے۔ امریکا کی اس وقت کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اس کیٹیگری میں شامل صحافیوں اور دیگر افراد کو امریکا میں آنے کے لیے ویزے دیے جائیں گے ۔ خاصے افراد امریکا چلے بھی گئے مگر اکثریت ابھی تک امریکا اور یورپ جانے کی منتظر ہے، لیکن اب صدر ٹرمپ کی تبدیل شدہ پالیسی نے ان کے لیے مشکلات کھڑی کردی ہیں ۔ ایسے افغان پناہ گزین جن میں صحافی بھی شامل ہیں، تاحال اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ گزشتہ مارچ میں افغان پناہ گزین سینئر صحافی محمود کونجی اور ان کے صاحبزادے کو واپس بھیجنے کے لیے پکڑا گیا تھا۔ محمود کونجی نے Onlineویزہ کے لیے درخواست دی ہوئی ہے۔

ایک غیر سرکاری تنظیم فریڈم نیٹ ورک کے روحِ رواں اقبال خٹک کی قیادت میں افغان جرنلسٹس سالیڈیرٹی نیٹ ورک کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اقبال خٹک کی تحقیق کے مطابق 300افغان پناہ گزین صحافیوں اور ان کے اہل خانہ یورپی ممالک کے ویزے کے منتظر ہیں، ان کے تمام کاغذات متعلقہ سفارت خانوں میں جمع ہیں مگر ویزہ کا عمل طویل ہونے کی بناء پر وہ تاحال اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ اب وہ بھی مشکلات کا شکار ہیں ۔ بی بی سی نے افغانستان میں خواتین کے حالتِ زار کے بارے میں رپورٹیں تیار کی ہیں۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جو خواتین تعلیم حاصل کرنے میں زیادہ دلچسپی کا اظہارکرتی ہیں انھیں مدارس میں بھیجا جا رہا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں ایک اور تعلیمی سال لڑکیوں کی تعلیمی اداروں میں موجودگی کے بغیر ختم ہوگیا۔

ایک افغان روشن خیال شخص قاری حامد محمودی نے صحافیوں کو بتایا کہ جب اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے دروازے لڑکیوں کے لیے بند ہوتے تھے تو ان کی بیٹی ذمنہ کی ذہنی اور جسمانی حالت خراب ہوگئی۔ انھوں نے سوچا کہ ایک مدرسہ قائم کیا جائے جس میں لڑکیوں کو دینی تعلیم کے ساتھ بارہویں جماعت تک درسی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ اسی طرح محمودی نے ابتدائی طبی امداد اور دیگر کورسز شروع کرائے، مگر مجموعی طور پر افغانستان میں لڑکیوں کے لیے دینی تعلیم کے مدارس میں بھی ماحول افسردہ ہے۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈز یونیسیف کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی خواتین مخالف پالیسی کی بناء پرکئی لاکھ بچیوں کا مستقبل مخدوش ہوگیا ہے۔

افغانستان کے قونصل جنرل کا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں حالات معمول پر آچکے ہیں، اس بناء پر افغان باشندوں کو اپنے وطن واپس جانا چاہیے مگر وہ خواتین کی تعلیم اور روزگار کے حق کے حوالے سے کچھ کہنے کو تیار نہیں ہیں۔ افغانستان میں طالبات کو اسکول،کالج اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے اور روزگار کا کوئی حق نہیں ہے۔ ایک طالبہ نے یونیسیف کی ٹیم کو بتایا تھا کہ وہ ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھتی تھیں مگر اب طالبان کے مدارس میں جانا پڑگیا ہے جہاں صرف مخصوص کتابوں سے تعلیم دی جاتی ہے اور سیاسی بحث پر پابندی عائد کی گئی ہے، یوں ان بچیوں میں ڈپریشن کے علاوہ کچھ نہیں بچ پارہا۔

حکومت پاکستان نے مالیاتی بحران،غیر ملکی امداد بند ہونے اور سیکیورٹی کی وجوہات کی بناء پر افغان مہاجرین کو ان کے اپنے وطن بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کا سندھ اور بلوچستان میں بھی خیرمقدم کیا گیا ہے کیونکہ افغان مہاجرین کا بیشتر بوجھ کراچی، حیدرآباد اورکوئٹہ پر ہے۔ البتہ ایسے افغان پناہ گزین جو یورپی ممالک کے ویز ے آنے کے منتظر ہیں ، انھیں انسانی بنیادوں پر جب تک وہ یورپ، امریکا اور کینیڈا وغیرہ نہ چلے جائیں، پاکستان میں قیام کی اجازت ہونی چاہیے۔ پاکستانی حکومت کو انسانیت کی بنیاد پرکچھ فیصلے کرنے چاہئیں۔

متعلقہ مضامین

  • مقبوضہ کشمیر میں چھوٹا افغانستان
  • شریف خاندان کے اقتدار میں ملکی سالمیت خطرے میں پڑجاتی ہے ، پی ٹی آئی رہنما
  • پاک افغان تعلقات کا نیا دور
  • پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
  • افغان طالبان کو اب ماسکو میں اپنے سفیر کی تعیناتی کی اجازت
  • کینالوں کے معاملے پر وزیر اعظم بے بس ہیں تو اقتدار چھوڑ دیں، پیپلزپارٹی
  • نئی نہروں کے معاملے پر  وزیر اعظم بے بس ہیں تو اقتدار چھوڑ دیں، ندیم افضل چن
  • کیا پاک افغان تعلقات میں تجارت کے ذریعے بہتری آئے گی؟
  • شہر اقتدار میں منشیات فروشوں کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن، درجنوں گرفتاریاں
  • انسانیت کے نام پر