’بھارت کی کوئی بھی ٹیکنالوجی پاکستان کے میزائلز کو ناکام نہیں بنا سکتی‘
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
بھارت نے چند ہفتے قبل ہائپر سونک میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ بی بی سی کی خبر کے مطابق یہ میزائل آواز سے 5 گناہ زیادہ تیز رفتار سے پرواز کرتا ہے۔ کیونکہ اس میزائل کی ٹیکنالوجی مخلتف ہے۔ دوسری جانب پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس بھی انڈیا کے میزائلز کے مقابلے میں بہترین اور ایڈوانس ٹیکنالوجی کے میزائل ہیں۔ یہ صرف پاکستان کا دعوی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی بھارت کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔
بھارت جانتا ہے کہ وہ پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی کو ناکام نہیں بنا سکتا۔ پاکستان دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی سے لیس میزائل رکھتا ہے۔
پاکستان کے پاس کونسے میزائلز ہیں؟ کیا انڈیا کے ہائپر سونک میزائل کی ٹیکنالوجی پاکستان کے میزائل کی نسبت زیادہ ایڈوانس ہے؟ اور کیا یہ میزائل پاکستان کے لیے تھریٹ کا عنصر پیدا کر سکتا ہے؟
اس حوالے سے جاننے کے لیے وی نیوز نے چند دفاعی ماہرین سے بات کی اور جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی انڈیا کی میزائل ٹیکنالوجی کے مقابلے میں کتنی بہتر ہے؟
دفاعی امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہر سید محمد علی نے وی نیوز کو بتایا کہ انڈیا کا جو میزائل نظام ہے وہ 50 سال پرانا ہے، جبکہ پاکستان کا یہ نظام 1980 کے آخر میں شروع ہوا۔ اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارت کا یہ نظام پاکستان کی نسبت تقریباً 18 سال پرانا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کے مقابلے میں اس پر زیادہ وسائل، زیادہ افرادی قوت اور زیادہ وقت صرف کیا ہے۔
جو ادارہ ( ڈی آر ڈی او) بھارت میں میزائل بنا رہا ہے، صرف اس ادارے کی کم از کم 50 سے زیادہ لیبارٹیریز بھارت کے طول و عرض میں موجود ہیں۔ مطلب کتنا وسیع اور جامع پروگرام ہے اور بھارت اس پر کتنے وسائل لگا رہا ہے۔
پاکستان کے میزائل بنانے کے مقاصد عالمی سطح پر ممالک کو نشانہ بنانا نہیں ہے۔ جبکہ بھارت کا جو پروگرام ہے اس میں آج بھی 13 سے زیادہ ایسے میزائلز پر بیک وقت کام ہو رہا ہے جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
بھارت کے پروگرامز میں پرتھوی، دنموش، سگاریکا، براہموس اور پھر اگنی سیریز کے 5 سے 6 میزائلز ہیں۔ ان کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بھارت ایک بہت ہی جامع اور وسیع پروگرام پر کار فرما ہے۔
پاکستان کے میزائل پروگرام کو دیکھا جائے تو اس کے ارتقا کو 4 ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور پاکستان کے میزائل کے دور کا جو تھا وہ 1980 کی دہائی کے آخر میں شروع ہوا تھا۔ اس میں پہلے چند میزائل بہت کم فاصلے پر وار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ وہ مائع ایندھن پر چلتے تھے۔ اور یہ کافی متروک قسم کی ٹیکنالوجی تھی، لیکن اس کے بعد دوسرا دور 1998 میں شروع ہوا تھا۔ جو غوری 1 تھا۔ جس میں پاکستان نے پہلا 1300 کلومیٹر کے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ مطلب یہ کہ پاکستان کی پہلی میزائل جنریشن کا سب سے زیادہ دور تک مارک کرنے والا پہلا میزائل تھا اور یہ بھی مائع ایندھن سے چلتے تھے۔
مائع اور ٹھوس ایندھن میں کیا فرق ہے؟مائع اور ٹھوس ایندھن میں کیا فرق ہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ میزائل جو مائع ایندھن پر چلتے ہیں۔ اس کا ایندھن ہر وقت تیار کر کے نہیں رکھا جاتا۔ بلکہ لانچ کرنے سے آدھا گھنٹہ قبل تیار کر کے لوڈ کیا جاتا ہے، جبکہ ٹھوس ایندھن کے میزائل کو فوری طور پر فائر کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان نے 1998 کے بعد دوسری جنریشن کے میزائل بنانے تیار کیے۔ جو شاہین سیریز کے میزائل ہیں۔ جن کی 4 اقسام تھیں۔ شاہین ون کی رینج ساڑھے 7 سو کلو میٹر ہے، شاہین ون اے کی 900 کلو میٹر ہے۔ شاہین 3 کی 2750 کلومیٹر ہے۔ پہلی اور اس جنریشن کے میزائل کی ٹیکنالوجی میں فرق یہ ہے کہ یہ ٹھوس ایندھن سے چلنے والے میزائل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہر وقت لانچ کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہ زیادہ ایڈوانس اور ایفیشنٹ ہیں۔
مائع ایندھن سے چلنے والے میزائل کا ایک مسئلہ یہ تھا کہ لانچ سے قبل ہی ان کو تباہ کر دیا جاتا تھا۔ مثلاً عراق کے پاس ایسے سینکڑوں میزائلز تھے جیسے ہی وہ اس کی فیولنگ شروع کرتے تھے۔ امریکی سیٹلائٹ اس کو پک کر لیتی تھیں کہ ان کی فیولنگ ہو رہی ہے۔ جس کے بعد امریکی لڑاکا تیارے فوری طور پر ان کو لانچ سے قبل ہی تباہ کر دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ دیگر طاقتوں نے ٹھوس ایندھن سے چلنے والے میزائل بنائے۔ کیونکہ وہ فوری طور پر لانچ کیے جا سکتے ہیں اور دشمن کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ اسے مار گرائے۔ ہمارا میزائل بنانے کا واحد ہدف یہ ہے کہ ہم بھارت کو کسی بھی قسم کی جارحیت سے باز رکھیں۔ ہمارا مقصد دنیا کے کسی بھی ممالک پر حملے کرنا نہیں ہے۔ اور نہ ہی ہم اپنے وسائل اس پر ضائع کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا اس سیریز کے 2750 کلومیٹر تک کے میزائل کو بنانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم بھارت کی سرحدی حدود کے کسی بھی حصہ کو ہدف بنا سکیں۔
پاکستان نے 2005 میں تیسری قسم کے میزائل بنانا شروع کیے۔ جو کہ کروز میزائلز ہیں۔ اور ہم نے 12 اگست 2005 کو بابر کروز میزائل کا پہلا کامیاب تجربہ کیا۔
کروز اور بیلیسٹک میزائل میں کیا فرق ہے؟
کروز اور بیلیسٹک میزائل میں کیا فرق ہے؟ اس پر دفاعی امور کے ماہر سی محمد علی کا کہنا تھا کہ بیلیسٹک میزائل کی 2 اقسام ہیں۔ ایک مائع ایندھن سے چلنے والے دوسرے ٹھوس ایندھن سے چلنے والے میزائل۔ بیلیسٹک میزائل کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ اس کی رفتار آواز کی رفتار سے 5 گناہ سے لے کر 20 گناہ تک ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی راکٹ موٹر بہت تیز ہوتی ہے۔ ان میزائلز کا رینج سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ 70 کلو میٹر سے 12 ہزار کلومیٹر تک بھی ہو سکتا ہے۔ جبکہ کروز میزائل زمین کی سطح سے بہت قریب پرواز کرتا ہے۔
ان میزائلز میں بابر اور رعد شامل ہیں۔ یہ آواز کی رفتار سے کم پر پرواز کرتے ہیں۔ یہ چھوٹا میزائل ہے۔ لیکن یہ بھی کیمیائی، ایٹمی اور روایتی ہتھار لے کر جا سکتا ہے۔ اس کو ہوائی جہاز، زمین اور سمندر کی تہہ کے نیچے آبدوزوں اور بحری جہازوں سے بھی لانچ کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ بیلیسٹک میزائلز کو زمین یا نیوکلئیر سب میرین سے لانچ کیا جا سکتا ہے۔ کروز میزائل پن پوائنٹ ایکوریٹ ہوتا ہے۔ مطلب اگر آپ گاڑی کو نشانہ بنانا چاہتے ہین تو آپ نے گاڑی کے کس شیشے کو نشانہ بنانا ہے۔ ایک ہزار کلو میٹر کے فاصلے سے بھی بنا سکتے ہیں۔
پاکستان کا کونسا میزائل دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی سے لیس ہے؟
دفاعی امور کے ماہر سید محمد علی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ پاکستان کا وہ میزائل جو دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ وہ ابابیل ہے۔جس کی رینج تو 2200 کلومیٹر ہے۔ لیکن ابابیل میں جو ٹیکنالوجی نصب ہے اسے MRV کہتے ہیں۔ بیلسٹک اور ابابیل میں یہ فرق ہے کہ ابابیل ری انٹری وہیکل ہے، وہ ایک وقت میں کئی وار ہیڈز رکھتا ہے۔ اور ہر ایک وار ہیڈ کی سمت اور رفتار مختلف ہوتی ہے۔
پاکستان کی اس ٹیکنالوجی کے حوالے سے نہ صرف بھارت بلکہ مغربی ممالک بھی حیران ہیں کہ پاکستان نے اتنے کم وقت میں، اتنے کم وسائل سے کیسے یہ ٹیکنالوجی بنا لی ہے۔
کیا ابابیل ہائپر سونک میزائل کو کاونٹر کر سکتا ہے؟
اس پر ان کا کہنا تھا کہ ابابیل کاؤنٹر نہیں کر سکتا۔ نہ ہی اس کا مقصد کاؤنٹر کرنا ہے۔ جو میزائلز ہوتے ہیں ان کے مقابلے میں دفاع نہیں بلکہ جواب دیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت کے پاس ایسے میزائل موجود ہیں کہ وہ پاکستان پر حملہ کر سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے پاس بھی ایسے میزائلز موجود ہیں جو بھارت کی کسی بھی جگہ پر حملہ کر سکتے ہیں۔ تو بنیادی طور پر ہم نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ بھارت کی جو فوجی اور سیاسی قیادت ہے وہ اس حقیقت سے با خبر رہےکہ اگر انہوں نے پاکستان پر حملہ یا جارحیت کی تو پاکستان بھی جواب میں بھارت کو کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتا ہے۔ تو وہ پاکستان کو مجبور نہ کریں۔ ہم نے اپنا دفاع نہیں کرنا اور نہ ہی یہ دفاعی حکمت عملی ہے۔
2019 میں بھارت نے بالا کوٹ پر ناکام فضائی حملے کرنے کی کوشش کی تھی۔ جس کے بعد پاکستان نے جواب میں 2 تیارے گرا دیے تھے۔ اور 1 ہیلی کاپٹر ان کا بوکھلاہٹ میں گر گیا تھا اور پاکستان نے ان کے پائلٹ ابھینندن کو بھی گرفتار کر لیا تھا۔ اس وقت چند گھنٹوں کے بعد ہی بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر نے پاکستان میں اعلیٰ ترین سطح پر فون کر کے ڈی جی آئی ایس آئی کو یہ دھمکی دی تھی کہ آپ فوری طور پر ابھی نندن کو ہمارے حوالے کر دیں ورنہ ہم آپ کے 6 سے 7 شہروں پر میزائل حملہ کر دیں گے۔ جس پر جنرل عاصم منیر کی جانب سے یہ جواب دیا گیا تھا کہ اگر بھارت نے پاکستان کے 6 سے 7 شہروں کو نشانہ بنایا تو بھارت کم از کم اس سے 3 گناہ بڑا نقصان اٹھانے کے لیے تیار رہے۔ جس کے نتیجے میں بھارت نے یہ ارادہ ترک کر دیا تھا، لیکن پھر پاکستان نے امن اور ذمہ دار ایٹمی طاقت کا ثبوت دیتے ہوئے ابھینندن کو باعزت طریقے سے واپس کر دیا۔ یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ بھارت کی اعلیٰ قیادت پاکستان کی صلاحیت سے بخوبی واقف ہے۔ اس لیے وہ امریکا اور عالمی برادری کے دماغوں میں غلط فہیمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کہ مستند میزائل ٹیکنالوجی کے ماہرین پاکستان کی صلاحیت سے واقف ہیں اور اسے تسلیم کرتے ہیں۔ اس خطے میں امن کو برقرار رکھنا ہے۔ ہم دنیا کے کسی ملک میں جارحیت نہیں کرنا چاہتے۔
کیا پاکستان جواب میں ہائپر سونک جیسا میزائل بنائے گا؟
اس سوال پر سید محمد علی کا کہنا تھا کہ تحقیق کا پہلو ہر وقت جاری رہتا ہے اور کوئی بھی دفائی اعتبار کی ٹیکنالوجی حتمی نہیں ہوتی۔ اور اپنے وسائل اور صلاحیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے سائنسدان دشمن کے ہداف پر کڑی نظر رکھتے ہیں اور اس اعتبار سے یقینی طور پر پاکستان نے بہت کم وقت کے عرصے میں کم و سائل سے جس ٹیکنالوجی کے میزائل بنائے ہیں وہ بھارت سے زیادہ بہتر، مؤثر اور ایڈوانس ہے۔ بھارت کی ایسی کوئی ٹیکنالوجی نہیں ہے جو پاکستان کے میزائل کو ناکام بنا سکے۔
سابق دفاعی سیکریٹری نعیم لودھی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس جو کروز میزائل ہے اس میں بھی اپنے ہدف تک پہنچنے کی صلاحیت ہے۔ اور پاکستان کی جانب سے اس میزائل پر جواب ضرور آئے گا۔ پاکستان ضرور اس کا توڑ نکال لے گا اور کیا پتا پاکستان کی جانب سے اس طرح کی کوئی ٹیکنالوجی تیار بھی کر لی گئی ہو۔ لیکن بھارت کی طرح شو نہ کروائی گئی ہو۔
کیا پاکستان کو ہائپر سونک میزائل سے تھریٹ ہے؟
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر حارث نواز نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کے ہائپر سونک میزائل کی رفتار بہت زیادہ ہے اور پاکستان کو اس سے 100 فیصد تک تھریٹ ہے۔ اور واقعی یہ ٹیکنالوجی دنیا کے چند ممالک کے پاس ہی ہے۔ جس میں ایران اور اسرائیل بھی شامل ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر انڈیا کی ٹیکنالوجی اتنی ماڈرن نہیں ہے۔ اکثر جو بھی یہ ٹرائل کرتے ہیں وہ وہیں گر کر تباہ ہو جاتے ہیں۔ بلکہ ان کے جو لوگ ٹیسٹ کر رہے ہوتے ہیں ۔ وہ بھی بھاگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے پاس جو ٹیکنالوجی ہے وہ انڈیا اسپیسیفک ہے کیونکہ ہمیں صرف انڈیا کا تھریٹ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو آج تک انڈیا قبول نہیں کر پایا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ٹیکنالوجی انڈیا کی نسبت بہت زیادہ ایڈوانس اور ماڈرن ہے۔ اور مغربی ممالک اس بات کو مانتے بھی ہیں۔ ہمارا کنٹرول سسٹم آج تک لیک نہیں ہوا۔ جبکہ انڈیا کا جو انریچ یورینیم ہے وہ کئی بار چوری ہوتے ہوئے پکڑا گیا ہے سری لنکا، نیپال اور کبھی انڈیا میں چوری ہوا۔
سابق ڈیفنس سیکریٹری نعیم لودھی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ہائپر سونک میزائل، میزائل کی ایک مختلف قسم ہے۔ جو کہ بہت ایڈوانس ہے۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ عام ریڈار اس کو اپنے ٹارگٹ میں نہیں لا سکتے۔ مطلب یہ کہ اب تک جتنی اینٹی میزائل ٹیکنالوجیز ہیں، حتی کہ امریکا کے پاس بھی ہائپر سونک میزائل کو روکنے کا خاطر خواہ انتظام موجود نہیں ہے۔ پاکستان کے لیے یہ میزائل تھریٹ تو ہے کہ انڈیا نے اسے بنا لیا ہے۔ لیکن جو میزائل ٹیکنالوجی پاکستان کے پاس موجود ہے میرا نہیں خیال کہ پاکستان کو دیر ہائپر سونک میزائل بنانے میں لگے گی۔ بلکہ انڈیا نے غلطی کی ہے یہ میزائل بنا کر، اس لیے کہ پاکستان جلد ہی اس کا توڑ نکال لے گا۔ اور کیا پتا ہم خود ہائپر سونک ہی بنا لیں، لیکن بھارت کو یہ بنانے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اور پوری دنیا یہ مانتی ہے کہ پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی بھارت کے مقابلے میں اچھی ہے۔ پاکستان کی جو بھی میزائل ٹیکنالوجی ہے وہ کسی اور ملک کے لیے نہیں بلکہ صرف انڈیا کے لیے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستان سے جو تھریٹ کی بات کرتا ہے وہ بس پاکستان کو دبانے کے لیے طریقہ تلاش کیا گیا ہے، ورنہ انہیں تو کوئی تھریٹ نہیں ہے۔ ہندوستان کے علاوہ پاکستانی میزائل سے کسی کو تھریٹ نہیں ہے۔
امریکا کی جانب سے پاکستانی کمپنیوں پر پابندیوں کی وجہ کیا ہے؟
بریگیڈیئر حارث نواز کا اس بارے میں کہنا تھا کہ انڈیا بڑا ملک ہے اور مغرب ممالک کا اسٹرٹیجک پارٹنر بھی ہے۔ اس لیے انڈیا کی خرابیوں کو دبا جاتے ہیں۔ لیکن اگر پاکستان کا کوئی مسئلہ ہو تو اس کو زیادہ بڑھایا جاتا ہے۔ پاکستان سے تھریٹ صرف انڈیا اور اسرائیل کو ہے۔ چونکہ اسرائیل کو تھریٹ ہے اس لیے امریکا پاکستان پر پابندیاں لگاتا ہے تاکہ پاکستان اپنی میزائل ٹیکنالوجی اسرائیل کے لیے استعمال نہ کرے۔ حالانکہ اسرائیل پاکستان کی رینج میں ہے۔ لیکن پاکستان کا اسرائیل کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہماری جتنی بھی میزائل ٹیکنالوجی اور اسٹریٹیجک ایسٹ ہیں وہ صرف اور صرف انڈیا کے لیے ہے۔ اور انڈیا کا ایک ایک انچ پاکستان کی رینج میں ہے۔ پاکستان کی رینج 4 ہزار کلو میٹر تک ہے۔ جبکہ انڈیا کی ایڈاوانس ٹیکنالوجی بھی 9 سے 10 ہزار کلو میٹر تک ہے۔ انڈیا کی ٹیکنالوجی بھی ایڈوانس ہو جائے، پھر بھی پاکستان کی ٹیکنالوجی اس پر بھاری ہے۔ پاکستان کا آج تک کوئی میزائل ٹیسٹ غلط نہیں گیا۔ پاکستان کے پاس جو ٹیکنالوجی ہے اس کے زریعے پاکستان ہوائی، زمینی اور سمندری تینوں طرح سے اٹیک کر سکتا ہے۔
سابق ڈیفنس سیکریٹری نعیم لودھی کہتے ہیں کہ امریکا کی جانب سے پاکستان پر پابندیوں کی وجہ صرف یہ ہے کہ پاکستان دنیا میں کئی ملکوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ پاکستان کو پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ خوش ہونا چاہیے کہ پاکستان کے اندر ایسی اہلیت موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں:دوسروں کے کہنے پر پاکستانی میزائل ٹیکنالوجی پر خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے، دفتر خارجہ
سید محمد علی کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے پاکستانی کمپنیوں پر جو پابندیاں لگائی جاتی ہیں اس کی وجہ چین ہے جو امریکا کا ہدف ہے اور امریکا اسے تنہا اور کمزور کرنا چاہتا ہے۔ کیونکہ امریکا سمجھتا ہے کہ عالمی سطح پر اپنی بالا دستی قائم رکھنے میں چین بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لیے امریکا بھارت کو اس میں اپنا بڑا اتحادی مانتا ہے۔ اس لیے امریکا بھارت کو روایتی، میزائل اور دیگر ٹیکنالوجیز سے لیس کرنا چاہتا ہے۔ امریکا کی پاکستان پر پابندیوں سے پاکستان کے سفارتی تعلقات پر تو اثر پڑ سکتا ہے، لیکن پاکستان کو میزائل بنانے میں کسی قسم کی دقت نہیں ہے کیونکہ پاکستان کو میزائل بنانے کے لیے امریکا سے کچھ نہیں لینا پڑتا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ہائپر سونک میزائل پاکستان کے میزائل ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس میں کیا فرق ہے ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں کہ پاکستان کی سید محمد علی مائع ایندھن محمد علی کا فوری طور پر لیے امریکا نے پاکستان سے پاکستان پاکستان نے پاکستان کا پاکستان کو وہ پاکستان پاکستان پر کی جانب سے میزائل کا میزائل کو یہ میزائل میزائل کی امریکا کی کی صلاحیت حوالے سے ہزار کلو بھارت کے کو نشانہ سے زیادہ بھارت کو بھارت کی سکتے ہیں کی رفتار بھارت نے کسی بھی نہیں کر میٹر ہے کر سکتا مطلب یہ نہیں ہے کی رینج شروع ہو کے بعد اس بات اس لیے کے لیے ہے اور سے لیس کی وجہ اور اس
پڑھیں:
سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز
جنگل کی طرح ’سماجی غول‘ بنانا
رضوان طاہر مبین
ایک ’غول‘ ضروری ہے، جی ہاں بہت ضروری ہے صاحب۔۔۔!
ہمارے آج کے سماج کی ایک تلخ حقیقت ایسی ہے کہ آپ کے ساتھ آپ کے کچھ نہ کچھ ’ہم نوا‘ ہونا بہت ضروری ہیں، ورنہ آپ بُری طرح تنہا کردیے جاتے ہیں، جیسے کسی جنگل میں اکیلے جانور کو درندے بھنبھوڑ دیتے ہیں، اس لیے وہ گروہ کی شکل میں رہتے ہیں، بالکل ایسے ہی گروہ کے بغیر اس سماج کے ’طاقت وَر‘ آپ کو بھی بھنبھوڑ ڈالیں گے اور کچھ نہیں تو کسی موضوع پر اختلاف رائے یا اپنی آزادانہ رائے رکھنے کی پاداش میں یہی نام نہاد پڑھے لکھے اور ’’دانش وَر‘‘ آپ کو کچا نہ بھی چبا ڈالیں، تو پکا پکا کر ضرور نگل جائیں گے!
اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ ’غول‘ کیسا ہو۔۔۔؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ چوں کہ آپ اشرف المخلوقات کہلاتے ہیں یا یوں کہیے کہ سمجھے جاتے ہیں، اس لیے اِسے آپ پیار سے یا مصلحت سے ’غول‘ کبھی نہیں کہیں گے، بلکہ ’ہم خیال‘ کہیں گے، ہم پیالہ بتائیں گے یا پھر کوئی ’لابی‘ کہلائیں گے۔
اب یہ ’لابی‘ کام کیا کرتی ہے۔۔۔؟
یہ بڑا دل چسپ سوال ہے، جناب، یہی تو پھر سارے کام کرتی ہے، اور بعضے وقت جب یہ کام کرتی ہے، تو کبھی کبھی تو آپ کو کچھ کرنے کی ہی ضرورت نہیں رہتی، سمجھ رہے ہیں ناں۔۔۔
اور اگر ایسا نہ بھی ہو تب بھی کوئی آپ پر ٹیڑھی نگاہ سے دیکھے، کسی بھی جگہ کوئی کٹھنائی ہو، زندگی میں خدانخواستہ کوئی اچھا یا برا، صحیح یا غلط، آڑھا یا ترچھا کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو، آپ کا یہ ’غول‘ اس نظریے کے تحت آپ کے ’دفاع‘ کے لیے سینہ سپر ہو جائے گا کہ ’’صحیح ہے یا غلط ہے، یہ اہم نہیں، آدمی ہمارا ہے بس یہی اہم ہے۔۔۔!!‘‘
اپنی ’لابی‘ بنانے کے لیے آپ کو کرنا کیا ہوگا۔۔۔؟
’غول‘ بنانے کے لیے سب سے پہلے ’اتحاد‘ بہت ضروری ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اتحاد میں کتنی ’’برکت‘‘ ہوتی ہے، یہی برکت آپ کو یہاں اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی۔ آپ کو اس ’اتحاد‘ کے واسطے اپنی ’لابی‘ کی ہاں میں ہاں اور نہ میں نہ ملانا ہوگا۔ چاہے سورج آپ کے سر پر آگ برسا رہا ہو، لیکن اگر آپ کے ’جَتھے‘ نے یہ طے کیا ہے کہ اس وقت تاریک آسمان پر چاند چمک رہا ہے اور جھینگر جھنگار رہا ہے، تو آپ کو بہر صورت یہی راگ الاپنا ہوگا کہ چاند کتنا روشن ہے اور اس وقت جھینگر کی آوازوں کے کیا زیر و بم ہیں۔
اس کے ساتھ ہی حسب ضرورت ’واہ واہ‘ کے ڈونگرے اور مخالفانہ دلائل پر منطقی و غیر منطقی ہر دو طرح کے بھرپور تمسخرانہ انداز سے بھی گریز نہیں کرنا ہوگا، الغرض یہ جان لیجیے کہ آپ کے گروہ کے ’مائی باپوں‘ نے جو کہہ دیا وہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا، یہ بات کبھی فراموش نہیں کیجیے گا۔۔۔! اور آپ کی اپنی رائے/ نقطہ نظر/ اختلاف اور آپ کے اپنے ذاتی یا آزادانہ موقف ٹائپ کی کسی چیز کی اب کوئی گنجائش نہیں ہوگی، سچ صرف اور صرف وہی ہوگا جو آپ کے اِس ’’غول‘‘ نے کہہ دیا ہے، بات وہی اونچی ہوگی جو آپ کے ’’لَمڈوں‘‘ نے نعرۂ مستانہ بنا کر بلند کردی ہے۔۔۔ کوئی سچ کی تلاش نہیں ہوگی، عقل وغیرہ جیسی کسی چیز کا کوئی استعمال نہیں ہوگا۔
بعد میں یہ ساری ’خرمستی‘ آپ کو بھی یہ ’سہولت‘ فراہم کرے گی کہ آپ رات بے رات اور وقت بے وقت کچھ فرمائش بھی کر سکتے ہیں۔۔۔ آپ کی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے سے لے کر آپ کی روزی روٹی، دکھ بیماری، کاروبار ملازمت، ترقی اور ہمہ قسم کے مفادات سے لے کر سماج کے بدمعاشوں اور ’غیر بدمعاشوں‘ کے سارے کے سارے مسائل اور وسائل اب آپ کی فکر بالکل بھی نہیں ہوگی، بلکہ جیسے آپ نے ہر بار ان کی ’ہاہاکار‘ میں حصہ ڈالا ہوگا، ایسے ہی صحیح یا غلط سے قطعی طور پر بے پروا ہو کر یہ بھی آپ کے وقت پڑنے پر جائز وناجائز ہر ’پھڈے‘ میں آپ کی پشت پر بلکہ آپ سے بھی آگے صف اول میں کھڑے ہوں گے اور آپ کو غول پسند معاشرے میں وہ سکون فراہم کریں گے کہ بس آپ سوچ ہی سکتے ہیں!
اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ گروہ یا ’لابی‘ کیسی ہو۔۔۔؟ یا یہ غول بنائے کیوں کر بنائے جا سکتے ہیں۔۔۔؟
اس کے لیے بے آپ اپنی ذاتی وخاندانی مماثلتیں ’کام میں‘ لے سکتے ہیں، جیسے:
آپ کون سی زبان بولتے ہیں۔۔۔؟
کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟
ملک کے کس صوبے کے رکھوالے اور کس علاقے کے نام لیوا ہیں۔۔۔؟
آپ کس نسل، ذات اور برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟
اتفاق سے آپ کے شجرے میں کوئی خاص عنصر یا شخصیت موجود ہے؟ تو آپ (موقعے کے لحاظ سے) اس کا عَلم بھی بلند کر سکتے ہیں۔
یہی نہیں آپ کا مذہب اور آپ کے مسلک اور عقیدے کے ساتھ ساتھ ’غول‘ بننے کی یہ سہولت بہت سی سیاسی، مذہبی اور تفرقہ باز جماعتیں بھی بہت خوبی سے فراہم کرتی ہیں، اب تو اس کے ساتھ ساتھ ڈھیر ساری ’غیر سرکاری تنظیمیں‘ بھی دل وجان سے آپ کے لیے ’حاضر‘ ہیں، اور اس کام کے باقاعدہ ’معاوضے‘ سالانہ انعامات اور بین الاقوامی اکرامات کی صورت میں آپ کو ہاتھ کے ہاتھ مطمئن بھی کرتی رہتی ہیں۔ اب یہ صرف آپ پر منحصر ہے کہ آپ ’قدرت‘ کی دی گئی ان مماثلتوں اور صلاحیتوں سے کس قدر فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔۔۔!
کیوں کہ فی زمانہ یہ ساری خاصیتیں بڑی کارآمد اور کارگر ہیں، یہی نہیں ’غول‘ بنانے کے لیے آپ کے پیشے کا بھی کافی اہم کردار ہوتا ہے، آپ کیا کام کرتے ہیں۔۔۔؟ اور کام میں بھی کیسا اور ’’کس طرح‘‘ کے کام زیادہ فرماتے ہیں۔۔۔؟ اس مناسبت سے بھی آپ کسی نہ کسی سے گٹھ جوڑ کر سکتے ہیں۔ اب ہم آپ کو کیا کیا کھل کر بتائیں کہ اگر آپ تاجر، شاعر، ادیب، صحافی، مصنف، ڈاکٹر، نرس، وکیل، استاد، بیوروکریٹ، بِلڈر، پراپرٹی ڈیلر ہیں، تو آپ بھی بہ آسانی اس سماج کے ’نائیوں‘، ’موچیوں‘ سے لے کر ’نان بائیوں‘ کی طرح ’’مشترکہ مفادات‘‘ کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ انجمن تشکیل دے سکتے ہیں، اور انجمن سے ہمیں یاد آیا کہ اگر آپ ان میں کچھ بھی نہیں ہیں، تب بھی ایک ’’انجمن ستائش باہمی‘‘ کی سہولت تو ہر ایک کے لیے ہر وقت موجود رہتی ہے، جہاں دو، چار فارغ، (بلکہ طبیعت سے فارغ) مگر چالاک دماغ اور آگ آج کل کی زبان میں کہیے تو ’’سمجھ دار‘‘ احباب جمع ہوئے، لیجیے وہیں آپ کا ایک بھرپور کام یاب اور بھرپور فعال غول تیار ہوگیا ہے، اب آپ ایک دوسرے کے لیے ساری خدمات انجام دے سکتے ہیں، جیسے فارسی میں کہا گیا ہے کہ ’’میں تمھیں حاجی کہوں، تم مجھے مُلا کہو!‘‘
بھارت کا سفارتی رافیل
ابنِ امین
ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاید جنگ تھم چکی ہے، اور اب ہم ایک ذمے دار اور باشعور پڑوسی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہنے کی کوئی صورت نکال لیں گے۔ لیکن ہمارا پڑوسی، جو کہ ہم سے کئی گنا بڑا ہے، اس جنگ کو ایک ایسے مقام تک لے جانا چاہتا ہے جس کے نتائج کے بارے میں نہ یقین سے کچھ کہا جا سکتا ہے، نہ کوئی گارنٹی دی جا سکتی ہے۔
2019 کے پلوامہ حملے اور اس کے بعد بالاکوٹ فضائی حملے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں ایک نئی سطح کی جارحیت دیکھی گئی ہے۔ تاہم، حالیہ پہلگام حملے (اپریل 2025) اور اس کے بعد بھارت کے 'آپریشن سندور' (مئی 2025) کے تناظر میں، بھارت نے ایک جارحانہ سفارتی مہم کا آغاز کیا ہے۔
اس مہم کے تحت سات وفود دنیا کے مختلف خطوں میں روانہ کیے گئے جن میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان پارلیمان، بشمول مسلم اراکین پارلیمنٹ، اور ریٹائرڈ سفارت کاروں کو شامل کر کے یہ تاثر دیا گیا کہ بھارت کی پوری سیاسی قیادت پاکستان سے درپیش خطرات پر یک زبان ہے۔ ان کا مقصد عالمی برادری کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی دہشت گردی کا معاون ہے۔ یہ کوششیں بظاہر پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی ایک منصوبہ بند مہم کا حصہ ہیں۔
اس سفارتی یلغار کے ساتھ ساتھ، بھارت نے دیگر جوابی اقدامات بھی کیے جن میں اہم سرحدی گزرگاہوں کی بندش، سندھ طاس معاہدے (IWT) کی معطلی، پاکستانی سفارت کاروں کی بے دخلی، اور پاکستانی شہریوں کے لیے زیادہ تر ویزوں پر پابندی شامل تھی۔ خاص طور پر، سندھ طاس معاہدے کی معطلی ایک اہم اور ممکنہ طور پر تباہ کن اقدام تھا، جسے بھارت نے ’’مسلسل سرحد پار دہشت گردی‘‘ سے جوڑا۔ یہ اقدام بین الاقوامی اصولوں کی واضح خلاف ورزی ہے کیوںکہ معاہدہ یک طرفہ کارروائی کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ صورت حال پانی کی سلامتی کو ایک اہم فلیش پوائنٹ میں بدل دیتی ہے، جو ممکنہ طور پر روایتی فوجی ذرائع سے بھی آگے تنازعات کو بڑھا سکتی ہے۔
اس تمام صورت حال میں، بھارتی سیاست داں اور سابق سفارت کار ششی تھرور کی نیویارک میں حالیہ ملاقاتیں اور موجودگی بھی اسی مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد عالمی سطح پر بھارت کے بیانیے کو مزید تقویت دینا ہے۔
تاہم، تجزیاتی نقطۂ نظر سے، یہی مہم پاکستان کے لیے ایک غیرمتوقع مگر غیرمعمولی سفارتی موقع کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ جب بھارت کی طرف سے پاکستان پر ایسے سنگین الزامات عائد کیے جاتے ہیں، اور ان کی تائید کے لیے دنیا بھر میں وفود بھیجے جاتے ہیں، تو لامحالہ بین الاقوامی میڈیا، تھنک ٹینکس اور پالیسی ادارے بھی اس بیانیے کی صداقت کو پرکھنے کے لیے پاکستان کے مؤقف کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، بھارت جس پلیٹ فارم کو صرف اپنا بیانیہ آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے، وہی پلیٹ فارم پاکستان کے لیے اپنے مؤقف کو سامنے لانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس منظرنامے میں پاکستان کو محض دفاعی انداز اپنانے کی بجائے ایک فعال، شواہد پر مبنی اور بیانیہ ساز حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔
پاکستان نے سفارتی سطح پر ابتدائی ردعمل میں عالمی سفیروں کو اعتماد میں لیا، حملے کی غیرجانب دار تحقیقات کی پیشکش کی، اور ساتھ ہی بھارت کی طرف سے انڈس واٹر ٹریٹی جیسے حساس معاہدے کی معطلی کو ایک ممکنہ اشتعال انگیز اقدام کے طور پر عالمی برادری کے سامنے رکھا۔ پاکستان نے چین، سعودی عرب، ترکی، قطر اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ فوری روابط قائم کیے تاکہ بھارت کے یک طرفہ بیانیے کو توازن دیا جا سکے۔
یہ تمام اقدامات ایک فعال اور اسٹریٹجک سفارت کاری کی غمازی کرتے ہیں، اور 2025 کے بحران کے بعد پاکستان کی میڈیا حکمت عملی میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے جو ماضی کے ’’ٹکڑے ٹکڑے، دفاعی اور ردعمل پر مبنی‘‘ نقطۂ نظر کے برعکس ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت کی سفارتی یلغار نے پاکستان کو بین الاقوامی مکالمے کا مرکزی موضوع بنا دیا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان داخلی سیاسی بحران، اقتصادی غیریقینی صورت حال، اور سفارتی خاموشی کا شکار تھا، بھارت کی یہ مہم ایک اتفاقیہ موقع بن گئی ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر نہ صرف خود کو ایک پرامن، قانون پر کاربند اور تعمیری ریاست کے طور پر متعارف کرائے بلکہ اپنے حقیقی چیلینجز، قربانیوں اور امن پسندی کو عالمی بیانیے کا حصہ بھی بنائے۔ بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کے بارے میں ’’غیرجانب دارانہ سے مثبت تاثر میں واضح اضافہ‘‘ دیکھا گیا ہے۔
پاکستان کے لیے اب ناگزیر ہے کہ وہ محض رسمی سفارتی بیانات سے آگے بڑھے اور ایک منظم، سائنسی، اور ادارہ جاتی حکمت عملی کے تحت عالمی میڈیا (جیسے CNN، BBC، Sky News)، یونیورسٹیز، تھنک ٹینکس اور ڈاسپورا نیٹ ورکس کو متحرک کرے۔ ڈاسپورا نیٹ ورکس سے مراد وہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کمیونٹیز ہیں جو اپنے میزبان ملکوں میں پالیسی، میڈیا، اور رائے سازی پر اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ نیٹ ورکس پاکستان کی سفارتی soft power کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔
بھارت نے اپنے وفود میں صرف سیاست داں نہیں بلکہ سابق سفیروں، سفارتی ماہرین اور ابلاغی شخصیات کو شامل کر کے بیانیہ سازی کا ایک بھرپور ماڈل پیش کیا ہے۔
پاکستان کے لیے اس وقت چیلینج صرف ردعمل دینا نہیں بلکہ ایک متبادل بیانیہ ترتیب دینا ہے جو مستقل بنیادوں پر پاکستان کے مؤقف کو مضبوط کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو بین الاقوامی برادری کو بھارت کی ’’گرے زون‘‘ حکمت عملیوں کے خطرات سے بھی آگاہ کرنا چاہیے، جہاں وہ جوہری حد سے نیچے محدود حملوں کے ذریعے اخراجات عائد کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس سے ’’جوہری تباہی کی طرف ایک غلط قدم کے خطرے‘‘ میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس وقت دنیا کی نظریں خطے پر مرکوز ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ، پالیسی ادارے، اور تجزیہ کار جنوبی ایشیا کی صورتحال کو باریکی سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے ایک غیرمعمولی موقع ہے کہ وہ خود کو نہ صرف ایک اہم اسٹریٹجک کھلاڑی کے طور پر پیش کرے بلکہ اپنی دانش، امن پسندی اور سفارتی بلوغت سے ایک نئے عالمی امیج کی بنیاد رکھے۔ بھارت کی الزاماتی سفارت کاری پاکستان کے لیے ایک ایسے کوریڈور کی شکل اختیار کر چکی ہے جو اگر حکمت سے استعمال کیا جائے تو سفارتی تنہائی کو سفارتی مرکزیت میں بدل سکتا ہے۔