’بھارت کی کوئی بھی ٹیکنالوجی پاکستان کے میزائلز کو ناکام نہیں بنا سکتی‘
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
بھارت نے چند ہفتے قبل ہائپر سونک میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ بی بی سی کی خبر کے مطابق یہ میزائل آواز سے 5 گناہ زیادہ تیز رفتار سے پرواز کرتا ہے۔ کیونکہ اس میزائل کی ٹیکنالوجی مخلتف ہے۔ دوسری جانب پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس بھی انڈیا کے میزائلز کے مقابلے میں بہترین اور ایڈوانس ٹیکنالوجی کے میزائل ہیں۔ یہ صرف پاکستان کا دعوی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی بھارت کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔
بھارت جانتا ہے کہ وہ پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی کو ناکام نہیں بنا سکتا۔ پاکستان دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی سے لیس میزائل رکھتا ہے۔
پاکستان کے پاس کونسے میزائلز ہیں؟ کیا انڈیا کے ہائپر سونک میزائل کی ٹیکنالوجی پاکستان کے میزائل کی نسبت زیادہ ایڈوانس ہے؟ اور کیا یہ میزائل پاکستان کے لیے تھریٹ کا عنصر پیدا کر سکتا ہے؟
اس حوالے سے جاننے کے لیے وی نیوز نے چند دفاعی ماہرین سے بات کی اور جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی انڈیا کی میزائل ٹیکنالوجی کے مقابلے میں کتنی بہتر ہے؟
دفاعی امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہر سید محمد علی نے وی نیوز کو بتایا کہ انڈیا کا جو میزائل نظام ہے وہ 50 سال پرانا ہے، جبکہ پاکستان کا یہ نظام 1980 کے آخر میں شروع ہوا۔ اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارت کا یہ نظام پاکستان کی نسبت تقریباً 18 سال پرانا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کے مقابلے میں اس پر زیادہ وسائل، زیادہ افرادی قوت اور زیادہ وقت صرف کیا ہے۔
جو ادارہ ( ڈی آر ڈی او) بھارت میں میزائل بنا رہا ہے، صرف اس ادارے کی کم از کم 50 سے زیادہ لیبارٹیریز بھارت کے طول و عرض میں موجود ہیں۔ مطلب کتنا وسیع اور جامع پروگرام ہے اور بھارت اس پر کتنے وسائل لگا رہا ہے۔
پاکستان کے میزائل بنانے کے مقاصد عالمی سطح پر ممالک کو نشانہ بنانا نہیں ہے۔ جبکہ بھارت کا جو پروگرام ہے اس میں آج بھی 13 سے زیادہ ایسے میزائلز پر بیک وقت کام ہو رہا ہے جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
بھارت کے پروگرامز میں پرتھوی، دنموش، سگاریکا، براہموس اور پھر اگنی سیریز کے 5 سے 6 میزائلز ہیں۔ ان کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بھارت ایک بہت ہی جامع اور وسیع پروگرام پر کار فرما ہے۔
پاکستان کے میزائل پروگرام کو دیکھا جائے تو اس کے ارتقا کو 4 ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور پاکستان کے میزائل کے دور کا جو تھا وہ 1980 کی دہائی کے آخر میں شروع ہوا تھا۔ اس میں پہلے چند میزائل بہت کم فاصلے پر وار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ وہ مائع ایندھن پر چلتے تھے۔ اور یہ کافی متروک قسم کی ٹیکنالوجی تھی، لیکن اس کے بعد دوسرا دور 1998 میں شروع ہوا تھا۔ جو غوری 1 تھا۔ جس میں پاکستان نے پہلا 1300 کلومیٹر کے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ مطلب یہ کہ پاکستان کی پہلی میزائل جنریشن کا سب سے زیادہ دور تک مارک کرنے والا پہلا میزائل تھا اور یہ بھی مائع ایندھن سے چلتے تھے۔
مائع اور ٹھوس ایندھن میں کیا فرق ہے؟مائع اور ٹھوس ایندھن میں کیا فرق ہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ میزائل جو مائع ایندھن پر چلتے ہیں۔ اس کا ایندھن ہر وقت تیار کر کے نہیں رکھا جاتا۔ بلکہ لانچ کرنے سے آدھا گھنٹہ قبل تیار کر کے لوڈ کیا جاتا ہے، جبکہ ٹھوس ایندھن کے میزائل کو فوری طور پر فائر کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان نے 1998 کے بعد دوسری جنریشن کے میزائل بنانے تیار کیے۔ جو شاہین سیریز کے میزائل ہیں۔ جن کی 4 اقسام تھیں۔ شاہین ون کی رینج ساڑھے 7 سو کلو میٹر ہے، شاہین ون اے کی 900 کلو میٹر ہے۔ شاہین 3 کی 2750 کلومیٹر ہے۔ پہلی اور اس جنریشن کے میزائل کی ٹیکنالوجی میں فرق یہ ہے کہ یہ ٹھوس ایندھن سے چلنے والے میزائل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہر وقت لانچ کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہ زیادہ ایڈوانس اور ایفیشنٹ ہیں۔
مائع ایندھن سے چلنے والے میزائل کا ایک مسئلہ یہ تھا کہ لانچ سے قبل ہی ان کو تباہ کر دیا جاتا تھا۔ مثلاً عراق کے پاس ایسے سینکڑوں میزائلز تھے جیسے ہی وہ اس کی فیولنگ شروع کرتے تھے۔ امریکی سیٹلائٹ اس کو پک کر لیتی تھیں کہ ان کی فیولنگ ہو رہی ہے۔ جس کے بعد امریکی لڑاکا تیارے فوری طور پر ان کو لانچ سے قبل ہی تباہ کر دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ دیگر طاقتوں نے ٹھوس ایندھن سے چلنے والے میزائل بنائے۔ کیونکہ وہ فوری طور پر لانچ کیے جا سکتے ہیں اور دشمن کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ اسے مار گرائے۔ ہمارا میزائل بنانے کا واحد ہدف یہ ہے کہ ہم بھارت کو کسی بھی قسم کی جارحیت سے باز رکھیں۔ ہمارا مقصد دنیا کے کسی بھی ممالک پر حملے کرنا نہیں ہے۔ اور نہ ہی ہم اپنے وسائل اس پر ضائع کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا اس سیریز کے 2750 کلومیٹر تک کے میزائل کو بنانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم بھارت کی سرحدی حدود کے کسی بھی حصہ کو ہدف بنا سکیں۔
پاکستان نے 2005 میں تیسری قسم کے میزائل بنانا شروع کیے۔ جو کہ کروز میزائلز ہیں۔ اور ہم نے 12 اگست 2005 کو بابر کروز میزائل کا پہلا کامیاب تجربہ کیا۔
کروز اور بیلیسٹک میزائل میں کیا فرق ہے؟
کروز اور بیلیسٹک میزائل میں کیا فرق ہے؟ اس پر دفاعی امور کے ماہر سی محمد علی کا کہنا تھا کہ بیلیسٹک میزائل کی 2 اقسام ہیں۔ ایک مائع ایندھن سے چلنے والے دوسرے ٹھوس ایندھن سے چلنے والے میزائل۔ بیلیسٹک میزائل کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ اس کی رفتار آواز کی رفتار سے 5 گناہ سے لے کر 20 گناہ تک ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی راکٹ موٹر بہت تیز ہوتی ہے۔ ان میزائلز کا رینج سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ 70 کلو میٹر سے 12 ہزار کلومیٹر تک بھی ہو سکتا ہے۔ جبکہ کروز میزائل زمین کی سطح سے بہت قریب پرواز کرتا ہے۔
ان میزائلز میں بابر اور رعد شامل ہیں۔ یہ آواز کی رفتار سے کم پر پرواز کرتے ہیں۔ یہ چھوٹا میزائل ہے۔ لیکن یہ بھی کیمیائی، ایٹمی اور روایتی ہتھار لے کر جا سکتا ہے۔ اس کو ہوائی جہاز، زمین اور سمندر کی تہہ کے نیچے آبدوزوں اور بحری جہازوں سے بھی لانچ کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ بیلیسٹک میزائلز کو زمین یا نیوکلئیر سب میرین سے لانچ کیا جا سکتا ہے۔ کروز میزائل پن پوائنٹ ایکوریٹ ہوتا ہے۔ مطلب اگر آپ گاڑی کو نشانہ بنانا چاہتے ہین تو آپ نے گاڑی کے کس شیشے کو نشانہ بنانا ہے۔ ایک ہزار کلو میٹر کے فاصلے سے بھی بنا سکتے ہیں۔
پاکستان کا کونسا میزائل دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی سے لیس ہے؟
دفاعی امور کے ماہر سید محمد علی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ پاکستان کا وہ میزائل جو دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ وہ ابابیل ہے۔جس کی رینج تو 2200 کلومیٹر ہے۔ لیکن ابابیل میں جو ٹیکنالوجی نصب ہے اسے MRV کہتے ہیں۔ بیلسٹک اور ابابیل میں یہ فرق ہے کہ ابابیل ری انٹری وہیکل ہے، وہ ایک وقت میں کئی وار ہیڈز رکھتا ہے۔ اور ہر ایک وار ہیڈ کی سمت اور رفتار مختلف ہوتی ہے۔
پاکستان کی اس ٹیکنالوجی کے حوالے سے نہ صرف بھارت بلکہ مغربی ممالک بھی حیران ہیں کہ پاکستان نے اتنے کم وقت میں، اتنے کم وسائل سے کیسے یہ ٹیکنالوجی بنا لی ہے۔
کیا ابابیل ہائپر سونک میزائل کو کاونٹر کر سکتا ہے؟
اس پر ان کا کہنا تھا کہ ابابیل کاؤنٹر نہیں کر سکتا۔ نہ ہی اس کا مقصد کاؤنٹر کرنا ہے۔ جو میزائلز ہوتے ہیں ان کے مقابلے میں دفاع نہیں بلکہ جواب دیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت کے پاس ایسے میزائل موجود ہیں کہ وہ پاکستان پر حملہ کر سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے پاس بھی ایسے میزائلز موجود ہیں جو بھارت کی کسی بھی جگہ پر حملہ کر سکتے ہیں۔ تو بنیادی طور پر ہم نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ بھارت کی جو فوجی اور سیاسی قیادت ہے وہ اس حقیقت سے با خبر رہےکہ اگر انہوں نے پاکستان پر حملہ یا جارحیت کی تو پاکستان بھی جواب میں بھارت کو کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتا ہے۔ تو وہ پاکستان کو مجبور نہ کریں۔ ہم نے اپنا دفاع نہیں کرنا اور نہ ہی یہ دفاعی حکمت عملی ہے۔
2019 میں بھارت نے بالا کوٹ پر ناکام فضائی حملے کرنے کی کوشش کی تھی۔ جس کے بعد پاکستان نے جواب میں 2 تیارے گرا دیے تھے۔ اور 1 ہیلی کاپٹر ان کا بوکھلاہٹ میں گر گیا تھا اور پاکستان نے ان کے پائلٹ ابھینندن کو بھی گرفتار کر لیا تھا۔ اس وقت چند گھنٹوں کے بعد ہی بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر نے پاکستان میں اعلیٰ ترین سطح پر فون کر کے ڈی جی آئی ایس آئی کو یہ دھمکی دی تھی کہ آپ فوری طور پر ابھی نندن کو ہمارے حوالے کر دیں ورنہ ہم آپ کے 6 سے 7 شہروں پر میزائل حملہ کر دیں گے۔ جس پر جنرل عاصم منیر کی جانب سے یہ جواب دیا گیا تھا کہ اگر بھارت نے پاکستان کے 6 سے 7 شہروں کو نشانہ بنایا تو بھارت کم از کم اس سے 3 گناہ بڑا نقصان اٹھانے کے لیے تیار رہے۔ جس کے نتیجے میں بھارت نے یہ ارادہ ترک کر دیا تھا، لیکن پھر پاکستان نے امن اور ذمہ دار ایٹمی طاقت کا ثبوت دیتے ہوئے ابھینندن کو باعزت طریقے سے واپس کر دیا۔ یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ بھارت کی اعلیٰ قیادت پاکستان کی صلاحیت سے بخوبی واقف ہے۔ اس لیے وہ امریکا اور عالمی برادری کے دماغوں میں غلط فہیمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کہ مستند میزائل ٹیکنالوجی کے ماہرین پاکستان کی صلاحیت سے واقف ہیں اور اسے تسلیم کرتے ہیں۔ اس خطے میں امن کو برقرار رکھنا ہے۔ ہم دنیا کے کسی ملک میں جارحیت نہیں کرنا چاہتے۔
کیا پاکستان جواب میں ہائپر سونک جیسا میزائل بنائے گا؟
اس سوال پر سید محمد علی کا کہنا تھا کہ تحقیق کا پہلو ہر وقت جاری رہتا ہے اور کوئی بھی دفائی اعتبار کی ٹیکنالوجی حتمی نہیں ہوتی۔ اور اپنے وسائل اور صلاحیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے سائنسدان دشمن کے ہداف پر کڑی نظر رکھتے ہیں اور اس اعتبار سے یقینی طور پر پاکستان نے بہت کم وقت کے عرصے میں کم و سائل سے جس ٹیکنالوجی کے میزائل بنائے ہیں وہ بھارت سے زیادہ بہتر، مؤثر اور ایڈوانس ہے۔ بھارت کی ایسی کوئی ٹیکنالوجی نہیں ہے جو پاکستان کے میزائل کو ناکام بنا سکے۔
سابق دفاعی سیکریٹری نعیم لودھی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس جو کروز میزائل ہے اس میں بھی اپنے ہدف تک پہنچنے کی صلاحیت ہے۔ اور پاکستان کی جانب سے اس میزائل پر جواب ضرور آئے گا۔ پاکستان ضرور اس کا توڑ نکال لے گا اور کیا پتا پاکستان کی جانب سے اس طرح کی کوئی ٹیکنالوجی تیار بھی کر لی گئی ہو۔ لیکن بھارت کی طرح شو نہ کروائی گئی ہو۔
کیا پاکستان کو ہائپر سونک میزائل سے تھریٹ ہے؟
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر حارث نواز نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کے ہائپر سونک میزائل کی رفتار بہت زیادہ ہے اور پاکستان کو اس سے 100 فیصد تک تھریٹ ہے۔ اور واقعی یہ ٹیکنالوجی دنیا کے چند ممالک کے پاس ہی ہے۔ جس میں ایران اور اسرائیل بھی شامل ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر انڈیا کی ٹیکنالوجی اتنی ماڈرن نہیں ہے۔ اکثر جو بھی یہ ٹرائل کرتے ہیں وہ وہیں گر کر تباہ ہو جاتے ہیں۔ بلکہ ان کے جو لوگ ٹیسٹ کر رہے ہوتے ہیں ۔ وہ بھی بھاگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے پاس جو ٹیکنالوجی ہے وہ انڈیا اسپیسیفک ہے کیونکہ ہمیں صرف انڈیا کا تھریٹ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو آج تک انڈیا قبول نہیں کر پایا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ٹیکنالوجی انڈیا کی نسبت بہت زیادہ ایڈوانس اور ماڈرن ہے۔ اور مغربی ممالک اس بات کو مانتے بھی ہیں۔ ہمارا کنٹرول سسٹم آج تک لیک نہیں ہوا۔ جبکہ انڈیا کا جو انریچ یورینیم ہے وہ کئی بار چوری ہوتے ہوئے پکڑا گیا ہے سری لنکا، نیپال اور کبھی انڈیا میں چوری ہوا۔
سابق ڈیفنس سیکریٹری نعیم لودھی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ہائپر سونک میزائل، میزائل کی ایک مختلف قسم ہے۔ جو کہ بہت ایڈوانس ہے۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ عام ریڈار اس کو اپنے ٹارگٹ میں نہیں لا سکتے۔ مطلب یہ کہ اب تک جتنی اینٹی میزائل ٹیکنالوجیز ہیں، حتی کہ امریکا کے پاس بھی ہائپر سونک میزائل کو روکنے کا خاطر خواہ انتظام موجود نہیں ہے۔ پاکستان کے لیے یہ میزائل تھریٹ تو ہے کہ انڈیا نے اسے بنا لیا ہے۔ لیکن جو میزائل ٹیکنالوجی پاکستان کے پاس موجود ہے میرا نہیں خیال کہ پاکستان کو دیر ہائپر سونک میزائل بنانے میں لگے گی۔ بلکہ انڈیا نے غلطی کی ہے یہ میزائل بنا کر، اس لیے کہ پاکستان جلد ہی اس کا توڑ نکال لے گا۔ اور کیا پتا ہم خود ہائپر سونک ہی بنا لیں، لیکن بھارت کو یہ بنانے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اور پوری دنیا یہ مانتی ہے کہ پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی بھارت کے مقابلے میں اچھی ہے۔ پاکستان کی جو بھی میزائل ٹیکنالوجی ہے وہ کسی اور ملک کے لیے نہیں بلکہ صرف انڈیا کے لیے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستان سے جو تھریٹ کی بات کرتا ہے وہ بس پاکستان کو دبانے کے لیے طریقہ تلاش کیا گیا ہے، ورنہ انہیں تو کوئی تھریٹ نہیں ہے۔ ہندوستان کے علاوہ پاکستانی میزائل سے کسی کو تھریٹ نہیں ہے۔
امریکا کی جانب سے پاکستانی کمپنیوں پر پابندیوں کی وجہ کیا ہے؟
بریگیڈیئر حارث نواز کا اس بارے میں کہنا تھا کہ انڈیا بڑا ملک ہے اور مغرب ممالک کا اسٹرٹیجک پارٹنر بھی ہے۔ اس لیے انڈیا کی خرابیوں کو دبا جاتے ہیں۔ لیکن اگر پاکستان کا کوئی مسئلہ ہو تو اس کو زیادہ بڑھایا جاتا ہے۔ پاکستان سے تھریٹ صرف انڈیا اور اسرائیل کو ہے۔ چونکہ اسرائیل کو تھریٹ ہے اس لیے امریکا پاکستان پر پابندیاں لگاتا ہے تاکہ پاکستان اپنی میزائل ٹیکنالوجی اسرائیل کے لیے استعمال نہ کرے۔ حالانکہ اسرائیل پاکستان کی رینج میں ہے۔ لیکن پاکستان کا اسرائیل کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہماری جتنی بھی میزائل ٹیکنالوجی اور اسٹریٹیجک ایسٹ ہیں وہ صرف اور صرف انڈیا کے لیے ہے۔ اور انڈیا کا ایک ایک انچ پاکستان کی رینج میں ہے۔ پاکستان کی رینج 4 ہزار کلو میٹر تک ہے۔ جبکہ انڈیا کی ایڈاوانس ٹیکنالوجی بھی 9 سے 10 ہزار کلو میٹر تک ہے۔ انڈیا کی ٹیکنالوجی بھی ایڈوانس ہو جائے، پھر بھی پاکستان کی ٹیکنالوجی اس پر بھاری ہے۔ پاکستان کا آج تک کوئی میزائل ٹیسٹ غلط نہیں گیا۔ پاکستان کے پاس جو ٹیکنالوجی ہے اس کے زریعے پاکستان ہوائی، زمینی اور سمندری تینوں طرح سے اٹیک کر سکتا ہے۔
سابق ڈیفنس سیکریٹری نعیم لودھی کہتے ہیں کہ امریکا کی جانب سے پاکستان پر پابندیوں کی وجہ صرف یہ ہے کہ پاکستان دنیا میں کئی ملکوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ پاکستان کو پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ خوش ہونا چاہیے کہ پاکستان کے اندر ایسی اہلیت موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں:دوسروں کے کہنے پر پاکستانی میزائل ٹیکنالوجی پر خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے، دفتر خارجہ
سید محمد علی کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے پاکستانی کمپنیوں پر جو پابندیاں لگائی جاتی ہیں اس کی وجہ چین ہے جو امریکا کا ہدف ہے اور امریکا اسے تنہا اور کمزور کرنا چاہتا ہے۔ کیونکہ امریکا سمجھتا ہے کہ عالمی سطح پر اپنی بالا دستی قائم رکھنے میں چین بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لیے امریکا بھارت کو اس میں اپنا بڑا اتحادی مانتا ہے۔ اس لیے امریکا بھارت کو روایتی، میزائل اور دیگر ٹیکنالوجیز سے لیس کرنا چاہتا ہے۔ امریکا کی پاکستان پر پابندیوں سے پاکستان کے سفارتی تعلقات پر تو اثر پڑ سکتا ہے، لیکن پاکستان کو میزائل بنانے میں کسی قسم کی دقت نہیں ہے کیونکہ پاکستان کو میزائل بنانے کے لیے امریکا سے کچھ نہیں لینا پڑتا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ہائپر سونک میزائل پاکستان کے میزائل ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس میں کیا فرق ہے ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں کہ پاکستان کی سید محمد علی مائع ایندھن محمد علی کا فوری طور پر لیے امریکا نے پاکستان سے پاکستان پاکستان نے پاکستان کا پاکستان کو وہ پاکستان پاکستان پر کی جانب سے میزائل کا میزائل کو یہ میزائل میزائل کی امریکا کی کی صلاحیت حوالے سے ہزار کلو بھارت کے کو نشانہ سے زیادہ بھارت کو بھارت کی سکتے ہیں کی رفتار بھارت نے کسی بھی نہیں کر میٹر ہے کر سکتا مطلب یہ نہیں ہے کی رینج شروع ہو کے بعد اس بات اس لیے کے لیے ہے اور سے لیس کی وجہ اور اس
پڑھیں:
مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے،پاکستان
بہاولپور(نامہ نگار)25 اکتوبر کو استنبول میں شروع ہونے والے پاک افغان مزاکرات طالبان کی طرف سے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی تحریری ضمانت نہ دینے اور غیر زمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے پر 28 اکتوبر کی رات کو بے نتیجہ ختم ہو گئے تھے۔ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ اب میزبان ملک ترکیہ کی درخواست پر دو دن بعد پاکستان نے امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے اور 30 اکتوبر کو مزاکرات کا دوبارہ آغاز ہوچکا ہے۔اطلاعات کے مطابق طالبان اپنے رویئے میں لچک دکھانے کی حامی بھری ہے اس لئے اس بار دوست ممالک کی مداخلت کے باعث بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔تاہم مزاکرات کے اس تیسرے سیشن کے نتائج کا کچھ دن تک انتظار کرنا پڑے گا۔
اس سے قبل پاکستان نے استنبول میں جاری پاک افغان مذاکرات کی ناکامی کا باقاعدہ اعلان کردیا تھا۔ یاد رہے کہ پاک افغان سرحدی جھڑپوں کے بعد 19 اکتوبر کو ہونے والی عارضی جنگ بندی کے نتیجے میں قطر دوحہ میں پاک افغان مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔ جس میں قطر اور ترکیہ نے ثالث کے طور پر کردار ادا کیا۔ ان مزاکرات کے نتیجے میں مستقل جنگ بندی پر اتفاق کرتے ہوئے جنگ بندی اور دیگر امور کا مکینیزم طے کرنے کیلئے 25 اکتوبر کو استنبول میں مزاکرات کی اگلی نشست منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔استنبول میں تین روز جاری رہنے والے ان مزاکرات کے دوران طویل نشتیں ہوئیں جس میں افغانستان کے وفد کی ہٹ دھرمی کے باعث کئی بار مزاکرات کے بلا نتیجہ خاتمے کی صورت حال پیدا ہوئی۔ لیکن میزبان ترکیہ کی درخواست پر پاکستان مذاکرات کو مزید وقت دینے پر تیار ہوتا رہا لیکن بالآخر 28 اکتوبر کی رات یہ مزاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے۔تاہم اسی دوران تہران میں ECO وزراء کی کانفرنس میں پاکستانی اور افغان وزیر داخلہ کی سائیڈ لائین ملاقات ہوئی ہے جس میں محسن نقوی نے اپنے ہم منصب کو باہمی اختلافات کو مزاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔اسی دوران ایران کے صدر نے بھی ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔
استنبول مذاکرات کی ناکامی کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگی معیشت پر پروان چڑھنے والی طالبان حکومت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں گھسیٹنا چاہتی ہے۔رواں ماہ ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل 25 اکتوبر سے ہوا تھا جس کے دوران دونوں فریقین کی جانب سے بعض تجاویز پیش کی گئی تھیں جن پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے ان مذاکرات کے خاتمے کے بعد تاحال کوئی باقاعدہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔منگل کو رات گئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک بیان میں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا قطر کے بعد استنبول میں ہونے والی بات چیت میں بھی کوئی قابل حل عمل نہیں نکل سکا۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے عارضی طور جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور پھر مذاکرات کے پہلا دور قطر میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے جنگ بندی توسیع اور دیرپا امن کے قیام کے لیے استنبول میں دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔انھوں نے کہا کہ استنبول مذاکرات میں ایک نکاتی ایجنڈے یعنی افغان طالبان حکومت کی طرف سے افغان سرزمین کو تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی جیسی شدت پسند تنظیموں کی طرف سے تربیت گاہ کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے معاملے پر بات کی گئی۔
پاکستانی وزیر اطلاعات کے مطابق مذاکرات کے دوسرے دور میں افغان طالبان کے وفد نے شدت پسند تنظیموں اور دہشت گردوں کے خلاف قابل اعتماد اور فیصلہ کن کارروائی کے لیے پاکستان کے منطقی اور جائز مطالبے سے بارہا اتفاق کیا۔لیکن کابل میں قیادت سے رابطے کے بعد وہ اس موقف سے منحرف ہوتے رہے۔عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس بارے میں ناقابل تردید شواہد بھی فراہم کیے گئے جن کا اعتراف افغان طالبان اور مذاکرات کروانے والے میزبان ممالک نے کیا تاہم افغان فریق نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی اور وہ اس بنیادی مسئلے سے انحراف کرتا رہا جس پر بات چیت کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ عطا تارڑ نے افغان طالبان پر ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے الزام تراشی، ٹال مٹول اور چالبازی کا سہارا لینے کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ اس وجہ سے بات چیت کوئی قابل عمل حل نکالنے میں ناکام رہی۔ان کا کہنا تھا کہ چار سال تک بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان برداشت کرنے کے بعد پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور عوام کی سلامتی پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اس لیے پاکستان اپنے عوام کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتا رہے گا اور دہشت گردوں، ان کی پناہ گاہوں، ان کے سرپرستوں اور معاونین کو ختم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔
پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی نے سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران افغان طالبان کو اپناحتمی مؤقف پیش کیا تھا۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سرپرستی نامنظور ہے۔ پاکستانی وفد نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس سرپرستی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے پڑیں گے۔پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے سرکاری خبر رساں ادارے کو مزید بتایا کہ مذاکراتی عمل کے دوران طالبان کے دلائل غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر رہے۔ نظر آ رہا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے اور مستقبل میں مذاکرات افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔
ادھر بی بی سی پشتو کے مطابق افغان طالبان کی تجاویز میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ افغانستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی نہ کی جائے اور امریکہ سمیت کوئی بھی گروہ یا دشمن قوت افغانستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال نہ کرے۔
افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے وفد نے جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے میکینزم یعنی طریقہ کار وضع کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ مذاکراتی عمل کے دوران افغان طالبان کا موقف رہا کہ پاکستان میں ہونے والی شدت پسندی کی کارروائیاں پاکستان کے اندر ہو رہی ہیں تو اسے کیسے قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے جبکہ پاکستان کا مؤقف تھا کہ یہ شدت پسند افغانستان سے آتے ہیں۔جس کے ثبوت افغان وفد اور میزبان ممالک کے سامنے رکھے گئے۔میزبان ممالک نے پاکستان کے اس موقف کی تائید بھی کی۔
معلوم ہوا ہے کہ استنبول مذاکرات کے دوران پاکستان کی طرف سے جو حل پیش کیے گئے وہ افغان طالبان کے لیے قابل قبول نہیں تھے کیونکہ بقول ان کے یہ ان کے نظریات کے خلاف تھے۔ افغان طالبان کا موقف تھا کہ وہ ڈیورینڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد ہی نہیں سمجھتے تو اگر وہ اسے تسلیم کرلیتے ہیں تو انھیں مقامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جبکہ پاکستان نے اپنا موقف پیش کیا کہ آئندہ جب بھی افغان زمین سے پاکستان پر کوئی حملہ ہو گا تو اس کا جواب دیا جائے گا۔
یاد رہے کہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں یہاں تک کہا تھا کہ اگر مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ کھلی جنگ ہوگی۔انہوں نے کہا مجھے دوحہ میں ہونے والی مزاکرات کی پہلی نشست میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ افغان وفد کے پاس فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں اور افغان طالبان قیادت بھارت کے اشاروں پر چل رہی ہے جس کی وجہ سے مزاکرات کے نتیجہ کی امید نہیں تھی۔دوسری جانب طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ دنوں سرکاری نشریاتی ادارے کو جاری کیے گئے اپنے ایک آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ افغانستان بات چیت کے حق میں ہے تاہم اگر افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی تو جواب دیا جائے گا۔
افغان عوام حق دفاع رکھتے ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے مطابق ان مذاکرات کی کامیابی اس یقین دہانی پر منحصر تھی کہ افغانستان سے شدت پسندوں کی دراندازی کو روکا جائے اور ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی حمایت ختم کی جائے۔ پاکستان نے افغان طالبان کو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ تھا کہ وہ بتائیں کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ ہیں یا ٹی ٹی پی کے ساتھ۔ پاکستان کا گذشتہ کئی برسوں سے افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کا مطالبہ رہا ہے۔دیکھا جائے تو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے یہ بیان کہ مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی جنگ ہے کوئی انفرادی موقف نہیں۔ بلکہ پاکستان کی ملٹری اور سول قیادت نے کافی عرصے سے واضح کیا ہوا ہے کہ اگر پاکستانی طالبان کے حملے نہیں روکے گئے تو وہ افغانستان پر فضائی حملے کریں گے۔اور کابل و قندھار پر ٹارگٹ حملوں کیذریعے اس پر عمل درآمد بھی کیا گیا تھا۔ پاکستان کا یہ موقف تب سے واضح ہے جب فیلڈ مارشل عاصم منیر نے 2023 میں تحریکِ جہادِ پاکستان کے ایک بڑے حملے کے بعد یہ دھمکی دی تھی۔