WE News:
2025-09-18@17:29:31 GMT

ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس اور پانچ بے وقوف

اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT

اب ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس المشہور القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ آنے کو ہے۔ کیس کی تفصیلات اب تک سب کے علم میں آچکی ہیں۔ چینلوں پر یہ رپورٹیں دسیوں دفعہ چل چکی ہیں۔ ثبوت بتائے جا چکے ہیں اور شواہد دکھائے جا چکے ہیں۔ باتیں سب جانتے ہیں۔ کچھ مانتے ہیں، کچھ انجان بن جاتے ہیں۔ اس کیس میں عمران خان کی سزا یقینی ہے۔ اس لیے نہیں کہ اسٹیبلشنمٹ ان کے خلاف ہے، اس لیے نہیں کہ شہباز شریف کی حکومت ہے۔  اس لیے نہیں کہ عمران خان جیل میں ہیں۔ سزا حتمی اور اٹل  اس لیے ہے  کہ جرم بہت سنگین اور شواہد بہت واضح ہیں۔

اس کیس پر بہت محنت کی گئی ہے۔ چونکہ جرم واضح تھا اس لیے کوشش کی گئی ہے کہ کارروائی میں  کوئی قانونی سقم نہ رہے۔ ہر بات قانون کی منشا کے مطابق  کی گئی۔ ہر قانونی نقطے کا خیال رکھا گیا۔  اس کیس کے بارے میں عمران خان نے بہت سے لوگوں کو بے وقوف بنایا اور بہت سے لوگوں کو عمرانی میڈیا اور سوشل میڈیا نے گمراہ کیا۔ بہت جھوٹ بولا گیا۔ لوگوں کو کنفیوز اتنا کیا گیا جیسے یہ کیس کسی سیاسی انتقام کا نتیجہ ہے۔ مختصراً جو کچھ ہوا وہ کچھ یوں ہے:

ملک ریاض کو سپریم کورٹ نے چار سو ساٹھ ارب روپے کا جرمانہ کیا۔ دوسری جانب برطانیہ میں ملک ریاض کی کرپشن کی رقم ایک سو نوے ملین پاؤنڈز پکڑی گئی۔ برطانیہ نے وہ رقم حکومت پاکستان کو لوٹانے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان نے کابینہ سے سربمہر لفافوں پردستخط کروائے اور وہی رقم ملک ریاض کو عطا ہوگئی۔ اس وفا شعاری کے سلسلے میں عمران خان اور ان کی اہلیہ کو سوہاوہ کے پاس چار سو اٹھاون کنال زمین کی رشوت پیش کی گئی اور اس کے علاوہ اٹھائیس ملین روپے  فوراً  بطورچندہ  بھی دے دیے گئے۔ رشوت کی اس کارروائی کو القادر یونیورسٹی کا نام دیا گیا جس کے بینیفشری صرف عمران خان اور بشریٰ بی بی ہیں۔

اب ذرا ان پر توجہ دیتے ہیں جن کو اس سلسلے میں بے وقوف بنایا گیا۔ یہ فہرست سن کر آپ بھی دنگ رہ جائیں گے اور تب آپ کو احساس ہوگا کہ عمران خان اور گینگ اصل میں سنگین مجرموں کا گینگ ہے۔ جنہوں نے اپنی حفاطت کے لیے  چند سوشل میڈیا ایکٹوسٹس اور چند میڈیا اینکرز پال رکھے ہیں۔

سب سے پہلے اس سلسلے میں حکومت برطانیہ کو بے وقوف بنایا گیا۔ برطانوی حکومت کی نیشنل کرائم ایجنسی نے  پاکستان سے لوٹی رقم  حکومت پاکستان کو لوٹانے کا فیصلہ کیا۔ یہ ان کی نیکی تھی۔ انہیں کیا پتا تھا کہ یہاں کیسے کیسے ٹھگ بیٹھے ہیں۔ شہزاد اکبر ان دنوں جنرل فیض حمید اور عمران خان کی تکون کا اہم جزو تھے۔ سوچیں انہوں نے مل کر کیا کیا جرائم کیے ہوں گے۔  بدنام زمانہ شہزاد اکبر نے پوری حکومت برطانیہ کو دھوکہ دیا اور حکومت پاکستان کا غلط اکاؤنٹ نمبر دیا۔ اس لیے رقم پاکستان کے پاس آنے کے بجائے اس اکاؤنٹ میں چلی گئی جہاں ملک ریاض کے واجبات کے لیے رقم جمع کی جارہی تھی۔ غلطی شہزاد اکبر سے یہ ہوئی کہ انہوں نے برطانوی حکومت کو اکاؤنٹ نمبر نومبر دو ہزار انیس میں دیا جبکہ کابینہ سے فیصلہ دسمبر میں کروایا گیا۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جرم کے لیے کتنی عمیق منصوبہ بندی کی گئی۔ برطانیہ میں کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا ہو گا کہ کوئی اہم حکومتی عہدیدار انہیں  غلط اکاؤنٹ نمبر بھی دے سکتا ہے۔

اس کیس میں دوسرے نمبر پر ریاست پاکستان کو بے وقوف بنایا گیا۔  ایک سو نوے ملین پاؤنڈز پاکستان سے لوٹے گئے تھے۔ یہ غریبوں کو پلاٹوں کے جھانسے دے دے کر جمع کی ہوئی غیرقانونی رقم تھی جو بنا کسی حساب کتاب کے برطانیہ میں پڑی ہوئی تھی۔ جب برطانیہ نے اس رقم کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا تو اس رقم پر کسی ٹھیکیدار کا نہیں بلکہ ریاست پاکستان کا حق تھا۔ مگر نہایت چالبازی سے اس  حق کو لوٹ لیا گیا۔

عمران خان نے تیسرے نمبر پر اپنی کابینہ کو بے وقوف بنایا۔ وہ سارے لوگ جو سارا دن عمران خان کا چینلوں پر دفاع کرتے تھے، ان کے لیے جھوٹا بیانیہ گھڑتے تھے ان کو دھوکے میں رکھا گیا۔ سربمہر لفافے میں ان کو ایک دستاویز دی گئی اور ان سے کہا گیا کہ کوئی سوال پوچھے بغیر اس پر دستخط کردیں۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ لفافہ نہ کوئی قومی راز تھا نہ سرکاری دستاویز۔ اس لفافے میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی حرص چھپی تھی۔ اس طمع کی خاطر انہوں نے اپنی کابینہ کو بھی دھوکے میں رکھا۔

چوتھے نمبر پر اس کیس میں عمران خان نے اپنے سپورٹرز کو بے وقوف بنایا۔ وہ سارے لوگ جو یقین کرتے تھے کہ عمران خان ملک کی قسمت بدل سکتا ہے، کرپشن ختم کر سکتا ہے، انقلاب لا سکتا ہے،  نعوذ باللہ ریاست مدینہ جیسی ریاست بنا سکتا ہے، ان سب کے سپنوں پرعمران خان نے کیچڑ پھینک دیا۔ ان کے خوابوں کو ملیامیٹ کر دیا۔  وہ معصوم لوگ جو ٹک ٹاک پر یقین رکھتے تھے، فیس بک کے سٹیٹس کو سچ سمجھتے تھے، ٹوئیٹر کے ٹرینڈ کو حرف آخر سمجھتے تھے وہ سارے لوگ  اس ملک کی بہتری چاہتے تھے مگر عمران خان نے ان کو اتنا بڑا دھوکہ دیا کہ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔  حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان نے اپنے لالچ کی خاطر ایک پوری نسل کو بے وقوف بنایا۔

عمران خان نے اپنی رشوت کو ٹھکانے لگانے کا نام القادر یونیورسٹی رکھا کہ وہاں روحانیت کی تعلیم دی جائے گی۔ عمران خان نے سب سے بڑا بے وقوف اپنے ہر اس سپورٹر کو بنایا جو اسلام سے محبت کرتا ہے، جو روحانیت پر یقین رکھتا ہے، جو دین  اسلام سے عشق کرتا ہے، جو دینی مدرسوں سے عقیدت رکھتا ہے، جو شریعت کا قانون چاہتا ہے، جو اسلامی نظام کا نفاذ چاہتا ہے۔ عمران خان نے اپنے اس سپورٹر کو مذہبی ٹچ القادر یونیورسٹی کی صورت میں لگایا۔ ان کے مذہبی جذبات کی آڑ میں ریاست پاکستان پر ڈاکہ مارا۔ دوسروں کو چور ڈاکو کہتے کہتے عمران خان نے اس ملک کا سب سے بڑا ڈاکہ مارا اور اس کے لیے مذہب کا نام بے دریغ استعما ل کیا۔

عمران خان برطانوی حکومت کے بھی مجرم ہیں، ریاست پاکستان کے بھی، اپنی کابینہ کے بھی مجرم ہیں اور اپنے سپورٹرز کے حوالے سے بھی وہ خطا کار ہیں۔ یہ خطائیں شاید معاف ہو جائیں مگر لوگوں کے مذہبی جذبات کا اپنی لوٹ مار کے لیے استعمال کرنے کا گناہ شاید کبھی معاف نہ ہوسکے اور اس کی سزا اس دنیا کی کوئی عدالت نہ دے سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

القادر ٹرسٹ کیس القادر یونیورسٹی ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس برطانیہ شہزاد اکبر عمار مسعود عمران خان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: القادر ٹرسٹ کیس القادر یونیورسٹی برطانیہ شہزاد اکبر القادر یونیورسٹی ایک سو نوے ملین ریاست پاکستان عمران خان اور کہ عمران خان شہزاد اکبر ملک ریاض کا فیصلہ اس لیے اس کیس کے لیے کی گئی

پڑھیں:

چین کا ’’پانچ سالہ منصوبہ‘‘: ایک عظیم جہاز کے پرسکون سفر کا نقشہ

چین کا ’’پانچ سالہ منصوبہ‘‘: ایک عظیم جہاز کے پرسکون سفر کا نقشہ WhatsAppFacebookTwitter 0 18 September, 2025 سب نیوز

بیجنگ :اگر آپ نے کبھی یہ سوچا ہو کہ چین کس طرح محض چند دہائیوں میں اتنی حیران کن ترقی اور تبدیلی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا، تو ایک کلیدی لفظ شاید آپ کی الجھن دور کر دے یعنی “پانچ سالہ منصوبہ”۔ یہ سننے میں بظاہر سرکاری اور کچھ خشک سا لگ سکتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ چین کی طویل المدتی اور پائیدار ترقی کا ایک اہم “خفیہ ہتھیار” ہے۔سوچیے آپ ایک کپتان ہیں جو ایک بڑے بحری جہاز کو ایک وسیع مگر متغیر سمندر سے گزارنے جا رہے ہیں۔ اگر آپ کے ہاتھ میں ایک واضح طویل المدتی سفر کا نقشہ موجود ہو، جس میں آئندہ طویل عرصے کے لیے راستے، ہوا کی سمت اور سپلائی پوائنٹس نشان زد ہوں ، تو آپ کا سفر کتنا پُراعتماد اور محفوظ ہوگا۔ چین کا پانچ سالہ منصوبہ بالکل ایسا ہی ایک “سفری نقشہ” ہے: یہ قومی سطح پر مرتب کیا جاتا ہے، جس میں آئندہ پانچ برسوں کی ترقی کی سمت، اہم صنعتوں اور پالیسی ترجیحات کو واضح کیا جاتا ہے۔

کاروبار اور افراد کے لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اندھیرے میں تیر چلانے کی ضرورت نہیں رہتی، بلکہ وہ پُر اعتماد طریقے سے طویل المدتی سرمایہ کاری، پیشہ کا انتخاب یا حتیٰ کہ اختراعی کوششیں کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر منصوبہ سبز توانائی پر زور دیتا ہے تو کاروباری ادارے جان لیں گے کہ انہیں شمسی توانائی یا برقی گاڑیوں کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔اور اگر منصوبہ سائنسی و تکنیکی جدت پر زور دیتا ہے تو نوجوان زیادہ رغبت سے سائنس و انجینئرنگ شعبے کا انتخاب کریں گے۔ یہ “بالائی سطح کی منصوبہ بندی + مارکیٹ ردعمل” کا ماڈل ہے جو پورے معاشرے کی غیر یقینی کیفیت کو نمایاں حد تک کم کر دیتا ہے۔مغربی سیاست میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ قیادت کی تبدیلی پالیسیوں کے بڑے رخ کو بدل دیتی ہے، بالکل ایسے جیسے ایک فٹبال میچ میں بار بار کوچ کو بدل کر حکمت عملی کو از سر نو ترتیب دیا جائے۔ لیکن چین کے پانچ سالہ منصوبے کی اصل منطق “ریلے ریس” جیسی ہے۔

ایک حکومت کے بعد دوسری حکومت ایک ہی مقصد کی جانب مسلسل دوڑتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر، چین کا ” انسداد غربت پروگرام” کئی دہائیوں پر محیط رہا، جو متعدد پانچ سالہ منصوبوں سے گزرا اور بالآخر تقریباً 80 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکال چکا ہے ۔ آج بھی یہ ریلے ریس جاری ہے، جس کا نیا ہدف ہے “دیہی احیا”۔ قیادت چاہے کوئی بھی ہو، سمت تبدیل نہیں ہوتی اور نہ ہی عزم کمزور پڑتا ہے۔ یہ مستقل مزاجی “چینی طرز کے طویل المدتی نقطہ نظر” کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ یہ قلیل مدتی اور سطحی فیصلوں سے بچاتا ہے اور قومی حکمت عملیوں کے تسلسل اور استحکام کو یقینی بناتا ہے۔چین کا پانچ سالہ منصوبہ کوئی حکم نامہ نہیں بلکہ ایک حکمتِ عملی کی رہنمائی ہے۔ حکومت یہاں “اسٹیج تیار کرنے والے” اور “سمت دکھانے والے” کا کردار ادا کرتی ہے، جبکہ کاروبار اور مارکیٹ اسٹیج پر “رقص کرنے والے” ہیں جو اپنی تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، منصوبہ یہ ہدف رکھ سکتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی صنعت کو ترقی دی جائے، لیکن تحقیق کس طرح ہو یا تجارتی مواقع کیسے بنیں، اس کا فیصلہ مکمل طور پر کاروباری ادارے کرتے ہیں۔

حکومت پالیسی حمایت ، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور قانونی تحفظ فراہم کر کے اسٹیج مہیا کرتی ہے، جبکہ مارکیٹ مسابقت اور جدت کے ذریعے اصل کھیل پیش کرتی ہے۔ یہ “مؤثر مارکیٹ + فعال حکومت” کا امتزاج ہے، جو نہ تو ضرورت سے زیادہ مداخلت کا باعث بنتا ہے اور نہ ہی بالکل آزاد چھوڑ دینے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی “مارکیٹ افراتفری” کو جنم دیتا ہے۔چین کی آبادی 1.4 ارب ہے، جو دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 18 فیصد ہے۔ اتنے بڑے ملک کی طویل اور مستحکم ترقی کے لیے ایک ایسا نظام ناگزیر ہے جو اتفاقِ رائے پیدا کرے اور وسائل کو مربوط کرے۔ پانچ سالہ منصوبہ یہی ایک آلہ ہے: یہ کروڑوں افراد کی کوششوں کو ایک ہی سمت پر مرکوز کرتا ہے، بڑے کاموں کو انجام دینے کے لیے طاقت مرکوز کرتا ہے ، خواہ وہ ہائی سپیڈ ریل نیٹ ورک کی تعمیر ہو، قابل تجدید توانائی کو فروغ دینا ہو، یا عوامی صحت کے بحران سے نمٹنا ہو۔ بلاشبہ یہ ماڈل بے عیب نہیں ہے، لیکن یہ مغربی قلیل مدتی انتخابی نظام کے مقابلے میں حکمرانی کی ایک مختلف سوچ پیش کرتا ہے۔ آج کے غیر یقینی عالمی ماحول میں یہ طویل المدتی نقطۂ نظر شاید مزید ممالک کی توجہ کا مستحق ہے۔سال 2025 چین کے”چودہویں پانچ سالہ منصوبے” کے اختتام کا سال ہے۔

حال ہی میں، چینی صدر شی جن پھنگ نے “پندرہویں پانچ سالہ منصوبے”یعنی 2026 تا 2030 کی تشکیل کے کام کے حوالے سے اہم ہدایات جاری کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ” سائنسی فیصلہ سازی، جمہوری فیصلہ سازی، قانونی فیصلہ سازی پر کاربند رہا جائے، بالائی سطح کی منصوبہ بندی اور عوام سے رائے لینے کو یکجا کیا جائے، اور مختلف طریقوں سے عوام اور معاشرے کے مختلف طبقات کی آراء اور تجاویز کو سنایا جائے۔” یہاں چینی رہنما نے جس “بالائی سطح کی منصوبہ بندی” اور “عوام سے مشورہ لینے” کے امتزاج پر زور دیا، وہ چین کے ترقیاتی منصوبہ بندی نظام کی نمایاں خصوصیت اور چینی خصوصیات کے حامل سوشلسٹ نظام کی خوبیوں کی اہم عکاسی بھی ہے ۔چین کا پانچ سالہ منصوبہ محض ایک سرکاری دستاویز نہیں بلکہ ایک ترقیاتی فلسفہ ہے ،جو استحکام، تسلسل اور تعاون کو نمایاں کرتا ہے۔ جیسا کہ چینی کہاوت ہے:”قطرہ قطرہ پانی پتھر کو چھید دیتا ہے، مگر یہ ایک دن میں نہیں ہوتا۔” حقیقی کامیابیاں ہمیشہ طویل المدتی استقامت اور اجتماعی حکمت سے جنم لیتی ہیں۔ اگر آپ اس”چینی طرز کے طویل المدتی نقطۂ نظر” کو سمجھ لیں، تو آپ نہ صرف چین کی ترقیاتی کہانی کو گہرائی سے سمجھ سکیں گے بلکہ اس میں پوری انسانیت کی مشترکہ ترقی اور پیش رفت کے لیے بھی ایک سبق تلاش کر سکتے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچودہویں پانچ سالہ منصوبہ” کے دوران چین میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں تاریخی کامیابیاں چودہویں پانچ سالہ منصوبہ” کے دوران چین میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں تاریخی کامیابیاں آئی ایم ایف وفد کے دورہ پاکستان سے قبل 51 شرائط پوری، دیگر پر کام جاری سونے کی قیمت میں بڑی کمی، فی تولہ کتنے کا ہوگیا؟ بائیسویں چین-آسیان ایکسپو میں چین کے نائب صدر کی شرکت سونا عوام کی پہنچ سے مزید دور، قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی چین کی غذائی پیداوار چودہویں پانچ سالہ منصوبے کے دوران نئی بلندی پر پہنچ گئی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • امریکا اور برطانیہ کے درمیان ٹیکنالوجی میں نئی شراکت داری، 250 ارب پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کا اعلان
  • یمن کے ساحل پر پانچ انٹرنیٹ کیبلز کٹ گئیں جس کی وجہ سے ملکی انٹرنیٹ متاثر ہے، سیکریٹری آئی ٹی
  • روزانہ پانچ منٹ کی ورزش بلڈ پریشر کم کرسکتی ہے، تحقیق
  • پولینڈ کی پاکستان میں 100 ملین ڈالر کی تیل و گیس سرمایہ کاری متوقع
  • 190 ملین پاؤنڈز کیس: عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواستیں سماعت کیلئے مقرر
  • چین کا ’’پانچ سالہ منصوبہ‘‘: ایک عظیم جہاز کے پرسکون سفر کا نقشہ
  • 190 ملین پاؤنڈز؛ عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کیس پر پی ٹی آئی متحرک
  • پانچ دریاؤں کی سرزمین ’’پنج آب‘‘ پانی کی نظر
  • سیلاب سے تقریباً 3 ملین لوگ متاثر ہیں، پاکستان کو مقامی وسائل کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ سے مدد کی اپیل کرنی چاہیے، سینیٹر شیری رحمان
  • پولینڈ اور پاکستان میں تیل و گیس کے شعبے میں 100 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری میں اضافہ متوقع